جنسی بے راہ روی کا اخلاقی علاج

شرم و حیا اسلام کا طرۂ امتیاز۔بے حیائی تمام گناہوں کا بنیادی ذریعہ

رضوان احمد اصلاحی

ہر زمانے میں جنسی انارکی،بے راہ روی اور فحاشی وعریانیت کو معیوب اور معتوب سمجھا جاتا رہاہے،لیکن ہمارے اس عہد میں اس کو جواز فراہم کرنے کے لیے آزادی کا نام دیا جارہا ہے اور اس برائی اور بے حیائی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو آزادی کے خلاف تصورکیاجارہا ہے۔انسانیت جنسی انارکی، بے راہ روی اور فحاشی وعریانیت کی تباہی وبربادی کے انجام کا خمیازہ بھگت رہی ہے لیکن اس کے باوجود اس کو جائز ٹھیراکرانسان اپنے لیے مزید تباہی کے دہانے کھول رہاہے۔
قرآن میں بے شرمی، فحاشی اور عریانیت کے لیے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں’’فحشا، منکر اور بغی۔سورہ النحل کی آیت نمبر 50 میں ان تینوں الفاظ کا ایک ساتھ استعمال کیا گیا ہے’’اللہ تعالی عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور فحشا اور منکر اوربغی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘۔
فحشاء کی دوسری صورت فاحشہ ہے،یہ لفظ فحش سے نکلا ہے جس کے اصلی معنی حد سے آگے بڑھ جانے والےکے ہیں اور اس کے دوسرے معنی قبح یعنی برائی کے ہیں، کیوں کہ جس چیز کی جو حد اللہ تعالی نے مقررکردی ہے اس سے آگے بڑھنا قبح یعنی برائی ہے ۔ یا جوبرائی حد سے زیادہ ہو جائے وہ فحشا کہلاتی ہے۔ دوسرا لفظ منکر ہے جس کے لغوی معنی ناشناسا کے ہیں۔یعنی جو کام لوگوں میں عام طور پرنا پسندیدہ ہے اس کے بالمقابل جو کام لوگوں میں پسندکیا جاتا ہے اور جس کے کرنے والا لوگوں میں ممدوح ہوتاہے اس کو معروف کہتے ہیں۔تیسرا لفظ بغی ہے جس کے معنی کسی پر زیادتی یا دست درازی کرنا ہیں ۔ اس تشریح سے معلوم ہوا کہ رزائل اخلاق ۔۔۔فحشا،منکر اور بغی پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اس کی مختلف شکلیں ہیں ،ایک شکل تو قوت شہوانیہ ہے جس میں مرد و زن کی بے تکلفانہ اور رندانہ صحبتیں قائم ہوتی ہیں، عورتوں کے حسن وجمال کا تذکرہ ہوتا ہے اور بسااوقات کلبوں، پارکوں اور ہوٹلوں میں اس قسم کے حالات و واقعات پیش آتے ہیں جو حد درجہ شرمناک ہوتے ہیں۔اب تو موبائل اور کمپیوٹر کے اسکرین پر فحاشی اور عریانیت کا ننگا ناچ ہر آن رواں دواں ہے۔ شراب، منشیات،لیوان ریلیشن ، ہم جنس پرستی اور جسم فروشی کو فروغ دیا جارہا ہے، اور جرأت آموز تاب سخن دیکھیے کہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کہا جا رہا ہے۔ یعنی چوری اور اوپر سے سینہ زوری۔ یہ زوالِ انسانیت کی انتہا ہے۔بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا تذکرہ جو کبھی یورپ میں دیکھا اور سناجاتا تھا اب تو ہمارے ملک میں بھی اس کا چلن عام ہورہا ہے۔اسلام بغیر نکاح کے کسی بھی طرح کا جنسی اور مشابہ جنسی تعلقات کو حرام اور ناجائز قرار دیتا ہے اور اس قبیح رذائل اخلاق سے منع کرتاہے ۔ہر جگہ اخلاقی حدود و قیود کا پابند بناتا ہے کیوں کہ اسلام کا تصور بغیر محاسن اخلاق کے نہیں کیا جاسکتا ہے ۔نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا’’مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھےہوں‘‘(ترمذی) طبرانی کی روایت میں یہ بات اور واضح انداز میں کہی گئی ہے کہ ’’اللہ کے بندوں میں اللہ کا سب سے پیارا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔رسول اللہ ﷺ نماز میں جو دعامانگتے تھے اس کا ایک فقرہ ہے’’اے میرے اللہ تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر،تیرے سوا کوئی بہتر اخلاق کی رہنمائی نہیں کر سکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے پھیر دے اور تیرے سوا کوئی اس کو پھیر نہیں سکتا‘‘(مسلم)آپ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے فرمایا ’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے‘‘ ایک شخص نے آکر ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے دریافت کہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کیا تھے؟ فرمایا، کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا ہے۔’’ آپ قرآن کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ جو قرآن میں الفاظ کی صورت میں ہے وہی حامل قرآن کی سیرت میں بصورت عمل ہے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ کی اس بات کی صدفی صد تصدیق قرآن کی یہ آیت کرتی ہے ’’بے شک تم اخلاق کے بڑے درجہ پر فائز ہو‘‘(سورہ ن)
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں نیکی کو حسن خلق کہا گیا ہے اور اخلاق حسنہ کو عبادت قراردیا گیا ہے۔صدق وصفا،عدل و انصاف، عفو درگزر، خوش کلامی، خوداری، ایثار واحسان کا شمار بھی فضائل اخلاق میں ہوتا ہے اور غریبوں اور مسکینوں کی امدادکرنا،بے کسوں کو سہارا دینا،بھوکوں کو کھانا کھلانا بھی اخلاق حسنہ ہے نیز قاتلوں اور دشمنوں کو معاف کرنااور مظلوموں کی داد رسی کرنا بھی اخلاق فاضلہ ہے۔ اسی طرح عفت وپاکبازی، شرم وحیا بھی عین اخلاق حسنہ ہیں ۔ اس سے روگردانی سماجی اور معاشرتی تباہی وبربادی کا باعث ہے۔ اس مضمون میں اخلاق حسنہ کا یہی پہلو زیر غور ہے ۔آج بے حیائی شباب پر ہے، افسوس کہ بے حیائی کے علم بردار اس کی تائید اور حمایت کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ بے پردگی اصلاً بے حیائی ہے ،بلاشبہ یہ بے حیائی کا زمانہ ہے،اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ہر چہار جانب فحاشی، عریانیت اور جنسی انارکی کا بول بالا ہے۔ اب تو بے حیائی کا باقاعدہ دن منایا جارہا ہے، برائی کرنے والوں اور بے حیائی پھیلانے والوں کو آزاد اور بے باک کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ آزادی نہیں بلکہ بے شرمی اور بے حیائی ہے۔ انسان کے اندر حیا کا جذبہ ہی ہے جو اس کو برائیوں سے بازرکھتا ہے، اگر یہ نہ ہوتوپھر بے حیا آدمی جو چاہے کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’اگر تم میں شرم وحیا نہیں ہے تو جو چاہو کرو‘‘۔(بخاری) آج اسی بے شرمی کی وجہ سے انسان جو چاہتا ہے کرگزرتا ہے۔
