جو اکثر یاد آتے ہیں۔۔ دور حاضر کی نمایاں شخصیتوں کا تذکرہ
تاثراتی مضامین پر مشتمل مولانا سراج الدين ندوی کی ایک کتاب جو دو جلدوں میں منظرِ عام پر آئی ہے
مبصر : محمد عارف اقبال
(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی)
ڈاکٹر سراج الدین ندوی (پیدائش 10؍ دسمبر 1952) کا تعلیمی و تصنیفی کام بے حد وقیع ہے۔ اس وقت وہ چھ تعلیمی اداروں کے بانی وسرپرست ہیں۔ ان کے تعلیمی کارنامے اور رفاہی و فلاحی کاموں کو دیکھتے ہوئے کامن ویلتھ ووکیشنل یونیورسٹی بنکاک کی جانب سے ان کو 2022ء میں اعزازی طور پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔ ڈاکٹر سراج الدین ندوی کوان کی علمی، ادبی اور درسی تصنیفات کے لیے بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ ان میں اردو زبان وادب کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دینے پر 9نومبر 2022 کو ’عالمی اردو ڈے‘ کے موقع پر اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی طرف سے ’مولوی اسمٰعیل میرٹھی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ تین درجن کتابوں کے مصنف، مرتب و مؤلف سراج الدین ندوی صاحب کے اہم تصانیف میں مسلمان اور سائنس، رسول خدا کا طریق تربیت، اسلام اور حقوق انسانی، بچوں کی تربیت، بچوں کے لیے درسی کتب (اردو۔عربی)، ادب اطفال کے تحت کہانیاں اورنظمیں شامل ہیں۔ڈاکٹر سراج الدین ندوی جن افراد کے گرد اٹھتے بیٹھتے رہے ہیں یا جن سے تعلیم و تربیت حاصل کی ہے، ان کے بارے میں انہوں نے ایک کتاب ’جو اکثر یاد آتے ہیں‘ کے عنوان سے تصنیف کی ہے جو دوجلدوں پر مشتمل ہے۔
حصہ اوّل ان شخصیات پر مشتمل ہے جو ان کے مشائخ و اساتذہ، احباب و رفقا رہے ہیں۔ کتاب کے ناشر دارالکتاب، دیوبند نے اسے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ عرض مصنف اور عرض ناشر کے بعد اس میں 45 شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب کی پہلی شخصیت مصنف کی امی جان اور دوسری شخصیت ان کے ابو جان ہیں۔ ان کے بعد جن شخصیات کا انتخاب ہے، وہ بھی پائے کے لوگ ہیں۔ لہٰذا ہر کسی کا نام ظاہر کرنا یہاں ضروری نہیں ہے تاہم چند ناموں پر اکتفا کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (ص34) حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی (ص65) مولانا عبدالماجد دریابادی (ص82) عبداللہ عباس ندوی (ص94) مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (ص171) شاہ فیصل بن عبدالعزیز (ص 206) مولانا شبیر احمد اظہر میرٹھی (ص185) مولانا عبدالعلیم اصلاحی (ص218) مولانا شہباز اصلاحی (ص 222) مولانا شمس الحق ندوی (ص243)، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی (ص234) مولانا سید اجتبا ندوی (ص262) ڈاکٹر محمد حمیداللہ (ص275) مرتضیٰ ساحل تسلیمی (ص293) قاری عبدالوہاب (ص333) ادب اطفال کے ماہر شاعر و ادیب حیدر بیابانی (صفحہ 337)وغیرہ۔
فاضل مصنف اپنے ’پیش لفظ‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ مقالات ان عظیم شخصیات کے سوانحی خاکے نہیں ہیں، نہ ہی ان کی خدمات و کارناموں پر مشتمل ہیں، بلکہ ان مقالات میں جس چیز کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ان سے میرا تعلق، اور ان کی ذات و صفات سے مجھے پہنچنے والا فیض ہے۔‘‘ (ص9)
کتاب کے ناشر واصف حسین صاحب ’عرض ناشر‘ کے تحت لکھتے ہیں
’’زیر مطالعہ کتاب ’بزرگوں کے تئیں ان کی عقیدت کا ثبوت ہے۔۔۔ یہ ان کی نیاز مندی ہے کہ انہوں نے ان کو بھی اپنا استاذ تسلیم کیا ہے جن کی کتابوں سے انہوں نے استفادہ کیا ہے۔‘‘ (ص12)
