جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
پارلیمنٹ پر حملہ کے 22سال بعد سیکوریٹی میں کوتاہی کا سنگین واقعہ
ڈاکٹر سلیم خان
‘‘اگر کوئی مسلمان یا سِکھ ہوتا تو نہ جانےکیا ہوجاتا؟’’
وزیراعظم کی پانچ دن بعد لب کشائی۔ ایوان پارلیمان میں جوابدہی سے گریز!
13؍ دسمبر کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک غیر معمولی احتجاج ہوا۔ یہ غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ 22؍ سال قبل اس دن اسی طرح کا ایک حملہ ہو چکا تھا۔ امسال ذرائع ابلاغ میں یہ خبر بھی آئی تھی کہ خالصتان نواز امریکی شہری گرُپتونت سنگھ بھی پارلیمنٹ پر حملے کی دھمکی دے چکا ہے۔ اس لیے سیکیورٹی فورسس کو چوکنا رہنا چاہیے تھا لیکن چونکہ حکومت کی ساری توجہ 2024 کے انتخاب پر مرکوز ہے تو وہ بھی اپنے فرضِ منصبی سے غافل ہوگئے۔ قومی انتخاب میں کامیابی کے لیے پہلے تو ریاستی الیکشن میں جیت درج کرانے کے لیے وزیر اعظم اور اور وزیر داخلہ نے اپنے آپ کو جھونک دیا۔ وہاں میدان مار لینے کے بعد وزرائے اعلیٰ کا تقرر اور ان کی حلف برداری کی تقریبات میں شریک ہونے کی تگ و دو ہونے لگی۔ اس دوران وہ لوگ بھول گئے کہ پارلیمنٹ کا آخری اجلاس چل رہا ہے۔ سرکار کی اس بے حسی کے خلاف چند نوجوانوں نے پارلیمنٹ پر ایک ایسا احتجاج کر دیا جو حکومت کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ اس بے ضرر حملے سے سرکار ایسی حواس باختہ ہوئی کہ خود ساختہ وشو گرو کو اظہار خیال کرنے میں پانچ دن کا وقت لگ گیا۔ اس طرح کے سنگین مسئلہ پر یہ طویل تاخیر مجرمانہ ہے۔
اس سنگین معاملے میں چھپن انچ کی چھاتی والے وزیر اعظم نریندر مودی نے طویل پراسرار خاموشی کے بعد یعنی چار دن ضائع کرنے کے بعد کسی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ حزب اختلاف ان سے ایوان میں آکر بیان دینے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ تقریباً دس سال دلی میں حکم رانی اور اس سے قبل بارہ سالوں تک گجرات میں سرکار چلانے کے باوجود نریندر مودی کے دل سے پریس کانفرنس اور ایوان میں بیان دینے کا خوف نہیں نکل پایا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ دن بعد پارلیمنٹ کی سیکیورٹی میں کوتاہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات ضروری ہیں اور ساتھ ہی اس کی گہرائی میں جانا بھی ضروری ہے۔ یہ کون سی خاص بات ہے جو انہوں نے کہی۔ پولیس تو یہ کام کرہی رہی ہے۔ اور اب تک سات لوگوں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے اس واقعے کو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک بتاتے ہوئے اس پر بحث یا مزاحمت کی حوصلہ شکنی کی۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسے اہم مسئلہ پر بھی گفتگو نہ ہو تو کیا وہ مقبوضہ کشمیر پر لمبی چوڑی تقریر کرنے کی مسند ہے؟ یا پنڈت نہرو کو کوسنے کی نجی محفل ہے۔
پی ایم مودی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اس واقعہ کی سنگینی کو کم نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اسپیکر اوم برلا اس معاملے کو سنجیدگی سے لے کر تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔ یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر ایوان کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے؟ اسپیکر کی یا وزیر داخلہ کی؟ وزیر اعظم کے مطابق جانچ ایجنسیاں اس معاملے کی سختی سے تفتیش کر رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اداروں کا سربراہ یعنی وزیر داخلہ کیا کر رہا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ ایوان میں بلند بانگ دعووں اور انتخابی مہم سے فرصت ملے تو وہ اپنے فرضِ منصبی کی جانب متوجہ ہو۔ہندوستان کی تاریخ کا یہ منفرد مظاہرہ تھا۔ اس کو انجام دینے والوں نے کمال احتیاط سے کام لیتے ہوئے نہ صرف اقلیتی فرقوں کو دور رکھا بلکہ ایک بی جے پی رکن پارلیمنٹ کی مدد سے پاس بنوایا تاکہ زعفرانیوں کو اسے فرقہ پرستی کا رنگ دینے میں کوئی آسانی نہ ہو۔ اس کے باوجود کوئی ڈھٹائی سے یہ کہنے پر تل جائے کہ مہوا موئترا نے انتقام لینے کے لیے حملہ آوروں کو بھیجا ہے تو اس کی زبان کون پکڑ سکتا ہے؟
