جھارکھنڈ: ہمنتا بسوا سرما اور چمپئی سورین بمقابلہ ہیمنت سورین

بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی ابھی بھی ہندو-مسلم کےگرد ہی گھوم رہی ہے

ڈاکٹر سلیم خان

انتخابات سے عین قبل عوام کو دی جانے والی خصوصی مراعات اور اسکیمیں موضوع بحث
جھارکھنڈ میں انتخابی گھمسان زوروں پر ہے۔ وہاں وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے بی جے پی نے انہیں گرفتار کرکے اپنے پیر پر جو کلہاڑی مار لی تھی۔ اس زخم سے خون ابھی رِس رہا ہے۔ بی جے پی کو توقع تھی کہ جیل جاتے ہوئے ہیمنت سورین اپنی اہلیہ کلپنا سورین کو وزیر اعلیٰ بنا دیں گے۔ اس سے بی جے پی کے دو فائدے ہوں گے۔ اول تو وہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ پر اقربا پروری بلکہ خاندانی موروثیت کا الزام لگا کر اسے بدنام کرے گی۔ اس سے  پارٹی کے اند بد دلی پھیلا کر مہاراشٹر کی شیوسینا یا این سی پی کی طرح جے ایم ایم کو توڑ دے گی۔ اس کے ایک دھڑے کو الگ کرکے بی جے پی کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن یہ سارے خواب ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئے۔ہیمنت سورین نے جیل جاتے ہوئے کلپنا کے بجائے چمپئی سورین کو وزیر اعلیٰ بنا کر بی جے پی کی پوری سازش کو ناکام بنا دیا۔
ہیمنت سورین کے اس ماسٹر اسٹروک سے اول تو ان پر اقربا پروری کا الزام نہیں لگ سکا اور دوسرے پارٹی ٹوٹنے سے بچ گئی۔ خوش قسمتی سے عدالتِ عظمیٰ نے انہیں ضمانت دے دی اور جیل سے باہر آکر انہوں نے پھر سے اپنا عہدہ سنبھال لیا۔ بی جے پی نے بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کے مصداق چمپئی سورین کو توڑ کر اپنی پناہ میں لے لیا مگر وہ ایک بھی رکن اسمبلی کو اپنے ساتھ  لے جانے میں کامیاب نہیں ہو سکے نتیجے میں بی جے پی منہ کے بل گر گئی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ چمپئی کو ان کے روایتی حلقہ انتخاب سرائی کلاں کے سوا کہیں اور سے الیکشن لڑا کر کامیاب کروانا مشکل ہے۔ ویسے بھی پچھلے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی قبائلیوں کے لیے محفوظ پانچوں نشستوں پر ہار گئی اور آر ایس ایس کے ونواسی آشرم کا سارا کیا دھرا بے کار ہوگیا۔ اس طرح  مقامی باشندوں نے بی جے پی سے فادر اسٹین سوامی کی حراست میں موت کا انتقام لے لیا۔
  چمپئی سورین کو کولہان علاقہ کے سرائی کلاں سے کنول کے نشان پر لڑانا بی جے پی کی مجبوری ہے کیونکہ وہ کہیں اور سے جیتنا تو دور اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکتے۔ موصوف اس حلقۂ انتخاب سے چھ مرتبہ انتخاب جیت چکے ہیں۔ اس لیے ان کے نام کے ساتھ رائے دہندگان کے دماغ میں جے ایم ایم کا نشان تیر کمان آجاتا ہے۔ اس بار رائے دہندگان کو انہیں کامیاب کرنے کے لیے کنول پر نشان لگانا پڑے گا۔ قبائلیوں کی دور دراز بستیوں میں انٹرنیٹ کی مدد سے ایک نشان کو مٹاکر نیا نشان ڈال دینا اتنا آسان نہیں ہے اس لیے بعید نہیں کہ بہت سارے چمپئی سورین کے وفادار ووٹرس بھی پھر سے حزب عادت تیر کمان پر مہر لگا دی۔ اس بار وہاں پر تیر کمان کے نشان پر ان کے دشمن بی جے پی رہنما گنیش ماہلی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ وہ پچھلے دو انتخابات میں کنول کے نشان پر چمپئی کو ہرانے کی ناکام کوششیں کرچکے ہیں۔  ممکن ہے کہ اس بار نشان کی تبدیلی سے ان کی تقدیر بدل جائے۔
