
جنگ بندی کے بعد بھارت کی اندرونی سیاست تیز، پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا جائے :کانگریس
حالات بدلتے ہی جذبات بدل گئے کرنل صوفیہ قریشی، اویسی اور زبیر عوام و خواص میں ہوئے مقبول
محمد ارشد ادیب
کشمیر میں مسلم استاد کی شہادت کو دہشتگردی سے جوڑنے پر عوام میں ناراضگی
مشرقی یوبی اور اتراکھنڈ میں مدرسوں کے خلاف انہدامی کاروائی ،بھارت نیپال سرحد بفر زون کے باہر بھی ہو رہی ہے جانچ
بابا رام دیو نے شربت جہاد سے کی توبہ، دہلی ہائی کورٹ میں حلف نامے کے بعد کیس ہوا بند
بھارت پاک جنگ بندی اعلان کے بعد بھارت کی اندرونی سیاست تیز ہو گئی ہے۔ کانگریس نے امریکہ کے ذریعے جنگ بندی کے اعلان پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔ جنگ بندی کے فوری بعد سرینگر و جموں کے مختلف مقامات پر جنگ بندی کی خلاف ورزی پر جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تصدیق کی ہے۔ بھارت کے بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ پہلگام حملے کے بعد پاکستان پر جوابی حملے سے آخر ہمیں حاصل کیا ہوا؟ کیا پہلگام حملے کے ذمہ دار دہشت گرد اپنےکیفر کردار کو پہنچ گئے؟ اس جیسے بہت سے سوالات کا حکومت کو آنے والے وقت میں سامنا کرنا پڑے گا۔ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ جنگ بندی ہو یا نہ ہو ہمیں پہلگام حملے کے ذمہ دار دہشت گردوں کا پیچھا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
حالات بدل گئے جذبات بدل گئے !
پہلگام حملے کے جواب میں بھارت کے آپریشن سندور نے پورے ملک کے ساتھ شمالی بھارت کے حالات و جذبات دونوں بدل دیے، کل تک ہندو مسلم منافرت کے شکار عوام دشمن کے خلاف ایک جٹ ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں کو غدار کہنے والے نفرتی ٹولے کرنل صوفیہ قریشی اور ان کے خاندان کو سو سو بار سلامی پیش کر رہے ہیں۔ جھوٹی خبروں خاص طور پر فرضی وائرل ویڈیوز کی حقیقت اجاگر کرنے والے سچائی کے علم بردار فیکٹ چیکر اور آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے جذبے اور جنون کو دائیں بازو کے لوگ بھی تسلیم کرنے لگے ہیں۔ محمد زبیر نے آپریشن سندور کے دوران رات رات بھر جاگ کر پاکستان کے فرضی پروپیگنڈے کی ہوا نکال دی۔ اور تو اور ہندوستانی سیاست کا مسلم چہرہ بن چکے آل انڈیا اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی قوم پرستوں کے ساتھ دائیں بازو کےدلوں میں بھی گھر کرنے لگے ہیں۔پاکستان مردہ باد بھارت زندہ باد والے ان کے پوسٹر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔ کشمیر نامہ کے مصنف اشوک کمار پانڈے نے اپنے ایکس ہینڈل پر اویسی کے ٹویٹ کا ایک اسکرین شارٹ شیئر کیا ہے اس میں ایک اردو نام والے صارف اویسی کو گالیاں دے رہے ہیں جبکہ کرش تیواری نام کے دوسرے صارف اویسی کا دفاع کر رہے ہیں اشوک پانڈے نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے گالی گلوچ سے بھری پوسٹ میں کبھی شیئر نہیں کرتا لیکن اس میں جو جذبہ ہے وہ دل کو چھو گیا۔”
