جذبۂ شہادت امتِ مسلمہ کو ناقابلِ تسخیر بنا دیتا ہے
اہلِ غزہ نے بے سروسامانی کے باوجود دولت ایمانی کے ساتھ جابر طاقتوں سے ٹکر لینے کا بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کردیا
ڈاکٹر ساجد عباسی
پچھلے انبیاء اور رسولوں کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا کہ آسمان سے عذاب کو نازل کرکے ظالموں کا صفایا کر دیا گیا لیکن بنی اسرائیل کے زمانے سے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت اختیار کی کہ متکبر اور طاغوتی طاقتوں کے غرور کو نیست و نابود کرنے لیے کمزور اقلیت کو ظالم اکثریت سے ٹکراکر ظالموں کو شکست سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔
غزّہ کی حالیہ جنگ نے قرآن کی اس پیشین گوئی کو پورا کیا کہ جب اہل ایمان جذبۂ شہادت سے سرشار ہوں تو وہ بے سروسامانی اور نامساعد حالات کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی سوپر پاور کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللهِ وَاللهُ مَعَ الصَّابِرِينَ۔”بار ہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔
قرآن اور سیرت النبیؐ کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام کی قوت کے دو سرچشمے ہیں ۔ایک ہے اسلام کی فکری طاقت اور دوسرا ہے اہلِ ایمان کا جذبۂ شہادت ۔قوت کے یہ دو سرچشمے امتِ مسلمہ کو ناقابلِ تسخیر بنادیتے ہیں۔جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں گے وہاں قرآن کو لے کر جہاد ِ کبیر کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو دراصل فکری جہادہے ۔اس میں اتنی طاقت ہے کہ وہ مسلم اقلیت کو اکثریت میں بدل دے ۔چونکہ دنیا میں صرف اہلِ حق موجود نہیں ہوتے بلکہ یہاں باطل کے علمبردار اور ان کی فوج بھی موجود ہوتی ہے اس لیے اہلِ باطل جب دلیل کی جنگ ہار جاتے ہیں تو ظلم کے ذریعے اس جنگ کو جیتنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن یہ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی سنت حرکت میں آتی ہے اور وہ ظلم کو مٹا دیتا ہے۔پچھلے انبیاء اور رسولوں کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا کہ آسمان سے عذاب کو نازل کرکے ظالموں کا صفایا کردیا گیا لیکن بنی اسرائیل کے زمانے سے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت اختیارکی ہے کہ متکبر اورطاغوتی طاقتوں کے غرور کو نیست و نابود کرنے لیے کمزور اقلیت کو ظالم اکثریت سے ٹکراکر ظالموں کو شکست سے دوچار کر دیا جاتا ہے ۔ موسیٰؑ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنی قوم کو لے کر قتال کے ذریعے فلسطین کو فتح کریں لیکن بنی اسرائیل کی قوم نے بزدلی دکھائی اور چالیس سال تک وہ اللہ کی نافرمانی کے نتیجہ میں بطورِ سزا صحرامیں بھٹکتے رہے۔اس کے بعدجب بنی اسرائیل کی ناخلف پرانی نسل مرچکی تو نئی نسل یوشع بن نون کی تربیت میں پروان چڑھی۔چنانچہ طالوت کی فوجی قیادت میں فلسطین فتح ہوا جبکہ وہ عسکری طاقت کے لحاظ سے کمزور تھے اور تعداد میں کم تھے۔ اس وقت سے اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی کہ ظالموں پر اللہ کا عذاب آسمان سے نازل کرنے کے بجائے کمزور اقلیت کے ہاتھوں ظالم اکثریت کو شکست دے کر اس کو عذاب سے دوچار کر دیا جائے۔ دورِ نبوت میں جب مکہ و طائف میں فکری جہاد (دعوت الی اللہ) اتمام حجت کی حد تک مکمل ہوا تو وہ وقت آ پہنچا کہ مشرکین مکہ پر عذاب نازل کیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق بدر کے مقام پر سرداران قریش کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔اب یہی سنت الٰہی قیامت تک باقی رہے گی۔کفر کے علم برداروں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے کے بجائے اہلِ ایمان کے ہاتھوں ظالم طاقتوں کا خاتمہ کیا جاتا رہے گا۔ اہلِ غزہ کا حالیہ قتال اسی سنتِ الٰہی کا مظہر ہے۔ اہل غزہ کی بے سروسامانی، بھوک،پیاس اور بدترین محاصرہ کے باوجود ان کو جو کامیابی مل رہی ہے اس کا بس ایک راز ہے اور وہ ہے جذبۂ شہادت جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس طرح فرمایا ہے :وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ۔جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔ (آل عمران:169)
