جوہری کشیدگی کی واپسی

ایران اور امریکہ ایک بار پھر آمنے سامنے

0

واشنگٹن : (دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)

ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری تنازع ایک بار پھر شدت اختیار کر چکا ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے تہران کے خلاف سخت مؤقف اپناتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ نئی ڈیل کی کوئی گنجائش یورینیم افزودگی کے مکمل خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔
صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی برائے ایران، اسٹیو وٹکاف نے اپنے تازہ بیان میں کہا: "ہم ایران کو ایک فیصد بھی یورینیم افزودگی کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ ہماری واضح سرخ لکیر ہے اور اگر کوئی معاہدہ ہوگا تو اسی شرط پر ہوگا۔”
ایران نے اس مؤقف کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ناممکن شرائط لگا کر مذاکرات کے دروازے خود بند کر رہا ہے۔ تہران کے مطابق یورینیم افزودگی ایک ایسا حق ہے جس سے دستبردار ہونا ممکن نہیں، نہ ہی کوئی باوقار قوم ایسی پابندی قبول کرے گی۔
ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے:”یورینیم افزودگی نہ صرف ہمارا حق ہے بلکہ اس کا روکنا ممکن بھی نہیں۔ اسٹیو وٹکاف جیسے افراد نہ حقیقت سے باخبر ہیں اور نہ ہی سفارت کاری کی روح کو سمجھتے ہیں۔ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ معاہدہ ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں ایران یورینیم کی افزودگی جاری رکھے گا، امریکہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہونے کی یقین دہانی چاہتا ہے۔
ایرانی حکام کے مطابق امریکہ کی جانب سے مسلسل غیر حقیقی مطالبات ہی ماضی کی طرح اب بھی مذاکرات میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
یاد رہے کہ 2015 میں طے پانے والا JCPOA معاہدہ، جو صدر اوباما کے دور میں عمل میں آیا تھا، ایران کو افزودگی محدود رکھنے کے عوض پابندیوں میں نرمی فراہم کرتا تھا۔ تاہم 2018 میں صدر ٹرمپ نے اسے یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا، جس کے بعد ایران نے دوبارہ یورینیم کی افزودگی شروع کر دی — اور اب یہ 60 فیصد تک جا پہنچی ہے جو کہ کسی بھی معاہدے سے خاصی متصادم حد ہے۔
یہ نئی کشیدگی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مشرق وسطیٰ پہلے ہی اسرائیل، یمن اور لبنان کی سرزمین پر بکھری جھڑپوں سے بے حال ہے۔ خطے میں طاقت کا توازن ایک بار پھر نازک دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ موجودہ امریکی قیادت طاقت کے زور پر ایران کو روکے رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، جب کہ ایران اسے اپنی خود مختاری کا سوال سمجھتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی روابط مفلوج ہو چکے ہیں اور فی الحال کسی بڑی پیش رفت کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ:
کیا یہ کشیدگی کسی نئے تصادم کا پیش خیمہ ہے؟ یا پھر صرف دباؤ بڑھا کر مذاکرات کی میز پر برتری حاصل کرنے کی کوشش؟
جو بھی ہو، آنے والے دن نہ صرف امریکہ اور ایران بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025