جنگلات کا صفایا،ماحولیات کے لیے خطرہ

معدنی ذخائر سے مالا مال زمین لاڈلے صنعت کاروں کے حوالے!

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

سال 2019 تا 2023 کے دوران 90 ہزار ہیکٹرز جنگل کو کاٹا گیا ہے، یعنی 90 ہزار ہیکٹر جنگل کو صاف کرکے اسے غیر جنگلاتی زمین کے زمرے میں تبدیل کردیا گیا۔ 90 ہزار ہیکٹر زمین کوئی معمولی بات نہیں ہے، ایک ہیکٹر ڈھائی ایکڑ کا ہوتا ہے، گویا حکومت نے دو لاکھ 25 ہزار ایکڑ جنگل کو کاٹ کر اسے غیر جنگلاتی زمین میں تبدیل کردیا۔۔ مودی حکومت نے جنگل اس لیے صاف نہیں کیا کہ یہاں کوئی نئی آبادی بسے بلکہ یہ جنگل اس لیے کاٹا گیا تاکہ یہ زمین جو معدنی ذخائر سے مالا مال ہے اپنے پسندیدہ سرمایہ کاروں اور اپنے لاڈلے صنعت کاروں کو سونپ دیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سرمایہ داروں و صنعت کاروں کو جنگلاتی زمین دینے کے لیے انہوں نے قانونی ترمیم بھی کر ڈالی، کیوں کہ جنگلاتی زمین کسی کو بھی یونہی سونپی نہیں جاسکتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ درخت ماحولیات اور انسانی زندگی کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور فٹوسنتھیس کے عمل سے گزرتے ہوئے آکسیجن خارج کر کے قدرتی ہوا کو صاف کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ درخت بے شمار چرندوں و پرندوں کے لیے مسکن فراہم کرتے ہیں، حیاتیاتی تنوع کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کے سایے اور ان سے گزرنے والی ہواؤں کے بے شمار فوائد ہیں، یہ درجہ حرارت کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ غرض یہ کہ ایک طرف یہ ہمارے ماحول کو اچھا رکھنے کے لیے ضروری ہیں تو دوسری طرف یہ درخت ہمیں قیمتی وسائل بھی فراہم کرتے ہیں جیسے لکڑی، جس سے ہم طرح طرح کی مصنوعات بناتے ہیں، جن گھروں میں ہم بڑے آرام و سکون سے رہتے ہیں اگر اس پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کتنی ہی اشیاء ایسی ہیں جو لکڑی سے بنی ہیں۔ ہم جو پھل کھاتے ہیں وہ بھی کسی درخت ہی سے اگتے ہیں، کئی درخت تو ایسے ہیں جن سے ہمیں دوائیں ملتی ہیں، الغرض ایک پائیدار اور صحت مند ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے درختوں کی بڑی اہمیت ہے۔
قدرت کی ان بیش بہا نعمتوں پر اگر نگاہ ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ جنگلات کے بغیر زمین پر انسانی زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ جنگلات ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔ مزید برآں، یہ درخت یہ جنگلات واٹر سائیکل کو معمول کے مطابق بناتے ہیں یعنی بارش کے اپنے وقت کے مطابق آنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہیں بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹنے سے ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ جہاں یہ حیاتیاتی تنوع کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے وہیں جنگلات کی کٹائی آب و ہوا کی تبدیلی کا باعث بھی بنتی ہے۔ ان کا خاتمہ گرین ہاؤس گیسوں کے اثرات کو تیز تر کرتا ہے، مزید یہ کہ یہ واٹر سائیکل میں خلل پیدا کرتا ہے اور جنگلات پر منحصر طبقات پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس تمہید کے بعد اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں ایک سوال کیا گیا جو جنگلات سے متعلق تھا، سوال یہ تھا کہ سال 2019 تا 2023 کے دورانیے میں جنگلات کا کتنا حصہ کاٹا گیا اور کتنی جنگلاتی زمین کو دوسری زمین کے زمرے میں تبدیل کیا گیا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وزیر جنگلات و سیاحت اشونی کمار چوبے نے کہا کہ سال 2019 تا 2023 کے دوران 90 ہزار ہیکٹرز جنگل کو کاٹا گیا ہے، یعنی 90 ہزار ہیکٹر جنگل کو صاف کرکے اسے غیر جنگلاتی زمین کے زمرے میں تبدیل کردیا گیا۔ 90 ہزار ہیکٹر زمین کوئی معمولی بات نہیں ہے، ایک ہیکٹر ڈھائی ایکڑ کا ہوتا ہے، گویا حکومت نے دو لاکھ 25 ہزار ایکڑ جنگل کو کاٹ کر اسے غیر جنگلاتی زمین میں تبدیل کردیا اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ ہم نے دو لاکھ 25 ہزار ایکڑ جنگل کو صاف کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اتنے بڑے حصے کو غیر جنگلاتی زمین میں تبدیل کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کیا انسانی آبادی بسانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے؟ یا پھر وجہ کوئی اور ہے؟ لازمی بات ہے وہاں کوئی آبادی بسانا مقصود نہیں تھا۔ تصور کریں کہ جنگل کے اتنے بڑے حصے کو صاف کرنے سے جنگل کے باسیوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی؟ ان آدی واسیوں کی کیا درگت بنی ہوگی؟ مودی حکومت نے جنگل اس لیے صاف نہیں کیا کہ یہاں کوئی نئی آبادی بسے بلکہ یہ جنگل اس لیے کاٹا گیا تاکہ یہ زمین جو معدنی ذخائر سے مالا مال ہے اپنے پسندیدہ سرمایہ کاروں اور اپنے لاڈلے صنعت کاروں کو سونپ دیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سرمایہ داروں و صنعت کاروں کو جنگلاتی زمین دینے کے لیے انہوں نے قانونی ترمیم بھی کر ڈالی، کیوں کہ جنگلاتی زمین کسی کو بھی یونہی سونپی نہیں جاسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں جنگلاتی زمینوں سے متعلق بڑے سخت قوانین موجود ہیں، ملک میں ای آئی اے (انوائرنمنٹ امپیکٹ اسسمنٹ) کا قانون موجود ہے، لیکن مہربان مودی نے اپنے سرمایہ داروں کو کسی بھی قسم کی پریشانی سے بچانے کے لیے اس قانون میں تقریباً ایک سو ترامیم کر ڈالیں۔ سال 2022-23 میں ای آئی اے نوٹیفکیشنوں میں سب سے زیادہ تبدیلیاں کی گئیں ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ قانون ہے کیا؟
