!جو کام مودی حکومت میں نہیں ہوا وہ این ڈی اے دور میں ہوگیا

آر ایس ایس پر سرکار کی نظرِ التفات۔ اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ بڑھنے کا خدشہ

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

بیوروکریسی پر ہندتو نظریات مسلط کرنے کی منظم کوشش،مستقبل میں خطرناک نتائج کا اندیشہ
بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے اپنی تیسری میعاد کے آغاز کے ساتھ ہی سنگھ پریوار کو خوش رکھنے کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ 9 جولائی 2024 کو مرکزی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کو راشٹریہ سیوک سنگھ( آر ایس ایس )کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔ واضح رہے کہ نومبر 1966 سے سرکاری ملازمین کے آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ اب حکومت نے 58 سالہ اس پابندی کو ختم کر دیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ دور رس نتائج کا حامل رہے گااور اہم عہدوں پر فائز افراد حکومت کی خوشنودی کی خاطر آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں نہ صرف خود حصہ لیں گے بلکہ ان نظریات کو اپنے ماتحت ملازمین پر بھی لاگو کریں گے۔ حکومت کے اس قدام سے سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ملازمین پر ایک نفسیاتی دباؤ بھی رہے گا۔ وہ ملازمین جو آر ایس ایس کے نظریات کے حامی نہیں ہوں گے ان کے لیے ملازمت کرنا دشوار ہوجائے گا۔ ہندوستان جیسے جمہوری اور سیکولر ملک میں سرکاری ملازمین کو کسی متنازعہ تنظیم کی سرگرمیوں میں شریک ہونے کی اجازت دینا آئین کے خلاف ہے۔ حکومت کا یہ اقدام سرکاری دفاتر کے ملازمین کو نظریات کی بنیاد پر تقسیم کر دے گا اور عام لوگ اس سے متاثر ہوں گے۔ آرایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کسی ایک طبقہ کے تعلق سے نفرت اور تعصب کا جوزہر دل و دماغ میں بیٹھ جائے گا اس کی وجہ سے سرکاری ملازم اس طبقہ کے لوگوں کے ساتھ انصاف بھی نہیں کرسکے گا۔ سرکاری دفاتر میں ملازمین غیرجانبداری اور قانون کے مطابق کام کرنے کے بجائے اپنے مخصوص نظریات کے مطابق کام کرنے کے عادی بن جائیں گے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے سرکاری ملازمین پر آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پابندی ختم کر کے ہندوستان کو ایک ہندو راشٹرمیں بدلنے کا کام کیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلہ کے بعد چالیس لاکھ مرکزی ملازمین اور ایک کروڑ سے زیادہ سرکاری ملازمین آر ایس ایس میں شامل ہوکر اس کے نظریات کو عام کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے بی جے پی کو کتنا سیاسی فائدہ ہوگا۔ اب آئین کا حلف اٹھانے والی بیوروکریسی آئین مخالف سرگرمیوں کا حصہ بنے گی۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ آر ایس ایس ہندوستان کے آئین کو نہیں مانتی ۔ ناگپور میں واقع اس کے ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم نہیں لہرایا جاتا ہے۔ ایسی تنظیم جو اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتی ہے اور جو انسانی سماج کے تقسیم کے نظریہ پر ایقان رکھتی ہو اس کی سرگرمیوں میں سرکاری ملازمین کو شامل ہونے کی اجازت دینا ملک میں انتشار پسند قوتوں کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران اور مابعد آزادی آر ایس ایس کا جو رول رہا وہ خود انتہائی قابل اعتراض رہا۔ تحریک آزادی کی جدوجہد کے دوران آر ایس ایس کے قائدین انگریزوں کو معافی نامے لکھ کر جیلوں سے رہا ہوئے اور انگریزوں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ کبھی ان کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے اور نہ تحریک آزادی میں حصہ لیں گے۔ آزادی کے بعد بھی آر ایس ایس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ اس تنظیم نے مخالف آئین راستہ اختیار کیا اورگاندھی جی کے قتل کی سازش میں آ رایس ایس کے ملوث ہونے کے سارے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔
سنگھ پریوار اور بی جے پی کی درمیان شروع سے ہی ایک اٹوٹ رشتہ رہا ہے۔ آر ایس ایس ہندتوپرمبنی ایک نظریاتی تنظیم مانی جاتی ہے ۔ جب کہ بی جے پی سنگھ پریوار کا سیاسی بازو کہلاتا ہے۔ سنگھ اپنی ساری سیاسی سرگرمیاں بی جے پی کے ذریعہ ہی انجام دیتا ہے۔ حالیہ لوک سبھا الیکشن سے پہلے آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان دوریاں بڑھتی دیکھی گئیں۔ معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے کہہ دیا کہ اب بی جے پی کو آر ایس ایس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ان کے اس بیان کے بعد آر ایس ایس کی ترجمانی کرنے والے اخبار اور جرائد میں بی جے پی کی پالیسیوں پر کھلے عام تنقید کی جانے لگی۔ اسی دوران آر ایس ایس کے سرسنچالک موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر ہلچل مچادی کہ لوگ اپنے آپ کو بھگوان سمجھنے لگے ہیں۔ یہ غرور و تکبر کی علامت ہے۔ ان کا یہ اشارہ وزیراعظم نریندرمودی کی طرف تھا جنہیں ان کے اندھ بھکتوں نے اوتار کاروپ دے دیا تھا۔ اسی آپسی چپقلش کے نتیجہ میں سنگھ کی ان دو اہم تنظیموں کے درمیان سرد مہری دیکھی جانے لگی۔ (یہ بات قطعی طور پر کہنا مشکل ہے کہ یہ واقعی نظریات کا کوئی ٹکراؤ ہے یا پھر نورا کشتی ہے) وزیراعظم نریندرمودی نے اس سرد جنگ کو ختم کرنے اور سنگھ پریوار کی خوشنودی حاصل کرنے کےلیے سرکاری ملازمین پر آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر عائد پابندی ختم کردی۔ وزیر اعظم کے اس غیر متوقع اعلان سے آر ایس ایس-بی جے پی میں جاری تلخیاں ختم ہوگئیں اور دونوں میں پھر سے خوشگوار تعلقات قائم ہوگئے۔ ملک کے قومی مفاد کے تناظر میں مرکزی حکومت کے اس فیصلہ کو دیکھاجائے تو یہ کہنے میں کسی کو کوئی تردّد نہ ہوگا کہ حکومت کا یہ اقدام ملک کے جمہوری نظام، اس کی سالمیت، یکجہتی اور ملک کے تکثیری سماج کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ مستقبل میں سرکاری ملازم کو دستور ہند کا حلف لینے کے بجائے اسے یہ حلف لینا پڑے گا کہ وہ ہندتوکے اصولوں پر عمل کرے گا اور کسی بھی حال میں ان اصولوں کے خلاف نہیں جائے گا۔ آئین ہند کی بالادستی اور قانون کی حکم رانی کا کوئی تصور باقی نہیں رہے گا۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران سرکاری مشنری کو چھپے انداز میں آر ایس ایس کے نظریات کے پرچار کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اب کھلے عام ایک نیم عسکری تنظیم کے نظریات کو حکومت کے کارندوں کے ذریعہ عام کیا جائے گا۔ ایک ایسی تنظیم جو نازی ازم کی علم بردار ہے اس کی سرگرمیوں میں سرکاری ملازمین کی شرکت کس طرح ملک کے مفاد میں بہتر ہو سکتی ہے؟ آر ایس ایس کی غیر قانونی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ہی ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی عائد کردی تھی۔ بعد میں چند شرائط کی تکمیل کے بعد یہ پابندی ہٹائی گئی۔ جب پھر سے آر ایس ایس نے ملک میں بدامنی پھیلانی شروع کر دی تو اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے 1966 میں سرکاری ملازمین پر آر ایس ایس میں شامل ہونے پر سخت پابندی عائد کر دی۔ جب اب تک یہ پابندی بر قرار رہی۔ وزیر اعظم نریندر مودی، سردار پٹیل کو اپنا سیاسی گرو مانتے ہیں۔ انہیں دیکھنا چاہیے کہ کن بنیادوں پر 1948 میں آر ایس ایس پر ملک کی آزادی کے فوری بعد پابندی لگادی گئی تھی۔ اندرا گاندھی نے سرکاری ملازمین پر آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر جوپابندی عائد کی تھی اسے اٹل بہاری واجپائی کے دور میں بھی باقی رکھا گیا۔ جب کہ واجپائی خود آر ایس ایس کے پروردہ تھے اور مرکز میں بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت تھی۔ایمرجنسی کے بعدجنتاپارٹی کی جو حکومت بنی تھی اس میں جن سنگھ حکومت میں شامل تھی لیکن اس کے باوجود سرکاری ملازمین کو آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی ۔ اب آخر کن بنیادوں پر یہ پابندی ختم کر دی گئی؟
