جُوے کی لعنت تباہی کا باعث

!شیئر مارکیٹ، لاٹری اور بیٹنگ: دولت کمانے کا خواب یا بربادی کا راستہ

زعیم الدین احمد حیدرآباد

قانونی اور غیر قانونی سرمایہ کاری میں حکومتی پالیسیوں کا دہرا معیار لمحہ فکریہ
حرص و طمع آدمی کو انسانیت کے درجے سے گرا دیتی ہے۔ یہ انسانی فطرت کی وہ کمزوری ہے جو آدمی کو ہمیشہ زیادہ کی خواہش میں مبتلا کرتی ہے، چاہے اس کے پاس کتنی ہی نعمتیں کیوں نہ ہوں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو آدمی کے دل و دماغ کو سکون سے محروم کر دیتی ہے اور اسے دنیاوی مال و دولت کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ حرص و طمع آدمی کے دل سے قناعت، رحم دلی اور اللہ پر بھروسے کو ختم کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے انسان ہمیشہ بے سکونی کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔ اور یہ ایک ایسی برائی بھی ہے جو سماج میں ناانصافی، حسد اور چوری جیسے بڑے گناہوں کو جنم دیتی ہیں، جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس سے نہ صرف معاشرتی نقصان ہوتا ہے بلکہ ان برائیوں میں ملوث انسان خود بھی ذاتی نقصانات میں مبتلا ہو جاتا ہے، دوسروں کے حقوق پامال کرتا ہے اور اپنی عزت و وقار کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔
اس دوران یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ بغیر کسی صحیح معلومات کے اپنا پیسہ شئیر مارکیٹ میں انویسٹ کر رہے ہیں، نہ صرف شیئر مارکیٹ بلکہ آن لائن بیٹنگ، آن لائن لاٹری اور رمی جیسے کھیلوں میں پھنستے چلے جا رہے ہیں، کچھ دن پہلے ایک خبر نے رونگٹے کھڑے کر دیے تھے، ایک خاندان نے ٹریڈنگ میں تیس لاکھ روپے انویسٹ کیے تھے، انویسٹ شدہ جو پیسہ تھا وہ ان کا بھی نہیں تھا، بلکہ انہوں نے یہ پیسہ سود پر لیا تھا، جو شئیر خریدے تھے وہ دھڑام سے نیچے آگئے، جس کی وجہ سے ان کو تیس لاکھ کا نقصان ہوگیا، اب کرتے بھی کیا لہٰذا سارے خاندان نے خودکشی کر لی۔
میں نے ان تینوں چیزوں کو ایک زمرے میں لکھا ہے شیئر مارکیٹ میں انویسٹ، آن لائن لاٹری یا رمی اور بیٹنگ، گو کہ اس میں شیئر مارکیٹ میں انویسٹ کرنا قانونی طور پر جائز ہے، ہندوستانی قانون کے مطابق کوئی شخص شیئر مارکیٹ میں انویسٹ کر سکتا ہے لیکن باقی دو چیزیں غیر قانونی ہیں، یعنی بیٹنگ، لاٹری یا رمی، یہ قانون کے تحت ناجائز ہیں۔ غیر قانونی کام کرنے کی پاداش میں حکومت اس پر کارروائی بھی کرتی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان سب کے باوجود لوگ کیوں اس میں پھنس جاتے ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن ایک وجہ جو بظاہر نظر آتی ہے وہ ہے آسانی سے دولت حاصل کرنے کی تمنّا، بغیر محنت کے پیسہ آجانے کی خواہش ہے۔ یعنی انسان چاہتا ہے کہ دولت جمع ہو لیکن اس میں محنت نہ لگے، جلد مال دار بن جانے کی آرزو ایک ایسی تمنا ہے جو انسان کو حرص و ہوس میں مبتلا کر دیتی ہے۔
لاٹری، رمی اور ٹریڈنگ وغیرہ اسی قبیل کی چیزیں ہیں، اس میں محنت نہیں لگتی، لوگ اسی خواب میں پیسہ انویسٹ کرتے ہیں کہ انہیں دو گنا، چار گنا مال حاصل ہوجائے، راتوں رات امیر بننے کی حرص میں وہ اپنا پیسہ لگاتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جو محنت سے کمانا چاہتے ہیں انہیں مواقع بھی محدود ہیں، محنت زیادہ اور کمائی کم ہو رہی ہے، اگر کوئی اچھا کمانا چاہتا ہے، ایک نیا اسٹارٹ اپ لگانا چاہتا ہے تو اس کے لیے مواقع کم ہیں، اس کا اسٹارٹ اپ مستحکم ہونے کا اسے یقین نہیں ہے، سوشل سیکورٹی اسے نہیں مل پا رہی ہے، سو سے زائد اسٹارٹ اپ شروع ہو رہے ہیں تو ان میں سے آٹھ، دس ہی چل پا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جلد حاصل ہونے والے پیسوں یعنی کوئیک منی کی طرف لوگ بھاگ رہے ہیں، یہ صورت حال باضابطہ کلچر کا رخ اختیار کر چکی ہے۔
