دو برسوں کی لمبی لڑائی کے بعد جیل سے رہا ہوئے صدیق کپن
صدیق کپن کے ساتھ دیگر تین افراد کو 2020 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ یوپی کے ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی عصمت دری واقعے کی خبر کی کوریج کے لئے جا رہے تھے
نئی دہلی،02فروری:۔
کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن آج بالآخر دو برسوں کی لمبی لڑائی اور جدو جہد کے بعد جیل سے رہا ہو گئے ۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایک دن پہلے، لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت نے ان کے خلاف دو مقدمات میں ضمانت ملنے کے ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد ان کی رہائی کے حکم پر دستخط کیے تھے۔جس کے بعد ان کی رہائی کا راستہ صاف ہوا تھا اور آج صبح وہ جیل سے باہر آئے۔ صحافی صدیق کپن نے جیل سے رہائی کے بعد کہا کہ میں 28 ماہ بعد جیل سے باہر آیا ہوں۔ میری حمایت کرتے پر میں میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ میں اب باہر آنے پر خوش ہوں۔
واضح رہے کہ صدیق کپن کے بدھ کی شام کو جیل سے باہر نکلنے کی توقع تھی لیکن انہیں رہا نہیں کیا جا سکا کیونکہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کی خصوصی عدالت کے جج بار کونسل کے انتخابات میں مصروف تھے۔
قابل ذکر ہے کہ کپن کو 5 اکتوبر 2020 کو تین دیگر افراد کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ہاتھرس جا رہے تھے، جہاں 14 ستمبر 2020 کو ایک دلت خاتون کو چار اونچی ذات کے ٹھاکر وں نے اجتماعی عصمت دری کے بعد قتل کر دیا تھا۔پولیس نے پہلے کپن پر ذات پات کی بنیاد پر فساد شروع کرنے اور فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد غداری کے الزامات اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں۔فروری 2021 میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ کے تحت ان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ مرکزی ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ کپن اور تین دیگر لوگوں نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے ’’فسادات بھڑکانے‘‘ کے لیے رقم وصول کی تھی۔
9 ستمبر کو سپریم کورٹ نے یو اے پی اے کیس میں کپن کو ضمانت دی تھی، جب کہ 23 دسمبر کو الہ آباد ہائی کورٹ نے انھیں منی لانڈرنگ کیس میں بھی ضمانت دے دی تھی۔ تاہم اس کے بعد سے ایک ماہ سے زائد عرصے تک کپن انتظامیہ کی جانب سے تاخیر کی وجہ سے مسلسل جیل میں ہیں۔اور آج تمام کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد جیل سے باہر آئے ۔