مسعود ابدالی
اعتراف شکست اور تکبر کا گھونگھٹ، امدادی سرگرمیوں میں دو نمبری
نام نہاد امن کے علم برداروں کی متکبرانہ چال میں لڑکھڑاہٹ ضرور آئی لیکن مکمل خاتمہ ابھی باقی
دو سو اڑتیس دن کی مسلسل بمباری اور غزہ کو مکمل کھنڈر بنا دینے کے بعد مستکبرین اس نتیجے پر پہنچے کہ قتلِ عام جیسے ’نیک کام‘ کے اختتام کا وقت آچکا ہے۔ جی ہاں 31 مئی کو امریکی صدر بائیڈن نے قصرِ مرمریں میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ‘غزہ جنگ کا righteous مقصد مزاحمت کاروں کی قوت کو اس حد تک کمزور کرنا تھا کہ وہ دوبارہ 7 اکتوبر جیسا حملہ نہ کرسکیں۔ اب چونکہ یہ مقصد حاصل ہوچکا ہے اس لیے جنگ بند ہو جانی چاہیے‘
انہوں نے تین مرحلوں پر محیط قیامِ امن کی جو تجویز پیش کی وہ کچھ اس طرح ہے:
پہلا مرحلہ: چھ ہفتے کے دوران اسرائیلی فوج کی واپسی، غزہ میں قید بیمار، ضعیف و خواتین اور اسرائیلی عقوبت کدوں سے فلسطینیوں کی رہائی
دوسرا مرحلہ: تمام زندہ قیدیوں کی رہائی
تیسرا مرحلہ: غزہ کی تعمیر نو کا آغاز اور مر جانے والے قیدیوں کی باقیات کی اسرائیل حوالگی
اپنے امن فارمولے کے متوقع دور رس نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’معاہدے سے تمام قیدیوں کی بحفاظت واپسی اور اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ مزاحمت کاروں سے نجات کے بعد نہ صرف غزہ خوش و خوشحال ہوگا بلکہ پائیدار امن اور سب کے لیے قابل قبول تصفیے کے نتیجے میں اسرائیل و فلسطین کے بہتر مستقبل کی راہ ہموار ہو جائے گی‘
بچوں اور خواتین کے قتل عام کو ’نیک مقصد‘ ایک انتہائی سنگ دل و سفاک شخص ہی قرار دے سکتا ہے۔ تاہم، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، جنگ عراق کے دوران امریکہ کے وزیر دفاع ڈِک چینی خلیج میں ایک امریکی اڈے پر پہنچے جہاں عراق کو نشانہ بنانے کے لیے طیاروں پر بم لادے جا رہے تھے۔ چینی صاحب نے ایک بم پر سیاہ مارکر سے With Love لکھ دیا تھا اور اپنی تحریر پر انگلی رکھ کر فاتحانہ قہقہہ بھی لگایا تھا۔ چنگیز و ہلاکو سپاہِ دشمن کی کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کرتے تھے لیکن ان وحشیوں نے بھی شہری ہلاکتوں کو کبھی ‘نیک’ نہیں سمجھا تھا۔
شیخی و لن ترانی سے قطع نظر صدر بائیڈن کی تقریر شکست کا اعتراف اور امن فارمولا لاڈلے کو واپسی کے لیے ’باعزت راستہ‘ دینے کے کوشش سے زیادہ کچھ نہیں کہ خواتین و بچوں کے قتل عام اور غزہ کو ناقابل رہائش بنا دینے کے باوجود اسرائیل 34 ہفتوں کے دوران اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہ کرسکا۔وزیر اعظم نتن یاہو بار بار کہ رہے تھے کہ رفح مزاحمت کاروں کا آخری ٹھکانہ ہے، ان کی عسکری قیادت وہیں چھپی ہوئی ہے اور اسرائیلی قیدی بھی رفح کی سرنگوں میں بند ہیں۔ جرنیلوں نے یقین دلایا تھا کہ اگر اسرائیلی فوج رفح داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی تو قیدیوں کو ہم بزورِ طاقت چھڑالیں گے۔ حملے کے آغاز پر اسرائیل نے رفح کو مصر سے ملانے والی راہداری Philadelphi Corrodor روٹ پر مکمل قبضے کا دعوی کیا تھا۔ جرنیلوں کے خیال میں یہ پٹی اہل غزہ کے لیے آکسیجن کی نالی ہے۔ رفح آپریشن میں سیکڑوں شہریوں کو زندہ جلا دیا گیا اور یہ وحشت بلا وقفہ جاری ہے لیکن اب تک کوئی قیدی بازیاب ہوا، نہ کوئی مطلوب رہنما قتل ہو سکا۔ بچوں کے جنازے کندھوں پر اٹھائے، بھوکے پیاسے، خاک برسر و خوں بدامان 25 لاکھ اہل غزہ کے ہونٹ آج بھی الحمد الله على كل حال (ہر حال میں اللہ کا شکر) کے ذکر سے تر ہیں۔
