جگنیش میوانی: ANHAD نے ایم ایل اے کی فوری رہائی اور ان کے اہل خانہ اور دوستوں کو ہراساں کرنا بند کرنے کا مطالبہ کیا
احمد آباد، اپریل 23: ایکٹ ناؤ فار ہارمنی اینڈ ڈیموکریسی (انہد[ANHAD]) نے آسام پولیس کے ذریعہ گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی کی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔
ہفتہ کو جاری کردہ ایک بیان میں انہد نے میوانی کی فوری رہائی اور آسام اور گجرات پولیس کے ذریعہ ان کے اہل خانہ اور دوستوں کو ہراساں کرنا بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
یہ کہتے ہوئے کہ ملک میں ایک ’’غیر اعلانیہ ایمرجنسی‘‘ نافذ ہے، این جی او کے کارکنوں نے کہا کہ اگر کسی دوسری ریاست کی پولیس ایک منتخب ایم ایل اے کو ہراساں کر سکتی ہے، تو سوچیے ایک ’’آمرانہ حکومت‘‘ ان عام شہریوں کے خلاف کیا کرے گی جو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
میوانی کو آسام پولیس نے 20 اپریل کی رات کوکراجھار، آسام میں ایک کارکن کی شکایت پر پالن پور سرکٹ ہاؤس سے گرفتار کیا تھا۔ یہ شکایت وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف جگنیش میوانی کے ایک ٹویٹ پر مبنی تھی۔
میوانی نے اپنے ٹویٹس میں وزیر اعظم نریندر مودی کو مبینہ طور پر مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کا حامی قرار دیا تھا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے اب دونوں ٹویٹس کو ہٹا دیا ہے۔
اپنے ٹویٹس میں میوانی نے پی ایم مودی سے گجرات کے ہمت نگر، کھمبھات اور ویراول میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف بولنے کی اپیل کی تھی۔
میوانی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے این جی او نے کہا کہ ایم ایل اے صرف مودی کی توجہ ہندوستان میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کی طرف مبذول کرانے کے لیے اپنا فرض ادا کر رہا تھا جس پر ’’مودی ہمیشہ خاموش رہتے ہیں۔‘‘
بیان میں کہا گیا ہے ’’یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ 2014 میں مودی کے مرکز میں سیاسی اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
وزارت داخلہ کی رپورٹ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 2014 سے 2017 تک فرقہ وارانہ تشدد میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران بھی فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات نہیں رکے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ-2021 کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پچھلے سال کے مقابلے 2020 میں فرقہ وارانہ فسادات میں 96 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ذات پات پر مبنی فسادات 50 فیصد کے قریب بڑھے، زرعی فسادات بڑھ کر 38 فیصد تک پہنچ گئے، اور تحریک/مورچہ کے دوران ہونے والے فسادات میں 33 فیصد اضافہ ہوا۔
این جی او نے مزید کہا ’’بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے کچھ کرنے اور ان واضح مسائل پر بات نہ کرنے کے بجائے موجودہ بی جے پی حکومت نے آسام اور گجرات کی حکومتوں کی مدد سے جگنیش میوانی کے خلاف اس غیر سنجیدہ کیس کو ترتیب دیا ہے۔ ایک طرف آسام پولس نے جگنیش میوانی کو آدھی رات کو مجرم کی طرح گرفتار کیا ہے۔ اس کے برعکس دوسری طرف گجرات پولیس جگنیش کے کنبہ کے ارکان اور راشٹریہ دلت ادھیکار منچ (RDAM) کے اس کے ساتھیوں کو دھمکا رہی ہے اور ہراساں کر رہی ہے۔‘‘
این جی او کارکنوں نے کہا کہ گجرات کرائم برانچ نے راکھیال، احمد آباد میں راشٹریہ دلت ادھیکار منچ کے دفتر کے کمپیوٹر کو ضبط کر لیا ہے۔ میوانی اس تنظیم سے وابستہ ہیں۔
گجرات پولیس نے جگنیش میوانی کے ساتھی کملیش کٹاریا کے گھر کا دورہ کیا اور اس کا موبائل ضبط کرلیا۔
گجرات پولیس نے جگنیش میوانی کے ایم ایل اے کوارٹرز کا بھی دورہ کیا ہے اور دو مزید ڈیسک ٹاپس، سی پی یوز کو ضبط کیا ہے۔ اس کے علاوہ گجرات پولیس پالن پور میں جگنیش میوانی کے ذاتی معاون ستیش کے گھر بھی گئی۔
بیان میں کہا گیا ہے ’’چونکہ وہ (ستیش) اپنی رہائش گاہ پر موجود نہیں تھا، اس لیے انھوں (پولیس) نے اس کے والدین کے موبائل فون ضبط کر لیے ہیں۔‘‘
انہد نے کہا ’’پولیس نے احمد آباد کے میگھنی نگر میں جگنیش میوانی کے گھر کی بھی تلاشی لی ہے اور ان کے والد کی موجودگی میں کچھ فائلیں ضبط کر لی ہیں۔ جگنیش میوانی کے ایک اور ساتھی بھاویش کو گجرات پولیس کی طرف سے کال موصول ہوئی ہے اور اسے پولیس اسٹیشن میں پیش ہونے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ پوچھنے پر کہ کیا اس کے خلاف کوئی قانونی نوٹس ہے، اسے پولیس اہلکار نے فون پر دھمکی دی کہ اگر اس نے جو کہا وہ نہیں کیا تو اسے اس کے گاؤں سے اٹھا لیا جائے گا۔ جگنیش میوانی کے بہت سے دوسرے دوستوں اور ساتھیوں سے بھی اسی طرح کی خبریں موصول ہو رہی ہیں جنھیں گجرات پولیس بلا کر ہراساں کر رہی ہے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گرفتاری جگنیش میوانی کو خاموش کرنے کے لیے ایک مربوط حملہ ہے، جو پسماندہ کمیونٹیز کے مسائل کو فعال طور پر اٹھا رہے ہیں اور موجودہ حکومت کی تباہ کن پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ان اپوزیشن لیڈروں کے خلاف انتہائی انتقامی کارروائی کرتی ہے جو ان کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔‘‘
جن لوگوں نے بیان پر دستخط کیے ہیں ان میں بھاونا شرما، دیو دیسائی، لینا دبیرو اور ترون ساگر شامل ہیں۔