!جنگ بندی اور امن کی امید

کیا برصغیر 1947کے زخموں سے ابھر پائے گا؟

0

نوراللہ جاوید، کولکاتا

کشمیر پر ٹرمپ کا موقف، بھارتی موقف سے ایک مختلف زاویہ
22 اپریل کی سہ پہر کو کشمیر کے خوبصورت ترین مقام پہلگام میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی میں 26 بے قصور سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سے لے کر 10 مئی کی شام 5 بجے تک، یعنی پورے 18 ایّام، اعصاب شکن ثابت ہوئے۔ دونوں جانب سے نفرت، جنگ اور ایک دوسرے کو مٹانے کے ارادوں کی گونج نے فضا کو دہشت زدہ کر دیا تھا۔
پہلگام کی اس دہشت گردانہ کارروائی نے بھارت کے ہر شہری کو غم زدہ اور غصے سے لبریز کر دیا۔ دہشت گردوں نے جس سفاک انداز میں حملہ کیا، اس کے نتیجے میں ملک میں، جو اس وقت ہندتوا کی سیاسی اور ثقافتی بالادستی کے خواب کے زیرِ اثر اپنے سماجی تانے بانے کو کمزور کر چکا ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ابھرنا فطری امر تھا۔
مگر کشمیری شہریوں نے پہلگام میں مقیم سیاحوں کے ساتھ جس انسانی ہمدردی اور جذبۂ خیرسگالی کا مظاہرہ کیا اس نے ملک کے دیگر حصوں میں مسلم مخالف جذبات کو مکمل طور پر تو سرد نہیں کیا، لیکن ان قوتوں کو جو مسلمانوں کے خلاف غیض و غضب بھڑکانے میں سرگرم تھیں، اخلاقی طور پر حاشیے پر ضرور پہنچا دیا۔ ان کے پاس مسلمانوں اور ملک بھر میں مقیم کشمیریوں کے خلاف نفرت پر مبنی کارروائیاں کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔
بھارتی افواج نے بھی دشمنوں کے عزائم کو واضح کر دیا کہ ان کا مقصد صرف سیاحوں کو نشانہ بنانا نہیں تھا بلکہ ملک کے سماجی تانے بانے کو کمزور کرنا، اس کے اندرونی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور دو قومی نظریہ کی حقانیت کو اجاگر کرنا تھا—جس کی جانب حملے سے محض ایک ہفتہ قبل پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے اشارہ کیا تھا۔
پہلگام میں دہشت گرد حملے کی کامیابی، سیکیورٹی فورسوں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی ناکامی پر بھی سوالات اٹھاتی ہے، مگر یہ بحثیں پسِ پردہ چلی گئیں اور حکم راں جماعت پر بدلہ لینے کا دباؤ بڑھنے لگا۔ ظاہر ہے اس میں ہندتوا نظریے کے حاملین، اس کے پیروکار اور قومی میڈیا کے نیوز اینکروں اور نام نہاد تجزیہ نگاروں کا کلیدی کردار رہا۔
چنانچہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارتی افواج نے انتہائی محتاط انداز میں پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور کئی مقامات پر ان کے مراکز کو تباہ کر دیا۔ اس کارروائی کے بعد بھارت نے دانش مندی سے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ یہ فوجی کارروائی دو ممالک کے درمیان جنگ کا آغاز نہیں، بلکہ صرف دہشت گردی کے خلاف ایک مخصوص ہدف پر مرکوز ردعمل ہے۔ نہ پاکستانی افواج کو نشانہ بنایا گیا اور نہ ہی عام شہریوں کو۔
یہ فضائی حملہ بھارتی افواج کی اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیت کا مظہر تھا کہ پاکستان کی تمام تر تیاریوں کے باوجود بھارت نے اپنے اہداف حاصل کر لیے۔ اگرچہ بھارت مسلسل اس بات پر زور دیتا رہا کہ وہ جنگ نہیں چاہتا مگر پاکستان نے اس کارروائی کو اپنی خودمختاری اور وقار پر حملہ قرار دیتے ہوئے جوابی تیاریوں کا آغاز کر دیا۔ تبھی دونوں ممالک پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔
بالآخر 10 مئی کی صبح پاکستان نے ’’بنیانِ مرصوص‘‘ کے نام سے جوابی کارروائی شروع کی اور تھوڑی ہی دیر بعد یہ خبر گردش کرنے لگی کہ پاکستان نے ایٹمی حملے کی تیاری کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ اس خبر نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا کہ اگر دو ایٹمی طاقتیں جوش و جذبات میں اس حد تک چلی جائیں تو دنیا کی تباہی یقینی ہے۔