دوسری بات یہ کہ لاٹری، رمی اور ٹریڈنگ میں لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر داخل ہوتے ہیں، ایک اس میں داخل ہوگیا تو دوسرے اس کو دیکھتا ہے، اس سے معلومات حاصل کرتا ہے، اس کے فوائد گنواتا ہے، جب کہ اسے خود اس سے فائدہ نہیں ہوتا، لیکن شیخی بگھارتا ہے کہ اسے بہت فائدہ ہوا۔ کم علمی یا بھولے پن میں آکر لوگ اس جال میں پھنس جاتے ہیں، وہ داخل اسی لیے ہوتے ہیں کہ انہیں جلد پیسے حاصل ہو جائیں، جو کوئی اس جال میں پھنس جاتا ہے اس سے باہر نکلنے کی اسے کوئی سبیل نظر آتی، جاتا تو اپنی مرضی سے ہے لیکن وہاں سے نکلنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ جس حرص و طمع میں وہ مبتلا ہو جاتا ہے وہی حرص اسے وہاں سے نکلنے نہیں دیتی۔
تیسری بات یہ کہ جو کوئی محنت سے کمانا چاہتا ہے اسے اس کی محنت کے مطابق پھل نہیں مل پا رہا ہے، حکومتی پالیسیاں بھی اس کے مواقف نہیں ہوتیں، انسان محنت کرے اور حکومت کا پیٹ بھرے۔ ایک اور نکتہ بھی ہے وہ یہ ہے کہ جو غیر قانونی طور پر کماتا ہے، یعنی لاٹری رمی وغیرہ سے ایسے شخص سے حکومتی کارندوں کا برتاؤ الگ ہوتا ہے، کیوں کہ ان کو ایسے افراد سے ہی ملائی ملتی ہے، ان کی اوپر کی آمدنی کا یہی تو ذریعہ ہوتے ہیں، رہے وہ لوگ جو ایمان داری سے کمائی کرتے ہیں ان پر سختی سے قوانین کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ حکومت دانستہ طور پر ایسی پالیسیاں بنا رہی ہے کہ لوگ اپنی بچت کو اسٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کریں، یعنی اسمال سیونگس نہ کریں اسٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کریں، اڈانی، امبانی کی کمپنیوں میں انویسٹ کریں، یہی وجہ ہے کہ سیونگس پر ریٹرنس گھٹائے جا رہے ہیں تاکہ لوگ اس میں دل چسپی نہ لیں۔ لوگ انٹراڈے ٹریڈنگ میں دلچسپی دکھا رہے ہیں، ان کی آنکھوں کے سامنے شیئرس بڑھتے ہیں، گھٹتے ہیں، اکثر ان میں سے کئی لوگوں کو اسٹاک مارکیٹ کا کھیل سمجھ میں ہی نہیں آتا، لیکن چوں کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے سارا کھیل دیکھتے رہتے ہیں اسی لیے وہ اس میں انویسٹ کرتے ہیں، دراصل اسٹاک ایکسچینج قیاس آرائیوں کا کھیل ہے، یہ بھی ایک قسم کا جُوا ہی ہے، لانگ ٹرم انویسٹمنٹ نہیں کرتے، کمپنی کی پالیسیاں کیا ہیں اور کیسا اس کا پرفارمینس ہے؟ ان باتوں پر کون غور کرتا ہے، ڈے ٹو ڈے ٹریڈنگ میں نتیجہ اسی وقت مل جاتا ہے، اسی لیے لوگ ٹریڈنگ میں دل چسپی دکھاتے ہیں، یہ بھی ایک قسم کا نشہ ہے، اڈیکشن ہے۔
لہٰذا یہ سارا کھیل اسپیکولیشن کا ہے، قیاس آرائیوں کا کھیل ہے، جو کوئی چیز قیاس آرائیوں پر منحصر ہوتی ہے، اس میں نقصان کا امکان بھی اتنا ہی ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہوتیں، اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ لاٹری کا جو کھیل ہے وہ قیاس پر مبنی ہے، اس میں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہونے والا ہے، ایک بار پیسے آتے ہیں، دوسری بار نہیں آتے، یہ چکر چلتا رہتا ہے، اس سے انسان نکل ہی نہیں پاتا۔
یاد رہے کہ حرص و طمع وہ بیماری ہے جو انسان کو اپنے نفس کا غلام بنا دیتی ہے اور اللہ کی رضا سے دور کر دیتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے قناعت، صبر اور شکر جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا کریں۔ دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات انہی لوگوں کا مقدر ہے جو اللہ پر بھروسا کرتے ہیں اور حرص و طمع سے دور رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "حقیقی دولت دل کی قناعت ہے۔” (صحیح بخاری، حدیث 6446) اس سے بچنے کے لیے انسان کو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر راضی رہنا اور شکر ادا کرنا چاہیے جو کہ اس کا بہترین علاج ہے۔
***

 

***

 حرص و طمع وہ بیماری ہے جو انسان کو اپنے نفس کا غلام بنا دیتی ہے اور اللہ کی رضا سے دور کر دیتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے قناعت، صبر اور شکر جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا کریں۔ دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات انہی لوگوں کا مقدر ہے جو اللہ پر بھروسا کرتے ہیں اور حرص و طمع سے دور رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "حقیقی دولت دل کی قناعت ہے۔” (صحیح بخاری، حدیث 6446) اس اسے بچنے کے لیے انسان کو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر راضی رہنا اور شکر ادا کرنا چاہیے جو کہ اس کا بہترین علاج ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024