 گنیش ماہلی کے انتخاب سے ایک ہفتہ قبل جے ایم ایم میں داخلہ نے آر ایس ایس  کے نظم و ضبط اور تربیت کی قلعی کھول دی۔یہ ظاہر ہوگیا کہ سنگھ پریوار بھی موقع پرستی و ابن الوقتی میں کسی سے پیچھے نہیں ہے اور ہندو راشٹر وغیرہ کے نعرے بکواس سے زیادہ کچھ نہیں ہیں ۔اس انتخاب میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے پاس تو بس وزیر اعلیٰ  ہیمنت سورین ہے مگر این ڈی اے کے اندر چار عدد چیف منسٹرس اپنی رال ٹپکا رہے ہیں۔ ان میں نووارد چمپئی سورین کے علاوہ بابو لال مرانڈی اور ارجن منڈا ہیں جن کو مرکزی وزیر بنا کر ریاستی سیاست سے دور کیا گیا ہے۔ پچھلی مرتبہ وزیر اعظم مودی نے رگھوبرداس کو وزیر اعلیٰ بناکر جو تجربہ کیا وہ اس قدر ناکام ہوا کہ وزیر اعلیٰ ریاست تو دور اپنی نشست بھی نہیں بچا سکا۔ فی الحال رگھوبرداس کو ریاست سے تڑی پار کرکے اڑیشہ کا گورنر بنا دیا گیا ہے۔
  جھارکھنڈ کا قیام 15 نومبر2000 کو ہوا تھا۔ اس کے بعد بی جے پی نے بابو لال مرانڈی کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا مگر 2003 میں انہیں جنتا دل (یونائیٹڈ) کے دباؤ کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ آگے چل کر بابو لال مرانڈی نے 2004 میں بی جے پی کے ٹکٹ پر گریڈیہہ سے لوک سبھا کا الیکشن جیتا لیکن سال 2006 میں سنگھ پریوار کے اس لال نے پارٹی کو احسان مندی کا یہ صلہ دیا کہ بی جے پی سے الگ ہو کر ایک نئی پارٹی ’جھارکھنڈ وکاس مورچہ‘ قائم کرلی۔ کرناٹک کے بی ایس یدیورپا کی مانند بابو لال مرانڈی نے  2019 کے جھارکھنڈ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں دھنوار سیٹ سے بی جے پی کے خلاف کامیابی حاصل کی لیکن پھر اپنے میکے میں لوٹ آئے۔ بی جے پی نے مجبوراً ان کو قبول تو کرلیا مگر اب انہیں نظر انداز کرکے رائے دہندگان کو ناراض کر رہی ہے۔
بی جے پی یہ جانتی ہے کہ ریاستی حکومت کے بغیر اس کے لیے انتخاب جیتنا بے حد مشکل ہے اس لیے جائز و ناجائز ہر طریقہ استعمال کرکے اقتدار میں آنے کی بھرپور جدوجہد کرتی ہے۔صوبائی حکومت کے الیکشن میں بڑے فائدے ہیں۔ پولیس انتظامیہ کے ہاتھ میں آتے ہی لوگوں کو ڈرانا دھمکانا آسان ہو جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کرواکر  فسادیوں کو تحفظ فراہم کرنا سہل ہوتا ہے۔ مجرم پیشہ افراد کو فساد کرانے کی خاطر چند گھنٹے کی مہلت دینا اور دنیش رانے یا رام گری جیسے بد زبانوں کو پناہ دینا ممکن ہوجاتا ہے نیز، سرکاری سہولتیں بانٹنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ قومی انتخاب سے قبل سرکاری خزانے سے بٹنے والی سہولتوں کو وزیر اعظم مودی حقارت سے ریوڑیاں کہتے تھے۔ پارلیمانی انتخابات سے قبل انہوں نے ممبئی میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس طرح تو ملک  دیوالیہ ہوجائے گا لیکن بی جے پی جانتی ہے کہ مدھیہ پردیش میں کامیابی کا چمتکار صرف اور صرف ‘لاڈلی بہن یوجنا’ کے سبب ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کی مہایوتی سرکار کو ’لاڈلی بہن‘ کے ساتھ ساتھ ’لاڈلا بھائی‘ بھی یاد آگیا۔