دوسری طرف اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے رفح گیٹ کے بہت قریب سے داغے گئے راکٹوں نے قلبِ اسرائیل کو نشانہ بنایا اور تل ابیب کا بن گوریان ائیرپورٹ گھنٹوں مفلوج رہا۔ امریکہ کے میزائیل شکن نظام آئرن ڈوم نے اکثر راکٹ ناکارہ کردیے لیکن چند راکٹ اس نظام کو غچہ دیکر 80 کلو میٹر کے فاصلے پر ساحلی شہر ہر تسلیا تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں عسکری کالونی میں ایک گھر سے شعلے بھڑکتے نظر آئے۔
مستضعفین نے امریکی صدر کی تقریر کو ان کا احساس شکست سمجھ کر اس متکبرانہ پیشکش کا مدبرانہ جواب دے دیا۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جواب میں کہا گیا ہے کہ ‘اہل غزہ جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کے انخلا کو یقینی بنانے کے لیے نیک نیتی سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں’
اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کو چھپانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ جس بے شرمی سے جھوٹ بول رہی ہے وہ خود امریکی حکام کے لیے نا قابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے وزارت خارجہ کی ایک سینئر اہلکار نے استعفی دے دیا۔ اسٹیسی گلبرٹ (Stacy Gilbert) نے اپنے خط میں لکھا ‘اسرائیل، شہریانِ غزہ کے لیے امریکی امداد کی تقسیم میں رکاوٹ ڈال رہا ہے جس کے شواہد موجود ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے لیکن صدر بائیڈن نے کانگریس کے نام رپورٹ میں لکھوایا کہ امداد کی تقسیم میں مشکل تو ہورہی ہے لیکن اس کا ذمہ دار اسرائیل نہیں’۔ گلبرٹ صاحبہ کا کہنا ہے کہ ان کاضمیر قوم سے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا۔ موصوفہ کی وزارت خارجہ سے وابستگی کو بیس سال مکمل ہو چکے ہیں۔
اہلکاروں کی طرح میڈیا پر بھی امریکی انتظامیہ بے نقاب ہو رہی ہے۔ سی این این (CNN) نے انکشاف کیا کہ رفح خیمہ بستی کو خاکستر کرنے کے لیے بوئنگ کا تیار کردہ GBU-39 بم استعمال ہوا ہے۔ہلاکت خیزی کے اعتبار سے سترہ کلو گرام بارود سے بھرے ہوئے اس بم کا شمار Focused Lethally Munition (FLM) میں ہوتا ہے۔ یہ رپورٹ نشر ہوتے ہی امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کی ترجمان سبرینا سنگھ نے کہا ‘ہم معاملے کی تحقیق کررہے ہیں’۔ تقریباً اسی وقت امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل سے شہریوں کے بہتر تحفظ کے مطالبے کا اعادہ کیا۔ جب کسی صحافی نے فاضل ترجمان کو صدر بائیڈن کا وہ بیان یاد دلایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر امریکی اسلحہ شہری آبادی کے خلاف استعمال ہوا تو اس کی اسرائیل کو فراہمی پر پابندی لگادی جائے گی، تو موصوٖف بولے ‘امریکی حکومت اور عوام بے گناہوں کی ہلاکت پر سوگوار ہیں، لیکن ہمارے خیال میں اسرائیل نے سرخ لکیر عبور نہیں کی’
