جنس ثالث کی حقیقت اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے دو روزہ سیمینار

جنسی بے راہ روی کے بڑھتے ہوئے طوفان بدتمیزی کو اسلام ہی روک سکتا ہے

0

نعمان بدرفلاحی
(ریسرچ اسکالر ، شعبۂ عربی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)

’’ہر عہد میں چند سماجی مسائل ، فتنے ،چیلنجز اور سنگین اخلاقی برائیاں پائی جاتی ہیں جن سے انسانیت کو بچانے اور ان کے سد باب کے لیے غور و فکر ، مطالعہ ، مذاکرہ ،تجزیہ ،اورعلمی و تحقیقی مقالات میں پیش کی گئیں تجاویز اور نتائج کو عام کیا جاتا ہے تاکہ معاشرہ اور سماج میں نیکیوں کا فروغ ہو اورامن و چین کی فضا قائم ہو سکے ۔ اِس زمانے میں مغرب اوراس کی خدا بیزار تہذیب کے غلبے کے سبب ایک بہت بڑا فتنہ ’غیر فطری جنسی اعمال ‘یعنی Unnatural Sex کی شکل میں انسانی سماج کو بہت تیزی سے اپنی گرفت میں لے رہا ہے ۔ انگریزی میں اس لعنت کو (LGBTQ+AO) کہتے ہیں ۔ ہم جنس پرستی کے علاوہ تقریباً ۴۰ ایسے غیر فطری جنسی اعمال ہیں جو یورپ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے بعد اب مشرقی معاشروں اور بالخصوص مسلمان ریاستوںمیں بھی پھیل رہے ہیں ۔ اکثرمغربی ملکوں کے اندر اس بیماری میں مبتلاء مرد و خواتین کوقانونی حقوق حاصل ہیں۔ حکومت ، معاشرہ اور عدالتیں ان کی آزادی ، اختیار اور سماجی مساوات کے حق کو تسلیم کرتی ہیں۔ چرچ ، مذہب اور عیسائیت ان بیماریوں کا علاج کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔قبل اس کے کہ اس نفسیاتی بیماری ، اخلاقی وبا ، اور جنسی آوارگی کا طوفان ہمارے معاشرے کی اخلاقیات ، تہذیبی روایات اور انسانی اقدار کو تباہ کردے ‘ ہمیں اس متعدی سماجی مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآنی ہدایات ، احادیث نبوی ،ائمہ کرام اور فقہاء کی قیمتی آراء کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ تدابیر اختیار کرنی ہوں گی اور پیش بندیاں کرنی ہوں گی ۔اس سیمینار کا مقصود یہی ہے کہ اس کے ذریعہ ہماری نئی نسل اور بطور خاص طلبہ و نوجوانوں میں ایک بیداری آئے ۔’خیر امت‘ کے الٰہی لقب سے سرفراز ملت اسلامیہ کی مذہبی قیادت اور اہل علم و دانش اس پیچیدہ اور خطرناک مرض کی سنگینی کو سمجھیں اور اس کے تدارک کے لیے اسلامی تعلیمات اورشرعی اصول و قوانین کی روشنی میں مسئلے کا حل تجویز کریں ۔‘‘ ان خیالات کا اظہار پروفیسر عبد الرحیم قدوائی نے کیا۔
دراصل پچھلے دنوں’خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے غیر فطری جنسی اعمال : قرآن و سنت اور عملی احکام کی روشنی میں ‘‘( LGBTQ+AO in the Quranic Perspective ) کے عنوان سے دوروزہ قومی سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا ۔
ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ کے صدر ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی نے اپنے صدارتی خطاب میں مرکز علوم القرآن اور اس کے ڈائرکٹر کو عصر حاضر کے اس اہم موضوع پر سیمینارکے انعقاد کے لیے مبارک باد پیش کی نیز حمد و ثنا اور تشکر و امتنان کے بعد کہا کہ :
’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ’خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن جانب سے حالات حاضرہ کے کسی زندہ اورسلگتے ہوئے موضوع پر سیمینار کی روایت ایک قابل تعریف و تحسین بات ہے ۔غیر فطری جنسی اعمال کا یہ موضوع بھی ایک حساس اور سنجیدہ Topic ہے جس پر اسلامی نقطہ نظر سے بات کرنا وقت کا تقاضا ہے ۔ یہ سیمینار ایسے زمانے میں منعقد ہو رہا ہے جب جدید دنیاکے عرب پتی اور عالمی سطح کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس بیماری کو ایک نفع بخش صنعت بنانے کے لیے سرمایہ کاری کررہی ہیں ۔ آزادی ،مساوات اور حقوق جیسے خوش نما نعروں کا سہارا لے کر ہر قسم کی بے حیائی ، بد تہذیبی اوراخلاقی برائیوں کو قانونی حیثیت دی جارہی ہے،پالیسیاں بنائی جارہی ہیں اور قانون سازی ہو رہی ہے ۔ ایسے ماحول میں اس انتہائی سنگین انسانی مسئلے پر غور و فکر اور اس کے خلاف زبان کھولنا اور علمی بحثیں کرنا یہ انسانی وقار ، تہذیب اور اخلاقیات کے تحفظ کی ایک سنجیدہ علمی کوشش ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے اندر پائی جانے والی ہم جنسی کی برائی کا واضح طور پر تذکرہ کیا ہے اور اس عمل کو ایک جرم قرار دے کر ان کی بد ترین سزا اور ہلاکت کوانسانوں کے لیے بطور عبرت پیش کیا ہے ۔غیر فطری جنسی اعمال کے سلسلے میں ۱۴ سو برس قبل رسول اللہ ﷺ نے احکامات صادر فرمائے تھے ۔جنسی انحرافات کی تمام شکلیں انسانی فطرت سے بغاوت اور تہذیبی قدروں کو پامال کرتی ہیں ۔تاریخ و سیرت ،نیز ائمہ کے اقوال اورفقہ اسلامی کی بحثوں میں ان بداعمالیوں سے متعلق رہ نمائی اور واضح احکامات موجود ہیں۔قرآن مجید کی رو سے مرد اور عورت کے علاوہ کسی تیسری جنس کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ مخنث دراصل نفسیاتی ‘ جسمانی اور ذہنی مریض ہوتے ہیں جنہیں علاج معالجے، تعلیم و تربیت اور کونسلنگ کے ذریعہ پرسکون اور کسی حد تک نارمل زندگی گذارنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے ۔ ‘‘
میں سمجھتا ہوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ادارہ علوم القرآن میں مغربی دنیا کی ایک بڑی بیماری اور سماجی برائی کے خلاف علمی مجلس کا انعقادایک اچھی پہل ہے ۔بالعموم ہمارے مذہبی حلقے اور دینی جماعتیں اس قبیل کے موضوعات پر گفتگو اور مذاکرہ سے اجتناب کرتی ہیں ۔حالانکہ اہل علم اور دانشوروں کی مجالس میں انسانی سماج کے پیچیدہ مسائل سے متعلق دیگر موضوعات پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں گفتگو، بحث اور فکر سازی کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔ ‘‘
د دوروزہ قومی سیمینار کے اختتامی اجلاس میں مرکز علوم القرآن کے ڈائرکٹر پروفیسر عبد الرحیم قدوائی نے کہا کہ : ’’ الحمد للہ اس دو رو زہ قومی سیمینار میں انسانی سماج میں جنسی آوارگی کی متنوع غیر فطری شکلوں کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیا گیا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غیر فطری جنسی اعمال کی اس عالمی مہم اور تحریک کی پشت پر دنیا کے بڑے سرمایہ دار ہیں جو نفع خوری کے لیے اسے ایک انڈسٹری کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ کپڑے ، کاسمیٹکس،کھلونے اور دیگر اشیاء جن کا یہ طبقہ استعمال کرتا ہے اس کی تجارت ہو رہی ہے ۔اس سیمینار کے اغراض و مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ ہمارے طلبہ ، اسکالر، علماء ، اورارباب حل و عقد کم از کم اس مسئلے کی حساسیت اور نوعیت کو تو سمجھیں ۔ مغرب کے سیاق میں جنسی انحرافات اور غیر فطری اعمال کا مسئلہ ایک سنگین انسانی المیہ ہے ۔برائی کے سد باب کے لیے فی الحال تو یہ بیداری کی ایک علمی کوشش ہے جس کے ذریعہ اسلام کا نقطہ نظر ، احتیاطی تدابیر اور حفظ ما تقدم کے لیے رہ نما اصول پیش کیے جا سکتے ہیں ۔
ہمارے مرکز کی جانب ہر سال وقت کے ایک سلگتے ہوئے موضوع پر محاضرہ کا اہتمام ہوتا ہے ،مقالات لکھے جاتے ہیں اور تحقیقات پیش کی جاتی ہیں تاکہ غور و خوض کے بعد ایک مثبت رخ اختیار کیا جائے اور سماج کی ذہنیت تبدیل ہو ۔مجھے یقین ہے کہ اس سیمینار کے ۴ علمی اجلاسوں میں پیش کیے گئے متنوع علمی مقالات کے چشم کشا پہلو اورقیمتی علمی مباحث ان شاء اللہ انسانیت کے لیے مفید ثابت ہوں گے ۔اسلامیات ، دینیات ،تاریخ ، عربی اور انگریزی ادب کے شعبوں سے ریسرچ اسکالرس اور طلبہ کا بڑی تعداد میں مقالات کے ساتھ شریک ہونا ایک خوش آئند پہلو ہے ۔