جان سب کو پیاری ہوتی ہے لیکن شوقِ شہادت کے جذبہ سے یہ پیاری جان اس وقت قربان کی جاسکتی ہے جب یہ یقین ہوکہ اس قربانی کے نتیجے میں اس عارضی دنیوی زندگی سے بدرجہا بہتر، نعمت بھری جنتوں میں حیات ابدی عطا ہونے والی ہے۔ اس کے بعد ارشادِ ربّانی ہے: فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ۔جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اس پر خوش وخرم ہیں اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کاموقع نہیں ہے۔ (آل عمران:170)
بعد شہادت، شہداء خوش ہیں اور ان لوگوں کے بارے میں مطمئن ہیں جو ابھی زندہ ہیں اور اللہ کے راستے میں ان کے پیچھے میدانِ جہادو قتال میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ یا تو وہ شہید ہوں گے یا پھر فتحِ قریب حاصل کرلیں گے۔ کسی بھی صورت میں ان کے لیے خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ۔وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ (آل عمران:171)
دنیا میں جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں ان کو شہداء یہ بتلانا چاہتے ہیں وہ اللہ کے انعام پر خوش ہیں اور اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
غزوہ احد کے فوراً بعد یہ صورتحال پیدا ہو گئی تھی کہ مشرکین مکہ نے یہ محسوس کیا تھا کہ وہ جیتی ہوئی جنگ کو ادھورا چھوڑ کر جارہے ہیں چنانچہ انہوں نے ارادہ کیا کہ پلٹ کر مدینہ پر دوبارہ حملہ کریں ۔اس وقت رسول اللہ ﷺ نے زخمی صحابہ کو کفار کی سرکوبی کے لیے فوری طورپر مقابلہ کے لیے نکلنے کا حکم دیا جس پر صحابہ کرام نے لبیک کہا۔ اس منظر کو اس طرح بیان کیا گیا :الَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِلّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنْهُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِيمٌ۔ جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہاان میں جو اشخاص نیکو کار اور پرہیز گار ہیں ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ (آل عمران:172)
آس پاس کے قبائل نے بھی ان کو ڈرایا کہ پہلے سے زیادہ بڑی فوج مدینے پر حملے آور ہونے کے لیے جمع کی گئی ہے اور وہ مدینے کو تہس نہس کردے گی ۔یہ سن کر اہل ایمان کا ایمان اور بڑھ گیا :الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۔اور وہ جن سے لوگوں نے کہاکہ”تمہارے خلاف بڑی فوج جمع ہوئی ہیں، ان سے ڈرو“ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔ (آل عمران:173)
یہ عجیب بات ہے کہ ڈر اور خوف میں اضافہ ہونے کے بجائے ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔یہاں حوصلہ کو ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے۔خطرات میں حوصلہ کب بڑھتا ہے؟ یہ اسی وقت بڑھتا ہے جب ایک آدمی جذبۂ شہادت سے سرشار ہوکر شہادت کی موت کا آرزو مند اور منتظر ہوتا ہے۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ اسی جذبۂ شہادت سے سرشار اہلِ ایمان دنیا میں ناقابل تسخیر بن گئے تھے ۔اس کیفیت کو علامہ اقبال نے اس طرح بیان کیا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