چنانچہ امریکہ نے ثالثی کی کوشش کی، اور 10 مئی شام پانچ بجے جنگ بندی کی خبر نے امن کے متلاشی شہریوں کے چہروں پر مسکراہٹ لوٹا دی۔
حیرت انگیز طور پر اس جنگ بندی کا اعلان نہ تو بھارت نے کیا اور نہ پاکستان نے، بلکہ اس ملک نے کیا جس کی بالادستی کو اکثر چیلنج کیا جاتا ہے—امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے خود اعلان جنگ بندی کیا۔ یہ اپنے آپ میں ایک اہم سوال ہے کہ ٹرمپ نے دونوں ممالک کے مشترکہ اعلان سے قبل خود کیوں پیش قدمی کی؟ وہ اس اعلان کے ذریعہ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ امریکہ نے جنگ بندی کی یہ کوشش پہلے کیوں نہ کی؟ اس نے ابتدا میں بڑھتی کشیدگی کو سنجیدگی سے لینے سے انکار کیوں کیا؟
تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی اصل جڑ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کو کیوں قرار دے رہے ہیں؟ جب کہ بھارت کی دیرینہ پالیسی یہ رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر کسی ثالثی کی ضرورت نہیں۔
2019 میں کشمیر کے خصوصی اختیارات کے خاتمے کے بعد بھارت کا موقف یہ رہا ہے کہ کشمیر کوئی مسئلہ نہیں ہے اور پاکستان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ، جو بظاہر بھارت کے زیادہ قریبی سمجھے جاتے ہیں اور جنہیں وزیر اعظم نریندر مودی فطری دوست قرار دیتے ہیں، وہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کو زندہ کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟
گزشتہ دو دنوں میں اگر دونوں ممالک کے اخبارات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ دونوں ہی اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ بھارت کے لیے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ اس نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں کامیابی حاصل کی اور بھارتی افواج نے اپنی اعلیٰ صلاحیت اور مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ وہ دشمن سے کسی بھی وقت، کہیں بھی بدلہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
دوسری طرف، پاکستانیوں، بالخصوص حکومتی عہدیداروں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ ان قوتوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو مکمل طور پر پاکستان کو نیست و نابود کرنے کا خواب دیکھ رہی تھیں۔
بین الاقوامی تعلقات اور سلامتی امور کے ماہر، سمیر لالوانی، اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی جانب سے اپنی اپنی فتح کا دعویٰ دراصل ایک خوش آئند اشارہ ہو سکتا ہے۔ سنٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ بجٹری اسیسمنٹس سے وابستہ سمیر لالوانی کے مطابق دونوں ممالک کا اسٹریٹجک کامیابی کا دعویٰ ’’اتنی بری بات نہیں‘‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کی شدید عسکری کشیدگی میں دونوں حکومتوں کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے عوام کو یہ یقین دلائیں کہ انہوں نے اپنے قومی اور دفاعی مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔
ان کے بقول، ’’اگر دونوں فریق اس کیفیت کو قبول کر لیں اور معلومات یا بعض اوقات غلط معلومات کا فائدہ اٹھا کر اپنے بیانیے کو مضبوط کر لیں تو یہ طرزِ عمل کشیدگی میں کمی اور استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
سمیر لالوانی کی اس رائے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں حکومتوں کی جانب سے جنگ بندی کو اپنی اپنی کامیابی قرار دینا خطے میں امن کے قیام کے لیے ایک ضروری نفسیاتی حکمتِ عملی ہے۔ کیونکہ شکست کے احساس سے دبی قومیں اکثر انتقام کی آگ میں اندھی ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ بحث لاحاصل ہے کہ کس فریق کا نقصان زیادہ ہوا اور کس کا کم۔ اس سوال کا جواب مستقبل دے گا۔
تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس کشیدگی سے فائدہ کس کو پہنچا؟ کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ اس غیر روایتی جنگ نے ان ممالک یا اداروں کو فائدہ پہنچایا ہے جو دنیا بھر میں اسلحے کی تجارت کرتے پھرتے ہیں؟ کیونکہ اس بار دونوں ممالک نے ایسے ہتھیاروں کا استعمال کیا جن کی صلاحیت اور تاثیر کا عملی مظاہرہ پہلی بار کیا گیا۔
معروف ماہرِ اقتصادیات، سنج بروا، نے اپنے تازہ مضمون
"The Latest Episode Is Testament to How Wars Promote Sales for the Military Industrial Complex”
میں تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہند و پاک کشیدگی سے عالمی اسلحہ فروشوں نے واضح فائدہ اٹھایا۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کن کمپنیوں کے حصص میں اضافہ ہوا اور کن کے شیئرز گرے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس حد تک بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد، جب دونوں ممالک کے نمائندے مذاکرات کی میز پر آ بیٹھے ہیں، اس خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے گا؟ کیونکہ دونوں طرف ایسی طاقتیں موجود ہیں جو جنگ کو ہی آخری حل سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت واقعی طویل مدتی امن چاہتا ہے تو اسے فوجی کارروائی کو مسلسل جاری رکھنا چاہیے، تاکہ پاکستان کو اقتصادی، سفارتی اور سیاسی سطح پر تباہی کے دہانے تک پہنچایا جا سکے۔
مگر سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے تباہ و برباد ہوجانے سے ہی بھارت کو کیا حاصل ہوگا۔ اردو کے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی نے جنگ کی تباہ کاریوں اور ہولناک پہلو کی طرف روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا:
ٹینک آگے بڑھے کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
یوں محسوس ہوا جیسے ہندو پاک کی میڈیا جنگ کی خواہش میں پاگل ہو گئی ہو۔ دونوں طرف کے اینکر اور تجزیہ نگار اپنی اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ ایک دوسرے پر تباہ کن ہتھیاروں کا استعمال کریں۔ یہ نہ صرف انتہائی شرمناک طرز عمل تھا بلکہ دونوں ممالک کی غیر معیاری اور غیر ذمہ دار صحافت کی انتہا بھی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ہوش مندی، دانش مندی اور امن کی آواز مر چکی ہے۔
جن نام نہاد دانشوروں نے سرحد کے قریب بسنے والے لاکھوں شہریوں کی چیخ و پکار کو نظر انداز کیا، وہ نہ کبھی جنگ کی صعوبتوں سے گزرے ہیں، نہ ان کے زخموں کی کہانیاں پڑھی ہیں۔ جنگیں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں لاتیں۔ اگر آپ جاننا چاہیں کہ جنگ کا مطلب کیا ہوتا ہے، تو پولینڈ، جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس، جاپان، امریکہ، ایران، افغانستان، عراق، لبنان، شام اور فلسطین جیسے ممالک کے عوام سے پوچھیے، یا ان کی جنگی تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔
اسرائیل دو برسوں سے غزہ پر بم برسا رہا ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کو کھنڈر بنانے سے اسرائیل کو سکون مل جائے گا؟ کیا وہ پرسکون زندگی گزار سکے گا؟ روس دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے، مگر اب وہ کرایے کے فوجی بھرتی کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یوکرین، جو ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر وہ جھکنے کے لیے تیار نہیں۔ تو کیا روس نے جنگ سے اپنے مقاصد حاصل کر لیے؟