بیرسٹر اسد الدین اویسی بھی فل فارم میں ہیں دلی میں مرکزی حکومت کی جانب سے بلائی گئی کل جماعتی میٹنگ میں انہوں نے بھارت سرکار کے تمام اقدامات کی حمایت کی۔ ساتھ میں مشورہ بھی دے دیا کہ پاکستان سے مقابلہ کرنے اور کشمیریوں کو منانے کا مودی سرکار کے پاس یہ سنہرا موقع ہے انہوں نے پونچھ اور اوڑی سیکٹر میں پاکستانی حملے میں شہید اور زخمی ہونے والے کشمیری شہریوں کو دہشت گردی سے متاثر قرار دینے کا مطالبہ کیا انہوں نے مہلوکین کو معاوضہ دینے کے ساتھ متاثرین کے لیے گھر بنا کر دینے کی بھی مانگ رکھی۔ بیرسٹر اویسی نے جنوبی کشمیر کے نوجوانوں کو بھارت کے قریب لانے کے لیے محبت اور احتیاط سے کام کرنے کا مشورہ دیا۔ کل جماعتی میٹنگ میں وزیراعظم نریندر مودی کی عدم شرکت پر تنقید ہو رہی ہے تاہم اپوزیشن کی جانب سے کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے اور اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی دونوں نے شرکت کی۔ بعد میں راہل گاندھی نے پریس کو یہ بیان جاری کیا تھاکہ انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے لیکن وہی کانگریس اب مرکزی حکومت کے سامنے سوال کھڑے کر رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے باقی نمائندوں نے بھی اس معاملے میں حکومت کے تمام اقدامات کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا ساتھ ہی بھارتی افواج کی ہمت اور حوصلے کی بھی داد دی تاہم تیسری طاقت کے ذریعے جنگ بندی نافذ کیا جانا سب کو پسند نہیں آرہا ہے۔
جماعت اسلامی سمیت مسلمانوں کی ملی و سماجی تنظیموں نے آپریشن سندور کی حمایت کی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے اپنے بیان میں کہا کہ دہشت گردی ایک سنگین خطرہ ہے اور انسانیت کے خلاف گھناونا جرم بھی ہے امن وسلامتی کے لیے اس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ انہوں نے اس مشکل گھڑی میں پوری قوم سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور عوام کو تقسیم کرنے کے لیے قومی سلامتی کے نام کا استعمال ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر ملی تنظیمیں بھی اس معاملے میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں۔
کشمیر میں ایک مسلم استاد کی شہادت کو دہشت گردی سے جوڑنے پر ناراضگی
کشمیر میں پونچھ کے علاقے میں پاکستانی گولہ باری میں ایک استاد قاری محمد اقبال شہید ہو گئے۔ وہ تحصیل منڈی کے بیلا گاؤں کے رہنے والے اور پونچھ کے مدرسہ ضیاء العلوم میں استاد تھے۔ ان کے ساتھ 15 دیگر افراد کے بھی شہید ہونے کی خبر ہے۔ قومی میڈیا کے کچھ ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا میں یہ خبر اس طرح پیش کی گئی کہ مولانا اقبال دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں ہندوستانی افواج کے ہاتھوں مارے گئے۔ مقامی پولیس نے اس کی تردید کی اور کہا کہ وہ بلا تصدیق خبر شائع کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ اس کے باوجود مقامی باشندوں میں ناراضگی ہے۔ ان کے مطابق قاری اقبال نے ایک دہائی تک ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے، ان کی شہادت کو دہشت گردی سے جوڑنا جان بوجھ کر کی گئی توہین ہے۔ فیکٹ چیکر محمد زبیر نے اس خبر کی سچائی اجاگر کرتے ہوئے لکھا کہ ہندوستانی چینل کی طرف سے یہ شرمناک حرکت ہے۔ پرینکا دیشمکھ نے ایکس پر لکھا” یہ میڈیا والے کھاتے بھارت کا ہیں لیکن کام پاکستان کا کیوں کرتے ہیں؟ بھارت کے مسلمان جن کو پاکستان مار رہا ہے ان کو یہ دلال میڈیا والے جھوٹ پھیلاتے ہوئے دہشت گرد کہہ رہے ہیں ان کا علاج ہونا ضروری ہے۔”
