جگر لخت لخت

اٹھارہ موضوعات اور انشائیے پر مشتمل اس کتاب میں ابن صفی پر لکھے گئےمضامین کا احاطہ کیا گیا ہے

مبصر: محمد عارف اقبال

ادریس احمد خاں اپنے قلمی نام ادریس شاہجہان پوری (پ: 10 دسمبر 1956) سے اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ وہ اردو سروس، آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے۔ ایم فل (اردو) تک تعلیم حاصل کی۔ وہ بچپن ہی سے ابن صفی کی تخلیقات ماہنامہ جاسوسی دنیا الٰہ آباد اور ماہنامہ نکہت میں پڑھتے رہے ہیں۔ وہ ابن صفی کے ایسے پرستار ہیں کہ ان کی تخلیقات کا گہرائی سے مطالعہ بھی کیا اور ابن صفی کی ادبی و علمی خدمات پر مضامین اور انشائیے بھی تحریر کیے۔ انہوں نے اپنے دوست دانش اقبال صاحب کی فرمائش پر ریڈیو کے لیے ابن صفی کی خدمات پر ایک ڈرامائی فیچر بھی لکھا جو زیرنظر کتاب کے مجموعے میں ’راہ طلب میں‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ ان کی ایک اہم تحقیقی اور ضخیم کتاب ’فنگر پرنٹس (ابن صفی کی قلمی جولانیاں)‘ مارچ 2021 میں شائع ہوئی ہے۔ ادریس شاہجہانپوری نے جگر لخت لخت کا انتساب ’فنگر پرنٹس‘ کے حوالے سے یوں لکھا ہے:
’’اپنی کتاب ’فنگر پرنٹس (ابن صفی کی قلمی جولانیاں)‘ کے ان تمام قارئین کے نام جنہوں نے اس کتاب کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔‘‘ 
اس کتاب پر ایک طویل تبصرہ ’اردو بک ریویو‘ (شمارہ جنوری تا دسمبر 2021) میں شائع ہو چکا ہے۔
’جگر لخت لخت‘ بڑا لطیف عنوان ہے۔ پروفیسر دانش اقبال (انور جمال قدوائی، ماس کمیونی کیشن سنٹر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے ادریس صاحب کی توصیف میں کتاب کے بیک کور پر دلچسپ تحریر لکھی ہے۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
’’وہ موضوع کو منفرد زاویوں سے جدت عطا کرتے ہیں اور کوزے میں انوکھے آبشار بند کرنے کے بعد بھی اصل فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ 
اٹھارہ موضوعات اور انشائیے پر مشتمل اس کتاب میں ابن صفی کے حوالے سے لکھے گئے ان مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے جو مطبوعہ بھی ہیں اور غیر مطبوعہ بھی۔ اس کے ساتھ چند مضامین دیگر موضوعات پر لکھے گئے ہیں۔ اس میں ’عارف مارہروی: ایک ممتاز جاسوسی ناول نگار‘ بے حد معلوماتی ہے۔ عارف مارہروی کے تعارف کے ساتھ ان سے انٹرویو بھی شامل ہے۔ ابن صفی کے حوالے سے جو مضامین ہیں ان میں راہ طلب میں… (ریڈیائی فیچر)، دلیری اور دیدہ دلیری، جنگل کی خوفناکیاں، احمق ترین عقل مند، شجر ممنوعہ کے برگ، گل اور ثمر، قارئین ابن صفی اور نقلی ’ہیروں کا فریب‘، ابن صفی ’گوشہ احباب‘ کے آئینے میں، آ کہ وابستہ ہیں…
ادریس شاہجہانپوری کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ابن صفی کے حقیقی پرستار ہونے کے باوجود اپنے محبوب مصنف کی بعض غلطیوں کو اجاگر کرنے میں تکلف سے کام نہیں لیتے۔ ’جنگل کی خوفناکیاں‘ اور ایک مضمون ’دلیری اور دیدہ دلیری‘ کے مطالعہ سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ادریس صاحب کی بعض باتوں سے ہم کلی طور پر اتفاق نہ کرتے ہوں۔ مثلاً ابن صفی کا محبوب کردار احمد کمال فریدی مافوق الفطرت کردار ہے۔ یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ زاہد خشک کہہ سکتے ہیں لیکن مافوق الفطرت درست نہیں معلوم ہوتا۔ یہی بات چند دیگر افراد نے بھی کہی ہے۔ واضح ہو کہ جس نکتہ نظر سے فریدی کے بارے میں رائے قائم کی گئی ہے، اس کا اطلاق عمران کے کردار پر بھی ہوسکتا ہے۔ مضمون ’احمق ترین عقل مند‘ سے عمران کے کردار کو بجا طور سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ عمران کے معنی خیز اور ذو معنی اقوال کا انتخاب خوب ہے۔
