
جہاداور اجتہاد :اسلامی ریاست کی بقااوراستحکام کے ضامن
فکری جمود اور عسکری کمزوری: زوال کی اصل وجوہات
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی کرتا ہے۔ اس دین کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے اور اس کے اصولوں کو وقت کے تقاضوں کے مطابق نافذ کرنے کے لیے دو اہم ذرائع ہیں: جہاد اور اجتہاد۔ دونوں اصطلاحات مختلف ہیں لیکن امت کی فلاح و بقا میں ان کا کردار غیر معمولی ہے۔ جہاد اسلام کے دفاع اور باطل کے خلاف جدوجہد کا نام ہے، جبکہ اجتہاد فکری کاوش، علمی غور و فکر اورقرآن وسنت کی روشنی میں ان تمام مسائل کا حل ہےجو انسانوں کو درپیش ہیں ۔
اسلام اللہ کا دیا ہوانظامِ حیات ہے جو مقامی ،ملکی اور بین الاقوامی سطح پر عدل وانصاف ، ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے ۔اسلام ایسے اخلاقی اصول پیش کرتا ہے جو ہرزمانے اور ہرملک کے لیے یکساں طورپر عدل پر مبنی ہیں ۔مفادپرستانہ قومیت کے برے اثرات سے اسلام نجات دلاتا ہے جہاں ایک قوم اپنے قومی مفاد کے لیے دشمن قوم کے ساتھ ناانصافی اورظلم کو جائز بلکہ ضروری سمجھتی ہے۔آج دنیا کے طاقتوراقوام نے اس مفادپرستانہ قومیت کو سیاسی اصول کے طورپر اپنا یا ہے جس سے دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔صرف اسلام کے بے لاگ مبنی برانصاف اصول ہی دنیا کو سنگین خطرات سے بچاسکتے ہیں ۔چونکہ فکر وعمل کے میدان میں عوام بھی آزادہیں اور ان کے حکم راں بھی۔ اس لیے اس دنیا میں ہرطرح کے اصول ونظریات پائے جاتے رہے ہیں ۔ان میں نسل پرست قومیں بھی پائی جاتی ہیں جوایسے خطرناک نظریات کے حامل ہیں جن کے مطابق دوسری اقوام کو کمتر سمجھ کر ان کےوسائل اورزمینوں پر قبضہ کرکے ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کو جائز سمجھتے ہیں ۔ اس لیے یہ دنیا ہمیشہ حق وباطل ،انصاف اور ناانصافی کے درمیان کشمکش کی رزمگاہ بنی رہی ہے۔یہاں انصاف پسند لوگ راست روی پر گامزن ہوں مگر طاقت سے محروم ہوں تو ان کو دنیا میں جینے کے حق ہی سے محروم کردیا جائے گا۔سوال یہ ہے کہ دنیا میں نیکی وراستبازی کے ساتھ بقا کا کیا راستہ ہے؟اسلام اس کا راستہ یہ دکھاتا ہے کہ قوت کو اس حدتک فراہم کیا جائے کہ دشمن اسلامی ریاست کو ترنوالہ (soft target)نہ سمجھے اور جب چاہے اس پر حملہ کرکے اس کو نیست ونابودنہ کرسکے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ(سورۃ الانفال :۶۰)’’ اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھوتاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔‘‘اسلام کی یہ وہ تعلیم ہے جس میں اسلامی ریاست کی بقا کا سامان اس طرح رکھا گیا ہےکہ دشمن اس پر حملہ کرنے کی ہمت ہی نہ کرسکے۔اسی صورت میں اسلامی ریاست امن کے ساتھ اپنی عوام کی حفاظت کرسکتی ہے۔وہ مملکت ہی کیا جو اپنی عوام کی حفاظت نہ کرسکے؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسا عظیم الشان نسخہ بتلا دیا ہے جس میں امن کی مکمل ضمانت ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی اسلامی ریاستوں کے حکم راں عیش وعشرت میں ڈوب کر اپنے دشمنوں سے غافل ہوئے عین اسی وقت دشمن ممالک کی فوجوں نے یلغارکی ۔خلافتِ عباسیہ تاتاریوں کے ہاتھوں اسی طرح پامال ہوئی جب خلیفہ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اطراف واکناف میں کون پیش قدمی کررہا ہے ۔اور جب بھی اسلامی ریاست میں اختلاف وانتشار بڑھا اس وقت دشمنوں نے منافقوں کی اندرونی چالوں سے فائدہ اٹھاکر حملہ کیا اور اسلامی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔اسپین میں شانداراسلامی سلطنت آپسی ریشہ دوانیوں کا شکارہوئی اور مکمل طورپر اس طرح تباہ ہوئی کہ عیسائی مملکت میں انفرادی طورپر مسلمان بن کر رہنا بھی ممکن نہ رہا ۔ اگر اسلامی ریاست عسکری لحاظ سے کمزورہو تو یہ ہمیشہ خطرات سے گھری ہوگی یا پھر اس پر ظالم ملکوں کا ایساتسلط رہے گا جس میں نہ حکم راں آزادہوں گے اورنہ ہی عوام ۔ایسی مغلوب ریاستوں کے حکم راں ایک جانب اپنے آقاؤں کے تابع ہوں گے اوردوسری جانب وہ اپنی ہی عوام کے حق میں بدترین ظالم ثابت ہوں گے۔اسلامی مملکت جب فوجی مغلوبیت کا شکارہوجاتی ہے تو اس کے بعد سیاسی اور تہذیبی مغلوبیت بھی لازماً اس کا مقدرہوجاتی ہے۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ سوپر طاقتوں نے مسلم ملکوں پر فوجی غلبہ حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں پر اپنی تہذیب اور ثقافت کے گہرے اثرات چھوڑے ہیں ۔برطانیہ ،فرانس اور اٹلی کی جتنی بھی نوآبادیات رہی ہیں وہاں انہوں نے ان کے وسائل کو لوٹا اور وہاں کی عوام پر اپنی زبان اوراپنی گندی ثقافت کو رائج کیا یہاں تک کہ عوام کا قابلِ لحاظ طبقہ ان کی تہذیب سے متاثر ہوکر ذہنی غلامی کا شکار ہوا ۔اسلام ،اسلامی ریاست کے حکم رانوں کو صرف اپنی ہی ریاست کے تحفظ پر قانع نہیں رکھتا بلکہ یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں ظلم ہورہا ہے وہاں مظلوموں کی دادرسی کی خاطر وہ اپنی فوجی طاقت کے زورپر ان کو ظلم سےنجات دلائے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورۃ النساء: ۷۵)’’ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔‘‘سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر دس ہزارکا لشکر اسی لیے تیارکیا گیا تھا کہ مکہ میں رہنے والے ان مسلمانوں کو آزادکروایا جائےجو نہ اسلام پر عمل کرسکتے تھے اور نہ ہی ہجرت کرسکتے تھے ۔اس مہم جوئی کو رازمیں رکھا گیا تاکہ بغیر خون خرابے کے مکہ فتح ہوجائے۔اس کے بعد کی جتنی جنگی فتوحات ہوئیں اسی اصول کے تحت ہوئیں کہ اطراف واکناف کی ریاستوں میں عوام حکم رانوں کے ظلم سے اس حدتک آزادہوں کہ وہ اپنی مرضی سے اسلام کو بطورِدین اختیارکرسکیں ۔اسلام میں جہادوقتال کا مقصدیہی ہے کہ ظلم کا خاتمہ ہو ۔چاہے یہ ظلم خوداپنی ریاست کے خلاف ہو یا کسی اورریاست میں عوام پر ان کے حکم رانوں کی طرف سے ڈھایا جائے۔آج فلسطین میں اہلِ غزّہ ناقابل یقین ظلم و بربریت ،قتل وغارتگری ،بھوک وپیاس کی شدت،بیماریوں میں ادویات سے محرومی سے دوچارہیں ۔ساری مسلم دنیا پر یہ فرض ہے کہ وہ اہلِ غزہ کو اس ظلم سے آزادکروائے ۔اگر وہ اس پر قادرنہ ہوں کہ وہ بڑی طاقتوں سے مقابلہ کرسکیں تو ان پر یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اس طاقت کو حاصل کریں جس سے وہ ان کا مقابلہ کرسکیں ۔مسلم ممالک پر یہ بھی فرض ہے کہ فلسطین کی آزادی کے معاملے میں سب متحدہوں اوران کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہو ۔اور یہ بھی ان ممالک پر فرض ہے کہ جو ملک بھی اس بات کا بیڑہ اٹھائیں کہ اہلِ غزہ وفلسطین کو ظلم سے آزاد کروایا جائے، سب مل کر اس کا ساتھ دیں ۔
اسلام کی طاقت کے دو سرچشمے ہیں ۔ایک ہے جہاد تو دوسراہے اجتہاد۔اجتہاد یہ ہے کہ اسلام کو دنیا کے قدیم وجدید مسائل کے حل کے طورپر پیش کیا جائے ۔اسلام ان تمام سوالوں کا جواب رکھتا ہے جو غیبی حقائق سے متعلق ہوں یا روحانی ،اخلاقی، معاشرتی ،سیاسی اورمعاشی امورسے متعلق ہوں ۔اسلام انسان کی ہر میدان میں رہنمائی کرتا ہے۔اسلام ایسانظام زندگی پیش کرتا ہے کہ جہاں انفرادی واجتماعی زندگی میں عدل وانصاف قائم ہو وہیں انسان کو روحانی سکون بھی میسر ہو۔اسلام دوسرے افکارونظریات پر فکری برتری رکھتا ہے ۔اسلام ہر فکر ونظریہ کو کھلا چیلنج کرتا ہے کہ وہ منطقی سطح پر اس سے مجادلہ کرے اوردلائل کی بنیادپر اپنی حقانیت کو ثابت کرے ۔