جہاد فی سبیل اللہ کا قرآنی نصاب
فساد فی الارض کو ختم کرنے کے فریضے کو وحی الٰہی سے سمجھنا چاہیے
ڈاکٹر ساجد عباسی
شر اور طاقت جب ایک جگہ جمع ہو جائیں تو دنیا میں فساد رونما ہوتا ہے۔امتحان کی غرض سے ظالموں کو ڈھیل دی جاتی ہے تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ ان کے اندر کتنی خباثت ہے، لیکن یہ ڈھیل لامحدود نہیں ہوتی ہے ۔ظلم جب ایک خاص حد سے تجاوز کر جاتا ہے تو ظالم کو پکڑلیا جاتا ہے ۔اس کو پکڑنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے مقابلے میں دوسری قوت کو اٹھایا جاتا ہے جو اس کو ختم کردیتی ہے۔
قرآن میں جہاد و قتال کے متعلق بہت سی آیات آئی ہیں جو غزوات کے بعد ان پر تبصرہ کے طور پر بھی آئیں ہیں اور کچھ جہاد کی اہمیت، اغراض و مقاصد کو بیان کرنے کے لیے آئی ہیں ۔ان آیات کے خلاصے کو ذیل کی سطور میں پیش کیا گیا ہے:
دنیا میں اللہ تعالیٰ نے دو طرح کی قوتوں کو رکھا ہے ۔ایک طرف حق کی طاقت ہے تو دوسری طرف باطل کی طاقت ہے۔ ابتدائے آفرینش سے دونوں قوتیں اس دنیا میں باہم برسرِ پیکار ہیں۔اسی حق و باطل کی کشمکش میں انسانوں کا امتحان لیا جا رہا ہے کہ کون حق کے علمبردار اور اس سے ہمنوا ہیں اور کون باطل کے علمبردار اور اس کے معاون ہیں۔اللہ تعالیٰ اس کائنات کو اصلاً امتحان کے لیے پیدا فرمایا ہے اور امتحان کے لیے فکر وعمل کی آزادی دی ہے۔ اس آزادی کے غلط استعمال کا ہر وقت امکان رہتا ہے جس سے دنیا میں فتنہ و فساد رونما ہوتا رہتا ہے۔ اگر حق کی طاقت غالب ہوں تو دنیا میں امن و انصاف قائم رہتا ہے لیکن اگر شرکی طاقتیں غالب ہوں تو دنیا فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری سے بھر جاتی ہے۔ اہلِ ایمان سے یہ مطلوب ہے کہ جہاں وہ اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچائیں وہیں وہ امن و انصاف کے قیام کے لیے غالب رہیں اور باطل کی طاقتوں کو مغلوب حالت میں رکھیں ۔اس لیے کہ شر اور طاقت جب ایک جگہ جمع ہو جائیں تو دنیا میں فساد رونما ہوتا ہے۔امتحان کی غرض سے ظالموں کو ڈھیل دی جاتی ہے تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ ان کے اندر کتنی خباثت ہے ۔لیکن یہ ڈھیل لامحدود نہیں ہوتی ہے، ظلم جب ایک خاص حد سے تجاوز کر جاتا ہے تو ظالم کو پکڑ لیاجاتا ہے ۔اس کو پکڑنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے مقابلے میں دوسری قوت کو اٹھایا جاتا ہے جو اس کو ختم کردیتی ہے۔ اگر ظالموں کو ظلم کی ایک حد کے بعد نہ پکڑا جائے تو دنیا میں انسانیت کی بقا ہی خطرہ میں پڑجائے گی۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
۱۔۔۔ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ۔
اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے کہ وہ اس طرح دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے۔ (سورۃ البقرۃ:۲۵۱)
اسلام میں دو طرح کی جنگیں لڑی گئیں ۔ایک دفاعی نوعیت اور دوسری اقدامی۔
دفاعی جنگیں : دفاعی جنگ اس وقت لڑی جاتی ہے جب ایک طاقتور دشمن ملک ایک کمزور مسلم ریاست پر حملہ کرے۔ اس وقت وہ ریاست اللہ کے بھروسے پر اس ظلم کے خلاف حتی الامکان تیاری کرکے اس ظالم ملک کے خلاف اٹھے۔ اس کی مثالیں غزوۂ بدر، احد اور احزاب ہیں ۔
۲۔أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ۔
اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔(سورۃ الحج:۳۹)
۳۔الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ”ہمارا رب اللہ ہے۔“اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔اللہ بڑا طاقتور اور زبر دست ہے۔ (سورۃ الحج:۴۰)
اقدامی جنگیں : اقدامی جنگیں دو صورتوں میں لڑی جاتی ہیں ۔ایک وہ صورت جب کسی طاقتورمسلم ملک کے ہمسایہ میں کوئی کمزور ملک ہو جہاں کی رعایا پر ظلم ہورہا ہو تو اس وقت اس ظالم مملکت سے لڑکر وہاں کی عوام کو ظلم سے نجات دلایاجائے۔
