جوش انتقام میں اندھی شیخ حسینہ کے اقتدار کا سورج غروب

طاقت کی علامت سمجھے جانے والے ’’پرنگو بھون ‘‘ پر مظاہرین کا پرچم مقام عبرت

ڈھاکہ (دعوت انٹرنیشنل نیوز بیورو)

بھارت کے لیے اب اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا لازمی۔ جمہوری بنیادوں پر تعلقات استوار ہوںتزکیہ کا ذریعہ بن جائے
پچھلے ایک مہینے سے بنگلہ دیش میں جاری خلفشار اور خونی تشدد کے بعد آخر کار شیخ حسینہ اپنے انجام کار کو پہنچ چکی ہیں یعنی وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے کر 5 اگست2024 کو دوپہر کے وقت فوجی طیارے C-130J کے ذریعہ بنگلہ دیش چھوڑکرجاچکیں اور بھارت میں ان کا طیارہ دہلی کے مضافات میں غازی آباد کے ہندون ایئر بیس پر اترا۔ جہاں آئی اے ایف کے حکام نے ان کااستقبال کیا۔
بنگلہ دیش کاپرنگو بھون جہاں سیکورٹی کے انتظامات اس قدر سخت تھے کہ پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں تھی مگر اب اس بھون پر مظاہرین اپنا جھنڈا لہرا چکے ہیں ۔حسینہ کی عوامی لیگ کے ڈنڈا بردار طلبا لیڈران جو ایک دن قبل جوش انتقام میں اس قدر اندھے ہوچکے تھے کہ انہوں نے چشم زدن میں 100 مظاہرین کو ہلاکت کی طرف ڈھکیل دیا ۔بنگلہ دیش کے مشہور اخبار ’’ڈیلی اسٹار ‘‘ کی رپور ٹ کے مطابق سنیچر کو طلبا کا احتجاج پرامن تھا۔حکومت نے مذاکرات کی پیش کش کی تو طلبا تنظیموں نے مثبت جواب دیا مگراتوار کو اچانک عوامی لیگ کے غنڈے لاٹھی، بندوق اور اسلحے سے لیس ہوکر مظاہرین پر حملہ کربیٹھے ۔ بتا دیں کہ شیخ حسینہ کا پندرہ سالہ طویل اقتدار انتقام کی سیاست سے عبارت رہا ہے، حسینہ کی پوری توجہ اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے پر مرکوز رہی۔ جماعت اسلامی اس کے خاص نشانے پر تھی۔پہلے جماعت اسلامی کے بزرگ قائدین کو عدالتی دھاندلی کے ذریعہ تختہ دار تک پہنچایا گیا اور اس کے بعد جماعت اسلامی اور اس کی طلبا تنظیم پر پابند ی عائد کردی گئی۔ سپریم کورٹ اور طویل عدالتی جدوجہد کے بعد جماعت اسلامی کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت مل تو گئی مگر انتخابی عمل میں حصہ لینے پر پابندی جاری رہی۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبائی تحریک کے لیے جماعت اسلامی اور اس کی طلبا تنظیم کو ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے گزشتہ ہفتے ان پر مکمل پابندی عائد کردی گئی تھی۔ حسینہ واجد نے گزشتہ پندرہ برسوں میں بات چیت کے تمام دروازے بند کر دیے تھے۔ وہ خود کو بنگلہ دیش کی ایک جمہوری لیڈر بننے کے بجائے ڈکٹیٹر کے طور پر منوانے میں زیادہ دلچسپی لیتی تھیں۔ چنانچہ وہ گزشتہ تین انتخابات اپوزیشن کی غیر موجودگی میں کامیابی حاصل کرتی رہیں۔ حسینہ اس کو اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھتی تھیں مگر دنیا باخبر کر رہی تھی کہ بنگلہ دیش کی معیشت سے متعلق بھلے ہی بڑے بڑے دعوے کیے جا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بے روزگاری اور دیہی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے عوام میں بڑی ناراضگی پائی جاتی ہے۔ کوٹہ سسٹم نے بنگلہ دیش میں اشرافیہ کا ایک ایسا طبقہ پیدا کر دیا تھا جو ملک کے تمام نظام پر حاوی ہوگیا تھا۔
