
جذبہ خیر خواہی : خدمت ِ خلق اوردعوت الی اللہ کے درمیان مشترکہ قدر
خدمت سے دنیا میں عارضی راحت ملے گی لیکن دعوت، دائمی راحت کا سبب بن سکتی ہے
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
خدمتِ خلق کی اسلام میں نہایت اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے حقوق سے متعلق احکامات دیے ہیں، وہیں اپنے بندوں کے حقوق بھی بیان فرمائے ہیں۔ اہلِ جہنم کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے (سورۃ المدثر 43-44)۔ اللہ تعالیٰ کے بے حساب احسانات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ بندے اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی نعمتوں کا دل و زبان سے اعتراف کرے اور اس کی عبادت و اطاعت بجا لائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کے محتاج، کمزور، بے بس اور معذور افراد کی ضروریات پوری کرنے میں ان کی مدد کرے۔
نماز ایسی عبادت ہے جو براہِ راست اللہ تعالیٰ کا حق ہے، جبکہ زکوٰۃ وہ عبادت ہے جس کے ذریعے بندوں کی حاجات پوری کی جاتی ہیں (سورۃ التوبہ 60)۔ خدمتِ خلق اللہ تعالیٰ کے شکر کا عملی اظہار ہے۔ اس میں بندہ اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرتا ہے کہ اس نے اسے ضرورت سے زیادہ دیا ہے اور کئی انسانوں سے بہتر حالت میں رکھا ہے۔ یہ احساس اسے آمادہ کرتا ہے کہ وہ مصیبت زدہ، ضرورت مند اور محتاج بندوں کی مدد کرے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ جیسے ہم انسانوں کے احسان کا بدلہ احسان کے ذریعے دنیا میں چکاتے ہیں، ویسے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا بدلہ ہم کسی صورت ادا نہیں کرسکتے۔ وہ پوری دنیا کو رزق دیتا ہے اور کسی سے کچھ لیتا نہیں (سورۃ الذاریات 57-58)۔ اس کا شکر ہم یوں ادا کرسکتے ہیں کہ زبان سے اس کی نعمتوں کا اعتراف کریں، اس کی عبادات بجا لائیں، اس کے احکامات پر عمل کریں اور محروم و محتاج بندوں کا حق ادا کریں۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے امتحان کے لیے پیدا فرمایا اور اس امتحان کا ایک طریقہ یہ رکھا کہ انسانوں کو ذہنی و جسمانی طاقت اور معاشی حیثیت میں برابر نہیں بنایا۔ بعض کو ضرورت سے زیادہ رزق دیا تاکہ وہ شکر کا امتحان دیں، اور بعض کو ضرورت سے کم دیا تاکہ وہ صبر کا امتحان دیں۔ جنہیں زیادہ دیا گیا ہے ان کے لیے امتحان یہ ہے کہ زبان سے اللہ کا شکر ادا کریں اور اپنے مال میں کمزوروں اور محتاجوں کا حق ادا کریں۔ اور جنہیں کم دیا گیا ہے ان کے لیے امتحان یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں پر راضی رہیں، حلال روزی کمانے کی بھرپور کوشش کریں، ناجائز ذرائع اختیار نہ کریں اور اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو مدد کے لیے نہ پکاریں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ خدمتِ خلق کا کام کر رہے ہوں اور اس میں اپنا مال، وقت اور توانائی لگا رہے ہوں تو کیا اس خدمت کو دعوت الی اللہ کے لیے معاون بنایا جا سکتا ہے؟ خدمتِ خلق اور دعوت الی اللہ میں گہرا تعلق ہے۔ ان دونوں میں قدرِ مشترک "انسانیت سے خیرخواہی” ہے۔ خدمتِ خلق دنیاوی مصیبت کو دور کرنے کا نام ہے جبکہ دعوت الی اللہ اخروی مصیبت سے نجات دلانے کا نام ہے۔ اگر ہم ایک مصیبت زدہ کی دنیاوی مشکل دور کرنے میں سرگرم ہوں لیکن اسی کی آخرت برباد ہوتے دیکھ کر دل میں کوئی داعیانہ فکر پیدا نہ ہو، تو یہ رویہ ہماری خیرخواہی کو نامکمل ثابت کرتا ہے۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی خاندان فقر و فاقہ کا شکار ہو تو ہم اس کے لیے کھانے کا انتظام کریں، لیکن اس کے اخلاقی بگاڑ پر خاموش رہیں؛ اگر کوئی غیر مسلم بیمار ہو تو ہم اس کے علاج کا انتظام تو کریں لیکن اس کے سامنے اللہ کی پہچان اور آخرت کا تصور پیش نہ کریں؛ یہ رویہ ہماری خیرخواہی کو ادھورا کر دیتا ہے اور خود ہمارے عقیدۂ آخرت پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ جب ہمیں یقین ہے کہ کفر و شرک کا نتیجہ جہنم ہے تو یہ یقین ہمیں اتنا داعیانہ شعور ضرور پیدا کرے کہ لوگوں کو حکمت و نرمی سے جہنم سے بچانے کی کوشش کریں۔
رسول اللہ ﷺ کا دل انتہائی حساس تھا۔ آپ ﷺ مصیبت زدہ لوگوں کی حالت دیکھ کر بے چین ہوجاتے اور حتی المقدور ان کی مدد کرتے۔ حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے بعد آپؐ کا مال زیادہ تر اسی میں خرچ ہونے لگا۔ نبوت ملنے کے بعد جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے گھبراہٹ میں حضرت خدیجہؓ سے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خوف محسوس ہوتا ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے تسلی دیتے ہوئے کہا:
"اللہ کی قسم! اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دست کی کفالت کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔”
نبوت سے قبل آپ ﷺ خدمتِ خلق میں اس قدر مصروف رہتے کہ اپنا سارا مال اس میں خرچ کر ڈالتے۔ آپؐ کے دل میں اس ظلم و جبر سے بھری ہوئی معاشرت پر غم و فکر چھایا رہتا۔ آپ غور کرتے کہ یہ معاشرہ ناانصافی، غلامی، قتل و غارت اور ڈاکہ زنی میں کیوں مبتلا ہے اور یہ کیسے ختم ہوسکتا ہے۔ اسی غور و فکر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے وحی کا دروازہ کھولا اور آپ ﷺ کو وہ کلمۂ حق عطا کیا جو تمام انسانی مسائل کا حل رکھتا تھا۔
دعوت الی اللہ سے معاشرے میں وہ انقلاب شروع ہوا جس نے ظلم کو عدل، جرائم کو امن اور خودغرضی کو باہمی ہمدردی سے بدل دیا۔ محض خدمتِ خلق انسانی مسائل کا جزوی حل ہے لیکن دعوت الی اللہ ان مسائل کا ہمہ گیر اور مستقل حل فراہم کرتی ہے۔ اسی لیے خدمتِ خلق کو مقصد نہیں بلکہ دعوتِ دین کا معاون ذریعہ بنانا چاہیے۔
نبوت کے بعد آپ ﷺ کے پاس زیادہ مال نہیں رہ گیا تھا، اس لیے اکثر آپؐ مالدار صحابہ کو کمزوروں پر خرچ کرنے کے لیے ابھارتے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بڑی دولت غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کی جو ایمان لانے کی پاداش میں ظلم کا شکار تھے۔ جب مالِ غنیمت کا خمس آپ ﷺ کے پاس آتا تو اسے فقرا و مساکین میں تقسیم فرما دیتے اور خود فاقہ کشی کی زندگی گزارتے تاکہ معاشرے کے کمزور طبقے کے لیے نمونہ باقی رہے۔
اگر خدمتِ خلق دعوتی شعور کے بغیر کی جائے تو متاثرین کے دل میں خدمت کرنے والوں کے لیے وقتی احترام تو پیدا ہوتا ہے، مگر جلد ہی مٹ جاتا ہے۔ جبکہ دعوتی شعور کے ساتھ کی جانے والی خدمت متاثرین کے دلوں میں اللہ کی عظمت پیدا کرتی ہے۔ قرآن اہلِ جنت کی صفت بیان کرتا ہے:
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا
"وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔” (سورۃ الدہر 8-9)
یہ آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ خدمت کے وقت اللہ کی پہچان کرائی جائے اور بتایا جائے کہ ہم تمہاری خدمت اللہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں۔ مصیبت کے مواقع دلوں کو نرم کرتے ہیں، لہٰذا یہ بہترین موقع ہے کہ حکمت کے ساتھ لوگوں کو ان کے خالق کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی اصلاح کریں اور آخرت کے بڑے عذاب سے بچ جائیں۔
ہمارے ملک بھارت میں غیر مسلم بھائی اکثر خدمت کرنے والوں سے کہتے ہیں کہ تم بھگوان کی طرح ہو یا بھگوان ہو۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا (بھگوان) انسان کی شکل میں زمین پر آکر لوگوں کی حاجات پوری کرتا ہے۔ میرے ایک غیر مسلم دوست نے مجھے ایک حادثے کا واقعہ سنایا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ کار میں سفر کر رہا تھا کہ اچانک ایک حادثہ پیش آیا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ سنسان مقام پر ایک شخص نے ان سب کو قریب کے ہسپتال پہنچایا، جس کا نام کرشنا تھا، اور جس ڈاکٹر نے سرجری کی اس کا نام بھی کرشنا تھا۔ ان ناموں کے اتفاق سے اسے یقین ہوگیا کہ بھگوان کرشن انسان کی شکل میں آ کر ان کی مدد کے لیے آیا۔ میں نے اسے کہا کہ اصل بچانے والا وہی ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا، اور ہمارے خالق کو انسانی شکل اختیار کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ کسی بھی انسان کے دل میں خیال ڈال کر اپنے کام لے لیتا ہے۔ اس دنیا میں تمام کام اسباب و علل کے ذریعے انجام پاتے ہیں اور یہ سب ہمارے خالق کے اختیار میں ہیں۔قرآن ہمیں یہ رہنمائی دیتا ہے کہ خدمتِ خلق کرتے وقت اپنی ذات یا اپنی تنظیم کی بڑائی کے بجائے اللہ کی بڑائی کو پیش کریں، کیونکہ مصیبتیں اسی کے اذن سے آتی ہیں اور ان کے دور کرنے کے تمام اسباب بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ جہاں سے بھی انسان کو مدد پہنچتی ہے، وہ بھی اللہ کے اذن سے ہوتی ہے۔ بیماری سے شفا بھی اسی کی اجازت سے ملتی ہے۔ اس لیے حقیقی مشکل کشا ہمارا خالق ہے، جس کی بندگی اور شکر ضروری ہے اور اس کی ذات میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔آسمانی آفات کے دوران جب ریلیف کا کام کیا جائے تو ریلیف ورکرس کو لوگوں سے گفتگو میں یہ بات بتانی چاہیے کہ یہ سب اللہ کے اذن سے ممکن ہوا ہے۔ مصائب کے مواقع دل نرم کرتے ہیں، اور اللہ کی طرف سے آنے والی حکمتیں بھی بیان کی جائیں۔ سیلاب، طوفان، زلزلے اور دیگر تمام آفات اسی کے اذن سے آتی ہیں تاکہ لوگ نرم دل ہو کر اپنے خالق کی طرف پلٹیں (سورۃ الانعام ۴۳)۔ دنیا کی مصیبتیں انسان کو آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے سنبھلنے اور اپنی اصلاح کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں (سورۃ السجدۃ ۲۱)۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2025