مصنف نے اپنی ماں کا ذکر بڑی محبت سے کیا ہے۔ ایک عالم دین ہونے کی حیثیت سے انہوں نے ماں کے ذکر میں بڑا درد انگیز واقعہ لکھا ہے ’’جب ہم سب بھائی بہنوں کی شادی ہوگئی اور گھر بار تقسیم ہونے لگا تو میں نے بھائیوں سے کہا ’آپ سب بھائی گھر کا سارا سامان آپس میں تقسیم کرلو، مجھے صرف والدین دے دو‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس وقت میرے معاشی حالات اچھے نہیں تھے۔‘‘ اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں ’’باپ ایک سایہ دار شجر کی مانند ہے، جس پر اگر پھل نہ بھی ہوں تب بھی سایہ دیتا ہے، باپ کی موجودگی دھوپ کی تمازت سے محفوظ رکھتی ہے۔‘‘ (ص23)
اپنے والدین کے بارے میں مصنف کے یہ جذبات اس آئینے کی مانند ہیں کہ جس میں وہ اپنا تشخص متعین کرتا ہے۔ کچھ لوگ دوسروں کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے لیکن اپنے والدین کے احسانات کو یکسر فراموش کردیتے ہیں۔ مصنف کا ادبی اسلوب ان کے ہر مضمون میں نمایاں نظر آتا ہے۔ اور یہ بھی کہ وہ ایک درد مند دل رکھتے ہیں اور صلہ رحمی ان کے مومنانہ صفت کا طرہ امتیاز ہے۔
یہ کتاب یقینی طور پر سوانحی خاکہ نہیں ہے لیکن اس کے ادبی اسلوب نے اس میں ان کے تاثرات کو خاکے کا لبادہ عطا کر دیا ہے۔ مصنف اگرچہ جماعت اسلامی ہند سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان میں جماعتی عصبیت نہیں ہے۔ وہ اپنے تمام بزرگوں، اساتذہ اور احباب کا احترام صدق دل سے کرتے ہیں۔
مولانا علی میاں پر جس انداز سے مصنف نے قلم اٹھایا ہے، اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا محترم کی زندگی کے ہر پہلو کو اختصار کے ساتھ سمیٹ لیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں
’’مولانا کا ایک نمایاں وصف ایمانی جرأت اور حق گوئی و بے باکی تھا۔ امراء و سلاطین کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہ برتتے۔ ان کے سامنے بے ٹوک اپنا موقف رکھتے اور بلاخوف وتردد صحیح بات کہتے۔ عرب شیوخ کو مخاطب کرتے ہوئے ان کی تقاریر اس کا بین ثبوت ہیں۔ جب آپ شاہ فیصل کے دربار میں گئے اور وہاں آرائش و زیبائش کے مناظر دیکھے تو آپ نے دین دار بادشاہوں کے رہن سہن کی تصویر کشی کی تو شاہ فیصل رو پڑے اور دیر تک روتے رہے۔‘‘ (ص37)
مصنف ایک اور بزرگ کے بارے میں لکھتے ہیں
’’مولانا عبدالماجد دریابادیؒ اپنے وقت کے عالمی شہرت یافتہ مصنف تھے۔ انہوں نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ ان کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تفاسیر اسلام پر مسیحیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھی ہے۔‘‘ (ص91)
پھلواری شریف، پٹنہ سے تعلق رکھنے والے عبداللہ عباس ندویؒ (پ1925) کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’آپ کی علمی صلاحیت کے پیش نظر جامعہ اُمّ القریٰ مکہ مکرمہ میں ان کا بحیثیت استاد تقرر ہوگیا۔ آپ عربی زبان کے ماہر تھے۔ سعودی حکومت نے آپ کو شہریت بھی عطا کی۔ اس طرح مکہ آپ کا وطن ثانی قرار پایا۔ اس کے ساتھ ندوہ کے آپ معتمد تعلیمات رہے۔ اس طرح ندوہ میں آپ کا مستقل آنا جانا رہا۔ ندوہ قیام کے دوران آپ طلبا کو بھی فیض یاب کرتے تھے۔‘‘ (ص94)
اس کتاب کے حصہ اول میں بیان کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ قارئین جب اس کا مطالعہ کریں گے تو یقینی طور پر وہ مصنف کی ادب دوستی اور اسلامی فکر سے متاثر ہوں گے۔