۴۔وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔ (سورۃ النساء:۷۵)
اقدامی جنگ کی دوسری صورت یہ ہے کہ دنیا سے فتنہ و فساد کا استیصال مقصود ہو۔
۵۔وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ۔
اے ایمان لانے والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔پھر اگر وہ فتنہ سے رک جائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے۔ (سورۃ الانفال:۳۹) اسی آیت کو سورۃ البقرۃ ۱۹۳میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ دہرایا گیا ہے۔
اسلام کا اہم ترین اصول یہ ہے کہ دین کے معاملے میں جبر و اکراہ نہیں ہے، یعنی بزورِ قوت کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دینِ اسلام کو قبول کرے۔ اسی طرح اسلام یہ بھی نہیں چاہتا کہ دنیا کے کسی ملک میں جبر و اکراہ کے ذریعے قبولِ اسلام میں رکاوٹ باقی رہے ۔ دینِ اسلام پر چلنے، اس کی اشاعت کرنے اور اس کو قبول کرنے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔فتنہ وفساد کو ختم کرنے کے لیے اقدامی جہاد کو فرض کردیا گیا ہے۔
۶۔وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۔
فتنہ خون ریزی سے شدید تر ہے۔ (سورۃ البقرۃ:۲۱۷) خون ریزی کے ڈر سے فتنہ سے صرفِ نظر کرنا امت کی بقاہی کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے۔
۷۔وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ۔ اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پرصرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (سورۃ الانفال:۲۵)
فتنہ کا جہاد وقتال سے بر وقت سد باب نہ کیا گیا تو ایسی مصیبت آ سکتی ہے جو پوری اسلامی مملکت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے جس میں اچھے اور برے سب ہی زد میں آئیں گے۔ فتنہ سے مراد ایسی صورتحال بھی ہے جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہ کرنے سے پیش آتی ہے۔
۸۔وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ۔
جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد بر پا ہو گا۔ (سورۃ الانفال:۷۳)
جس طرح کفار و مشرکین مسلمانوں کے مقابلے میں متحد ہوکر لڑ رہے ہیں اسی طرح مسلمان بھی ان کے خلاف متحد ہوکر جہاد وقتال نہ کریں تو زمین فتنہ وفساد سے بھر جائے گی۔
۹۔فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَلِكَ وَلَوْ يَشَاء اللَهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ ۔
پس جب ان کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کر ویا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔یہ ہے تمہارے کرنے کا کام۔ اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے۔ اور جو لوگ اللہ راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کےاعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ (سورۃ محمد:۴)
اسلامی ریاست کے مستحکم ہونے تک دشمن کو کمزور کرنے کے تمام مواقع کو بروئے کار لایا جائے ۔دشمنانِ اسلام کے ساتھ تھوڑی سی بھی رعایت اسلامی ریاست کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ مزید اس آیت میں یہ بات بتلائی گئی ہے کہ پچھلی قوموں میں رسولوں کا انکار کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہواکرتا تھا ۔لیکن اب اللہ کی سنت یہ ہے آسمان سے عذاب بھیجنے کے بدلے میں اللہ تعالیٰ مومنوں کے ہاتھوں کفار کو شکست سے دوچار کرے تاکہ اس سے مومنوں کی بھی آزمائش ہو۔
۱۰۔لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔(سورۃ الحدید:۲۵)