حیا انسان کا فطری وصف ہے۔ انسان کو بہت سے رذائل اخلاق سے نجات اسی وصف کی برکت سے ملتی ہے۔یہ عین خدائی صفت ہے۔ حدیث میں ہے ’’عزت وجلال والے خدا کے آگے جب کوئی بندہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر کچھ بھلائی مانگتا ہے تو وہ اس کو نامراد لوٹاتے ہوئے شرماتا ہے‘‘۔ ( بخاری) اللہ کی شان یہ بھی ہے کہ وہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا (احزاب) ایک حدیث میں ہے کہ ’’ اللہ سب سے زیادہ غیر ت مند ہے اور اسی لیے اس نے بدکاریوں کو حرام کیا ہے‘‘۔(مسلم) مشہور واقعہ ہے ایک دفعہ تین آدمی رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آئے ،آپ کے اردگردصحابہ کرام پہلے سے حلقہ بنائے بیٹھے تھے، ایک صاحب کو وہاں ذراسی جگہ ملی ،اس میں بیٹھ گئے اور دوسرے صاحب شرماکر پیچھے بیٹھ گئے، تیسرے صاحب چلے گئے ،آپ نے فرمایا کہ میں ان لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں جو حلقہ کی ذراسی جگہ میں آکر بیٹھا ،وہ خدا کی پناہ میں آیا توخدانے پناہ کی جگہ دی، اور جو پیچھے جاکربیٹھا وہ شرمایا تو خدانے بھی اس سے شرم کی اور جوچلاگیا اس نے خدا سے منھ پھیرا، تو خدا نے بھی اس سے منہ پھیرلیا‘‘۔ (بخاری)
حضرت موسی علیہ السلام کو مدین کے سفر میں لڑکیوں سے سابقہ پیش آیا،جو شرم وحیا کے مارے اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا پارہی تھیں،حضرت موسی علیہ السلام نے ان کے جانوروں کو پانی پلادیا،جب یہ لڑکیاں گھر واپس گئیں تو ان کے والد نے ان میں سے ایک بیٹی کو حضرت موسی علیہ السلام کو بلانے کے لیے بھیجا،قرآن میں ہے کہ ’’ان دو لڑکیوں میں ایک شرماتی ہوئی ان کے پاس آئی‘‘۔(سورہ قصص)آج سے محض بیس بچیس سال قبل لڑکے بھی اپنی شادی کی بات کرتے ہوئے شرماتے تھے لیکن افسوس کہ آج کل کی لڑکیاں بھی نہیں شرماتی ہیں۔
سیرت النبی کے اس لازوال واقعہ سے کون واقف نہیں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ابھی بچے تھے، خانہ کعبہ کی تعمیر کاکا م ہورہا تھا، آپ بھی پتھر اٹھا اٹھا کرلا رہے تھے، آپ کے چچا حضرت عباسؓ نے کہا تم بھی تہبند کھو ل کر اپنے کندھے پر رکھ لو تاکہ کندھے درد نہ کرے،آپ نے ایسا کرنا چاہا تو آپ پر بے بیہوشی طاری ہوگی،ہوش آیا تو زبان مبارک پرتھا، میرا تہبند! میرا تہبند! آج صورتحال یہ ہے کہ سڑکوں کے کنارے ،کلبوں میں پارکوں میں، سیروتفریح کی جگہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے بانہوں میں ہاتھ ڈالے بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں دنیااس کو آزادی کا نام دیتی ہے ،کسی نے ٹوک دیا تو وہ دقیانوسی کہلاتا ہے ، ان پر آزادی سلب کرنے کا حکم نافذ کردیا جاتا ہے اورسوال کیا جاتا ہے کہ تم کون ہوتے ہو ہماری آزادی میں مداخلت کرنے والے؟ ایسے نوجوانوں کو رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے سبق لینا چاہیے۔ آپ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کنواری لڑی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔
فحاشی وعریانیت کا ارتکاب تو دور کی بات ہے اسلام میں فحش گوئی کی بھی ممانعت آئی ہے ۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے مردوں اور عورتوں کے ایک مجمع میں خطبہ دیا اور حمدوثنا کے بعد مردوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایاکہ’’ کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جو اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے تو دروازہ بند کرلیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اس طرح خدا کے پردہ میں چھپ جاتا ہے ، لوگوں نے کہا ’’ہاں‘‘ پھر فرمایا کہ اس کے بعد لوگوں کی صحبتوں میں بیٹھتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے یہ کیا،میں نے یہ کیا، اس پر سب لوگ خاموش ہوگئے،پھر عورتوں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم سب اس قسم کے واقعات بیان کرتی ہو، اس پر ایک عورت نے دوزانوبیٹھ کر کہا کہ’’ ہاں‘‘مردوعورت دونوں اس قسم کے واقعات بیان کرتے ہیں۔ فرمایا تم لوگ جانتے ہوکہ اس کی کیا مثال ہے؟ اس کی مثال اس چڑیل کی ہے جو گلی میں ایک شیطان سے ملی اور اس نے اس سے مباشرت کی، حالانکہ لوگ اس کو دیکھ رہے تھے ‘‘۔(ابوداود) یعنی اس طرح کی باتیں کرنا عین زنا کے زمرے میں آتا ہے۔
جہاں حیا اور شرم کے قبیل کی باتیں کرنانا گزیر ہوتا ہے قرآن وہاں بھی کنا یہ کی زبان استعمال کرتا ہے۔ مجاز اور استعارہ کی زبان میں وہ باتیں ادا کی جاتی ہیں۔مثلا سورہ نساء میں ہے ’’حالانکہ تم ایک دوسرے تک پہنچ چکے۔ میاں بیوی کے ملنے کے لیے قرآن نے ’’لمس‘‘ یعنی چھونے کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق پاخانہ،پیشاب اور شرمناک امراض وغیرہ کے لیے بھی کنایہ کی زبان استعمال کرنا چاہیے۔مثلا پاخانہ اور پیشاب کے لیے احادیث میں ’’قضاء حاجت ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو ایک کنایہ ہے، قرآن مجید میں اس کے لیے غائط کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو لغت میں نشیب زمین کو کہتے ہیں۔خود اردو زبان میں لفظ پاخانہ ایک استعارہ ہے جس کی اصل پائیں خانہ ہے۔ چونکہ پائخانہ عموماً مکانوں کے کنارے بنائے جاتے ہیں،اس لیے استعارۃً اسکو پائیں یعنی پیچھے کا گھر کہا گیا ہے۔
فحش گوئی کی ایک شکل گالم گلوج ہے، قرآن میں اس کی ممانعت آئی ہے’’ حج کے دنوں میں نہ شہوت کی کوئی بات کرنی چاہیے،نہ فسق کی اور نہ جھگڑے کی‘‘(بقرہ)گالی گلوج کی بھی مختلف صورتیں ہیں،بسا اوقات آدمی ایک شخص کے ماں باپ کو ہی برا بھلا کہنا شروع کردیتا ہے۔اس کے نسب میں عیب نکالتا ہے،قرآن نے ان تمام صورتوں کی ممانعت فرمائی ہے’’ اللہ کو بری بات پکار کر کہنا پسند نہیں ہے مگر جس پر ظلم ہوا ہو یعنی وہ ظلم کوبرملا بیان کرسکتا ہے (نساء)
قرآن وحدیث میں جابجا بدزبانی اور بد کلامی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ ’’اللہ نے تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت کو اسی طرح حرام کردیا ہے جس طرح تمہارا یہ دن (یوم عرفہ) تمہارا یہ مہینہ(ذی الحجہ) اورتمہاے اس شہر(مکہ) کو محترم بنایا ہے۔