اللہ تعالی نے جہاد فی سبیل اللہ میں بہت برکت رکھی ہے۔اس سے ذلت کی زندگی کے مقابلے میں عزت کی زندگی عطا ہوتی ہے۔ جہاد کی بدولت اللہ کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے اور ظالموں کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ مزید ظلم کرنے سے وہ رک جاتے ہیں۔اس طرح آئندہ نسلوں کی بقا کا سامان فراہم ہو جاتا ہے اور دینِ اسلام کے قیام کی راہ ہموار ہوتی ہے۔اسلام اس طرح پھیلتا ہے کہ اس کے لیے عوام الناس کے دل کھل جاتے ہیں۔ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ ایک اقلیت سوپر پاور کے مقابلے میں ڈٹ جاتی ہے تو وہ اس راز کو پانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کو کہاں سے یہ جرأت، شجاعت،صبر اور استقامت حاصل ہوئی ہے۔ اس کا منبع کہاں چھپا ہوا ہے۔اس طرح وہ اللہ کی غیبی مدد کے قائل ہوجاتے ہیں اور ان کے قلوب اسلام کے لیے کھل جاتے ہیں ۔ابھی سے یہ خبریں مل رہی ہیں کہ اہل ِ غزہ کے صبر و استقامت کو دیکھ کر لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ جہاں دعوت الی اللہ سے جہاد کا راستہ کھلتا ہے وہیں جہاد سے دعوت کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ دعوت اور جہاد کا یہ تعلق معنی خیز ہے۔ مکہ کے تیرہ سال دعوت الی اللہ کے کام میں صبر و استقامت کے گزرنے کے بعد ہی ہجرت و جہاد کے راستے ہموار ہوئے۔ اور پھر جہاد و قتال کے میدانوں میں فتوحات کا دروازہ کھلا تو اسلام ساری دنیا میں غالب فکر کے طور پر پھیلتا گیا۔
اہل فلسطین کی اسرائیل سے حالیہ جنگ ہمیں صحابہ کرام کے دور کو تازہ کردیتی ہے۔ایک طرف اہلِ فلسطین صبر کے پہاڑ بنے ہوئے ہیں تو دوسری طرف صہیونیوں کا بے انتہا ظلم جاری و ساری ہے۔ دنیا بھی مختلف خانوں میں بٹ چکی ہے۔دنیا میں کچھ لوگ ابھی بھی اندھے بنے ہوئے ہیں اور ظالموں سے ساتھ ان کی ہمدردیاں ہیں ۔دوسری طرف ایسے غیر مسلم بھی ہیں جو اعلان کر رہے ہیں کہ اسرائیلی حکومت ظلم و بربریت کی ساری حدیں پار کرچکی ہے۔ مسلم دنیا بھی بٹی ہوئی ہے جن میں کچھ حکم راں ایسے بھی ہیں جو ابھی بھی چاہتے ہیں کہ حماس ناکام ہو، کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ حماس کی فتح سے ان کے جابرانہ نظام کے خلاف ان کے عوام کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں اور ان کی حکومتوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک کمزور ملک یمن کے حوثی مزاحمت کاروں میں اہل غزہ کے لیے ایسی حمیتِ ایمانی جاگ اٹھی کہ انہوں نے بحرِ احمر کی ناکہ بندی کرکے اسرائیلی ریاست کی معیشت پر بھاری بھرکم چوٹ لگائی ہے۔یہ ایسی چوٹ ہے جس سے اسرائیل کو مجبور کیا جاسکتا ہےکہ وہ معصوم نہتے عوام پر بمباری بند کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۔ اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (المدثر:31)
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس سے کیا کام لے۔
لیکن اب بھی بعض مسلم ممالک بیس ہزار معصوموں کا خون بہنے کے بعد بھی اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر متحد نہیں ہیں۔ اگر مسلم ریاستیں متحد ہوتیں اور فلسطینیوں کے درد کو محسوس کرتے تو اسرائیل کا ظلم اس حد تک نہ بڑھتا ۔یقیناً اہلِ غزہ کامیاب ہیں اور جنت کے راہی بن کر اپنا سفر طے کر رہے ہیں ۔آج وہ کامیاب ہیں لیکن ساری دنیا کی سخت آزمائش ہورہی ہے۔انہوں نے صرف اللہ کے بھروسے پر اس جنگ کا آغاز کیا تھا ۔اس جنگ کو قرآن کی آیت جو جواز فراہم کرتی ہے وہ یہ ہے:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ”ہمارا رب اللہ ہے“ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے۔ (الحج:39-40)
اس آیت میں یہ حقیقت بتلائی گئی ہے کہ امتحان کی غرض سے دنیامیں فکر وعمل کی جو آزادی دی گئی ہے اس کے غلط استعمال سے دنیا میں ظلم ہوگا۔ لیکن ظلم جب ایک حد سے تجاوز کرجائے تو پھر انسانیت کی بقا کے لیے ظالموں کو دوسری قوتوں کے ذریعہ دفع کیا جاتا رہے گا۔