اسی کے ساتھ انہوں نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ برس فروری ۲۰۲۶ء میں ان شاء اللہ خلیق احمد نظامی مرکزعلوم القرآن کی جانب سے منعقد ہونے والے سیمینار کا مرکزی موضوع ’’ رزق حلال کی اہمیت قرآن و سنت کی روشنی میں‘‘ ہوگا۔
اختتامی جلسہ کے صدرڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نے اپنے مختصر خطبہ میں فرمایا :
’’ میں خود کو اس لائق ہرگز نہیں سمجھتا کہ ایسی عظیم الشان علمی مجلس میں خطاب کروں مگر یہ قدوائی صاحب کا بڑکپن ہے کہ وہ خردوں پر نوازش کرتے ہیں ، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اورانہیں موقع دیتے ہیں تاکہ ان کی تربیت ہو اور وہ آگے بڑھ سکیں۔ مغربی مفکرین اور نظریہ ساز عدل اور مساوات کے درمیان خلط مبحث کا شکار ہو گئے ۔ آزادی کا جو لا محدود اور الٰہی تعلیمات سے بے نیاز تصور وہاں قائم ہوا اس نے اخلاقیات ، انسانی مجد وشرف،اور سماجی و تہذیبی اقدار و روایات کا بیڑہ غرق کردیا ۔ جنسیات سے متعلق فرائڈ کے نظریات وہاں اس قدر مقبول ہوئے کہ پھر کوئی حد باقی نہیں رہی ۔مرد مرد کے ساتھ شادی کررہا ہے،عورتیں عورتوں کے ساتھ مباشرت کررہی ہیں،انسان جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کررہا ہے ، آپریشن کے ذریعہ اپنی جنس تبدیل کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اوران سب کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔صرف قرآنی اصول و ضوابط اوراسلامی احکامات کے ذریعہ ہی انسان جنسی آوارگی کے اس بحران اور غیر فطری اعمال کی دلدل سے نکل سکتا ہے ۔ کسی دوسرے مذہب اور نظام کے اندر برائی کے اس بہتے دریا پر بند لگانے کی صلاحیت نہیں ہے ۔
قرآنک اسٹڈیز کے اس سینٹرمیں اُن موضوعات پر بات ہوتی ہے جس پر سماج میں بالعموم کوئی زبان نہیں کھولتا۔ ابھی ڈائرکٹر صاحب نے آئندہ برس کے لیے جس موضوع کا اعلان کیا ہے وہ بھی وقت کی ضرورت اور ایک زندہ موضوع ہے ۔‘‘
آخر میں کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے شعبہ کے استاد جناب قاری حامد میاں نے مرکز علوم القرآن کی جانب سے تمام مقالہ نگاروں، علمی اجلاسوں کے صدور،ناظم اور شرکائے اجلاس کے علاوہ مرکز علوم القرآن کے اساتذۂ کرام ،اور غیر تدریسی عملے کا بھی شکریہ ادا کیا جن کی کوششوں اور تعاون کے ذریعہ ہی اتنی خوبصورت علمی بزم سجائی جاسکی ۔
سیمینار کے آرگنائزنگ سکریٹری ڈاکٹر محمد مبین سلیم نے کلمات تشکر سے قبل مرکزی موضوع کا مختصرا ً تعارف پیش کیا اوربتایا کہ مرکزی موضوع اور اس کے متعلقات پر اب تک تقریباً 36 وقیع مقالات موصول ہو چکے ہیں جو بہت جلدان شاء اللہ کتابی صورت میں منظر عام پر آئیں گے۔ شعبہ کے استاد ڈاکٹرمحمد ایوب اکرم نے بحسن و خوبی نظامت کے فرائض انجام دیے ۔
افتتاحی اجلاس کے معاً بعد گیارہ بجے پہلا علمی اجلاس شعبۂ اسلامیات کے استادپروفیسرضیاء الدین فلاحی کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ انہوں نے اپنی صدارتی گفتگو میں بطور خاص تیسری جنس یعنی ’مخنث ‘کے سلسلے میں کہا کہ :
’’ Transgender Community جنہیں ہم’ مخنث ‘کہتے ہیں ان کی فلاح وبہبود اوران کے سماجی و معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومتی سطح پر منصوبہ بندی کی جانی چاہیے ۔گذشتہ دنوں تلنگانہ حکومت نے اس طبقے کے لیے خصوصی مراعات ، نوکریاں اور اسکیمیں چلائی ہیں جس سے انہیں فائدہ ہو رہا ہے ، یہ ایک قابل ستائش کام ہے ۔خدا کی اس مخلوق کے ساتھ سماج میں غیر اخلاقی اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ بے روز گاری، ناخواندگی اور سماج کے منفی رویوں کا شکار یہ طبقہ گدا گری، نشہ خوری، جسم فروشی ، اور دیگر اخلاقی جرائم میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔اگر حکومت کے علاوہ دیگرسماجی ، فلاحی اور مذہبی تنظیمیں اور ادارے ان کی بہتری اور فلاح کے لیے سوچیں اور منصوبے بندی کریں تو ان کے حالات تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ اردو کی معروف ناول نگار رینو بہل نے اس مظلوم طبقے کے مسائل کو اپنے ناولوں میں اٹھایا ہے اور ان کی ترجمانی کی ہے ۔