 جھارکھنڈ کے اندر بھی بی جے پی اقتدار پر قابض ہوکر سرکاری خزانے سے عوام کو رشوت دینا چاہتی تھی مگر اسے وہ موقع نہیں ملا۔ اس کے برعکس جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے دسمبر سے خواتین کے لیے ماہانہ کیش ٹرانسفر کی رقم ایک ہزار روپے سے بڑھا کر ڈھائی ہزار روپے روپے کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب بی جے پی اس  فیصلے کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہی ہے لیکن اگر اس نے یہ غلطی کردی تو اسے عوام دشمن بتا کر ہرانا نہایت آسان ہوجائے گا۔ جے ایم ایم نے اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں کابینہ میٹنگ میں ماہانہ اکیس سو روپے منتقل کرنے کی ادائیگی شروع کردی۔ ریاست کی 53 لاکھ خواتین کو اس منصوبے کا فائدہ ہورہا ہے اور ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ بی جے پی نے ‘میّا سمّان ندی’ کو اس دلیل کے ساتھ عدالت میں چیلنج کیا تھا کہ اسے انتخاب سے صرف چار مہینے پہلے ایک ‘رشوت’ کے طور پر نافذ کیا جا رہا ہے۔ یہ چیلنج کامیاب نہیں ہوا کیونکہ بی جے پی خود مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں اسی طرح کے منصوبے انتخابات کے اعلان سے بالکل پہلے نافذ کر چکی تھی۔
بی جے پی کی ‘گوگو دیدی’ منصوبہ (سنتھالی میں ‘گوگو’ کا مطلب ‘ماں’ ہے) جے ایم ایم کی زوردار مخالفت کے باعث نا دانستہ طور پر زیادہ حمایت حاصل کر گئی۔ جے ایم ایم حکومت اگر کہہ دیتی کہ وہ رقم بڑھانے پر پہلے ہی غور کر رہی تھی اور بغیر کسی ہنگامے کے یہ کافی ہو جاتا لیکن اس نے بی جے پی کے ناکام وعدے اور مودی کی ادھوری ضمانت یاد دلاتے ہوئے منصوبے کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ جے ایم ایم کے سکریٹری وینو پانڈے نے بی جے پی پر الزام لگایاکہ اس  نے پانچ سو روپے میں ‘گوگو-دیدی’ فارم خریدنے پر مجبور کرکے خواتین کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ انڈیا اتحاد کے دیگر رہنماؤں نے بھی اسے بی جے پی کی دھوکہ دہی قرار دیا۔ بی جے پی کی جانب سے پانچ سو روپے میں ایل پی جی سلینڈر فروخت کرنے جیسے جھانسوں کی یاد بھی دلائی۔ اس بابت پانڈے پوچھتے ہیں کہ بی جے پی مدھیہ پردیش اور راجستھان میں وعدے نہیں نبھا سکی تو یہاں کی خواتین اس پر کیوں بھروسہ کریں؟
جے ایم ایم نے ایک قدم آگے بڑھ کر لوگوں کو یاد دلایا کہ اس سال مئی میں الیکشن کمیشن نے کانگریس کے لوگوں سے اپنے ’نیائے گارنٹی فارم‘ بھرنے پر اعتراض کیا تھا۔ کمیشن نے تب مانا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ایسے بیورے جمع کرنے اور مشکوک مفت تحفے دینے کا وعدہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ کمیشن نے پوچھا تھا کہ سیاسی جماعتیں بتائیں، ان کی طرف سے تجویز کردہ فلاحی منصوبے اور مفت سہولتیں کس طرح نافذ ہوں گی اور مالی اعانت کس طرح فراہم کی جائے گی؟ وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے ضلع مجسٹریٹوں کو یہ بات یقینی بنانے کا حکم دیا کہ ریاست میں کوئی بھی سیاسی جماعت کمیشن کے مقرر کردہ قوانین کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی ضلع مجسٹریٹوں نے آگے بڑھ کر کارروائی کی اور ایسے مقامی بی جے پی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے جو فارم بھرنے کے لیے خواتین کی میٹنگیں کر رہے تھے۔