2024 کے آتے آتے آر ایس ایس نے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا کہ مرکزی حکومت نے ایک اہم لیکن متنازعہ فیصلہ کرتے ہوئے سرکاری ملازمین پرآر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی گزشتہ 58 سال سے عائد پابندی ختم کردی۔ حکومت اور بالخصوص وزیر اعظم کا یہ فیصلہ صرف اور صرف آر ایس ایس کو خوش کرنے کی پالیسی ہے تاکہ بی جے پی اور آر ایس ایس میں جو دراڑ پڑ گئی ہے اسے دور کیاجاسکے۔ حکومت کے اس ناعاقبت اندیش اقدام کے اثرات اب ہر جگہ دیکھے جائیں گے۔ اس کی ایک جھلک سرکاری نشریاتی ادارے دوردرشن میں دیکھی گئی۔ ملک کی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ این ڈی اے دور حکومت میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی دسہرہ کے موقع پر کی گئی تقریر کو راست نشر کیا گیا۔ مہاراشٹرا کے ناگپور سے ایک گھنٹہ طویل خطاب کو لائیو ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ جب اپوزیشن پارٹیوں نے اس پر اعتراض کیا تو عہدیداروں نے کہا کہ یہ ایک نیوز پروگرام تھا۔ دوردرشن کی 2014 سے پہلے کی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ ایک متنازعہ تنظیم کے صدر کی تقریر اس انداز میں نشر کی گئی ہو۔ اب سرکاری ملازمین آر ایس ایس کے پروگراموں میں شرکت کریں گے تو سوچیے کہ حکومتی مشنری کا کس طرح آر ایس ایس کے پرچار کے لیے استعمال کیاجائے گا۔ جس تنظیم نے اپنے ہیڈکوارٹر پر ترنگا نہیں لہرایا اسے اب حکومت کی سرپرستی حاصل ہو رہی ہے۔ حکومت کے کروڑہا روپیے اب آر ایس ایس کی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں صرف کیے جائیں گے۔ حکومت کے ہر شعبہ پر اس کامنفی اثر پڑے گا۔ خاص طور پر تعلیم کے شعبہ میں اور زیادہ زہر بھرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ابھی آر ایس ایس کے ششومندر اسکول لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ انہیں حکومتی امداد دے کر اور مستحکم کیا جائے گا۔ نئی تعلیمی پالیسی میں جن متنازعہ موضوعات کو شامل کیا گیا ہے اس پر عمل آوری شروع ہوجائے گی۔ اولیائے طلباء کمیٹی کے نام پر آبادیوں میں موجود آر ایس ایس کے والینٹرس کو اس میں شامل کرکے ٹیچرس اور طلباء کو مجبور کیاجائے گا کہ وہ آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ اس میں شاکھاؤں میں شرکت بھی لازمی ہوگی۔ محکمہ پولیس میں ایسے افراد کی بھرتی ہوگی جو فرقہ پرست ذہن رکھتے ہوں۔ ان کو اقلیتوں کے ہراساں کرنے کے معاملے میں کھلی چھوٹ دی جائے گی۔ اس وقت یوپی، مدھیہ پردیش، آسام اور دیگر بی جے پی ریاستوں میں پولیس کا جو معاندانہ رویہ مسلمانوں کے ساتھ ہے وہ اور بڑھ جائے گا۔ عدلیہ کو حکومت کے اس فیصلہ کے ذریعہ آلودہ کر دیا گیا۔ جج صاحبان بھی حکومت کے اشاروں پر کام کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ غریب اور مظلوم کے لیے انصاف کی فراہمی ایک خواب بن جائے گی۔ افسوس کہ حکومت نے ان سارے بھیانک پہلوؤں کو دانستہ طور پر نظر انداز کرکے سرکاری ملازمین کو آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔
حکومت نے اپنے اس غیر دانشمندانہ اقدام کے ذریعہ اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو خوف اور دہشت میں مبتلا کر دیا ہے۔ آر ایس ایس مسلمانوں سے ازلی دشمنی رکھتی ہے۔ آر ایس ایس نے بارہا اس بات کا اعلان کیا ہے کہ اقلیتیں یہ سمجھیں کہ ان کا حقیقی تحفظ، اکثریت کی خوشنودی حاصل کرنے میں ہے۔ یعنی اس ملک کی اقلیتوں کا تحفظ ملک کے دستور کے تحت نہیں ہوگا بلکہ یہ اکثریت کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کرتی ہے۔ آر ایس ایس کا یہ دعویٰ ہے کہ اقلیتوں کو اقلیت رہتے ہوئے اکثریت کے وفادار بن کر ملک میں رہنا ہوگا۔ آر ایس ایس کے ان دعوؤں کے پس منظر میں حکومت کے اس فیصلہ کو دیکھا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومت اب ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اپنی ساری قوت استعمال کرے گی تا کہ نفرت کی فضاء پیدا کرکے سیاسی روٹیاں سینکی جاسکیں۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024