جنگ بندی کے لیے اہل غزہ پر ٹرمپ کا دباؤ
شیعہ۔ سنی کشیدگی سے مایوسی ۔شام کے بڑے علاقے پر اسرائیل کا قبضہ
مسعود ابدالی
وقف رقومات کی اسرائیل نواز اداروں میں سرمایہ کاری بند کی جائے ۔امریکی جامعہ میں ریفرنڈم
اسرائیل کی مخالفت پر جامعہ مشیگن کی ڈائریکٹر برطرف ۔فلسطینی ریاست تسلیم کرنے پر آئرلینڈ میں اسرائیلی سفارت خانہ بند
اسرائیل سے اہل دانش کا انخلا، نئے کاروبار شروع کرنے کی شرح کم ہوگئی ۔آزادی فلسطین کا اسٹکر چپکانے پر اسرائیلی نوجوان گرفتار
نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ غزہ امن کے لیے شدید دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن اس حوالے سے ان کی ترجیح قیدیوں کی رہائی ہے۔ وہ انتخابی مہم کے دوران کہہ چکے ہیں کہ اگر 20 جنوری کو ان کے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا نہ ہوئے تو ذمہ داروں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ بظاہر وہ اسرائیل سے بھی امن کے لیے اصرار کر رہے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ لڑائی کا اختتام اسرائیل کی فیصلہ کن فتح پر ہو۔ آٹھ دسمبر کو مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے مشیر Steve Witkoff نے ابو ظبی میں انتہائی دھمکی آمیز انداز میں کہا ‘نو منتخب امریکی صدر کی بات کان کھول کر سن لو۔ اگر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے پہلے قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ بہت برا دن ہوگا’۔ دوسرے دن اسی مصرعہ طرح پر گرہ لگاتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے رفقا کو بتایا کہ شام سے ایران کے انخلا کے بعد اہل غزہ تنہا رہ گئے ہیں اور اب ہم اپنی شرائط پر قیدی رہا کرواسکتے ہیں۔
اہل غزہ اس وقت سخت آزمائش میں ہیں۔ اسرائیل اور لبنان امن معاہدے کے بعد کئی اسرائیلی بریگیڈ واپس آگئے ہیں جن کی بڑی تعداد غزہ تعینات کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کو لبنانی راکٹوں سے نجات مل گئی ہے جس کی وجہ سے بار بار سائرن سے شہروں میں جو ہیجان بپا ہوتا تھا وہ کیفیت بھی اب باقی نہیں رہی اور شمالی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں تیزی سے معمول پر آ رہی ہیں۔ شام کی جانب سے اسرائیل کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن ایران سے آنے والا اسلحہ جولان کے راستے لبنانی مزاحمت کاروں تک پہنچ رہا تھا۔ اس راستے کو بند کرنے کے لیے اسرائیل نے مقبوضہ مرتفع جولان سے ملحق وادی اور جبل حرمون پر قبضہ کرلیا ہے۔ کچھ جغرافیہ داں جبل حرمون کو جبل الشیخ بھی کہتے ہیں۔قبضے کا جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس کارروائی کا مقصد بدامنی پھیلانے کے لیے شام آنے والے ایران نواز لبنانی دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے اس وقت یقین دلایا تھا کہ یہ عارضی کنٹرول ہے اور اسرائیل جلد یہ علاقہ خالی کردے گا۔ لیکن 13 دسمبر کو وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے جبل حرمون تعینات سپاہیوں کے لیے گرم وردیوں کے بندوبست کی ہدایت جاری کردی ہے۔ایک سوال کے جواب میں کاٹز نے کہا کہ اسرائیلی فوج موسم سرما جبل حرمون پر گزارے گی ۔