اس درماندہ طبقے کے مسائل کو سمجھنے کے لیے ان کے ناول کا مطالعہ مفید ہوگا ۔اس کے علاوہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے تحقیقات اسلامی میں متعدد تحقیقی مضامین لکھے ہیں جن کی خواندگی انتہائی مفید ہوگی ۔ ‘‘
دوسرے علمی اجلاس میں شعبۂ دینیات سنی کے استاد ڈاکٹر ندیم اشرف نے اپنی صدارتی گفتگو میں فرمایا : ’’اس سیمینار کا موضوع جدید دنیا کا ایک سلگتا ہوا عنوان ہے ، اللہ رب العزت نے نسل انسانی کی بقا،افزائش اورتسلسل کے لیے نکاح کے ذریعہ فطری جنسی داعیات کی تسکین کا سامان کیا ہے مگر انسان اپنی فطرت اور سماجی اقدار سے بغاوت پر آمادہ ہے ۔مغربی دنیا میں غیر فطری جنسی اعمال کا بحران سنگین ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ اگر ہم لوگوں نے اس سماجی برائی سے اپنے معاشرے کو بچانے کے لیے بچوں اور نسل نو کی ذہن سازی اور تربیت پر خصوصی توجہ نہیں دی تو نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں ۔ہمارے بچے موبائل ، اسکرین ، ٹیلی ویژن اورانٹر نیٹ پر کیا دیکھ رہے ہیں ‘ ہمیں معلوم رہنا چاہیے۔ اکثر گھروں میں بچوں کو کارٹون فلمیں دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے ،ان کے اندر بھی مخرب اخلاق مواد ہوتا ہے جن سے بچنا لازمی ہے ۔‘‘
تیسرے علمی اجلاس کی صدارت مولانا جرجیس کریمی نے کی، انہوں نے دوران گفتگو کہا کہ : ’’قرآن مجید میں جنسی انحراف کی ایک شکل لواطت کی شناعت اور قباحت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت لوط علیہ السلام کی جاہل،باغی اور نافرمان قوم کے اندرجب ایک غیر فطری عمل عام ہوگیا تو رب العالمین نے پوری قوم کوعذاب کے ذریعہ تباہ کردیا ۔مغربی جدیدیت کے علم بردار آج سر کشی میں قوم لوط سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ان کے یہاں رائج جنسی انحرافات کی شکلوں کے بارے میں پڑھ کر اور سن کر ہی طبیعت مضطرب ہوجاتی ہے ۔آج معروف اخلاقی قدروں اور مذہبی تعلیمات کو فراموش کرنے کے بعد انسان ذلت اور ضلالت کی گہری کھائی میں گر رہے ہیں۔ اہل مغرب آزادی کے نام پر جنسی بے راہ روی اور انحرافات کی جس راہ پر دوڑ رہے ہیں وہ تباہی اور ہلاکت کی شاہ راہ ہے ۔صرف اسلام ہی انسانی فطرت کے مطابق بے لگام جنسیات پربندش لگاتا ہے اور اخلاقی پابندیاں عائد کرتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سیمیناروقت کے ایک اہم اور سلگتے ہوئے موضوع پر منعقد ہواہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنی معاشرتی اصلاح کی جانب متوجہ کیا گیا ہے ۔‘‘
چوتھےاور آخری علمی اجلاس کے صدر ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا :
’’اس سیشن کے تقریباً تمام مقالہ نگار طلبہ تھے مگر ایک حساس اور سنجیدہ علمی موضوع پر ان کے مضامین ان کی علم دوستی اور سماجی برائیوں کے خلاف ان کی بیداری اور بے زاری کے غماض ہیں ۔ یہودیت اور عیسائیت غیر فطری جنسی اعمال کے بارے میں اپنا واضح موقف پیش کرنے اور ان کے خلاف کوئی مؤثرعلمی اور سماجی تحریک چلانے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ اب یہ طاقت ، صلاحیت اور حوصلہ صرف اہل اسلام کے پاس ہے کہ وہ علمی ، تہذیبی، الہامی،اور دستاویزی دلائل کی بنیاد پر اس برائی اور بیماری کے انسداد اور بیخ کنی کے لیے زور دار مہم چلائیں اور اپنے معاشرے کو ایسی قباحتوں سے محفوظ بنائیں۔
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 مارچ تا 08 مارچ 2025