بی جے پی جب مشکلات میں گھِر جاتی ہے تو اسے مسلمان یاد آتے ہیں اور وہ ہندو عوام کو ان سے ڈرانے لگتے ہیں۔ اس کام کے لیے کنول والوں نے یوگی آدتیہ ناتھ کے بعد اپنے سب سے بد زبان وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کی خدمات حاصل کیں۔ یہ شرمناک بات ہے کہ جو وزیر اعلیٰ ڈیڑھ سال سے تشدد زدہ منی پور کی پڑوسی ریاست میں جانے کی ہمت نہیں کرسکا جہاں آسام رائفل اور مقامی پولیس ایک دوسرے کے خلاف بندوق تانے کھڑے ہیں وہ ہر ہفتہ جھارکھنڈ پہنچ کر ہنگامہ مچا دیتا ہے۔ جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 60 لاکھ یعنی 15 فیصد ہے۔  کچھ اہم علاقوں کی بات کریں تو پاکور میں 35.08 فیصد، راج محل میں 34.06 فیصد، جامتاڑا میں 38 فیصد، گوڈا میں 27 فیصد، مادھوپور میں 25 فیصد، گانڈے میں 23 فیصد اور ٹنڈی میں 22 فیصد مسلم ووٹ ہیں۔ راجدھنوار اور مہاگاما میں 17 فیصد نیز ہٹیا میں 16 فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں۔اس کے باوجود مسلمان سیاست میں حاشیہ پر ہیں۔ 
2019 کے انتخابات میں جے ایم ایم، کانگریس اور آر جے ڈی نے متحد ہوکر الیکشن لڑا تھا۔ اس اتحاد میں شامل جے ایم ایم نے چار، کانگریس نے تین اور آر جے ڈی نے ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا تھا۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے حسب توقع  کبھی بھی کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا۔ اس بار بھی ویسی ہی حالت ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی  نے بنگلہ دیشیوں کی دراندازی کا مسئلہ گرم کررکھا ہے۔ بی جے پی کے سبھی بڑے رہنما کسی نہ کسی بہانے اس مسئلے کو  مسلسل اٹھا رہے ہیں۔ ریاست کے ضلع گوڈا سے لوک سبھا رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے کے مطابق جھارکھنڈ کی گیارہ فیصد مسلم آبادی "بنگلہ دیش کے درانداز” ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 1951 میں مسلمانوں کی آبادی نو فیصد تھی، آج یہ چوبیس فیصد ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی میں چار فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن ہمارے سنتھل پرگنہ میں یہ پندرہ فیصد بڑھی ہے۔ یہ گیارہ فیصد بنگلہ دیشی درانداز ہیں اور جھارکھنڈ حکومت انہیں اپنا رہی ہے‘‘۔وہ سنھتل پرگنہ اور ریاست کی آبادی کو گڈمڈ کر کے کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔
نشی کانت دوبے تو خیر غیر اہم سیاست داں ہیں مگر خود وزیر اعظم مودی نے بھی جمشید پور میں مسلمانوں کی دراندازی کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ ستمبر کے وسط میں انہوں نے کہا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں اور بنگلہ دیشیوں کی دراندازی سنتھل پرگنہ اور کولہان کے لیے حقیقی خطرہ بن کر ابھر رہی ہے۔ انہوں نے حکم راں جھارکھنڈ مکتی مورچہ،کانگریس اور آر جے ڈی پر ووٹ بینک کی خاطر اس خطرے پر خاموشی اختیار کرنے کا بھی الزام لگایا تھا۔ وزیر اعظم نے لوک سبھا انتخابات کے دوران مہم میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا مگر وہ  قبائلی علاقہ میں ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکے۔  امت شاہ اور بسوا سرما دن رات یہی راگ الاپتے رہتے ہیں۔ جھارکھنڈ بی جے پی کے صدر بابو لال مرانڈی نے بھی وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر 2031 تک سنتھل پرگنہ میں مسلمانوں کے اکثریت میں ہوجا نے کا خطرہ بتایا تھا۔
مرکزی وزارت داخلہ اور یو آئی ڈی اے آئی کی طرف سے بھی جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں ایک حلف نامہ دے کر کہا گیا تھا کہ سنتھل پرگنہ علاقے میں در اندازی بڑھ گئی ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ریاست میں قبائلی آبادی میں تقریباً سولہ فیصد کمی آئی ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرحد کی حفاظت مرکزی سرکار کی ذمہ داری ہے ۔مودی سرکار دس سال سے برسرِ اقتدار ہے تو وہ اسے روکتی کیوں نہیں؟ ویسے اگر قبائلی وہاں سے نکل رہے ہیں تو اس میں مسلمانوں کا کیا قصور؟ وہ ان کی مجبوری ہوسکتی ہے، اور انہیں حق ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں جاکر آباد ہوں۔ فی الحال وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ اور  شیوراج سنگھ چوہان، ہمنتا بسوا سرما سمیت بی جے پی کے کئی لیڈر یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ جھارکھنڈ کو بنے ہوئے چوبیس سال ہوچکے ہیں۔ ان میں سے بی جے پی نے تیرہ سال حکومت کی ہے۔  اس دوران اسے کبھی بھی اس  مسئلہ کا خیال نہیں آیا مگر اب قبائلی ووٹ ان سے کھسکنے لگا تو مسلمان یاد آگئے۔ موجودہ سیاسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ بھونڈے طریقہ سے کھیلا جانے والا مسلم کارڈ ہے جس کی ہوا نکالتے ہوئے ہیمنت سورین نے کہا کہ شیخ حسینہ کو پناہ دینے والے درندازوں کی بات کر رہے ہیں۔
جے ایم ایم دراصل قبائلی ودیہاتی پارٹی ہے اور بی جے پی و کانگریس وغیرہ شہری رائے دہندگان کو متاثر کرتی ہیں مگر ہیمنت سورین کی اہلیہ کلپنا سورین نے یہ توازن بگاڑ دیا ہے۔ وہ پڑھی لکھی ہونے کے سبب ہندی سمیت کئی زبانوں میں شہری رائے دہندگان پر اثر انداز ہو رہی ہیں اس لیے شہروں سے بھی بی جے پی کی زمین کھسکنے لگی ہے۔ اس کے علاوہ جے ایم ایم کے لوگوں کے آنے اور انہیں ٹکٹ دینے کے سبب داخلی بغاوت پر قابو پانا بھی بی جے پی کے لیے ناممکن نظر آرہا ہے۔ آر ایس ایس کا ونواسی فریب بے اثر ہوگیا اس لیے وہ ہندو مسلم کارڈ کھیلنے پر مجبور ہے۔ بی جے پی اگر کوئی کلپنا سورین جیسا کرشماتی رہنما پیدا کرلیتی اور اندرونی طور پر متحد ہوتی تو اسے یہ تماشا کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے اس لیے اپنے پرانے حربے کی مدد سے انتخاب جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس میں اسے کامیابی ملے گی یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024