جس طرح سورج کی شعائیں ہر ایک کے لیے حیات افزا ہیں اسی طرح اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان اسلامی اصولوں اور قوانین سے استفادہ کرے اور اپنی دنیوی اور اخروی زندگی کو بہتر بنائے ۔دنیا میں مسلمانوں کو عروج وزوال حاصل ہوتا رہا لیکن اسلام ہمیشہ فاتح رہا اور اس کو کبھی زوال نصیب نہیں ہوا۔تاتاریوں نے مسلمانوں کو تہس نہس کردیا تھا لیکن یہی وحشی تاتاری قوم نے مفتوح قوم کے دین کو قبول کیا ۔ اسلام چاہتا ہے کہ اہل اسلام دین کے داعی بنیں تاکہ سارے انسان اسلام کے سائے میں کامیابی کے ساتھ زندگی گزاریں اور ان کی آخرت کی زندگی بھی کامیاب ہو۔آج منظم طورپر دعوت الی اللہ کا کام دنیا میں نہیں ہورہا ہے الایہ کہ بہت ہی کم افراد انفرادی طورپر دعوتی شعوررکھتے ہوئے اس فریضہ کو انجام دے رہے ہیں۔ایسے حالات میں اسلام خود اپنا اثر دکھا رہا ہے ۔لوگ خودقرآن پڑھ کر، اس سے متاثر ہوکر اسلام کی آغوش میں پنا ہ لے کر اپنی روحانی پیاس بجھارہے ہیں ۔ ان کے دل میں اٹھنے والے سوالات کا ان کو جب جواب مل جاتا ہے تو اسلام کو وہ سب سے بڑی نعمت سمجھ کر اس کو اختیارکرتے ہیں ۔اجتہاد کا دائرہ بس یہ نہیں ہے کہ عبادات اور معاشرت کے میدان میں فقہی مسائل کا حل پیش کیا جائے ۔اجتہاد کا دائرہ کار بہت وسیع ہے ۔اس دائرہ کارمیں وہ تمام امورزیرِ بحث ہوسکتے ہیں جن میں اسلام دنیا کے مسائل کا حل پیش کرسکتا ہے۔علماء کا کام یہ نہیں ہے کہ عالمی کورس کے بعد کوئی مدرسہ چلائیں ۔وقت کی ضرورت ہے کہ بیک وقت ایک معاشیات کا طالب علم جدیدعلم معاشیات میں بھی ماہرہو اور پھر اسلامی معاشیات کو عالمی معاشی مسائل کے حل کے طورپر پیش کرے۔یہ اپروچ ہرعلم کےمیدان میں مطلوب ہے۔اسی طرح سیاسی میدان میں اسلام کے نظریہ سیاسی کو پیش کرکے ایسانظام وضع کرے جو آج کے جمہوری نظام کی اصلاح کرسکے ۔اس طرح ان گنت انفرادی و اجتماعی انسانی زندگی کے مسائل میں اسلامی تعلیمات کی رہنمائی میں حل پیش کریں ۔جس فکری میدان میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فاتح بنادیا ہے اس میدان میں دوسری اقوام کو کھینچ کر لانا اور ان سے حکمت ،موعظت اور جدالِ احسن سے مکالمہ کرکے اسلام کو حل کے طورپر پیش کرنا مسلمانوں کی اولین ذمہ داری تھی ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورۃ النحل : ۱۲۵) ’’اے نبیؑ ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ،اور لوگوں سےمباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔‘‘
جہادوقتال کے میدان میں جیت بھی ہوسکتی ہے اور ہاربھی ،لیکن دعوت الی اللہ ایسامیدان ہے جہاں مسلمانوں کی جیت یقینی ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (سورۃ الفرقان : ۵۲)’’ پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو۔‘‘قرآن کو دعوت کا ذریعہ بناکر لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کو سب سے بڑاجہاد فرمایا گیا ہے۔ اس لیے کہ قتال ہر وقت نہیں کیا جاسکتا لیکن دعوت الی اللہ کا کام ہر حال میں اور ہر جگہ کیا جاسکتاہے چاہے مسلمان اقلیت اور حالت مظلومیت میں ہوں ۔مکی دورمیں دعوت الی اللہ ہی واحد کام تھا جس پر رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرام کی توجہ مرکوزتھی ۔حقیقت یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام مسلم امت کو کمزوری سے طاقت کی طرف لے جاتا ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنا کام بے سروسامانی کے عالم میں شروع کیا تھا لیکن ہر روز دعوت الی اللہ کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعدادبڑھتی رہی اور آپ کی طاقت بڑھتی رہی یہاں تک کہ یہی دعوت الی اللہ ہجرتِ مدینہ کا دروازہ کھولنے کا سبب بنا ۔