جاسوسی کا الزام اور مسلمان
امن کا حال ہو یا جنگ کا ماحول میڈیا کا ایک حصہ مسلمانوں کی وفاداری پر شک کرنا اس کا معمول ہے۔ سوشل میڈیا میں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے لیکن اس بار اس کے برعکس بھی معاملہ دکھائی دے رہا ہے۔ دپیش گپتا نام کے ایک صارف نے اپنی پوسٹ میں پرانی معلومات شیئر کرتے ہوئے لکھا پہلگام دہشت گرد حملے پر پاکستان کے لیے جاسوسی کرتے ہوئے آئی ٹی سیل کے رکن دھروب سکینہ سمیت تین ارکان گرفتار، مشہور صحافی اشوک بانکیھڑے کے مطابق اس سے پہلے بھی آر ایس ایس بی جی پی کے رکن ڈی آر ڈی او ڈائریکٹر پردیپ کرولکر جاسوسی کرتے پکڑے گئے تھے جسے گودی میڈیا کے اندھ بھکت ایک خاص مذہب کے لوگوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں ویسے ہی ان جاسوسوں کو بھی دہشت گرد ڈکلیئر کرنا چاہیے۔” گوپال شرما نام کے صارف نے اس پر تبصرہ کیا "اب اصل وجہ سمجھ میں آئی کہ بھاجپائی سرکار ہو تو دہشت گرد حملے کیوں بڑھ چڑھ کے ہوتے ہیں؟”
مشرقی یو پی میں غیر منظور شدہ مدرسوں کے خلاف مہم
شمالی بھارت میں پاکستانی سرحد اور لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی فوجی کارروائی سے حالات انتہائی سنگین ہو گئے تھے تاہم امریکی مداخلت کے بعد دونوں ممالک جنگ بند کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔مگر اتر پردیش کی نیپال سرحد پر معاملہ اس کے برعکس دکھائی دے رہا ہے۔ یو پی حکومت کے عتاب کے شکار مدرسوں پر بلڈوزر کارروائی تیز ہو گئی ہے۔ ضلع گونڈہ کی طرف گنج تحصیل میں واقع برولی برجو نگر کے مدرسے کو گزشتہ دنوں ایس ڈی ایم کی نگرانی میں بلڈوزر سے منہدم کر دیا گیا۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ مدرسہ سرکاری زمین پر بنا تھا جو اسکول فارم کے نام پر دستاویزوں میں درج ہے جبکہ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ زمین پر پرانے زمانے سے ہی مکتب کی پڑھائی ہو رہی تھی جو بعد میں مدرسے کی شکل میں ترقی کر گیا۔ تاہم، مدرسہ انتظامیہ زمین کے قانونی دستاویزات پیش کرنے سے قاصر رہا۔ مدرسے کی انہدامی کارروائی کے بعد اس منطقہ کے دیگر مدارس والے بھی خوفزدہ ہیں۔ ان کے مطابق جانچ سے پہلے بتایا گیا تھا کہ صرف بفرزون کے مدرسوں کو سیل کیا جا رہا ہے جبکہ اب بفر زون کے باہر بھی جانچ کی کارروائی ہو رہی ہے۔ کئی مدارس کے منتظمین نے بچوں کی چھٹی کر کے مدرسے بند کر دیے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے قومی سکریٹری مسعود عالم کی قیادت میں احتجاج کے بعد چار نکاتی میمورنڈم دیا گیا اس میں مدرسوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے علاوہ بہرائچ کے سید مسعود سالار غازی آستانے کے جیٹھ میلے کو حسب روایت منظوری دینے کا مطالبہ شامل ہے۔ میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ وقف ترمیمی قانون کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس سے پہلے وقف کی درگاہ یا مدرسے کے خلاف کارروائی غیر قانونی ہے۔ واضح رہے کہ یو پی کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت مدرسوں کی کئی مرتبہ جانچ کرا چکی ہے۔ مدرسہ بورڈ کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے دستور کا حوالہ دیتے ہوئے مدرسوں کو چلانے کی اجازت دے دی اس کے بعد زمین اور نقشے کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے اس پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یو پی میں تلوار چلانے والوں پر کوئی سختی نہیں کی جاتی لیکن مدرسے چلانے والوں پر کارروائی ہو رہی ہے۔
