جموں و کشمیرمیں اردو زبان و صحافت کا منظر نامہ

اغیار کی ریشہ دوانیوں اور اپنوں کی بے اعتنائیوں کے باوجود زبان زندہ ہے

غازی سہیل خان

صحت مند تہذیبی وراثت کی نئی نسل میں منتقلی اردو کے دم سے وابستہ
اردو صحافت کو اپنا معیار بلند کرنے اور نئے قاری پیدا کرنے کی ضرورت
اردو، بر صغیر میں کثرت سے بولی جانے والی زبان ہے جو اپنی جاذبیت و مٹھاس کی وجہ سے تمام قوموں میں مقبول ہے، خصوصاً برصغیر ہند و پاک میں جہاں کثرت سے اردو زبان بولی جاتی ہے۔ پاکستان میں اردو سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ بھارت میں بھی کثیر آبادی یہ زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔ بھارت میں آزادی سے قبل تمام قومیں جن میں ہندو، مسلم، سکھ، اکثر مذاہب سے وابستہ لوگ اردو پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ملک کی تقسیم کے بعد اس پیاری اور میٹھی زبان کو ایک خاص طبقے اور مذہب کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے جس کے سبب اس زبان کا بے انتہا نقصان ہو گیا۔ تقسیم کے بعد اس زبان کو کیوں کسی مخصوص مذہب و ملت کے ساتھ جوڑا گیا اس کے پیچھے کیا مقصد اور سازش تھی یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔
ریاست جموں و کشمیرکی سرکاری زبان یہی اردو ہے تاہم 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد یہاں کی چند اور زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا جو کہ اردو زبان کے خلاف ایک منظم منصوبے کے تحت ہی انجام دیا گیا۔ ان سب ریشہ دوانیوں کے باوجود یہاں کی کثیر لسانی صورت حال کے پیشِ نظر اردو ایک اہم ضرورت بن گی ہے اور یہ ضرورت بدستور قائم ہے اور شاید قیامت تک قائم رہے گی۔ وہ اس لیے کہ کشمیر، جموں اور لداخ کی مقامی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کشمیری، ڈوگری، لداخی، پہاڑی، شنا اور بلتی کے علاوہ بہت ساری نسلوں، تہذیبوں اور مذہبی اکائیوں سے وابستہ زبانیں مثلاً گوجری، پشتو، پنجابی، بھدرواہی، بکروالی وغیرہ۔ ان تمام زبانوں کے درمیان اردو کو رابطے کی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اس زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی بھی علاقے کی مادری زبان نہیں بلکہ سب کی لسانِ مشترک ہے اس کے باوجود اردو اس وقت عالمی زبان بن گئی ہے۔دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں آج اردو پڑھائی جاتی ہے۔ وہیں گزشتہ سال بیں الاقوامی تنظیم UNO نے اردو زبان کو بھی اپنی دفتری زبان کا درجہ عطا کیا ہے جو کہ اردو داں طبقے کے لیے ایک بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے۔ یہ اب بھارت اور پاکستان کی زبان نہیں رہی بلکہ اس زبان کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ جب ہم جموں و کشمیر میں اردو زبان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو جموں و کشمیر کے ڈوگرہ راج میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے 1889ء میں دفعہ /145 کے تحت اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔ اگرچہ اردو کو یہاں کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن اس زبان کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ چند سال قبل یہاں بچوں کو بنیادی تعلیم اردو زبان میں ہی دی جاتی تھی اور آج حال یہ ہے کہ بچوں کو اردو پڑھنا تو دور اردو زبان میں بات کرنے میں بھی دشواریاں پیش آرہی ہیں۔اجتماعی سطح پر ایک منظم سازش کے تحت یہاں کی آبادی اس زبان سے دور کی جا رہی ہے، تاہم یہاں مسلمانوں کی اکثریت پائی جاتی ہے اس لیے ان کامذہبی لٹریچر جس میں تفاسیر، احادیث، فقہ وغیرہ اسی فیصد اردو زبان میں ہے، جس کی وجہ سے ابھی بھی اُردو زندہ ہے۔ وہیں یہاں کے مدارس نے بھی اس زبان کی عظمت کو بحال رکھا ہوا ہے اور آج بھی یہ مدارس طلبہ کو اسی زبان میں تعلیم کے نور سے منور کرتے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ جب تک یہ مدراس قائم ہیں تب تک یہ زبان اپنی عظمت نہیں کھو سکتی۔ مذہبی حلقے میں اردو سے دوری کے بعد یہاں کی نوخیز نسل مغربی تہذیب کی دلدادہ بنتی جا رہی ہے۔ اسلامی روایات کو دن دہاڑے دفن کیا جا رہا ہے۔ اردو زبان کی بدحالی کے لیے جہاں، یہاں کی حکومتوں اور لیڈروں کو ذمہ دار ٹھیرایا جاسکتا ہے وہیں یہاں کے ادباء، شعرا اور اُردو کے نام پر روٹیاں کھانے والوں کو بھی اس کا ذمہ دار ٹھہرانا غلط نہیں ہو گا۔ جب اردو کے نصاب کی بات کرتے ہیں تو آج کے اس مابعد جدیدیت (post modern) دور میں بھی ہمارے طلبہ کو ”رگ گُل سے بلبل کے پر باندھنے“ کو کہا جاتاہے، وہیں الف لیلوی داستانیں اور مافوق الفطرت قصے اور کہانیاں پڑھائی اور سنائی جاتی ہیں بس طوطے کی رٹ کی طرح۔ اردو کے نصاب میں کبھی کوئی تبدیلی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔اسی طرح سے اردو کے نام پر ایک ایسا طبقہ ریاست میں کام کر رہاہے جس کو ”اردو مافیا“ کے لقب سے پکارا جا سکتا ہے۔ اس طبقے نے کبھی سنجیدگی سے اردو زبان و ادب کی اشاعت و فروغ کے لیے کام نہیں کیا۔ کبھی اردو زبان سے محبت رکھنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی، بس اپنا نام اور زر کمانے کے لیے اس زبان کا استعمال کیا۔اسی طرح ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس میٹھی زبان کے پروفیسر صاحبان جو اس کی اہمیت و افادیت طلبہ کو سمجھانے کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کے ہی مرتکب ہو رہے ہیں سوائے چند ایک کے جو اپنے خون پسینہ بہا کر اس زبان کی فروغ و اشاعت میں مصروف عمل ہیں۔ چند لوگ ایک طرف میڈیا میں اردو کے نام نہاد عاشق اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور دوسری جانب اپنے بچوں کو انگلش میڈیم کے ذریعے ہی تعلیم دلوانا پسند کرتے ہیں۔ایک اورالمیہ یہ ہے کہ یہاں کے چند غیر سرکاری تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جہاں بچوں کو ایک اہم حق یعنی اردو زبان و ادب سے دور رکھا جاتا ہے۔ حق کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کیونکہ ایک بچے کا یہ حق ہوتا ہے کہ اسے اپنے دین، تہذیب و تمدن اور سرکاری زبان سے آشنا رکھا جائے بلکہ اس کو اپنے مذہبی، سماجی، تہذیبی اور سرکاری زبان میں مہارت ہونی چاہیے۔ جدیدیت کے نام پر ترقی اور خوشحالی کے نام نہاد نعرے دے کر یہاں کے بچوں کو اردو زبان و ادب سے محروم کر دیا جاتا ہے جو کہ یہاں کے بچوں کے ساتھ بدترین قسم کی حق تلفی ہے۔
میری اس خامہ فرسائی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم سے دور کھنا چاہے یا ہمیں وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں چلنا چاہیے بلکہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو اس حق (اردو زبان و ادب) سے نا بلد و نا آشنا نہیں رکھنا چاہیے۔
ذاتی طور پر میرا یہ مشاہدہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی اردو زبان و ادب کے فروغ و اشاعت کے لیے کوئی تنظیم یا ادارہ وجود میں لایا ہے آج تک وہ کوئی خاص کام انجام نہیں دے سکے سوائے چند ایک کے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ادارے اور تنظیمیں اخلاص کی بنیاد پر نوجوان نسل کی تربیت کرتے، ابھرتے ہوئے قلم کاروں، شاعروں، افسانہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرتے، نئی نسل کو اردو زبان و ادب سے آشنا کرتے لیکن افسوس کہ کام اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ تاہم اگر کوئی ادارہ یا تنظیم اس طرح کے باصلاحیت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتی بھی ہے تو بس فکشن یعنی نظمیں، غزلیں اور افسانے لکھنے والوں تک ہی محدود ہوتی ہے۔ نان فکشن لکھنے والوں کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید غزلیں اور افسانے لکھنے والے ہی اصل ادیب اور قلم کار ہیں۔ واحسرتا۔ وہیں اس زبان پر مزید چوٹیں جو پڑی ہیں اس میں انٹرنیٹ کا بڑا عمل دخل ہے۔ انٹرنیٹ کے موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ اردو زبان کی بول چال کا معیار بھی کافی حد تک گرا دیا گیا ہے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ یہاں آج کل سوشل میڈیا جس میں فیس بک اور یوٹیوب ودیگر سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر بہت سارے نیوز چنلیں ہیں، جن کے صحافی اور نمائندے زبان کا ستیاناس کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ اگر کسی صحافی یا رپورٹر سے انگریزی میں بات کرنے کے دوران کوئی چوک ہو جائے تو اسے کبھی عوام معاف نہیں کرتے، پہلے تو وہ صحافی انگریزی میڈیا میں کام کر ہی نہیں سکتا جس کی زبان اچھی نہ ہو لیکن اردو کا معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔
اب تو اردو اخبارات کا معیار بھی خاصا گرتا جا رہا ہے۔ ان اخبارات میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جن کو سائنس اور دیگر مضامین میں تخصص حاصل ہوتا ہے وہ اکثر اردو کو سرے سے جانتے ہی نہیں لیکن اُنہیں بڑے اہتمام سے اخبارات میں جگہ دی جاتی ہے جس کے سبب ان اخبارات کا معیار مزید گرتا گیا جو تشویشناک ہے۔ یہاں چند اخبارات اچھا کام کرتے ہیں اور اشتہارات کے نام پر لاکھوں روپے کماتے ہیں لیکن کبھی بھی اپنے اخبار میں لکھنے والے کالم نگاروں کو اعزازیہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، جبکہ ان اخبارات کے مالکین ان ہی مضامین اور محبان اردو زبان و ادب والوں کی بدولت اچھی کمائی بھی کرتے ہیں۔ کوئی ہے جو ان سارے مسائل کے حوالے سے لکھے اور بولے؟
اس مایوس کن صورتحال کے باوجود جموں و کشمیر میں اردو کو چند ادباء، قلم کاروں اور صحافیوں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ زبان کسی بھی سازش کا مقابلہ کرنے کی اہل ہو سکتی ہے۔ یہاں قلم کاروں کے علاوہ چند ایسے اخبارات بھی ہیں جنہوں نے اردو زبان کے فروغ و اشاعت کے لیے بہترین کام کیا ہے۔ یہاں ایک اور المیہ اردو صحافت کے ساتھ یہ ہوا کہ بہت سے لوگ اخبارات کی رجسٹریشن کر کے کبھی ایک آدھ بار مہینے یا سال میں شائع کر دیتے ہیں وہیں چند اخبار جو شائع بھی ہوتے ہیں وہ کاپی پیسٹ ہی ہوتے ہیں اس طرح کی دلالی سے جہاں اچھے اور معیاری اخبارات کو بھی نقصان پہنچتا ہے وہیں اردو صحافت پر بھی حرف آتا ہے۔ ”کشمیر میں اردو صحافت کی تاریخ“ کی نام سے ایک کتاب جو کہ نظام فاصلاتی تعلیم کشمیر یونیورسٹی نے طلبہ کے لیے مرتب کی ہے اس میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ”بیشتر بڑے اخبارات میں صرف تیس سے چالیس فی صد گھسا پٹا مواد ہوتا ہے جبکہ اشتہارات ساٹھ فی صد سے زیادہ اخبار کے متن پر ہوتے ہیں۔ ایک اخبار کی قیمت بازار کے مطابق ہوتی ہے، مگر اس میں صفحات کی کمی ہوتی ہے۔ مواد کی کمی، موضوعات کی کمی اور اس طرح پھر قارئین کی دلچسپی میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ بیشتر چھوٹے چھوٹے اخبارات کی سرکولیشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ یعنی محکمہ اطلاعات سے اشتہارات لے لیے اور پھر ایک دو سو کاپیاں چھاپ لیں۔ کچھ صاحبان نے اپنے رشتہ داروں کے نام پر کئی اخباروں کا رجسٹریشن کروایا ہوا ہے اور سیاسی اثر و رسوخ کا سہارا لے کر سب سے زیادہ اشتہارات وہی لوگ حاصل کر لیتے ہیں جبکہ بڑے معیاری اخبارات پر اشتہارات دینے کے لیے امن و قانون کے نام پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ اپنے اخباروں کی چند کاپیاں چھاپ لیتے ہیں لکھنے والے گماشتے دوسرے لوگ ہیں یا ادھر ادھر سے کٹ اینڈ پیسٹ کر کے مواد حاصل کر لیا۔