اسی سی این این نے انسانی امداد کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا۔ بہت شور تھا کہ امداد کی تقسیم کے لیے امریکی بحریہ نے غزہ کے ساحل پر 32 کروڑ ڈالر کے خرچ سے عارضی گودی (Pier) تعمیر کی ہے۔گزشتہ ماہ کی 17 تاریخ کو یہاں اٹلی سے آنے والا پہلا جہاز لنگر انداز ہوا اور 26 مئی کو تندو تیز لہریں اس کا بڑا حصہ بہا لے گئیں۔ یعنی جدید ترین امریکی ٹیکنالوجی نو دنوں میں چیں بول گئی۔ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ گودی صرف تین فٹ اونچی لہروں اور پندرہ میل فی گھنٹہ ہوا برداشت کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
غزہ قتل عام پر جہاں دنیا کا دوہرا معیار بے نقاب ہوا وہیں اہلِ ضمیر بھی استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ 28 مئی کو فرانس کی ثابت قدم پارٹی (La France Insoumise (LFI کے رکن قومی اسمبلی Sébastien Delogu نے اظہار یکجہتی کے لیے اجلاس کے دوران ایوانِ اسمبلی میں فلسطین کا پرچم لہرا دیا۔ بات بہت معمولی سی تھی لیکن اسپیکر نے غصے کے عالم میں چیخ کر کہا ‘یہ ناقابل قبول ہے’ اور 36 سالہ سباسشین کو اجلاس سے نکال دیا اور فاضل رکن کو پندرہ دن کے لیے معطل بھی کر دیا گیا، اس دوران انہیں تنخواہ بھی نہیں ملے گی۔ لیکن سباشین کو اس پر کوئی پریشانی نہیں ہے، چنانچہ دوسرے دن ایک مظاہرے میں جوش و خروش سے فلسطین کا پرچم لہراتے ہوئے انہوں نے کہا ‘میں قومی اسمبلی کے قواعد پر قائم رہنے کے بجائے تاریخِ انسانیت کی درست جانب کھڑے رہنے کو ترجیح دوں گا’
جیسا کہ ہم اس سے پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ غزہ کے ساتھ غرب اردن میں آباد فلسطینی پناہ گزین بھی اسرائیلی فوج کے نشانے پر ہیں۔ جنین کا ہنستا بستا علاقہ تقریباً کھنڈر بن چکا ہے۔ اس کا صنعتی علاقہ مسمار کر دیا گیا ہے۔ اس ہفتے نابلس، اریحا اور مقتدرہ فلسطین کے دارالحکومت رام اللہ نے بدترین جارحیت کا مشاہدہ کیا۔ رام اللہ کی جلزون خیمہ بستی پر اسرائیلی فوج کے حملے میں متعدد نوجوان جاں بحق ہوئے۔پناہ گزینوں کا یہ کیمپ 1949میں قائم ہوا تھا۔ ڈھائی سو مربع میٹر رقبے پر یہاں ساڑھے آٹھ ہزار نفوس ٹھنسے ہوئے ہیں۔ نابلس میں گھر گھر تلاشی کے دورن خواتین سے بدتمیزی پر نوجوان مشتعل ہو گئے اور دست بدست لڑائی میں دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
رفح ہر قبضے کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی فوج سرحد کی دوسری جانب مصر کو بھی للکار رہی ہے، نتیجے میں 27 مئی کو جھڑپ میں دو مصری فوجی مارے گئے۔ یہ خبر اسرائیلی حکومت نے جاری کی جبکہ مصر نے اس واقعے کا ذکر تک نہیں کیا۔ صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سرنگ کے تعاقب میں جب اسرائیلی مصر کی جانب آئے تو وہاں موجود محافظین نے ان کا راستہ روکا جس پر اسرائیلیوں نے گولی چلا دی۔ اسرائیلیوں کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں نے رفح سے مصری سرحد تک سرنگیں کھود رکھی ہیں جس سے انہیں مدد پہنچتی ہے۔
