جامعہ تشدد: دہلی ہائی کورٹ نے مرکز کو کیس کی تحقیقات آزاد ایجنسی کو منتقل کرنے کا مطالبہ کرنے والی درخواست پر جواب دینے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا
نئی دہلی، نومبر 29: دہلی ہائی کورٹ نے منگل کو مرکز کو ایک ترمیمی درخواست کا جواب دینے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا جس میں جامعہ ملیہ تشدد کیس میں طلبا اور افسران کے خلاف تحقیقات کو پولیس سے ایک آزاد ایجنسی کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جس درخواست کا مرکز کو جواب دینا ہے اس میں خصوصی تحقیقاتی ایجنسی ٹیم کے ذریعہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف طلبا کے احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ دہلی پولیس پر یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے اور مظاہروں کو روکنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے کا الزام ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس کی کارروائی جائز تھی کیوں کہ مظاہرین نے مبینہ طور پر اس کے اہلکاروں کو زخمی کیا تھا اور بسوں کو آگ لگا دی تھی۔
پولیس نے اس معاملے میں طلبا کارکنوں شرجیل امام، صفورا زرگر، محمد الیاس، بلال ندیم، شہزار رضا خان، محمود انور، محمد قاسم، عمیر احمد، چندا یادو اور ابوذر کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
دہلی ہائی کورٹ 2019 سے وکلا، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا اور جنوبی دہلی کے اوکھلا کے رہائشیوں کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ تاہم ابھی تک طلبا پر حملہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کی گئی ہے۔
19 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے کیمپس میں پولیس کی مبینہ بربریت کے معاملے کی سماعت کرنے کو کہا تھا۔
سینئر وکیل کولن گونسالویز نے عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوکر ججوں سے درخواست کی تھی کہ وہ اس معاملے میں پولیس کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ داخل کریں جو دہلی ہائی کورٹ کے سامنے تقریباً تین سال سے زیر التوا ہے۔
تاہم سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اسے اس معاملے میں ’’اپنے دائرۂ اختیار کے بارے میں شکوک‘‘ ہیں۔ اس کے بعد گونسالویز نے ڈویژن بنچ سے درخواست کی کہ وہ دہلی ہائی کورٹ سے تین ہفتوں کے اندر سماعت ختم کرنے کو کہے۔
منگل کو جسٹس سدھارتھ مردول اور تلونت سنگھ کی ڈویژن بنچ نے اس معاملے کو 13 دسمبر کے لیے درج کیا۔