خود سیاسی لوگوں کے ساتھ مل کر وہ عیاشی کرتے ہیں اور ادبی و سماجی محفلوں میں وہی لوگ زینت محفل بنائے جاتے ہیں۔ الغرض ہر اخبار کا آڈٹ ہونا چاہیے کہ یہ اخبار کتنے اشتہار حاصل کرتا ہے، پیسہ کتنا کماتا ہے، اس کا ٹیکسٹ کتنا ہوتا ہے، ملازموں کی تنخواہ یا دیگر مراعات کی صورت میں کتنا دیتا ہے وغیرہ۔ ان سب کے باوجود ابھی بھی چند اخبارات ہیں جو اُردو صحافت کو کسی نہ کسی حد تک زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں بھی جو اخبارات کام کر رہے ہیں ہمیں ان کی داد دینی ہوگی۔ جس میں پہلے "کشمیر عظمیٰ” ہے جس کی تاریخ بھی اردو زبان و ادب کے حوالے سے انتہائی روشن ہے۔ اس اخبار میں بھی اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کام کیا جاتا ہے۔ ہر اتوار کو ادبی صفحات شائع کیے جاتے ہیں وہیں نئے اور ابھرتے ہوئے قلم کاروں کو بھی اس اخبار میں جگہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر جمعہ کو مفتی نذیر احمد قاسمی سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں شائع کیے جاتے ہیں۔ ہر جمعرات کو خواتین کے متعلق جاندار مضامین شائع ہوتے ہیں، وہیں سائنس اور طب کی دنیا کے متعلق بھی ہفتے میں ایک دن مضامین شائع کیے جاتے ہیں باقی دنوں میں سیاسی، سماجی، معاشی و معاشرتی موضوعات پر فکر انگیز مضامین شایع کیے جاتے ہیں۔ اس اخبار میں جاوید آذر اور ریاض ملک اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر اردو زبان کی خدمت احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح سے ایک اور بڑا نام "تعمیل الرشاد” ہے۔ یہ اخبار گزشتہ تین دہائیوں سے جموں و کشمیر میں اپنی صحافتی خدمات انجام دے رہا ہے اور ہر پیر کو ادبی کالم جس میں افسانے، کہانیاں نظمیں اور غزلیں شائع کی جاتی ہیں باقی دنوں میں سیاسی، سماجی، مذہبی اور دیگر موضوعات پر جاندار مضامین شامل اشاعت کیے جاتے ہیں۔ یہ اخبار اردو زبان کے فروغ و اشاعت کے لیے کسی بھی ادبی پراگرام میں اپنے نمائندوں کی حاضری کو یقینی بناتا ہے۔ اس اخبار میں اردو زبان کے حوالے سے ناظم نذیر خاصے متحرک ہیں۔ اس اخبار میں نوجوان اور ابھرتے ہوئے کالم نگاروں کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ ایک اخبار "آفتاب” بھی ہے جس کی صحافتی تاریخ روشن ہے۔ مرحوم خواجہ ثناء اللہ بٹ نے اس اخبار میں ”خضر سوچتا ہے وُلر کے کنارے“ کی وجہ سے برسوں تک کشمیر کے قارئین کے دلوں پر راج کیا ہے۔ اس کالم میں خواجہ صاحب سیاسی لیڈروں کی خبر لیتے تھے۔ بڑے بے باکانہ انداز میں موصوف یہ کالم لکھتے تھے۔ تاہم خواجہ صاحب کی وفات کے بعد یہ اخبار اثر قارئین پر اثر باقی نہیں رکھ پایا جس کے سبب اب تو یہ محض ایک نام ہی رہ گیا ہے حالانکہ اس اخبار میں بھی اشہارات کی بھر مار ہوتی ہے۔ اسی طرح سے سرینگر ٹائمز بھی کشمیر کی صحافتی دنیا میں چھایا ہوا ہے۔ اس اخبار میں خصوصی طور بشیر احمد بشیر کا ہر دن ایک کارٹون دیکھنے کو ملتا ہے جس نے کشمیر کی عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ہوئی ہے۔ آج بھی یہ اخبار اپنے آخری صفحے پر اسپورٹس کی خبروں کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔ وہیں میری نظروں میں ایک اور اخبار ہے جو اردو زبان و ادب کے حوالے سے خاصا مخلص نظر آتا ہے وہ ”سرینگر سماچار“ ہے۔ اس اخبار میں بھی اردو کے فروغ و اشاعت کے لیے کام کیا جاتا ہے اور مخلصانہ انداز میں کالم نگاروں کی تحریروں کو شامل کیا جاتا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ یہ اس معیار کو قائم رکھتے ہوئے ایک دن کشمیر کی صحافت کا بڑا نام کہلائے گا۔ اللہ تعالی ان سب کو مزید اردو زبان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ ان کے علاوہ یہاں چٹان، روشنی، عقاب، آفتاب، جموں سے اُڑان، ہفتہ روزہ رہبر، ہفتہ روزہ قومی وقار کے علاوہ اور بھی چند اخبارات ہیں جو اردو کے فروغ و اشاعت کے لیے کام کرتے ہیں۔ گزشتہ سال ہی ہمارے ایک نوجوان اداب نواز قلم کار سہیل سالم نے ایک کتابی سلسلہ بھی قائم کیا ہے جس میں ”کوہ ماراں“ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا ہے۔ اس رسالے میں نئے اور اُبھرتے ہوئے ادباء کے ساتھ ساتھ ہمارے بڑے قلم کاروں کے رشحات قلم شامل کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی انہیں بھی مزید ترقی عطا فرمائے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان کبھی مر نہیں سکتی۔ آج کی تاریخ میں بھی سوشل میڈیا اور دیگر جگہوں پر اردو زبان میں ہی خبریں تبصرے اور تجزیے پیش کیے جاتے ہیں۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کشمیر میں اس وقت سب سے زیادہ نیوز پورٹلز کی تعدد جس زبان میں ہے وہ زبان اردو ہی ہے۔ اردو میں ہی خبریں اور رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں۔ بھلے ہی ان پورٹلز کے ساتھ نا تجربہ کار لوگ اور نیم حکیم قسم کے صحافی جڑے ہوئے ہیں۔ وہیں نظام فاصلاتی تعلیم میں ڈاکٹر الطاف انجم اور دیگر افراد کی کوششوں کے سبب وہاں ایک سالہ اردو صحافتی کورس کی بھی شروعات کی گئی ہے جس میں نئے اور اردو صحافت کے ساتھ دلچسپی رکھنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ انہیں باضابطہ میدان عمل کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور خوش قسمتی سے راقم نے بھی اس کورس سے استفادہ کیا ہے۔ یہ نظام فاصلاتی تعلیم کا اہم قدم ہے اس طرح کے پروگرامس اور کورسس جاری رہنے چاہئیں تاکہ اردو صحافت کو قابل اور صحافتی اصولوں پر چلنے والے صحافی میسر ہوں۔
ان سارے تلخ حقائق کو پیش کرنے کی جسارت کے بعد یہاں میں یہ عرض کر دوں کہ اگر ہمیں اپنی نسل نو کو تاریخ، اسلام اور ادب سے وابستہ رکھنا ہے تو اپنے سارے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اس زبان کو اس زبوں حالی سے بچانے کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ یہاں کے حکمرانوں اور لیڈروں کو چاہیے کہ اردو کے فروغ کے لیے ضروری اقدامات کریں جن میں سب سے پہلے ایک اردو کلچرل اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا جانا ضروری ہے۔ اردو کے مضمون کو گریجویشن تک ہر ایک طالب علم کے لیے لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ جن سرکاری محکموں میں دفتری کام اردو میں ہوتا تھا وہاں اردو میں ہی کام کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ سرکاری عمارتوں کے ساتھ پرائیوٹ اداروں کو بھی یہ ہدایت جاری کی جانی چاہیے کہ سائن بورڈس اور عمارتوں پر لگے بینرس پر انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کو لازمی قرار دیا جائے۔ ایک پریشر گروپ بنایا جائے جو حکومت کو ان مطالبات کو ماننے پر مجبور کرے۔ اردو کے فروغ و اشاعت کے نام پر جتنی بھی تنظیمیں اور ادارے وجود میں آئے ہیں ان کو خلوص نیت کے ساتھ اس زبان کو نسل نو تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جموں و کشمیر کی سیاسی، سماجی و مذہبی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس زبان کے فروغ کے لیے اپنی سطح پر اقدامات کریں تاکہ علم کے سرمائے سے نوجوان طبقہ بہرہ ور ہو کر سماج کی تعمیر میں اپنا کلیدی رول ادا کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر ہم سب پر یہ اخلاقی فرض ہے کہ ہم اردو زبان کو عروج بخشنے میں اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لائیں تاکہ ہم بھی دنیا کے ساتھ چل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہماری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023