ہندتو نوازوں کو افسوس ہے کہ اسے دہشت گردانہ حملہ کیوں نہیں کہا جا رہا ہے؟ اس مظاہرے میں اگر کوئی مسلمان یا سکھ ملوث ہوتا یا کم از کم مظاہرین کو اجازت نامہ دلوانے میں کسی حزب اختلاف کے رکن پارلیمنٹ کا تعاون شامل ہوتا تب بھی دہشت گردی کا زاویہ نکالا جاسکتا تھا مگر شومئی قسمت سے ایسا نہیں ہوسکا۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران 13؍ دسمبر کو جب دو نوجوان وزیٹر گیلری سے ایوان میں کودے تھے تو افرا تفری کا ماحول پیدا ہو گیا کیونکہ ان کے ذریعہ ’اسموک بم‘ کا استعمال کرنے سے پیلا دھواں پھیل گیا تھا۔ ایسے میں ہندو راشٹر کے لیے جان دینے کی دہائی دینے والے کچھ لوگ تو بنچ کے نیچے چھپ گئے اور کچھ باہر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مشکل کی اس گھڑی میں کانگریس رکن پارلیمان گرجیت سنگھ اوجلا نے ہمت دکھا کر ایک حملہ آور کے ہاتھ سے اسموک بم چھین لیا۔ اس کے بعد دیگر اراکین پارلیمنٹ نے مل کر ملزمین کو پکڑا اور پھر سیکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر دیا۔ اس طرح معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
اس واقعہ کے بعد گرجیت سنگھ اوجلا نے ایک دلچسپ بیان دے کر ہندتو نوازوں کو زور دار طمانچہ رسید کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر کوئی مسلمان یا سِکھ ہوتا تو نہ جانے کیا ہو جاتا۔ اس لیے یہی کہوں گا کہ ایسے لوگوں کو ذات اور مذہب کے چشمے سے نہ دیکھیں۔ یہ ملک سب کا ہے۔‘‘ گرجیت سنگھ اوجلا نے رکن پارلیمنٹ پرتاپ سمہا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کو بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے پاس دلایا تھا، اگر کوئی اپوزیشن لیڈر ایسا کرتا تو اسے غدار قرار دے دیا جاتا۔ اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ بولے دوسرے ملزم کو انہوں نے تنہا پکڑا تھا۔ اس نے اچانک کچھ نکالا، بعد میں پتہ چلا کہ وہ اسموک بم ہے۔ اس کے پاس کچھ خطرناک شئے بھی ہو سکتی تھی۔ اس سے وہ چھین کر پھینکنے کے لیے اوجلا باہر گئے تو سیکیورٹی اہلکار مل گیا جسے دے کر وہ لوٹ آئے۔ گرجیت سنگھ نے یہ بھی بتایا کہ اس سانحہ کے بعد ان کے فوجی والد نے انہیں شاباشی دیتے ہوئے کہا کہ ’’پُتّر سواد آ گیا، جو تو نے کیا۔ حوصلہ پنجاب کی مٹی میں ہے‘‘ خالصتان کے حوالے سے سکھوں کو بدنام کرنے والے سنگھ پریوار کو اس واقعہ پر غور کرنا چاہیے کہ آخر ایسی دلیری کی کوئی مظاہرہ ان سے کیوں نہیں ہوتا؟ کیا سنگھ کی شاکھا میں اس کی تربیت نہیں دی جاتی؟ ایسے مواقع پر ان کی دیش بھکتی کہاں غائب ہو جاتی ہے؟
پارلیمنٹ میں احتجاج کرنے والے بھگت سنگھ فین کلب نے ڈیڑھ سال قبل میسور میں ایک دوسرے سے ملاقات کی تھی۔ رواں سال مارچ میں ایک تفصیلی منصوبہ کی تیاری کے لیے چندی گڑھ ہوائی اڈے کے قریب کسان احتجاج کے دوران بھی ملے تھے۔ اس کے بعد جولائی میں منورنجن نے لکھنو سے دہلی آکر بجٹ اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کمپلیکس کا جائزہ لیا۔ اس وقت یہ انکشاف ہوا کہ زائرین کی متعدد بار تلاشی کے دوران جوتوں کی جانچ نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ منورنجن اور ساگر شرما نے اپنے جوتوں کے اندر کنستر چھپانے کا منصوبہ بنایا۔ پارلیمنٹ پر حملے کی برسی سے تین دن قبل شرما، منورنجن، نیلم اور شندے نے اتوار 10؍ دسمبر کو دہلی آکر گروگرام میں وکی شرما کے گھر پر قیام کیا۔ اس واقعہ کی صبح سارے ملزمین پاس لینے کے لیے بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرتاپ سمہا کے دفتر گئے لیکن 6 افراد کو اجازت نامہ نہیں مل سکا جبکہ شرما اور منورنجن کو پاس مل گئے۔ اس کامیابی کے بعد وہ سب انڈیا گیٹ پر جمع ہوئے اور وہاں امول شندے نے باقی ملزمین کو کنستر تقسیم کیے جو وہ اپنے آبائی شہر سے خرید کر لایا تھا۔ انڈیا گیٹ کی میٹنگ کے بعد انہوں نے اپنے ہیرو بھگت سنگھ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 1929 کی واردات دہرانے کے منصوبے کو آخری شکل دی اور اس کو عملی جامہ پہنا دیا۔
لکھنو کے رہائشی ساگر شرما اور میسور کے رہنے والے منورنجن ڈی نے وزیٹر گیلری سے لوک سبھا میں چھلانگ لگا کر پیلے دھوئیں سے بھرے کنستر کھولے تو کچھ ارکان پارلیمنٹ نے انہیں دھر دبوچا اور دھنائی شروع کر دی۔ یہ ایک طرح کا ہجومی تشدد تھا جس کو ساری دنیا نے دیکھا۔ عوام کے نمائندے اگر کیمرے کے سامنے پارلیمنٹ میں ایسی اوچھی حرکت کرسکتے ہیں تو عوام اپنے آپ کو کس طرح قابو میں رکھ سکتے ہیں؟ یہ نہایت غیر ذمہ دارانہ حرکت تھی۔ اس وقت ایوان کے اندر حفاظتی دستے موجود تھے اس لیے انہیں پکڑ کر حراست میں دے دینا کافی تھا۔ اس مار پیٹ میں اگر کوئی حملہ آور مر جاتا تو تفتیش میں بے شمار مشکلات کھڑی ہوسکتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حماقت پر کچھ لوگوں نے فخر بھی جتایا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رکن پارلیمنٹ بن جانے کے بعد بھی ذہنیت اور رویہ نہیں بدلتا۔
پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے محروم رہنے والے مہاراشٹر کے امول شندے اور ہریانہ کی نیلم آزاد نامی خاتون نے پارلیمنٹ کے باہر پیلے اور سرخ دھوئیں والے کنستروں کا استعمال کرتے ہوئے آمریت کے خلاف نعرے لگائے۔ للت جھا نے مبینہ طور پر نیلم اور شندے کی پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کی ویڈیو بنائی اور پھر اپنے سیل فون کے ساتھ فرار ہوگیا۔ پولیس کے مطابق اس سازش کا ماسٹر مائنڈ للت جھا واقعہ کے بعد دہلی سے سیدھا راجستھان کے ناگور بھاگ گیا تھا۔ وہاں وہ مہیش نامی شخص کے ٹھکانے پر پہنچا۔ مہیش کو 13؍ دسمبر کو دہلی پارلیمنٹ ہاؤس بھی آنا تھا۔ مہیش کو اس سازش کا پورا علم تھا۔ للت نے دلی سے راجستھان کے ناگور کے لیے بس لی تھی اور رات وہیں ہوٹل میں گزاری۔ اس کے بعد جب اسے معلوم ہوا کہ پولیس اسے تلاش کر رہی ہے تو وہ دوبارہ مہیش کے ساتھ بس سے دہلی آیا اور خود سپردگی کر دی۔ تفتیش کے دوران جن دو تنظیموں کے نام سامنے آئے ہیں، ان کے کردار کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ تمام ملزمین تفتیشی ٹیم کو ایک جیسے جواب دے رہے ہیں۔اس سے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے پہلے سے ہی تیاری کر رکھی تھی کہ پولیس کی پوچھ گچھ میں کیا جواب دینا ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ سچ سچ بول رہے ہیں اور سچائی تو یکساں ہوتی ہے۔