دس مربع کلومیٹر کا یہ شامی علاقہ ہتھیانے کے بعد جہاں شام اور لبنان کا اسرائیل سے ملنے والا پورا علاقہ اسرائیل کی کامل گرفت میں ہے وہیں اب شامی دارالحکومت دمشق اسرائیل کے براہ راست نشانے پر آگیا کہ اس پہاڑی سلسلے سے دمشق صرف 29 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں کا پہاڑی مقام قنیطرہ خانہ جنگی کی وجہ سے عملاً غیر آباد ہے۔ خیال تھا کہ امن و امان کی صورت حال بہتر ہوجانے پر نقل مکانی کرنے والوں کی جلد قینطرہ واپسی شروع ہوگی لیکن اسرائیلی بلڈوزروں نے سڑکیں ادھیڑ دیں، قدیم درخت گرا دیے، آب پاشی و آب نوشی کے ذخائر، سیوریج تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ کرکے سطح سمندر سے 1010 میٹر بلندی پر واقع یہ خوبصورت صحت افزا مقام انسانی حیات کے لیے ناموزوں بنا دیا ہے۔ یہ دراصل قبضے کے خلاف ممکنہ عوامی مزاحمت کے امکان کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا کہ نہ شہر آباد ہوگا نہ گوریلے منظم ہوں گے۔ شہری سہولتوں کو تباہ کرنے کی یہی حکمت غرب اردن کے شہروں اور غزہ میں اختیار کی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ شام کی عسکری تنصیات پر بنکر بسٹر بموں سے حملے جاری ہیں۔ ہفتہ 14 دسمبر کو پانچ گھنٹوں میں 61 مقامات پر میزائیل حملے کیے گئے۔ دوسرے دن شامی بندرگاہ طرطوس پر جو بم گرائے گئے ان کا دھماکہ اتنا شدید تھا کہ علاقے کے زلزلہ پیما (Seismic Sensor) نے 3 شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا۔ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ میزائیل سے زیر آب اور زیر زمین اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔حملے میں فوجی تنصیات کے ساتھ تجارتی گودیاں بھی ملبہ بن کر بحیرہ روم میں جا گریں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انقلابِ شام کے قائد احمد الشرعہ المعروف الجولانی نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے زمین پر قبضے اور فضائی حملے قابل مذمت ہیں لیکن تھکن کے باعث ان کا ملک نئے تنازعے کے لیے تیار نہیں ہے۔
شام میں بشارالاسد کی معزولی سے پہلے ہی ایران نے اپنے فوجی سازوسامان اور افرادی قوت وہاں سے ہٹا لینے کا فیصلہ کر لیا تھا اور عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل نے شام سے یہ اثاثے لبنان منتقل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔ الاسد اقتدار کا خاتمہ اسرائیل کے ہاتھوں ایران کی شکست سمجھا جا رہا ہے جبکہ متعصب عناصر شام میں تبدیلی اقتدار کو ترک سنیوں کی شیعوں پر فتح قرار دے رہے ہیں۔ رہبر معظم ایران علی خامنہ ای نے اپنے ایک بیان میں کہا ‘بشار الاسد کو معزول کرنے کی سازش اسرائیل اور امریکہ میں کی گئی۔ شام کا ایک پڑوسی ملک بھی اس خونی کھیل میں شریک تھا’۔ رہبرِ ایران نے ترکیہ کا نام لینے سے گریز کیا لیکن اس سے پہلے ایران کے نائب صدر برائے تزویراتی امور جاوید ظریف صاف صاف کہہ چکے تھے کہ ‘اس معاملے میں ترکیہ کا کردار بہت واضح ہے’۔
بلاشبہ 53 سال کے جبر سے نجات پر شامی بہت خوش ہیں۔ لاکھوں بے گناہوں کو عقوبت کدے سے رہائی نصیب ہوئی لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی کشیدگی نے فلسطینیوں کو اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر دیا ہے۔ بد ترین بمباری، بھوک اور مکمل تباہی کو اہل غزہ نے اب تک بہت خندہ پیشانی اور حوصلے سے جھیلا۔ بہیمانہ جبر کے مقابلے میں ان کے پر عزم صبر کی ساری دنیا معترف ہے لیکن شام سے ایران کی پسپائی کے بعد وہ خود کو دیوار سے لگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ اہل غزہ کو قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ، ان کے جانشین یحییٰ سنوار اور عسکری کمانڈر ابراہیم المصری تینوں اپنے رب کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ مذکرات کے دوران ان کلیدی افراد کی کمی بری طرح محسوس کی جا رہی ہے۔