اسرائیل کے لیے مغرب اور مغرب نواز حکومتوں کی مکمل و غیر مشروط حمایت میں اب تک کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل و آزاد خیال عناصر دبے الفاظ میں اسرائیلی حکومت پر تنقیدیں کر رہے ہیں لیکن بحیثیت جماعت دائیں بازو کے قدامت پسندوں کی طرح ڈیموکریٹک پارٹی بھی اسرائیل کی حمایت کے لیے پر جوش ہے۔ یکم جون کو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم کو جو دعوت نامہ جاری ہوا اس پر کانگریس کے قدامت پسند اسپیکر مائک جانسن، ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد بزعم خود سیاہ فام لبرل، حکیم جیفری، سینیٹ کے قائد ایوان چک شومر اور قائد حزب اختلاف سینیٹر مچ مک کونل نے دستخط کیے ہیں۔ خط میں بن یامین نتن یاہو سے ‘استدعا’ کی گئی ہے کہ وہ امریکی عوام کو جمہوریت کے دفاع، دہشت گردی کے استیصال اور علاقے میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے اپنے خیالات زریں سے مستفید فرمائیں۔
چند ہی دن پہلے سینیٹر چک شومر نے اسرائیلی فوجی کارروائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نتن یاہو سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ مشترکہ دعوت نامے سے یہ بات پھر واضح ہوگئی کہ دائیں بازو کے امریکی قدامت پسند ہوں یا بائیں بازو کے لبرل و سیکیولر عناصر، اسرائیل کے عشق میں سب برابر ہیں۔
لا مقطوعہ ولا ممنوعہ، فوجی امداد کے ساتھ اب اقتصادی مدد کے لیے فرمائش کا آغاز ہوگیا ہے۔ ایک جامعہ میں ‘اقتصادی صورتحال’ پرسیمنار سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک) کے گورنر عامر جارن (Amir Yaron) نے دُہائی دی کہ جنگ کا خرچ ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہا ہے۔ گورنر صاحب کا کہنا تھا کہ جنگ کے اخراجات کا تخمینہ 67 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور جنگ کی وجہ سے اسرائیلی معیشت میں مندی کے اثرات نمایاں ہیں۔ قومی معیشت کی شرح، نمو جو 2022 میں 6.5 فیصد تھی، موجودہ مالی سال 1.6 فیصد رہ جائے گی۔ علمی مجلس میں جذبات کا تڑکہ لگاتے ہوئے گورنر صاحب نے کہا کہ جنگ محض جذبات سے نہیں لڑی جاسکتی بلکہ آزادی کی قیمت نقدی کی شکل میں بھی ادا کی جاتی ہے۔
وزیر اعظم عظم نتن یاہو نے صدر بائیڈن کے تجویز کردہ امن منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ یکم جون کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل مکمل فتح تک جنگ جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہے اور مزاحمت کاروں کو صفحہ ہستی سے مٹائے بغیر ہماری تلواریں نیاموں میں نہیں جائیں گی۔ اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مستضعفین کو فنا کرنے پر اصرار کرنا تل ابیب کی سیاسی مجبوری ہے۔ قدامت پسندوں نے اپنی قوم کو ایسے بھیانک جنگی جنون میں مبتلا کر دیا ہے کہ جنگ بندی کو اپنی شکست تصور کریں گے۔ عظمتِ یہود جماعت (Otzma) کے سربراہ، وزیر اندرونی سلامتی بن کوئر اور دینِ صیہون جماعت (RZP) کے قائد، وزیر خزانہ اسموترچ نے دھمکی دی ہے کہ اگر بائیڈن کا تجویز کردہ امن معاہدہ منظور ہوا تو وہ حکومتی اتحاد سے الگ ہوجائیں گے۔ ایک سو بیس رکنی پارلیمان میں حکم راں اتحاد کو 64 ارکان کی حمایت حاصل ہے جن میں سے چودہ نشستیں ان دونوں کے پاس ہیں۔
دوسری طرف مزاحمت کار، اسرائیلی فوج کی پسپائی اور جنگ کے خاتمے سے پہلے قیدی رہا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دیکھنا ہے کہ امریکی اپنے لاڈلے کو معقولیت اختیار کرنے پر کیسے راضی کرتے ہیں؟
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024