
شیخ سلیم
گزشتہ روز لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل 2024 کو 279 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کر لیا گیا، جب کہ محض 154 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ حیرت انگیز طور پر تلگو دیشم پارٹی اور جنتا دل یونائیٹڈ جو ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹوں کے سہارے اقتدار تک پہنچتی رہی ہیں، اس بل کی حمایت میں کھڑی ہو گئیں۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں اپنی حمایت واپس لے لیتیں تو حکومت اپنی اکثریت کھو سکتی تھی اور یہ متنازعہ بل منظور نہ ہو پاتا۔ اگر یہ جماعتیں چاہتیں تو حکومت کو بھی گرا سکتی تھیں۔
یہ بل دراصل وقف املاک کے انتظامی اختیارات کو حکومت کے تحت لانے کی ایک سازش ہے۔ ہندوستان میں تقریباً آٹھ لاکھ ایکڑ وقف اراضی موجود ہے، جس کی مالیت 1.2 ٹریلین روپے سے زائد ہے، اور اس کا 70 فیصد سے زیادہ غیر قانونی قبضوں کی زد میں ہے۔ کئی مساجد، مدارس اور دیگر وقف ادارے نہایت کم کرایے پر دیے گئے ہیں جو مارکیٹ ریٹ سے سو گنا سے بھی کم ہیں۔ قوانین اس قدر سخت ہیں کہ نہ ان دکانوں کو خالی کرایا جا سکتا ہے نہ کرایہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ وقف کی یہ جائیدادیں بنیادی طور پر تعلیمی اداروں، مساجد، قبرستانوں، یتیم خانوں اور دیگر فلاحی تنظیموں کے لیے وقف کی گئی تھیں مگر اس نئے قانون کے تحت حکومت کا ان پر اختیار مزید بڑھ جائے گا جس سے اقلیتوں کے مذہبی و تعلیمی ادارے مالی اور انتظامی طور پر مزید کمزور ہو جائیں گے۔
تلگو دیشم پارٹی اور جنتا دل یونائیٹڈ ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ بٹورتی آئی ہیں جبکہ بہار اور آندھرا پردیش کے لاکھوں مسلمانوں نے ان پر بھروسا کیا ہے۔ بہار میں جنتا دل یونائیٹڈ کے ووٹروں میں تقریباً 30 فیصد مسلمان ہیں جبکہ آندھرا پردیش میں 18 فیصد مسلم ووٹر تلگو دیشم پارٹی کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ مگر جب مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہوا تو یہی جماعتیں بی جے پی کے ساتھ کھڑی ہو گئیں اور مسلمانوں کے اعتماد کو روند ڈالا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ان جماعتوں نے مسلمانوں سے بے وفائی کی ہو۔ 2019 میں جب شہریت ترمیمی قانون (CAA) متعارف کرایا گیا تو نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈ نے حکومت کی حمایت کی تھی۔ اسی طرح 2014 میں تلگو دیشم پارٹی نے نریندر مودی کی پہلی حکومت میں این ڈی اے کی حمایت کی حالانکہ بی جے پی کا مسلم مخالف ایجنڈا کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔
یہ قانون ہندوستانی آئین کی کئی اہم دفعات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دفعہ 25، 26 اور 30 براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ دفعہ 25 ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل، اس کی تبلیغ اور پیروی کا مکمل حق دیتا ہے۔ دفعہ 26 تمام مذاہب کو اپنے مذہبی امور آزادانہ طریقے سے چلانے کا اختیار دیتا ہے۔ دفعہ 30 اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام سنبھالنے کا مکمل حق فراہم کرتا ہے۔ وقف املاک پر حکومتی کنٹرول ان تمام آئینی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے اور اقلیتوں کے حقوق پر کاری ضرب ہے۔ بابری مسجد کی شہادت ایک مسجد پر حملہ تھا مگر یہ قانون پورے ملک کی مساجد، مدارس، قبرستانوں اور امام بارگاہوں پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حملہ ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیں اور اپنی اہمیت کو پہچانیں۔ ان کے پاس قوت، تعداد اور سب سے بڑھ کر وہ اجتماعی شعور موجود ہے جو اگر منظم ہو جائے تو ہر سیاسی چال کو ناکام بنا سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور ایسے نمائندے منتخب کریں جو ان کے حقیقی محافظ ہوں۔ اگر آج وہ بے سمت اور بے راہ رہ گئے تو کل ان کے مزید حقوق سلب کر لیے جائیں گے۔
مسلمانوں کو اب اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی۔ جن نام نہاد سیکولر جماعتوں کو وہ اندھا دھند ووٹ دیتے آئے ہیں، اب ان پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ محض مذہبی نعرے بازی سے نکل کر انہیں عملی سیاست میں اپنا مقام بنانا ہوگا۔ مسلمان اپنی سیاسی جماعت تشکیل دیں، اپنی قیادت خود کھڑی کریں، اپنی قیادت پر اعتماد کریں، اپنے تعلیمی اداروں کو مستحکم کریں، کیونکہ دوسروں نے ہمیشہ انہیں دھوکہ دیا ہے۔ اپنی معیشت کو مستحکم کریں اور ایسے رہنما منتخب کریں جو وقتی مفادات کے بجائے ملت کی اجتماعی بھلائی کو فوقیت دیں۔ دشمن ہمیشہ منتشر قوموں پر حملہ کرتا ہے، اگر مسلمان فرقوں، زبانوں اور علاقائی تعصبات میں بٹے رہے تو ان کی کمزوری میں مزید اضافہ ہوگا۔
اپوزیشن جماعتوں نے وقف بل کی مخالفت میں بہترین کردار ادا کیا۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی، آل انڈیا ترنمول کانگریس، تمل ناڈو کی ڈی ایم کے، لالو پرساد کی جنتا دل اور شیو سینا (ادھو ٹھاکرے گروپ) نے پارلیمنٹ میں مضبوط آواز اٹھائی جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انشاءاللہ اس کی تفصیل آئندہ مضمون میں تحریر کی جائے گی۔
مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی انہوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا، کامیابی ان کے قدم چومتی رہی۔ آج بھی اگر وہ اپنے ووٹ کا دانشمندانہ استعمال کریں، دھوکہ باز سیاست دانوں کو مسترد کریں اور اپنی آواز بلند کریں تو وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ وقف املاک کا تحفظ محض ایک قانونی یا مالی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے مذہبی، تعلیمی اور قومی تشخص کا معاملہ ہے۔ لہٰذا، ہر مسلمان کو بیدار ہونا چاہیے، اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور اپنی طاقت کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔
(مضمون نگار ویلفیئر پارٹی آف انڈیا سے وابستہ ہیں)
***
تلگو دیشم پارٹی اور جنتا دل یونائیٹڈ ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ بٹورتی آئی ہیں جبکہ بہار اور آندھرا پردیش کے لاکھوں مسلمانوں نے ان پر بھروسا کیا ہے۔ بہار میں جنتا دل یونائیٹڈ کے ووٹروں میں تقریباً 30 فیصد مسلمان ہیں جبکہ آندھرا پردیش میں 18 فیصد مسلم ووٹر تلگو دیشم پارٹی کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ مگر جب مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہوا تو یہی جماعتیں بی جے پی کے ساتھ کھڑی ہو گئیں اور مسلمانوں کے اعتماد کو روند ڈالا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025