ایک حدیث میں آیاہے کہ ’’ ہردین کا ایک خاص خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خاص خلق حیاء ہے‘‘(موطا امام مالک)حیا ایمان کا جزوِ لاینفک ہے، اسی طرح حدیث میں یہ بھی ہے کہ ’’ایمان کی ساٹھ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔( بخاری) جس طرح ایمان کا تقاضا ہے کہ فواحش اور منکرات سے اجتناب کیا جائے اسی طرح حیا بھی انسان کو برائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔جن لوگوں میں فطرتاً حیا ہوتی ہے ان کو شرعی حیا حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے، یہ وصف بچوں میں بچپن سے ہی پروان چڑھانا چاہیے، سترِ عورت کا خیال،نگاہیں نیچی رکھنا، بے حیائی کی باتوں سے روکنا،برہنگی سے منع کرناچاہیے خواہ خلوت ہی میں کیوں نہ ہواس کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ ہمارے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں جوصرف بول وبراز اور مباشرت کے وقت ہی ہم سے جدا ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ان فرشتوں سے شرماؤ اور ان کا خیال رکھو۔ (ترمذی) علامہ سید سلیمان ندویؒ نے لکھا ہے کہ تھوڑی تھوڑی بے حیائی کی جرأت بڑھتی جائے گی تو رفتہ رفتہ انسان پکا بے حیا بن جائے گا۔
بسا اوقات آدمی بہت سے اجتماعی کام محض شرم وحیا کی وجہ سے نہیں کر پاتا۔ یعنی حیا میں بزدلی اور خوف کا عنصر شامل ہوجاتا ہے، اسلام نے اس کی اصلاح کی ہے اور کہا ہے کہ امرحق کے اظہار میں شرم وحیا حائل نہیں ہونی چاہیے، یہی حیا تھی جس نے بعض مواقع پر صحابہ کرامؓ کو دلیر ،بے جھجک بنا دیا تھا،چنانچہ ایک صحابیہ ایک شرعی حیا کی بنا پر سوال سے پہلے کہہ دیتی ہیں کہ یا رسول اللہﷺ ! خداحق بات کہنے سے نہیں شرماتا ہے ،کیا عورت پر جنابت کا غسل فرض ہے؟ اس کے برعکس رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک شخص نہایت ہی شرمیلا اور حیادار تھا اس کی وجہ سے نقصان اٹھاتا تھا ، اس کا بھائی اس پر ناراض ہوتا تھا رسول اللہﷺ نے دیکھا تو فرمایا کہ اس پر غصہ نہ کروکیوں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔(بخاری) آج باحیا ،باغیرت انسان کو دنیا بے وقوف کہتی ہے اور بے حیا اور چالاک کو ہوشیار اور عقل مند سمجھتی ہے۔اس منظر نامے کو بدلنے کی ہمیں فکر کرتے رہنا چاہیے۔
(مضمون نگار امیرحلقہ جماعت اسلامی ہند بہار ہیں ان کا رابطہ نمبریہ 861882777 ہے)
***

 

***

 سیرت النبی کے اس لازوال واقعہ سے کون واقف نہیں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ابھی بچے تھے، خانہ کعبہ کی تعمیر کاکا م ہورہا تھا، آپ بھی پتھر اٹھا اٹھا کرلا رہے تھے، آپ کے چچا حضرت عباسؓ نے کہا تم بھی تہبند کھو ل کر اپنے کندھے پر رکھ لو تاکہ کندھے درد نہ کرے،آپ نے ایسا کرنا چاہا تو آپ پر بے بیہوشی طاری ہوگی،ہوش آیا تو زبان مبارک پرتھا، میرا تہبند! میرا تہبند! آج صورتحال یہ ہے کہ سڑکوں کے کنارے ،کلبوں میں پارکوں میں، سیروتفریح کی جگہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے بانہوں میں ہاتھ ڈالے بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں دنیااس کو آزادی کا نام دیتی ہے ،کسی نے ٹوک دیا تو وہ دقیانوسی کہلاتا ہے ، ان پر آزادی سلب کرنے کا حکم نافذ کردیا جاتا ہے اورسوال کیا جاتا ہے کہ تم کون ہوتے ہو ہماری آزادی میں مداخلت کرنے والے؟ ایسے نوجوانوں کو رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے سبق لینا چاہیے۔ آپ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کنواری لڑی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024