وزیر اعظم نے اس بات کا پتہ لگانے پر زور دیا کہ اس کے پیچھے کون سے عناصر ملوث ہیں۔ پولیس نے تفتیش کے بعد الزام لگایا کہ ملزمین حکومت کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کرنے کے لیے ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے تھے۔ اب حکام حملے کے پیچھے اصل مقصد اور اس کے کسی دوسرے دشمن ملک یا دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ سرکاری ایجنسیاں اس طرح کی کہانی بُننے کے لیے مشہور ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں اس پر خوب بحث و مباحثہ یعنی میڈیا ٹرائل بھی ہوتا ہے مگر عدالت میں اس کا غبارہ پھوٹ جاتا ہے کیونکہ ٹھوس شواہد پیش کرنے میں تفتیشی ایجنسیاں ناکام ہوجاتی ہیں۔ اس طرح ملزمین کو بہت زیادہ ذہنی اور عملی کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔
پولیس کے مطابق ان ملزمین نے پوچھ تاچھ کے دوران انکشاف کیا کہ انہوں نے وزیٹرس گیلری سے اندر کودنے کا منصوبہ بنانے سے پہلے کئی دیگر متبادلات پر بھی غور کیا تھا۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں خود کو نذرِ آتش کرنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔ یہ نوجوان اپنے جسم پر فائر پروف جل لگا کر خود کو آگ لگانا چاہتے تھے مگر بعد میں وہ ارادہ ترک کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پارلیمنٹ میں پرچہ پھینکنے کے عمل پر بھی غور کیا گیا تھا جبکہ بعد میں ان دونوں متبادل کو چھوڑ کر پارلیمنٹ میں کودنے کے بعد دھوئیں کے کنستر سے رنگین دھواں چھوڑنے پر اتفاق ہوا۔
موجودہ سرکار کا ماضی میں رویہ تو ایسا رہا کہ وہ ان واقعات کا استعمال اپنے مخالفین کی زباں بندی کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ بھیما کورے گاوں اور دہلی فسادات کے بعد یہی ہوا کہ احتجاج کرنے والے سماجی کارکنوں پر ہی بے بنیاد الزامات لگا کر انہیں یو اے پی اے کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس کر ان کی اور ان کے ہمنواوں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ وزیر اعظم کے دستِ راست امیت جو اچھل اچھل کر پنڈت نہرو اور کشمیر پر اول فول بولتے رہتے ہیں ہنوز خاموش ہیں۔ ان کی زبان گنگ ہوگئی ہے۔ حزب اختلاف کے جن ارکان نے اس معاملے میں بحث پر اصرار کیا، ان کا گلا گھونٹنے کے لیے انہیں پورے سیشن کے لیے معطل کیا جا چکا ہے۔ حکومت کی اس حرکت نے احتجاج کا جواز پیش کرکے ظاہر کر دیا کہ فی الحال ملک کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی صدائے احتجاج بلند کرنے کے سارے مواقع ختم کردیے گئے ہیں۔ اس لیے مظاہرین نے جو اقدام کیا وہ ان کی مجبوری تھی۔ یہ لوگ بنیادی طور پر پارلیمنٹ میں ملک کو درپیش بے روزگاری، افراط زر، کسانوں کے مسائل اور منی پور میں تشدد جیسے بنیادی مسائل پر بحث و مباحثہ چاہتے تھے لیکن اقتدار کے نشے میں مست سرکار ان کو نظر انداز کر رہی تھی اس لیے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ فی الحال احتجاج کے دروازے کسی طرح بند کیے جا چکے ہیں۔ اس کی سب سےبڑی مثال خواتین کا احتجاج ہے۔ ایسے میں ان مظاہرین پر یہ مصرع صادق آتا ہے
’جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا‘
یہ مظاہرہ آستین کے لہو کی پکار ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ دن بعد پارلیمنٹ کی سیکیورٹی میں کوتاہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات ضروری ہیں اور ساتھ ہی اس کی گہرائی میں جانا بھی ضروری ہے۔ یہ کون سی خاص بات ہے جو انہوں نے کہی۔ پولیس تو یہ کام کرہی رہی ہے۔ اور اب تک سات لوگوں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے اس واقعے کو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک بتاتے ہوئے اس پر بحث یا مزاحمت کی حوصلہ شکنی کی۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسے اہم مسئلہ پر بھی گفتگو نہ ہو تو کیا وہ مقبوضہ کشمیر پر لمبی چوڑی تقریر کرنے کی مسند ہے؟ یا پنڈت نہرو کو کوسنے کی نجی محفل ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023