ٹرمپ کا دباو اور زمینی صورت حال کا جبر اہل غزہ کو امن کے لیے اپنی شرائط نرم کرنے پر مجبور کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا کہ غزہ کے مزاحمت کار اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے ہی کچھ قیدی رہا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے غزہ کا موقف تھا کہ اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے قیدی رہا نہیں ہوں گے۔
موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنا کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ عارضی جنگ بندی کے دوران کچھ قیدی رہا کر دیے جائیں گے۔ امریکی آن لائن خبر ایجنسی Axios کا کہنا ہے کہ مستضعفین نے اپنی تحویل میں موجود قیدیوں کی جزوی فہرست قطر اور مصری حکام کے حوالے کردی ہے جن میں کچھ امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ خیال ہے کہ پہلے مرحلے میں امریکی شہریوں کو رہا کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ خبر وال اسٹریٹ جرنل اور Axios نے جاری کی ہے، تادم تحریر اہل غزہ نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہ۔
غزہ کی امن پر آمادگی کے باوجود وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ سبت (ہفتہ) پر سبزی کاٹنے کے لیے بھی چھری استعمال کرنا منع ہے لیکن 13 دسمبر کو غروب آفتاب سے 14 دسمبر کو سبت کے اختتام تک وسطی غزہ پر بلا تعطل بمباری کی گئی اور اسکولون سمیت متاثرین کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خان یونس میں نصر اسپتال پر بمباری سے 36 بچے اور خواتین جاں بحق ہوگئے۔ اس ہفتے ایک نئی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ غرب اردن میں اسرائیلی فوج کے ساتھ اب مقتدرہ فلسطین (PA) بھی سرگرم ہوگئی ہے اور مقتدرہ فوج کے ہاتھوں جنین میں ایک فلسطینی جاں بحق ہوگیا۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے جارحانہ دھمکیاں، اسرائیلی بمباری اور اب ایران کی جانب سے حمایت میں کمی اہل غزہ کے لیے پریشانی کا باعث تو ہے لیکن سیاسی محاذ پر امریکہ سے ایک چشم کشا کامیابی،انتہائی موقر تعلیمی ادارے جامعہ ییل Yale کا ریفرنڈم ہے۔ استصواب کے نتائج کچھ اس طرح رہے:
سوال نمبر ایک: کیا ییل کو فوجی ہتھیار بنانے والے، اسلحہ فراہم کرنے والے اور اسرائیل کو مسلح کرنے والے اداروں میں سرمایہ کاری کا انکشاف کرنا چاہیے؟ نتیجہ: ہاں 83 فیصد
سوال نمبر دو: کیا ییل کو ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے الگ ہوجانا چاہیے۔ نتیجہ: ہاں 76فیصد
سوال نمبر تین: کیا ییل کو فلسطینی اسکالروں اور طالب علموں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ تعلیم کے یکساں مواقع کے وعدے (Commitment)کو پورا کیا جاسکے۔
نتیجہ: ہاں 79 فیصد۔
جامعہ ییل کی وقف (Endowment) رقم 41 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ دوسری جانب امریکی جامعات میں جبر بھی اپنے عروج پر ہے۔ جامعہ مشیگن کی ڈائریکٹر برائے تنوع، برابری اور شمولیت (DEI) ڈاکٹر راشل ڈاوسن کو سام دشمن Antisemitic تبصرہ کرنے پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے جامعہ کی اسرائیل نواز پالیسی پر جھنجھلا کر یہ کہہ دیا تھا کہ ‘جامعہ دولت مند یہودیوں کے کنٹرول میں ہے’۔ ایسی ہی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ سفارتی میدان میں ہو رہا ہے۔ فلسطینی ریاست تسلیم کرنے اسرائیل نے آئرلینڈ میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا ہے۔
