جس کا کام اسی کو ساجے اور کرے تو ٹھینگا باجے
مذہب، میڈیا اور سیاست - تینوں کو اپنا الگ مقام دیا جائے تو ہی بہتر ہے
ایم شفیع میر، جموں و کشمیر
ایک صحافی کا کام غیرجانبدار صحافت ہو مذہبی امور پر لب کشائی قابل قبول نہیں
دنیا کے تمام مذاہب اپنے ماننے والوں کو یہ درس دیتے ہیں کہ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کیا جائے۔ کوئی بھی مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کا ماننے والا کسی دوسرے مذہب پر انگلی اٹھائے یا زبان ہلائے۔ اور ہمارے ملک بھارت کی قانونی کتابوں میں بھی یہ لکھا ہے کہ ہر شخص جس کا کسی نہ کسی مذہب سے تعلق ہو اسے حق نہیں کہ وہ دوسرے مذاہب پر کسی قسم کی ٹیڑھی بات کرے یا میلی نظر سے دیکھے۔ گو کہ مذہبی کتابوں اور قانونی کتابوں میں ان باتوں کا خلاصہ بڑی ہی تفصیل اور واضح طور پر بیان کیا جا چکا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز میں فسطائیت کی غذا پر پلنے والے کچھ عناصر کو تب تک سکون حاصل نہیں ہوتا جب تک وہ کسی مذہب کے خلاف اپنی زبان نہ کھولیں اور اناپ شناپ نہ بک دیں۔ ایسے افراد کا اوڑھنا بچھونا بس مذہب کے خلاف بولنا ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ دیگر مذہبوں کے نام پر معاشرے میں نفرت کا زہر گھولتے رہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے یہ لوگ صرف اور صرف مذہب اسلام کے بارے میں بکواس کرتے رہتے ہیں اور اب تو مذہب اسلام کے خلاف بولنے کے لیے انہیں باضابطہ طور پر ایک پلیٹ فارم میسر آچکا ہے۔ بولنے والوں سے گلہ اس لیے نہیں ہے کیونکہ ان کی زبان درازی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی مذہب کے پیروکار ہیں ہی نہیں یعنی وہ لامذہب لوگ ہیں اور مذاہب کے احترام وتقدس کی ان سے امید رکھنا عبث ہے لیکن ان شرپسند عناصر سے زہر اگلوانے والے وہ لوگ ہیں جنہیں سماج کا آئینہ سمجھا جاتا ہے اور وہ خود کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہتے ہیں۔ یعنی وہ مرکزی دھارے کے میڈیا والے ہیں، جبکہ ان کا کام حقائق بیان کرنا ہوتا ہے۔ اسی واسطے میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔ لیکن آج اس پیشہ سے کچھ ایسے لوگ وابستہ ہوگئے ہیں جنہوں نے میڈیا کی مٹی پلید کر کے رکھ دی ہے اور اس مقدس پیشہ کو داغ داغ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون باقی تو نہیں رہا البتہ حکومت کی پہلی ضرورت بن گیا ہے۔ مذہب کے نام پر میڈیا گیری چلانے والے کچھ مائک برداروں نے انسان کو انسان کے خلاف لڑانے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے ہیں سوچ کر ہی روح کانپنے لگتی ہے۔
چند نام نہاد ٹی وی اینکروں کی جانب سے مذاہب کے خلاف زبان کھولنے والوں کو مکمل چھوٹ اور بھرپور وقت دیا جاتا ہے، ٹی وی پر چار چار گھنٹے بحثیں چلتی رہتی ہیں اور اس بحث میں مذاہب پر انہی عناصر کو بات کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے جن کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جاہل ان پڑھ اور مذہبی تعلیم سے نابلد، گنوار لوگ جب مذاہب کی بارے میں بولنا شروع کرتے ہیں تو سوائے زہر کے کچھ نہیں اگلتے، اور گولی کی زبان بولتے ہیں۔ ان کی زبان سے کسی مذہب کے خلاف کیا نکل رہا ہے اس کی پروا نہ ان میڈیا والوں کو ہوتی ہے اور نہ ہی سرکار کو۔ بلکہ کھلی چھوٹ کے ساتھ بالخصوص مذہب اسلام کے خلاف شرپسند عناصر کو زبان لہرانے کا پورا پورا موقع دیا جاتا ہے۔