کتاب کے حصہ دوم میں فاضل مصنف نے جو ندوی ہونے کے ساتھ تحریک اسلامی ہند سے دیرینہ وابستگی رکھتے ہیں، اپنے ان احباب اور اکابر تحریک اسلامی کو اس کتاب میں یاد کیا ہے جن سے ان کو فیض پہنچا۔ اس میں انہوں نے 58 شخصیات کا گلدستہ تیار کیا ہے جس کا آغاز بانی تحریک اسلامی علامہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے کیا ہے۔ اس کتاب کی ہر شخصیت پر یہاں بھی روشنی ڈالنا ممکن نہیں تاہم چند شخصیات کے نام اس طرح ہیں:
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی (ص14) مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی (ص50) ڈاکٹر عبدالحق انصاری (ص74) مولانا سیّد جلال الدین عمری (ص78) مولانا سیّد احمد عروج قادری (ص84) مولانا جلیل احسن ندوی (ص100) ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی (ص 106) مولانا ابوسلیم محمد عبدالحیّ (ص113) مولانا سیّد حامد حسین (ص122) ایڈووکیٹ سیّد یوسف (ص 128) ڈاکٹر کوثر یزدانی ندوی (ص138) مولانا محمد سلیمان قاسمی (ص142) جناب محمد اسحاق مائل خیرآبادی (ص147) علامہ ابوالمجاہد زاہد (ص157) ڈاکٹر محمد رفعت (ص169) جناب محمد اشفاق احمد (ص176) مولانا عبدالغفار ندوی (ص192) مولانا محمد فاروق خاں (ص196) مولانا محمد یوسف اصلاحی (ص 203) حفیظ میرٹھی (ص237) مولانا عبدالعزیز (ص283) سیّد غلام اکبر (ص253) ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی (ص260) سیّد عبدالباسط انور (ص289) ماسٹر محمد الیاس (ص369) بلال شیش گر (ص395) وغیرہ۔
کتاب کے دوسرے حصے میں مصنف نے اپنے ’عرض مصنف‘ میں لکھا ہے کہ یہ دوسرا مجموعہ محسنین کے تذکروں پر مشتمل ہے جس میں جماعتی قائدین، ذمہ داران، رفقا و احباب شامل کیے گئے ہیں۔ اس میں مصنف نے اس بات کا عندیہ بھی دیا ہے کہ عنقریب وہ اسی نام سے شاید اس کا تیسرا حصہ بھی لکھیں۔ اس کا مقدمہ موجودہ امیر جماعت اسلامی ہند سیّد سعادت اللہ حسینی کے قلم سے ہے۔ انہوں نے اپنے ’مقدمہ‘ میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’یہاں آپ کو علم و حکمت اور فہم و فراست کی روشنی بھی ملے گی اور اخلاق و کردار کی خوشبو بھی۔ جہد و عمل اور سعی پیہم کی گرمی کا بھی احساس ہوگا اور مہر و محبت اور جذب و عشق کی لطافتیں بھی محسوس ہوں گی۔ عظیم لوگوں کی سادہ زندگیوں سے تعارف ہوگا اور گم نام سادہ لوگوں کے کارناموں کی عظمتیں بھی روشن ہوں گی۔‘‘ (ص13)
سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو فاضل مصنف نے لکھا ہے ’’میری فکر و نظر کا حجر اساس‘‘۔ اپنے اسی مضمون میں مصنف نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’میں نے جتنا علم اپنے اُن اساتذہ سے حاصل کیا جن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے، اس سے زیادہ علم ان اساتذہ سے حاصل کیا ہے جن کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔ مصنف اساتذہ کی فہرست میں سب سے نمایاں نام مرشد و مربی و سیّدی ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ہے۔‘‘ (ص15)
مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’مولانا کی ایک خوبی ان کی سادگی تھی۔ کوئی شخص ان کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ جماعت اسلامی کے امیر ہیں۔ پہننے میں بھی سادگی اور خورد و نوش میں سادگی۔ مولانا کا ناشتہ باسی روٹی اور چائے پر مشتمل ہوتا تھا۔‘‘ (ص55)
سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سراج الحسن کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’مولانا موصوف کو تحریک اسلامی کی قیادت اس وقت سونپی گئی جب تحریک ایک دو راہے پر کھڑی تھی اور انتخابی سیاست میں حصہ داری کا موضوع اندرون جماعت اضطراب و بے چینی کا سبب بنا ہوا تھا۔ مگر آپ نے نہایت خوش اسلوبی، صبر و تحمل، کسر و انکسار اور حسن تبادلہ خیال اور کثرت مشاورت سے تحریک کو ایک بڑی آزمائش سے بچالیا۔ یہ آپ کے دَور قیادت کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔‘‘ (ص 69-70)
سابق امیر جماعت اسلامی ہند ڈاکٹر عبدالحق انصاری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر عبدالحق انصاری صاحب سیدھے سچے انسان تھے۔ ان کی عمر کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک گزرا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ یہاں کے ارکان کی ذہنی کیفیت کا ٹھیک سے اندازہ نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے جو منصوبے بنائے تھے اور جس مقام پر وہ جماعت کو لے جانا چاہتے تھے، اسے یہاں کے رفقاء تحریک یا تو سمجھ نہ سکے یا ڈاکٹر صاحب سمجھا نہ سکے۔‘‘ (ص77)
مولانا سیّد جلال الدین عمری کے تعلق سے ایک جگہ لکھا گیا ہے:
’’آپ لوگوں سے بہت خاکساری سے پیش آتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں مولانا محمد سالم قاسمیؒ پر ایک سمینار ہوا۔ آپ اس میں شرکت کے لیے دیوبند تشریف لے گئے۔ آپ نے پُرمغز گفتگو کی اور واپس تشریف لے آئے۔ آپ کی غیر موجودگی میں مولانا محمد سالم قاسمی مہتمم کے بیٹے مولانا محمد سفیان قاسمی نے فرمایا کہ ’مولانا کو دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے‘۔‘‘ (ص82)
مولانا سیّد احمد عروج قادری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تصنیف و تالیف کے میدان کے آپ شہ سوار تھے۔ ماہ نامہ زندگی رامپور جماعت اسلامی ہند کا ترجمان تھا۔ 1960 میں مولانا سیّد عروج قادری نے اس کی ادارت سنبھالی اور زندگی کے آخری لمحہ تک اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔‘‘ (ص88)
اپنے عہد کے ماہر تعلیم اور ’فن تعلیم و تربیت‘ کے مصنف افضل حسین (ایم اے، ایل ٹی) کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں:
’’افضل حسین صاحب کی سب سے بڑی خوبی فرض کے تئیں ان کی لگن تھی۔ وہ جس کام پر لگ جاتے، دن رات اس کے ہوکر رہ جاتے۔انہوں نے جب نصاب مرتب کیا تو لالٹین کی روشنی میں رات رات بھر کام کیا۔‘‘ (ص 98-99)
کتاب ’حیاتِ طیبہؐ‘ کے مصنف ابو سلیم محمد عبدالحیّ (بانی ماہنامہ الحسنات، نور، ہلال وغیرہ) نے 1934 میں B.Sc کرنے کے بعد شعبہ اگریکلچر (حکومت اُترپردیش) میں ملازم ہوگئے تھے۔ ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ وہ کمیونزم کے زیر اثر اسلام سے بہت دور ہوگئے تھے۔ ان کے تذکرے میں مصنف لکھتے ہیں:
’’مولانا نے جب دہریت سے توبہ کرکے اسلام اور جماعت اسلامی کا دامن پکڑا تھا تو یکسو ہوکر تھاما تھا، اس کے لیے انہوں نے اپنی سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیا تھا، انہوں نے شاید یہ طے کرلیا تھا کہ اپنی چند سال پر مبنی دہریت کی زندگی کے ایک ایک پَل کا کفارہ ادا کرنا ہے، انہیں اسلام کی اشاعت کی دُھن تھی، وہ کئی محاذوں پر کام کر رہے تھے، ایک طرف انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں تقویٰ پیدا کیا تھا، تو دوسری طرف اپنے اہل خانہ کو بھی دوزخ کی آگ سے بچانے کا انتظام کیا…۔‘‘ (ص116)۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024