! جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

تعمیر شخصیت کا بنیادی پہلو، مقصدیت سے مکمل آگاہی اور انتھک محنت

سفیان سی عمری

کم عمر عالمی شطرنج چیمپین گوکیش دوما راجو نوجوانوں کے لئے ایک مثال
  کسی بزرگ کا قول ہے کہ آپ ایک لمحے میں اپنے لیے ایک خیالی محل کھڑا کر سکتے ہیں، مگر حقیقی مستقبل کی تعمیر طویل کوشش کے بغیر اس دنیا میں ممکن نہیں۔ یہی اصول تمام کاموں کے لیے بھی ہے، یہاں آدمی کو وہی ملتا ہے اور اتنا ہی ملتا ہے جتنی وہ محنت کرتا ہے۔ کسی بھی میدان میں کامیابی اور اپنی انفرادیت قائم کرنے کے لیے انتھک محنت ناگزیر ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اولمپکس میں ۱۵ منٹ کے پرفامنس کے لیے ایک تیراک ۱۵ سال محنت کرتا ہے۔ یہ قانون زندگی کے ہر میدان کے لیے ہے۔
ان دنوں ایک بہترین واقعہ ۱۲ دسمبر ۲۰۲۴ء کو سنگاپور میں ہونے والے عالمی شطرنج چیمپین شپ میں دیکھنے میں آیا جب ۱۸ سالہ نوجوان گوکیش نے سب سے کم عمر عالمی چیمپین کا مقام حاصل کر کے تاریخ رقم کر دی۔ اس سے پہلے کا ریکارڈ Garry Kasparov کا تھا، جنہوں نے ۱۹۸۵ میں ۲۲ سال کی عمر میں youngest ever world champion کا مقام حاصل کیا تھا ۔
 گوکیش دوما راجو کی پیدائش ۲۹ مئی ۲۰۰۶ء میں ریاست تمل ناڈو کے شہر چنئی میں ہوئی۔ بچپن ہی سے اسے شطرنج کے کھیل سے دل چسپی تھی۔ اپنی کم عمری ہی میں شطرنچ کے کھیل میں اس نے عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔ سن ۲۰۱۵ء میں ۹ سال کے گوکیش نے ایشین اسکول چیمپین کا مقام حاصل کیا۔ ۲۰۱۹ء میں ۱۲ سال کی عمر میں گرینڈ ماسٹر بنا۔ ۲۰۲۲ء میں عالمی شطرنج اولمپیڈ میں بھارتی ٹیم کو کانسے کا تمغہ دلایا۔ اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے اسے گولڈ میڈل بھی ملا۔ ۲۰۲۳ء میں اس کی FIDE ریٹنگ اتنی بڑھی کہ دنیا کے صفِ اول کے شطرنج کھلاڑیوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ اس طرح وہ مسلسل کامیابی کی راہیں طے کرتا ہوا ۱۲ دسمبر۲۰۲۴ء کو شطرنج کا سب سے کم عمر عالمی چیمپین بن گیا۔ 
 اس کم عمر کی کامیابی میں نوجوانوں کے لیے بہت سے سبق اور پیغام ہے۔ گوکیش کی کامیابی میں جو بنیادی عناصر ہیں ان میں سب سے اہم چیز مقصدیت ہے۔ گوکیش جب ۲۰۱۹ء میں گرینڈ ماسڑ چیمپین بنا تو ایک انٹرویو میں اپنے مقصد کا ذکر کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ’’میرا ٹارگیٹ یہ ہے کہ میں ورلڈ چیمپین بنوں‘‘۔ 
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں اس کے سامنے مقصد کتنا واضح تھا اور صرف مقصد ہی متعین نہیں تھا بلکہ وہ اپنے ٹارگیٹ کے حصول کے لیے ہمہ تن کوشش کرتا رہا جس کا ثمرہ سب کے سامنے ہے۔ دور حاضر کا بڑا المیہ یہ ہے کہ طلبہ اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بغیر کسی مقصد اور ہدف کے بے منزل و نشان دوڑے چلی جا رہی ہے جبکہ تعمیر شخصیت میں بنیادی چیز مقصدیت کا واضح ہونا ہے۔ لہٰذا نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا وہ مقصد اور ہدف متعین کریں جو عظیم اور پاکیزہ ہو۔