جب آپؐ حج کے قافلوں میں جاکر اسلام کی طرف لوگوں کو بلانے لگے تو مدینے کے بارہ افراد اسلام قبول کرتے ہیں اور یہ بظاہر چھوٹا واقعہ اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جوکام امت مسلمہ کو قوت و شوکت کی طرف لے جانے والا ہے اس کو امت مسلمہ بھلا بیٹھی ہے ۔امت مسلمہ بحیثیت مجموعی دعوتی شعورسے محروم ہونے کی وجہ سے اس عظیم فریضہ کو بھلا بیٹھی ہے۔چنانچہ دنیا میں یہ بیانیہ عام کردیا گیا ہے کہ مسلمان حل نہیں بلکہ دنیا کے لیے وہ خود مسئلہ بنے ہوئے ہیں ۔اکیسویں صدی کے آغازسے ہی مسلمانوں کو دہشت گرد بتا کر اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا گیا ہے ۔اس بیانیہ کا ابطال دعوت الی اللہ سے کیا جاسکتا ہے۔دعوت الی اللہ کے سلسلے میں جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ جہاں حق کی قولی شہادت کا اہتمام ہو وہیں مسلمانوں کی عملی شہادت بھی مطلوب ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (سورۃ حٰم السجدۃ :۳۳)’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بُلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘امت مسلمہ دعوت الی اللہ کا فرض انجام دے اور اپنے عمل سے بھی اسلام کی سچی نمائندگی کرے ۔مسلمانوں کا تعارف بھی اسلام کی سچی نمائندگی سے ہوسکتا ہے ۔اگر مسلمان خود اپنا تعارف سچے مسلم کے طورپر نہ کرواسکیں تو پھر دشمنانِ اسلام کو موقع ملے گاکہ وہ مسلمانوں کا تعارف دہشت گرد کے طورپر یا کسی اورحیثیت سے کروائیں ۔اسلام کے خلاف جتنے بیانیے بھی دنیا میں پھیلائے گئے ہیں ان سب کا ابطال اسی طرح ہوسکتا ہے کہ اسلام کا تعارف قولاً وعملاًدنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔اجتہاد کے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے چار اماموں پر اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے ۔جب تک نت نئے مسائل پیداہوتے رہیں گے اجتہاد کا دروازہ کھلا رہے گااور محققین ،علماء،سائنس دا ں اور ماہرین کی مشترکہ علمی و تحقیقی کاوش سے ہی اجتہادکا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔خلاصہ مضمون یہ ہے کہ جہاد دین اور اسلامی ریاست کے تحفظ کا ذریعہ ہے اور اجتہاد دین کے فہم و نفاذاورنت نئے مسائل کاقرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے کا ذریعہ ہے ۔یہ دونوں اسلام کو زندہ اور متحرک رکھنے والے دو بازو ہیں۔عسکری اورفکری محاذوں پر جمود امت مسلمہ کے زوال کا اہم ترین سبب ہے ۔اسلام ایک ایسا دین ہے جو ہر دور میں قابلِ عمل ہے۔امت مسلمہ بقا،ترقی اوروسعت کے لیے جہاد اور اجتہاد دونوں ریل کی پٹریوں کی طرح ہیں جن پر اسلام کی گاڑی چلائی جا سکتی ہے اورامت مسلمہ دنیا کی قیادت کرسکتی ہے ۔ جہاں جہاد دشمنانِ دین کے خلاف طاقت کا استعمال ہے، وہیں اجتہاد دین کی علمی حفاظت اور اس کی عصری تفسیر کا نام ہے۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ ان دونوں محاذوں پر بیداری کا ثبوت دے، تاکہ دین کی سربلندی اور انسانیت کی فلاح ممکن ہو سکے۔ مسلمان جہاں اکثریت میں ہوں وہ اپنی مملکت کو اسلامی ریاست کا نمونہ بنائیں اورعسکری طاقت میں اضافہ کریں تاکہ وہ دشمنوں کے فوجی ،سیاسی اور ثقافتی تسلط سے اپنی مملکت کی حفاظت کرسکیں ۔اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں وہ دینِ اسلام کے داعی بن کر اٹھیں۔یہ کمزوری سے طاقت کی جانب ایک سفر ہے جس میں مسلم اقلیت کی حفاظت،عزت وسربلندی کی ضمانت ہے (سورۃ المائدہ :۶۷،سورۃ محمد:۷)۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025