قرآن کے بغور مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمان ایک قوم نہیں ہے بلکہ ایک عالم گیر امت ہیں جس کو ساری انسانیت کی بھلائی کے لیے نکالا گیا ۔وہ مشن بردار امت ہیں ۔ان کا مشن یہ ہے کہ ایک طرف وہ اللہ کا پیغام انسانیت تک پہنچائیں اور اس کام کے لیے ابلاغ و ترسیل کے جدید ذرائع استعمال کریں ۔دوسری طرف امت کا مشن یہ بھی ہےکہ فتنہ پرور طاغوتی طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے طاقت فراہم کریں اور اپنی نسلوں کے اندر جذبۂ شہادت پیدا کریں جس طرح اہلِ غزہ نے کیا ہے۔ انہوں نے دورِ حاضر میں ایک بہترین نمونہ امتِ مسلمہ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اہلِ غزہ نے یہ ثابت کردیا کہ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں جو قرآنی امت تیار ہوتی ہے وہ ناقابل تسخیر بن جاتی ہے۔ اہل غزہ کی اکثریت جواں سال ہے جن میں سے بیشتر قرآن کے کلی یا جزوی حافظ ہیں، بالخصوص جہاد و قتال کی آیات نے ان کے اندر وہی روح پیدا کر دی جس طرح نزولِ قرآن کے وقت صحابہ کرام کے اندر پیدا کی تھی۔ ہماری نوجوان نسل میں قرآن کے حافظ کثیر تعداد میں موجود ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ ترجمہ و تفسیر کی مدد سے قرآن کو سمجھنے کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کا قرآنی نصاب پڑھایا جائے اور ان کو سمجھایا جائے کہ ان کا مشن کیا ہے۔ ایک طرف ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچائیں، دوسری طرف ان کو یہ حقیقت بتلائی جائے کہ طاقت اور شر جب جمع ہوجاتے ہیں تو دنیا کا امن خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کی روح یہ ہےکہ طاقت اہل ایمان کے پاس ہو جس سے دنیا میں امن و انصاف قائم ہوسکے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ قیمتی حکم دیا ہے کہ: وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ ۔ اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا۔ (الانفال:60)
اس آیت میں ایسا سنہرا حکم دیا گیا ہے کہ اسلامی مملکتیں جب کفار کی طاقتوں کے مقابلے میں عسکری لحاظ سے برتری حاصل کریں گی تو بغیر لڑے ہی دنیا میں امن قائم ہو جائے گا اس لیے کہ خوف ہی دشمنوں کو حملہ کرنے سے باز رکھے گا۔اسی آیت میں انفاق پر بھی ابھارا گیا ہے، یعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عالی شان عمارتوں کی تعمیر کے بجائے جنگی مصارف میں حصہ لے کر اپنی مملکت کو مضبوط کریں ۔اس کا بدلہ یہ ملے گا کہ ان کو اور ان کی آئندہ نسلوں کو بقا و استحکام نصیب ہوگا اور وہ دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رہیں گی ۔جہاد کو کفارو مشرکین کے میڈیا نے بدنام کردیا ہے۔ میڈیا میں جہاد کی آیات کو سیاق وسباق سے کاٹ چھانٹ کر پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ بیانیہ عام کر دیا گیا ہے کہ اسلام پر تشدد مذہب ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے اعلیٰ و مقدس مقاصد سے نوجوان نسلوں کو روشناس کرایا جائے۔
***
***
اہل فلسطین کی اسرائیل سے حالیہ جنگ ہمیں صحابہ کرام کے دور کو تازہ کردیتی ہے۔ایک طرف اہلِ فلسطین صبر کے پہاڑ بنے ہوئے ہیں تو دوسری طرف صہیونیوں کا بے انتہا ظلم جاری و ساری ہے۔ دنیا بھی مختلف خانوں میں بٹ چکی ہے۔دنیا میں کچھ لوگ ابھی بھی اندھے بنے ہوئے ہیں اور ظالموں سے ساتھ ان کی ہمدردیاں ہیں ۔دوسری طرف ایسے غیر مسلم بھی ہیں جو اعلان کر رہے ہیں کہ اسرائیلی حکومت ظلم و بربریت کی ساری حدیں پار کرچکی ہے۔ مسلم دنیا بھی بٹی ہوئی ہے جن میں کچھ حکم راں ایسے بھی ہیں جو ابھی بھی چاہتے ہیں کہ حماس ناکام ہو، کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ حماس کی فتح سے ان کے جابرانہ نظام کے خلاف ان کے عوام کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں اور ان کی حکومتوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024