لوہے اتارنے کے دو مقاصد ہیں : اللہ تعالیٰ نے لوہے کو اتارا جو قوت کا مظہر ہے جس کا ایک مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی صنعتی ضروریات کی تکمیل ہو اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس سے ہتھیار بنائے جاسکیں جس سے فتنہ و فساد کا استیصال ہو سکے اور دنیا میں امن قائم ہو سکے۔ اسلام میں جنگ کا مقصد امن کو قائم کرنا ہے۔ ساتھ میں اللہ تعالیٰ نے کتاب اور میزان نازل کی یعنی شریعت اور شریعت کے نفاذ کے لیے قوت واقتدار دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔شریعت (میزان ) کے بغیر اقتدار (لوہا) فساد کا موجب ہے، اور شریعت بغیر اقتدار (قوتِ نافذہ ) کے معاشرہ میں قائم نہیں کی جاسکتی ۔
قتال میں مارے جانے والوں کو شہید کہا گیا جن کے درجات بہت بلند ہیں
۱۱۔وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ )سورۃ البقرۃ:۱۵۴)
۱۲۔وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ۔
جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ۔ایسے لوگ عالم ِ برزخ میں اللہ کے پاس رزق پارہے ہیں ۔ (سورۃ آل عمران:۱۶۹)
۱۳۔إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ۔
اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہےتو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کو ن ہیں اور تم میں سے کچھ کو مقامِ شہادت پر فائز کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔
(سورۃ آل عمران:۱۴۰)
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو اس اصول پر بنایا ہے کہ اس کرۂ ارض پر حق و باطل میں کشمکش برپا رہے گی اور حالات یکساں نہیں رہیں گے۔ جنگی حالات بھی پیش آتے رہیں گے جس سے نشیب و فراز آتے رہیں گے۔کبھی اہل ِ ایمان کو فتح نصیب ہوگی اور کبھی کفار ومشرکین کو فتح ہوگی تا کہ دنیا میں اشتباہ کا پردہ قائم رہے اور لوگوں کی آزمائش ہوتی رہے۔دوسرا مقصدیہ ہے کہ اس کے ذریعے بعض مومنین کو اللہ تعالیٰ شہادت کے مرتبہ پر فائز کرنا چاہتا ہے۔
۱۴۔ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۔
اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ ”تمہارے خلاف بڑی فوج جمع ہوئی ہیں، ان سے ڈرو“ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے او ر وہی بہترین کار ساز ہے۔ (سورۃ آل عمران:۱۷۳)
اللہ کی راہ میں جان دینے کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے جنگی خطرات مزید ان کے ایمان کو بڑھانے سبب بن جاتے ہیں۔یہاں ایمان سے مراد حوصلہ ہے ۔جب اہل ایمان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہیں اور اللہ ان کی مدد پر قادرہے تو ایسی صورت میں وہ حق کی راہ میں موت کو باعث سعادت سمجھتے ہوئے میدان جنگ میں پامردی سے لڑتے ہیں ۔موت ان کو مقامِ شہادت پر پہنچا دیتی ہے اور غازی بننے کی صورت میں دنیا میں عزت و شوکت حاصل ہوتی ہے۔ شہداء کو آخرت میں جس اعزاز سے نوازا جائے گا اس پر یقین پیدا ہو جائے تو اہل ایمان شہادت کی موت کے لیے نہ صرف تیار رہتے ہیں بلکہ ایسی موت کے منتظر ہوتے ہیں ۔یہی جذبۂ شہادت اہلِ اسلام کو ناقابلِ تسخیر بنا دیتا ہے۔
***
***
اللہ کی راہ میں جان دینے کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے جنگی خطرات مزید ان کے ایمان کو بڑھانے سبب بن جاتے ہیں۔یہاں ایمان سے مراد حوصلہ ہے ۔جب اہل ایمان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہیں اور اللہ ان کی مدد پر قادرہے تو ایسی صورت میں وہ حق کی راہ میں موت کو باعث سعادت سمجھتے ہوئے میدان جنگ میں پامردی سے لڑتے ہیں ۔موت ان کو مقامِ شہادت پر پہنچا دیتی ہے اور غازی بننے کی صورت میں دنیا میں عزت و شوکت حاصل ہوتی ہے۔ شہداء کو آخرت میں جس اعزاز سے نوازا جائے گا اس پر یقین پیدا ہو جائے تو اہل ایمان شہادت کی موت کے لیے نہ صرف تیار رہتے ہیں بلکہ ایسی موت کے منتظر ہوتے ہیں ۔یہی جذبۂ شہادت اہلِ اسلام کو ناقابلِ تسخیر بنا دیتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024