ثقافتی و تجارتی میلوں پر پابندی کیوں؟
بہرائچ کے جیٹھ میلے کے ساتھ میرٹھ کے نوچندی میلے کو بھی ملتوی کر دیا گیا ہے۔ یہ دونوں میلے 15 مئی سے شروع ہوتے ہیں لیکن اس بار انہیں حالات کے مد نظر ملتوی کر دیا گیا ہے۔ حکومت اتر پردیش نے سید سالار مسعود غازی کے میلے پر ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ درگاہ کے اندر کسی مذہبی رسم یا روایت پر پابندی نہیں ہے بلکہ صرف درگاہ کے باہر لگنے والے تجارتی میلے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے حکومت کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ میلوں میں سبھی مذاہب کے لوگ شرکت کرتے ہیں سبھی کو روزگار ملتا ہے مگر بی جے پی کے ایجنڈے میں روزی، روزگار نہیں ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق سرکار اپنے ثقافتی ایجنڈے کو لاگو کرنے کے لیے مشترکہ تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں پر قدغن لگانا چاہتی ہے۔ لکھنو کے حسین گنج چوک کا نام بدل کر مہارانا پرتاب کرنا جیسے فیصلے اسی ایجنڈے کے تحت لیے جا رہے ہیں۔
اتراکھنڈ میں مدرسہ بند کرنے کا کھیل
اتراکھنڈ کی دھامی سرکار دسمبر2024 سے اب تک تقریباً 170 مدرسے بند کراچکی ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مدرسوں کو منظوری دینے سے متعلق سرکاری کمیٹی کی پانچ سال تک کوئی میٹنگ ہی نہیں ہوئی۔ ایک انگریزی روزنامہ نے اس پر تفصیلی رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا ،”سیلنگ ڈرا سے صرف ایک دن پہلے اس کمیٹی کی میٹنگ ہوئی اس میں بھی 147 میں سے صرف 99 مدرسوں کو منظوری مل سکی۔ دہرادون کے ایک مدرسے کو منظوری ملنے کے بعد بھی سیل کر دیا گیا۔ ریاست کے کئی اضلاع سے اسی طرح کی شکایتیں مل رہی ہیں۔ جمیعت علمائے ہند کے مطابق مدرسے والوں کو جان بوجھ کر تنگ کیا جا رہا ہے اسی لیے انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ بچوں کا نیا تعلیمی سال شروع ہوئے ڈیڑھ ماہ ہونے جا رہا ہے لیکن ریاستی حکومت کو ان مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ دوسری طرف مدارس کے منتظمین سرکاری دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں۔
رام دیو نے کی شربت جہاد سے توبہ
یوگا گرو کے نام سے مشہور متنازعہ بابا رام دیو نے دہلی ہائی کورٹ میں حلف نامہ داخل کر کے شربت جہاد سے توبہ کر لی ہے اور ان کی کمپنی نے ہمدرد کے خلاف ویڈیو اور پوسٹ ہٹا دیے ہیں۔ واضح رہے کہ شربت روح افزا کے متعلق رام دیو کے متنازعہ بیان کے خلاف ہمدرد نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ عدالت عالیہ نے رام دیو کی سرزنش کی جس کے بعد ان کا ضمیر بیدار ہوا اور انہوں نے اپنی غلطی سے توبہ کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا جسے عدالت نے تسلیم کرتے ہوئے کیس بند کرنے کا فیصلہ صادر کیا ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
(کالم نگار سے رابطہ:[email protected])
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025