جامعہ کی لڑکیوں کو انقلاب زندہ باد۔۔۔

اس شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں خواتین کی بڑے پیمانے پر شرکت نے ہر کسی کو حیران کر دیا ہے۔ دہلی میں تمام مظاہروں میں اسکول کالج کی لڑکیوں کے ساتھ گھریلو عورتیں بھی خوب شامل ہو رہی ہیں۔ جامعہ نگر کے شاہین باغ میں تو مورچہ ان عورتوں نے ہی سنبھال رکھا ہے اور گذشتہ 16 دنوں سے یہ عورتیں سڑکوں پر ہیں۔

افروز عالم ساحل

اس سال جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے 99 برس پورے ہوچکے ہیں اور اگلے برس یہ دوسری صدی میں داخل ہو نے جارہی ہے۔ یہ وہی جامعہ ہے جس نے 100 سال پہلے ملک کی آزادی کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون سے لے کر سول نافرمانی اور نمک تحریک تک، نہ صرف جامعہ نے ملک میں عام بیداری پیدا کی بلکہ سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرتے ہوئے جیلیں بھرنے کا بھی کام کیا۔ ملحوظ رہے کہ اُس دور میں آمریت کا دور برطانوی حکومت کا تھا، اور اس دور میں موجودہ حکومت کا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جہاں بانیان جامعہ، طلبا اور اساتذہ تحریک آزادی میں شریک ہوئے، وہیں طالبات اور خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ جب جامعہ کے خواجہ عبد المجید کی گرفتاری ہوئی تو بیگم خورشید عبد المجید نے ایک ٹیلیگرام کے ذریعہ گاندھی جی کو اپنے شوہر کی گرفتاری کی خبر دیتے ہوئے لکھا۔ ‘ یہ اطلاع دیتے ہوئے بیحد خوشی ہورہی ہے کہ میرے شوہر آج صبح گرفتار ہوئے۔ جاتے ہوئے ان کا دل مسرت سے لبریز تھا، یہ بات آپ کو تار سے بتانے کو کہہ گئے ہیں۔ امید ہے کہ میں ان کا کام اپنی بساط بھر جاری رکھوں گی۔’

بیگم خورشید عبد المجید کے اس ٹیلیگرام کے جواب میں گاندھی جی نے 16 دسمبر 1921 کو احمد آباد سے ایک ٹیلیگرام بھیجا، جس میں انہوں نے لکھا تھا- ‘آپ کے بہادر شوہر کو اور آپ کو مبارکباد۔ میں جانتا ہوں کہ علی گڑھ کے لڑکے وفاداری سے آپ کی بات مانیں گے۔ ‘

اتنا ہی نہیں، گاندھی جی نے اس تار کے بعد ایک مضمون بھی لکھا۔ اس مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ خورشید بیگم اپنے شوہرکے مقابلے تعلیم دینے میں کہیں زیادہ کامیاب ثابت ہوں گی۔ ساتھ ہی گاندھی جی ہمیشہ محمد علی جوہر کی بھی تعریف کرتے رہے۔ وہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بیگم محمد علی نے جتنی  رقم جمع کر لی ہے اتنی شاید ان کے شوہر بھی نہ کر پاتے۔ میں اپنی رائے  ظاہر کر ہی چکا ہوں کہ وہ مولانا سے بہتر تقریر کرتی ہیں… ‘

ٹھیک یہی بات آج بھی جامعہ میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پولیس کے ذریعے  ایک طالب علم کی پٹائی اور اس کو بچاتی ہوئی لڑکیوں کا ویڈیو پوری دنیا نے دیکھا ہے۔ آج وہی لڑکیاں پورے ملک میں جبر کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت بن چکی ہیں۔

پورے ملک میں اب یہ نعرہ لگنا شروع ہو چکا ہے کہ پولیس کے گھمنڈ کو چیر کر دکھایا ہے، جامعہ کی لڑکیوں نے راستہ دکھایا ہے۔ جامعہ کی لڑکیوں کو انقلاب زندہ باد۔۔۔ صرف لڑکیاں ہی نہیں، اس شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں خواتین کی بڑے پیمانے پر شرکت نے ہر کسی کو حیران کر دیا ہے۔ دہلی میں تمام مظاہروں میں اسکول کالج کی لڑکیوں کے ساتھ گھریلو عورتیں بھی خوب شامل ہو رہی ہیں۔ جامعہ نگر کے شاہین باغ میں تو مورچہ ان عورتوں نے ہی سنبھال رکھا ہے اور گذشتہ 16 دنوں سے یہ عورتیں سڑکوں پر ہیں۔ بلکہ حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ یہ عورتیں پوری رات سڑکوں پر ہی رہتی ہیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا سب سڑکوں پر ہی ہو رہا ہے۔