جموں و کشمیر کے انتخابی نتائج

کشمیری عوام نے نفرتکی سیاست کو مسترد کردیا

احمد ربیع؛ کشمیر

نئے وزیر اعلیٰ کا محدود اختیارات میں عوامی امیدوں پر کھرا اترنا، ایک بڑا چیلینج
جموں و کشمیر میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق دس سال بعد اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے۔ بی جے پی کی مسلسل کوشش رہی کہ انتخابات کرانے میں زیادہ سے زیادہ وقت لیا جائے لیکن سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور مرکزی حکومت سے کہا کہ وہ ستمبر سے پہلے پہلے انتخابات کرائے۔ گزشتہ دس برسوں سے بی جے پی کی کوشش رہی کہ وادی میں ایسی سوشل انجینئرنگ کی جائے جس کے ذریعہ ان کو حکومت حاصل ہو۔ لیکن 8 اکتوبر کو جب نتائج آئے تو بی جے پی کو سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا اور نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کو زبردست کامیابی ملی۔ 90 سیٹوں کی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کو تنہا 42 سیٹیں ملیں، کچھ ممبرز جن کو پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیے تھے وہ بھی کامیاب ہوئے۔ خیال ہے کہ وہ اب دوبارہ نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کریں گے۔ اس طرح نیشنل کانفرنس اپنے بل بوتے پر 46 سیٹوں کا نشانہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرے گی۔ ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا prepoll alliance تھا۔ کانگریس نے چھ سیٹیں حاصل کیں۔ جموں میں بی جے پی کو 29 سیٹیں ملیں حالانکہ اس کی نظر 35 سیٹوں پر تھی جبکہ کشمیر میں بی جے پی کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ اس کی یہ کوشش تھی کہ اسے جموں میں 35 سیٹں ملیں اور کشمیر میں کچھ ہم خیال پارٹیوں کو دس یا گیارہ سیٹیں ملیں لیکن وادی میں وہ بری طرح ناکام ہوئی۔ مذکورہ انتخابات میں پی ڈی پی صرف تین سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ پیپلز کانفرنس کو ایک سیٹ ملی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے حمایتی سی پی آئی ایم کے یوسف تارگامی کو ایک سیٹ ملی۔ اروند کیجروال کی عام آدمی پارٹی نے بھی انتخابات میں اپنا کھاتہ کھولا اور اسے بھی ایک سیٹ ملی۔ اس انتخاب میں سات آزاد امیدواروں نے کامیابی درج کی۔
5 اگست 2019 کے بعد یہ پہلے انتخابات تھے جن میں جہاں بی جے پی نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے نام پر ووٹ حاصل کیا وہیں نیشنل کانفرنس نے آرٹیکل ختم کرنے کے خلاف ووٹ مانگا۔ اس طرح بتایا گیا کہ یہ انتخابات ایک طرح کے ریفرنڈم ہوں گے۔ انتخابات میں دفعہ 370 کے Restoration کو نیشنل کانفرنس نے موضوع بنایا اور نیشنل کانفرنس کو اس میں کامیابی بھی ملی۔ اس بار کشمیر کے لوگوں نے نیشنل کانفرنس کو بھاری مینڈیٹ دے کر ثابت کیا کہ وہ بی جے پی کے پالیسیوں کے خلاف ہیں۔یہ اپنی نوعیت کے پہلے انتخابات تھے جن میں سڑک، پانی اور بجلی کے نعروں کے بجائے نظریات پر مقابلہ کیا گیا اور نیشنل کانفرنس کو اس میں بڑی کامیابی ملی۔ بی جے پی کی کوشش تھی کہ Fractured مینڈیٹ ہو تاکہ کچھ لوگوں کو وہ اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو سکے لیکن جموں و کشمیر کے لوگوں نے اسے کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔ اس بار ان لوگوں نے بھی نیشنل کانفرنس کو ووٹ دیا جو نیشنل کانفرنس کے ساتھ نہیں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ نیشنل کانفرنس ہی بی جے پی کے خلاف پراثر آواز تھی۔ پی ڈی پی (جو کہ اس الیکشن میں صرف تین سیٹوں تک سمٹ گئی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے ایک مضبوط حکومت اور بی جے پی کو دور رکھنے کے لیے نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد کو ووٹ دیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے جن کو دور کرنے کے لیے ایک مضبوط حکومت بہت ضروری تھی۔