شرپسندوں کا اسلام کے خلاف بولنے کا یہ سلسلہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس زہر کو پھیلانے کی مہم بہت پہلے سے شروع کی جا چکی ہے لیکن بدقسمتی سے اب یہ زہریلی آب و ہوا اسلام سے قربت رکھنے والے کچھ سیکولر مزاج صحافیوں کی طبیعت کو بھی آہستہ آہستہ بگاڑ رہی ہے۔ سوشل میڈیا، بالخصوص فیس بک کا پلیٹ فارم ان لوگوں کے لیے سونے پر سہاگہ ثابت ہو رہا ہے۔ اب ہر کوئی اَیرا غیرا نتھو خیرا ہاتھ میں مائک لے کر مذہبی مسائل پر بھاشن جھاڑنے لگتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ صحافی مذہبی معاملات کی اچھی خبر رکھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مذہبی معاملات پر بات کرنے کے لیے صحافتی پلیٹ فارم کا استعمال درست ہے؟ ہر انسان کا اپنا ایک میدان ہوتا ہے اور انسان جس میدان میں جاتا ہے وہاں اسے چاہیے کہ اپنی مہارت دکھائے۔ ایک پیشہ میں رہ کر دوسرے پیشہ میں ٹانگ اڑانا نری حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح ایک صحافی کو چاہیے وہ ایمانداری سے صحافت ہی کرے، مذہبی معاملات پر مذہبی رہنما ہی بات کریں تو ہی بات بنے گی، کیونکہ جب ایک صحافی مذہبی معاملات میں اپنا منہ کھولے گا تو نتیجتاً پھر وہ صحافی بھی باقی نہیں رہے گا اور ایسے افراد جو دوسروں کے کام میں دخل اندازی کرتے ہیں اُن کے لیے ہی یہ ضرب المثل ہے کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجے اور کرے تو ٹھینگا باجے‘‘
پیشہ صحافت میں رہتے ہوئے آج اپنے صحافتی کردار کو میلا ہونے سے بچانا وقت کا تقاضا ہے، سیاست اور صحافت میں زمین و آسمان کا فرق ہے، مذہب کے نام پر اپنی زبان چلانے کا کام اگر سیاست داں کرتے ہیں تو کرنے دیں صحافیوں کو ان کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہیے، بلکہ سیاستدانوں کو بھی اس سے گریز کرنا چاہیے۔ لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ نام نہاد سیاستدانوں کو مذہبی چورن بیچ کر ہی اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ ایک صحافی کو مذہبی چورن بیچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی صحافی پر مذہبی معاملات میں زبان درازی کا زیادہ ہی جنون سوار ہے تو اسے صحافت چھوڑ کر سیاست جوائن کرلینا چاہیے چونکہ یہاں مذہبی جنونیت کی سیاست ہی زیادہ کامیاب رہتی ہے۔ حالات یہی بتاتے ہیں کہ بعض سیاسی جماعتیں جب بھی اقتدار میں آئیں، مذہب کے نام پر ووٹ بٹور کر ہی آئیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب سیاسی لیڈروں نے مذہبی جنونیوں کو نشہ دے کر سیاست کو گرمایا تب تب انہوں نے اقتدار پر آسانی سے قبضہ جمایا چاہے وہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو۔ مذہبی اکھاڑے کو گرمائے بغیر اقتدار کی کرسی نہیں ملتی۔ بی جے پی نے مذہب کا ہتھوڑا گرما کر دے مارا تو دیگر جماعتیں آج تک بے بس ہیں۔ جس پارٹی کو مذہب کے نام پر ماحول گرمانے کے گُر نہیں آتے وہ شکست سے دوچار ہو جاتی ہے اور جس کو یہ گُر آگیا اس کو ملک میں برسر اقتدار آنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ ملکی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ سلسلہ روز اول سے ہی جاری ہے۔ یہاں آزادی حاصل کرنے کے لیے تمام مذاہب کے لوگوں نے ایک ساتھ جنگ لڑی تھی لیکن اس کے بعد اقتدار حاصل کرنے کے لیے تمام ہی مذاہب کے لوگ آپس میں لڑائے جاتے ہیں۔ سیاسی ہنرباز اقتدار کی اس جنگ میں عوام کو بطور ’’بارود‘‘ استعمال کرتے ہیں، کوئی صحافی کی شکل میں ہوتا ہے، کوئی باغی کی شکل میں ہوتا ہے تو کوئی شرابی کی شکل میں۔
حاصل کلام یہ کہ جو شخص جس پیشہ سے منسلک ہے اس کو اپنے ہنر کا مظاہرہ اسی پیشے میں کرنا چاہیے، دوسرے پیشے میں ٹانگ اڑانے یا اس سے منسلک افراد پر انگلی اٹھانے کے بجائے اپنے گربیان میں جھانکنا چاہیے۔ اس عمل سے ہر وہ شخص جو قاضی بن بیٹھا ہے اپنے اصل مقام سے آگاہ ہو جائے گا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024