گوکیش کا صرف ویژن ہی بڑا نہیں تھا اس کے عزم و محنت کے اس سفر میں ایک سبق یہ بھی ہے کہ مقصد کے حصول کے لیے آدمی تن من سے لگ جائے تب جا کر وہ کامیاب ہوتا ہے۔ مقصد عظیم ہو لیکن اس کے لیے مطلوب محنت اور قربانی آدمی نہ دے تو اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ نسلِ نو کو چاہیے کہ وہ خوب جدوجہد کرے۔ اپنے مقصد کی دھنی بنے۔ اگر نوجوان ٹارگیٹ حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں تو حصول کامیابی میں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بنے گی۔ فن چاہے کوئی بھی ہو، ٹاسک چاہے جتنا بھی بڑا ہو اگر آدمی کے حوصلے جوان ہوں محنت کا جذبہ ہو تو وہ ضرور کامیابی سے ہم کنار ہو کر رہے گا۔ عصر حاضر میں نوجوانوں کو اپنی ذہنی صلاحیتیں اور قابلیتیں دکھانے کے لیے بہت سے میدان خالی پڑے ہیں، ضررورت اس بات کی ہے کہ نوجوان مطلوبہ محنت کریں اور زمانے سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔ گوکیش کی مثالی شخصیت نوجوانوں کو دعوت دیتی ہے کہ: 
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
گوکیش نے امسال ہی ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرا کوئی بھی سوشل میڈیا اکاونٹ نہیں ہے جو اکاونٹ بھی ہے وہ میرے ٹیم ممبر سنبھالتے ہیں‘‘۔ آج نوجوان اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا کے غیر ضروری استعمال میں ضائع کر رہے ہیں۔ روز بروز موبائل فون کے صارفین کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس میں بھی young generation کی تعداد زیادہ ہے۔ نوجوانوں کے اندر جو فطری صلاحیت ہوتی ہے وہ سب سوشل میڈیا کے نذر ہو رہی ہے۔ اس عمر میں موبائل فون کا بے جا استعمال لَت ہے جس سے نہ صرف حال بلکہ مستقبل پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ موبائل فون کی اس خیالی دنیا سے باہر نکلیں اور عملی میدان میں اپنی اور ملک کی ترقی کے لیے کچھ کر گزریں۔ موبائل فون کا استعمال تعمیری کاموں میں ہونا چاہیے۔ حصول مقصد میں جو چیز بھی رکاوٹ بنے اس ڈسٹراکشن کہتے ہیں اور اس قسم کے ڈسٹراکشن کو سمجھ کر اسے دور کرنے کی تدابیر اختیار کرناعقل مندی کی علامت ہے۔ آدمی کے اندر صلاحیت ہو اور وہ بساط بھر محنت بھی کرے مگر وہ غیر اخلاقی اور غیر فطری عادات کا شکار ہو تو یہی عادتیں کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر دیں گی پھر وہ کامیابی کے قریب ہوتے ہوئے بھی ناکام ہو جائے گا۔  
کامیابی کے حصول میں جہاں مقصدیت اور محنت کا کردار اہم ہوتا ہے، وہیں پر گھر کا ماحول اور انداز تربیت بھی غیر معمولی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ گوکیش کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی اپنے والدین کو شطرنج کھیلتے دیکھتا تھا۔ وہیں سے اسے بھی اس میں دل چسپی پیدا ہوئی ۔والدین کی یہ ذمہ دار ی ہے کہ بچوں کے لیے ایسا ماحول فراہم کریں جس سے ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوں، ان کے اندر موجود صلاحیتیں پروان چڑھیں۔ بچے وہی چیزیں سیکھتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو اپنی آنکھوں سے کرتا ہوا دیکھتے ہیں، اس لیے والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے حق میں بہترین نمونہ بنیں۔والدین اپنی شخصیت کو مثالی بنائیں تاکہ اولاد ان کو دیکھ کر ہی سب کچھ سیکھ جائے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024