انوائرنمنٹ امپیکٹ اسسمنٹ (EIA) نوٹیفکیشن سب سے پہلے 1994 میں متعارف کیا گیا تھا، پھر اسے 2006 میں ترمیم کی گئی، اس قانون کے تحت کسی بھی پراجیکٹ کے متوقع ماحولیاتی اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی صنعت کے قیام یا اس کی توسیع کے لیے گرین کلیئرنس دیا جاتا ہے۔ 2006 کے EIA نوٹیفکیشن کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق اس کی دفعات کو حرکیاتی بنایا گیا تھا۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ قانون کی اس شق کی اس خصوصیت کا استحصال کیا گیا ہے۔ قانون کی دفعات پر سختی سے عمل درآمد کرنے کے بجائے حکومتوں نے  صنعتوں کے قیام اور توسیع کو آسان بنانے اور آلودگی پیدا کرنے والی صنعتوں کو کھلی چھوٹ دے دی۔ حکومت نے نہ صرف قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا بلکہ اصولوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے قوانین کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ مرکزی وزارت ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی (MoEFCC) کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں 2006 کے EIA نوٹیفکیشن میں تقریباً 110 غیر معقول تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں محض اپنے پسندیدہ سرمایہ داروں کے لیے کروائی گئی ہیں۔ جیسے ماحولیاتی تبدیلیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے گرام سبھاؤں کی اجازت کی ضرورت کو ختم کردیا گیا ہے، یعنی اب کسی کو صنعت لگانے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی۔
2022 میں حکومت نے ایک ایکٹ متعارف کروایا جسے فارسٹ کنزرویٹو ایکٹ کہا جاتا ہے، اس ایکٹ کے مطابق اگر کوئی جنگلاتی زمین کو صاف کر کے اس میں معدنیات نکالنا چاہتا ہو یا کوئی صنعت لگانا چاہتا ہو تو وہ جتنی چاہے جنگلاتی زمین کو صاف کر سکتا ہے۔ اگر کوئی بڑا صنعت کار ہزار ایکڑ جنگلاتی زمین خریدنا چاہتا ہے تو اسے کسی بھی اجازت ناموں کے بغیر حکومت اسے جنگلاتی زمین مہیا کردے گی، اسے کسی ماحولیاتی اجازت نامے کی ضرورت ہوگی نہ ہی کسی دیہاتی آبادی یا گرام سبھاؤاؤں کی اجازت کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ اس فارسٹ کنزرویٹو ایکٹ سے پہلے اسے جنگلاتی حیاتیات تحفظ کا قانون، جنگلاتی زمین تحفظ قانون، آدی واسی تحفظ قانون، گرام سبھاؤاؤں کے اجازت نامے، ففتھ شیڈول کے قوانین کے تحت لازمی تھے، لیکن مودی حکومت نے ان ساری پیچیدگیوں کو ختم کرتے ہوئے ایک فارسٹ کنزرویٹو ایکٹ متعارف کروایا ہے، جس کے تحت ان اجازت ناموں کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا قوانین کے ہوتے ہوئے 90 ہزار ہیکٹر جنگل کو صاف کر دیا گیا، لیکن اب یہ سارے قوانین کو ختم کر دیا گیا ہے۔ تصور کریں کہ آئندہ آنے والے دنوں میں کیا صورت حال ہوگی۔
اس طرح کے قوانین پر عوامی گفتگو تو ہوتی ہی نہیں ہے، کیونکہ عوام کو مندر مسجد کے جھگڑوں میں الجھا کر رکھ دیا گیا ہے، اہم مسائل سے ان کی توجہ ہٹا کر انہیں غیر ضروری مسائل میں الجھا کر ملک کو سرمایہ داروں کو بیچا جا رہا ہے۔ ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کر کے ملک کو صنعت کاروں کے ہاتھوں رہن رکھ دیا گیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ملک کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

اداریہ

خبرونظر

مرے قلم کا سفر

***

 قدرت کی ان بیش بہا نعمتوں پر اگر نگاہ ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ جنگلات کے بغیر زمین پر انسانی زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ جنگلات ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔ مزید برآں، یہ درخت یہ جنگلات واٹر سائیکل کو معمول کے مطابق بناتے ہیں یعنی بارش کے اپنے وقت کے مطابق آنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہیں بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹنے سے ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ جہاں یہ حیاتیاتی تنوع کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے وہیں جنگلات کی کٹائی آب و ہوا کی تبدیلی کا باعث بھی بنتی ہے۔ ان کا خاتمہ گرین ہاؤس گیسوں کے اثرات کو تیز تر کرتا ہے، مزید یہ کہ یہ واٹر سائیکل میں خلل پیدا کرتا ہے اور جنگلات پر منحصر طبقات پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024