حماس سے امریکہ کے خفیہ مذاکرات، روس اور یوکرین کی قیادت کا ترکی میں بات چیت پر آمادہ ہونا اور یمن کے حوثی باغیوں سے ٹرمپ کے کامیاب معاہدے اس امر کا ثبوت ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ مسائل کا حل صرف مذاکرات اور بات چیت سے ممکن ہے۔ عراق اور افغانستان کی تباہی کے بعد خود امریکہ نے سیکھا کہ جنگ میں فتح کسی کی بھی ہو، شکست انسانیت کی ہوتی ہے۔
اسی لیے 10 مئی کو بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی صرف خوش آئند نہیں بلکہ اس لمحے کو ایک موقع سمجھ کر دیرپا امن اور اعتماد سازی کی سمت قدم بڑھانا چاہیے۔
پاکستان آج معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں پر مکمل انحصار ہے۔ سوال ہے کہ یہ حال کیوں ہوا؟ معروف پاکستانی تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے 7 مئی کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں لکھا:
’’یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ اپنے زخم چھوڑے بغیر نہیں جاتی۔ 1965 کی جنگ کے بعد لال بہادر شاستری کا دل تاشقند میں بیٹھ گیا۔ پاکستان کا معاشی زوال بھی اسی جنگ سے شروع ہوا۔ تب پاکستان دنیا کا ایک کامیاب معاشی ماڈل تھا۔ 1971 کی جنگ نے جنرل یحییٰ خان کو رسوا کر دیا۔ کارگل جنگ نے نواز شریف کو گھر بھیجا اور جنرل مشرف کو مسند اقتدار پر بٹھایا۔‘‘
پاکستانی صحافی اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا ملک عالمی طاقتوں کا آلہ کار بنا رہا۔ افغانستان کی جنگ میں جھونکا گیا، کشمیر میں دہشت گردی کو ہوا دی گئی، جس کا نتیجہ آج خود پاکستان بھگت رہا ہے۔ آئے دن دہشت گردانہ حملے، بلوچستان میں بغاوت، تحریک طالبان کی واپسی — یہ سب پاکستان کی داخلی تباہی کی علامتیں ہیں۔ جس طالبان کو برسوں پالا، وہی آج آنکھیں دکھا رہے ہیں۔
پہلگاؤں حملے کے بعد پاکستان نے تحقیقات میں تعاون کی پیش کش تو کی مگر بھارت کو مطمئن کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ کارگل جنگ کے بعد بھی سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے مذاکرات کا دروازہ بند نہ کیا۔ مگر ہندتوا تنظیموں کے دباؤ میں یہ نظریہ پروان چڑھا کہ ’’دہشت گردی کے سائے میں مذاکرات ممکن نہیں‘‘۔ گزشتہ 15 برسوں میں یہ دروازے مکمل بند ہو چکے ہیں۔
ابتدائی دنوں میں نریندر مودی نے وزیر اعظم نواز شریف کو اپنی حلف برداری میں مدعو کیا، پھر ان کی نواسی کی شادی میں بھی شرکت کی مگر بہت جلد وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے دباؤ میں آ کر ہر قسم کی بات چیت ختم کر بیٹھے۔ سارک اجلاس بند ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس تعطل سے فائدہ کس کو ہوا؟
پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر کی ریاستِ مدینہ سے متعلق تقریر، جسے بھارت پہلگاؤں حملے کا محرک قرار دیتا ہے، اسلامی اصولوں کے لحاظ سے بھی محل نظر ہے۔ میثاقِ مدینہ میں تمام مذاہب کو آزادی دی گئی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب بھارتی فوج کی طرف سے پریس بریفنگ میں دو خواتین کرنل، خصوصاً کرنل صوفیہ قریشی کو پیش کیا گیا تو کیا یہ صرف جنگ کے دنوں میں استعمال ہونے والی علامتیں ہیں؟ کیا یہی سوچ ہندتوا قوتوں کی مسلمانوں کے تئیں ہے؟
دہشت گردی کے خلاف مہم کی بات کرنے والی حکومت خود ملک میں نفرت انگیز مہم کی سرپرستی کر رہی ہے۔ خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی زبان سے زہر ٹپکتا ہے۔ ایسے میں یہ بھی سوچنے کا لمحہ ہے کہ دشمن کون ہے؟ وہ باہر ہے یا اندر؟
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایک پیچیدہ شخصیت کے حامل رہے ہیں۔ ان کے کئی متضاد پہلو ہیں، مگر ایک بات واضح ہے: انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ ان کی مدتِ صدارت میں انہوں نے کئی جنگوں کو ختم کرنے کی کوشش کی، حالانکہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں ناکام رہے، مگر حوثیوں سے مذاکرات، حماس سے خفیہ روابط اور ایران سے دوبارہ بات چیت کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ جنگ پر امن کو فوقیت دیتے تھے۔
ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ جنگ کو روک کر ایک بڑا کام کیا۔ اگرچہ وہ سخت ٹیرف لگاتے ہیں، مگر ساتھ ہی مذاکرات کی راہ بھی کھلی رکھتے ہیں۔ یورپ نے بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد دشمنی کو خیر باد کہا اور تجارت کو ترجیح دی۔ آج یورپ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک ہے۔
برصغیر میں بھارت ایک بڑی طاقت ہے، بالادستی کوئی عیب نہیں، بشرطیکہ یہ نفرت کے بجائے تعاون، اعتماد اور تجارت پر مبنی ہو۔
آخر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا دونوں ممالک اپنی سیاسی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد خود کو 1947 کے زخموں سے آزاد کر سکتے ہیں؟ پاکستان پر فوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک باوقار اور دیرپا معاہدے کی گنجائش اب بھی باقی ہے۔ دونوں ملکوں کا تنازع کوئی روایتی خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک تہذیبی داخلی کشمکش ہے، جس کے زخم اور نفسیاتی گہرائیاں وقت کے ساتھ سلجھائی جا سکتی ہیں — اگر نیت ہو، اور ارادہ صادق ہو۔
آخری اور سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اور پاکستان، سیاسی بیانیوں کو تسکین دینے کے بعد خود کو 1947 کے شعلہ فشاں زخموں سے نجات دلا سکتے ہیں؟ یہ محض سفارتی تکرار یا سرحدی تنازع نہیں، بلکہ ایک تہذیبی تصادم ہے جس میں نفسیاتی زہریلی تلچھٹ نے دونوں معاشروں کی روح کو آلودہ کر دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان پر فوری اور فیصلہ کن ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہ صرف عزم کا مظاہرہ کرے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے اعتماد کی فضا قائم کرے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک با وقار اور پائیدار معاہدے کے لیے فکری خاکے اور معقول تجاویز پہلے سے موجود ہیں، بس انہیں اپنانے کی سیاسی جرأت درکار ہے۔ بدقسمتی سے دونوں طرف ایسی طاقتیں بھی ابھر رہی ہیں جو تشدد، تعصب اور نفرت کو ہوا دے رہی ہیں—اور یہ عناصر امن کے خواب کو نوچنے والے گِدھوں کی مانند ہیں۔
یہ مسئلہ روایتی بین الاقوامی تعلقات سے بہت آگے ہے۔ یہ برصغیر کی روح میں گڑی ہوئی تاریخی پیچیدگیوں، عدم تحفظ، اور داخلی شکست خوردگی کا آئینہ ہے۔ لیکن ابھی بھی کچھ ایسی معتبر اور سنجیدہ سیاسی قوتیں باقی ہیں جو اس تاریکی میں روشنی کا چراغ جلانے کی سکت رکھتی ہیں—اگر ہم نے انہیں نظر انداز نہ کیا۔
سوال یہ ہے کیا یہ نازک جنگ بندی ایک نئی صبح کا پیش خیمہ بنے گی یا ہمارے اندر پلتے ہوئے تاریک ترین عفریت ایک بار پھر عقل، تہذیب اور انسانیت کو نگل جائیں گے؟
یہی وہ سوال ہے جس کا جواب وقت سے پہلے ہمیں خود دینا ہوگا، ورنہ وقت ہمارے لیے کوئی جواب نہیں چھوڑے گا۔

 

***

 حیرت کی بات یہ ہے کہ جنگ بندی کا اعلان نہ تو بھارت نے کیا اور نہ پاکستان نے بلکہ یہ اعلان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ ٹرمپ نے مشترکہ اعلان سے پہلے خود یہ قدم کیوں اٹھایا؟ کیا وہ دنیا کو کوئی خاص پیغام دینا چاہتے تھے؟ اصل سوال یہ ہے کہ امریکہ نے یہ کوشش پہلے کیوں نہیں کی اور کشیدگی کے آغاز میں اس کی سنگینی کو کیوں نظرانداز کیا؟ مزید یہ کہ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کو دونوں ممالک کے اختلافات کی جڑ قرار دے کر بھارت کی پالیسی کو چیلنج کیا، حالانکہ بھارت کی دیرینہ پالیسی یہ رہی کہ کشمیر پر کسی ثالثی کی ضرورت نہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025