’شجر ممنوعہ کے برگ، گل اور ثمر‘ میں ادریس صاحب نے ایک جگہ بجاطور سے لکھا ہے:
’’ادب اور سائنس میں حد فاصل ہے کیونکہ سائنس جہاں حقائق کی بات کرتی ہے وہیں ادب تخیل سے عبارت ہے مگر ابن صفی نے اس بُعد کو اپنی سائنسی اور علمی بصیرت نیز عمیق مشاہدے کی بدولت ختم کیا۔ جس کی خوبصورت مثالیں ’شعلوں کا ناچ‘، ’چمکیلا غبار‘، ’برف کے بھوت‘ وغیرہ عنوانات کے تحت تحریر کردہ کہانیاں ہیں۔ انہوں نے ہر ناول میں زمانے کی رفتار پہچان کر سماج کے کسی نہ کسی مسئلے کو چھیڑا ہے۔ پھر بھی ان کو وہ شناخت نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔‘‘ (صفحہ 76)
’قارئین ابن صفی اور نقلی ہیروں کا فریب‘ مضمون میں ابن صفی کے دو جعلی ناول جو الٰہ آباد سے عباس حسینی کی ادارت میں شائع ہوئے لیکن ابن صفی کی ذاتی فہرست میں یہ دونوں ناول موجود نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ادریس صاحب کا تجزیہ اور تبصرہ خوب ہیں۔
ادریس شاہجہان پوری نے ایک نہیں بلکہ دو اہم کام یہ کیے ہیں کہ انہوں نے ایک مضمون ’ابن صفی گوشہ احباب کے آئینے میں‘ لکھ دیا۔ اور ابن صفی کے قدیم قارئین (ناموں کے ساتھ) ان کے دلچسپ تبصرے بھی شامل کردیے۔ دوسرا اہم مضمون ’اسرار کریمی پریس‘ کے حوالے سے ہے جس میں جاسوسی دنیا چھپتا تھا۔ انہوں نے یہ مضمون تحقیق کے ساتھ لکھا ہے اور الٰہ آباد کے اسرار کریمی پریس کے علاوہ چند دیگر پریس کی تاریخ بھی بتادی ہے۔ اس مضمون میں یہ بھی ہے کہ پروفیسر مجاور حسین کی شادی عباس حسینی کی ایک بیٹی سے ہوئی تھی (صفحہ 111)۔ اسی طرح انہوں نے ’حسن منزل‘ کا محل وقوع بھی بتایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے ’حسن منزل‘ کوئی عمارت نہیں بلکہ ایک محلہ ہے جس میں تقریباً پچاس مکانات تھے۔ (صفحہ 108)  دریاگنج (نئی دہلی) میں ایک جگہ ’پٹودی ہاوس‘ ہے۔ عام طور پر لوگ اسے بھی کوئی عمارت سمجھتے ہیں جبکہ یہ کالونی ہے جو پٹودی نوابوں کے دور میں بسائی گئی تھی۔
مذکورہ مضامین کے علاوہ ادریس شاہجہان پوری کے مضامین، انشائیے، طنز و مزاح پر مبنی دس تحریریں شامل ہیں۔ ان پر فی الحال کچھ کہنا مناسب نہیں۔ قارئین خود کتاب خرید کر مطالعہ کریں تو ان کو بقول پروفیسر دانش اقبال اندازہ ہوگا کہ ادریس صاحب کی شگفتگی میں انفرادیت اور بشاشت کے ساتھ ذہنی کشادگی اور رفعت متاع بے بہا بھی ہے۔ ادریس شاہجہانپوری اس اہم پیش کش پر یقینی طور پر نہ صرف مبارکباد کے مستحق ہیں بلکہ ان ریٹائرڈ پروفیسرز اور نقادوں پر بھاری ہیں جنہیں ’اردو زبان و ادب‘ سے آشنائی ابن صفی کو پڑھ کر نصیب ہوئی لیکن وہ ابن صفی کی ادبی و علمی خدمات پر قلم اٹھانے سے محروم رہے۔
یہ کتاب دفتر ’اردو بک ریویو‘ سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023