جولائی کے وسط میں جب کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبا احتجاج کر رہے تھے اس وقت حسینہ واجد کا رویہ انتہائی شرمناک ہو گیا تھا۔ وہ طلبا کے ساتھ ہمدردی کرنے کے بجائے انہیں غدار ثابت کرنے میں مصروف رہیں۔انہوں نے عوام سے یہ اشتعال انگیز سوال پوچھا کہ مجاہدین آزادی کے خاندان والوں کو نوکری نہیں ملے گی تو کیا غداروں کے خاندان والوں کو ملے گی؟ اسی طرح سے وزیر داخلہ بنگلہ دیش بھی اپنی پارٹی ورکروں اور غنڈوں کو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اکساتے نظر آئے۔
سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا مستقبل اب کیا ہو گا؟ اگرچہ بنگلہ دیش نے چند شعبوں میں ترقی کی ہے اور حسینہ واجد کے زوال کے بعد فوج نے عارضی حکومت کی تشکیل کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس کے لیے عوامی لیگ کو چھوڑ کر اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور سیول سوسائٹی کو بات چیت کی دعوت دی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ پیش رفت اچھی ہے۔ مگر عوامی لیگ کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا بھی شاید مناسب نہیں ہے کیوں کہ گزشتہ پندرہ سالہ دور اقتدار میں عوامی لیگ کے حامی تمام شعبوں میں داخل ہوچکے ہیں اس لیے جمہوریت کے عمل میں عوامی لیگ کے ایسے عناصر کو شامل کیا جانا چاہیے جو اس نظام کا حصہ نہیں تھے۔ اگرچہ آرمی چیف وقار الزماں نے نئی حکومت کی تشکیل میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو بات چیت کے عمل میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے مگر تادم تحریر یہ واضح نہیں ہوا کہ اس عمل میں جماعت اسلامی شامل ہوگی یا نہیں۔ کیوں کہ حال ہی میں شیخ حسینہ نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کردی تھی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی ایک اہم حقیقت ہے۔ فلاحی و ترقیاتی کاموں میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔ اگر آرمی چیف بنگلہ دیش میں استحکام اور سیاسی بہتری کے خواہاں ہیں تو انہیں جماعت اسلامی کو اس عمل میں ضرور شامل کرنا ہو گا۔
بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال بھارت کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔ حسینہ واجد بھارت نواز کے طور پر متعارف تھیں۔ بنگلہ دیش کے عوام حسینہ کی زیادتیوں کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھیراتے رہے ہیں۔ جنوری میں شیخ حسینہ کے چوتھی مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کے بائیکاٹ کی اپیلیں سوشل میڈیا پر گونجتی ہوئی نظر آئیں۔دراصل بھارت سے حسینہ واجد کی ناراضگی کا اس میں بڑا دخل تھا۔ اب جب کہ وہ زوال کا شکار ہوچکی ہیں تو بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی از سرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت کی پشت پناہی کے بجائے بنگلہ دیش کے جمہوری عمل میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔
بنگلہ دیش، بھارت سے مکمل قطع تعلق کرکے ترقی کی راہ پر گامزن نہیں رہ سکتا ہے۔اس حقیقت کا ادارک بنگلہ دیش کی تمام سیاسی جماعتوں کو کرنا ہو گا۔ اگر بنگلہ دیش کو شیخ حسینہ سے عداوت میں بھارت مخالف مہم کا حصہ بن کر چین کے گود میں دھکیل دیا جاتا ہے تو اس کا نقصان بھارت سے زیادہ بنگلہ دیش کو ہی ہو گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024