غزہ اور جنوبی لبنان کو ریت کا ڈھیر بنا دینے، شام کے فوجی اثاثے ایک ایک کر کے پھونک دینے اور مستضعفین کی سیاسی اور عسکری قیادت کے قتل کے خوف کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت زیر زمین بنکر میں ہو رہی ہے۔ یہ ہیجان پورے معاشرے پر طاری ہے۔ تیس نومبر کو ایک نوجوان اسرائیلی آندرے خرزانوسکی نے فوجی قبرستان کے ایک چوبی ستون پر "فلسطین آزاد کرو” کا اسٹکر چپکا کر اس منظر کو سوشل میڈیا پر نصب کردیا۔ یہ بھولا یہودی بچہ سمجھ رہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی اکلوتی جمہوریت میں ایک بے ضرر اسٹکر چپکا دینا کوئی بڑی بات نہیں اس لیے اس نے اسے بے نامی رکھنے کے بجائے پوسٹ پر اپنی تصویر بھی لگا دی۔ اس پر اسرائیل بھر میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ خفیہ ادارے شاباک نے تحقیقات شروع کر دی اور اندرے کو تل ابیب کے ایک ریستوران سے اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ دوستوں کے ساتھ سبت منا رہا تھا۔
جہاں فلسطینیوں کے حق آزادی کے لیے کمزور ہی سہی لیکن خود اسرائیل سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں وہیں مستکبرین بھی یک جان ہیں۔ ہالینڈ کے انتہا پسند رہنما شام میں عسکری تنصیبات کو تباہ کرنے پر مبارکباد دینے بنفس نفیس یروشلم آئے اور کہا ‘نیتن یاہو نے ایک سال کے عرصے میں غزہ مزاحمت کاروں کو کچل کر، لبنانی دہشت گردوں کو شکست دے کر اور ایران کو نمایاں طور پر کمزور کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اس سے کہیں زیادہ کام کیا ہے جو یورپی یونین 70 سالوں میں نہ کرسکی۔
اور آخر میں اسرائیلی مرکز دانش Resilient, Innovative and Sustainable Economy (RISE) کی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں: رائز کے مطابق پرکشش مراعات اور بہتر مستقبل کی تلاش میں اسرائیلی ماہرین کے ملک سے باہر جانے کی شرح بہت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں ٹیکنالوجی کے نئے ادارے قائم نہیں ہو رہے ہیں۔ یہ رجحان کئی سال سے ہے لیکن غزہ جنگ کے نتیجے میں ماہرین کے جانے کی رفتار تیز ہوجانے سے نئے کاروبار شروع کرنے کی شرح 45 فیصد کم ہوگئی ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
بلاشبہ 53 سال کے جبر سے نجات پر شامی بہت خوش ہیں۔ لاکھوں بے گناہوں کو عقوبت کدے سے رہائی نصیب ہوئی لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی کشیدگی نے فلسطینیوں کو اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر دیا ہے۔ بد ترین بمباری، بھوک اور مکمل تباہی کو اہل غزہ نے اب تک بہت خندہ پیشانی اور حوصلے سے جھیلا۔ بہیمانہ جبر کے مقابلے میں ان کے پر عزم صبر کی ساری دنیا معترف ہے لیکن شام سے ایران کی پسپائی کے بعد وہ خود کو دیوار سے لگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ اہل غزہ کو قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ، ان کے جانشین یحییٰ سنوار اور عسکری کمانڈر ابراہیم المصری تینوں اپنے رب کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ مذکرات کے دوران ان کلیدی افراد کی کمی بری طرح محسوس کی جا رہی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024