اس الیکشن میں بھاچپا کے آستانے کا طواف کرنے والوں اور بڑے سیاسی پہلوانوں کو بھی لوگوں نے مسترد کر دیا۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی کو 28 سیٹیں ملی تھیں جس نے بی جے پی کے ساتھ حکومت بنائی تھی لیکن اس کو لوگوں نے پسند نہیں کیا تھا اور لوگوں کے اندر پی ڈی پی کے اس فیصلے کے خلاف کافی غصہ تھا۔ 2024 کے انتخابات میں یہ پارٹی صرف تین سیٹوں تک سمٹ گئی۔ پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی بھی ہار گئیں۔ اس طرح عوام نے بی جے پی کے نزدیک رہنے والی پارٹیوں سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ الطاف بخاری نہ صرف خود ہارے بلکہ ان کی پارٹی کو بھی شرمناک شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اگرچہ اسمبلی انتخابات میں الطاف بخاری کی پارٹی نے بی جے پی سے دوری بنائی تھی لیکن 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں یہ پارٹی بی جے پی کے نزدیک تھی۔ صرف الطاف بخاری ہی نہیں ہارے بلکہ ان کی پارٹی کا کوئی بھی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔ اسی طرح سجاد غنی لون جو کہ اسمبلی انتخابات سے پہلے بی جے پی کے کافی نزدیک تھے مشکل سے ان کو صرف ایک سیٹ مل سکی جبکہ ان کے باقی لیڈروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی کے سابق سینئر لیڈر مظفر حسین بیگ کو بھی شکست ہوئی۔
ان انتخابات میں صوبہ جموں میں کانگریس کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے پائی۔ کانگریس کی بنیاد جموں میں ہے لیکن جموں سے کانگریس کو صرف ایک سیٹ ملی باقی پانچ سیٹیں اس نے کشمیر سے حاصل کیں۔ ہندو اکثریتی علاقوں میں کانگریس کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ وہیں جموں میں بی جے پی 29 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی آج بھی جموں میں لوگوں کی پہلی پسند ہے۔ نئی منتخب حکومت کے لیے جو چلیجنز درپیش ہوں گے ان میں صوبہ جموں کا polarisation ایک اہم چیلینج ہے۔ نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد کو جموں سے اچھی نمائندگی نہ مل سکی۔ شیخ عبداللہ نے جب مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کیا تھا تو ان کا مقصد یہ تھا کہ پورے جموں و کشمیر میں ان کی نمائندگی ہو لیکن حالیہ انتخابات میں جموں والوں نے صرف بی جے پی کو ووٹ دیا۔ اس طرح مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کا جو مقصد تھا وہ فوت ہو گیا۔ نئی حکومت کے لیے یہ بڑا چیلنج ہوگا کہ جموں کے polarisation کو ختم کیا جاسکے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی حکومت کس طرح اس خلا کو بھرے گیم نئی حکومت کے لیے کئی بڑے چیلنجز ہیں۔ نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد کو بھاری مینڈیٹ ملا۔ ان سے لوگوں کی کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ لوگ دفعہ 370 کو ختم کرنے سے خوش نہیں ہیں اور انہیں نئی حکومت سے توقع ہے کہ وہ اس سلسلے میں راست اقدامات کرے گی۔ نئی حکومت سے لوگ چاہتے ہیں کہ 2019 کے بعد سے جو گھٹن کا ماحول بن گیا تھا ہے وہ ختم ہو۔ لیکن لا اینڈ آڈر کے اختیارات گورنر کے پاس ہوں تو ایسے میں یہ گھٹن کی کیفیت کیسے ختم ہوسکتی ہے؟ حکومت کے لیے یہ بڑا چیلینج ہوگا۔ اسی طرح مرکز سے حکومت کے تعلقات ہیں۔ کشمیر کے لوگ چاہتے ہیں کہ وادی کا ریاستی درجہ جلد بحال ہو اور ریاست کا درجہ مرکزی حکومت ہی دے سکتی ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکز کب تک جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دے گی۔ ساتھ ہی بے روزگاری سے بھی لوگ کافی پریشان ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نئی حکومت بے روزگاری کو کیسے کم کرے گی۔ اس وقت جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ انتہائی کمزور ہیں۔ ان کے پاس بہت کم اختیارات ہیں۔ ایسے میں وہ لوگوں کی امیدوں پر کس طرح کھرے اتر سکتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
***

 

***

 نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد کو بھاری مینڈیٹ ملا۔ ان سے لوگوں کی کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ لوگ دفعہ 370 کو ختم کرنے سے خوش نہیں ہیں اور انہیں نئی حکومت سے توقع ہے کہ وہ اس سلسلے میں راست اقدامات کرے گی۔ نئی حکومت سے لوگ چاہتے ہیں کہ 2019 کے بعد سے جو گھٹن کا ماحول بن گیا تھا ہے وہ ختم ہو۔ لیکن لا اینڈ آڈر کے اختیارات گورنر کے پاس ہوں تو ایسے میں یہ گھٹن کی کیفیت کیسے ختم ہوسکتی ہے؟ حکومت کے لیے یہ بڑا چیلینج ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024