جمہوریت کی بقا کے لیے میڈیا کا محاسبہ ناگزیر
قومی میڈیا پر سے کمزور طبقات کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔سترہواں محفوظ الرحمٰن یادگار لیکچر
ابھے کمار، نئی دلّی
آزاد بھارت کی اردو صحافت کی تاریخ میں محفوظ الرحمٰن کا نام اہمیت رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف اردو بلکہ ہندی اور انگریزی میں بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے۔ صحافت کے علاوہ محفوظ الرحمٰن ایک عمدہ مترجم اور مصنف بھی تھے۔ انہوں نے کئی اخبارات کے ساتھ کام کیا، لیکن ان کی پہچان زیادہ تر ’قائد‘ لکھنؤ اور ’دعوت‘ دہلی سے ہوئی۔ ’دعوت‘ ایک فکری اخبار مانا جاتا ہے، جس کے وہ چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ چار دہائیوں پر محیط صحافتی زندگی میں محفوظ الرحمٰن نے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔
آج یہاں محفوظ الرحمٰن جیسے عظیم صحافی کی وراثت کو یاد کرتے ہوئے میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ آپ سب کی طرف سے میں انہیں دل کی گہرائیوں سے خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انہیں یاد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کی تحریروں کو پڑھیں اور ان کے مشن کو آگے بڑھائیں تاکہ وہ صحافت جو آج فراموش کی جا رہی ہے، دوبارہ سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ اپنائی جائے۔
اب میں ڈاکٹر سید احمد خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے سترہویں محفوظ الرحمٰن یادگار لیکچر کے لیے میرا انتخاب کیا۔ اس میں میری قابلیت سے زیادہ ڈاکٹر صاحب کی محبت شامل ہے۔ سچ کہوں تو ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات چند ماہ پہلے ہی ہوئی لیکن میں ان کی شخصیت اور خدمات سے بے حد متاثر ہوں۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ اور شیریں زبان ان کی پہچان ہے اور اردو کا فروغ ان کا مشن۔ انہوں نے اردو زبان کی ترقی کے لیے بے پناہ محنت کی ہے اور وسائل کی کمی کے باوجود اردو کے حوالے سے پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو سے وابستہ گمنام ادیبوں اور صحافیوں کو پلیٹ فارم فراہم کیا اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔
محبانِ اردو کی اس جماعت میں، مَیں ایک معمولی رکن ہوں۔ اگرچہ میرا سبجیکٹ سیاسیات اور تاریخ رہا ہے، مگر اردو زبان اور صحافت سے میرا تعلق کافی پرانا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ میں نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز اردو پریس سے کیا تھا۔ پٹنہ کے ایک مقبول اردو اخبار نے مجھے پہلی بار پلیٹ فارم فراہم کیا جہاں بطور صحافی اور مضمون نگار میں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وقت کے ساتھ اردو سے میرا رشتہ مضبوط ہوا ہے اور آج میں زیادہ تر اردو میں ہی مضامین لکھتا ہوں۔ انہی تجربات کی بنیاد پر آج میں عصری صحافت کے بارے میں چند خیالات پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور جمہوریت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اقتدار کا غلط استعمال نہ ہو۔ مگر جب کوئی سیاسی لیڈر خود تمام فیصلے لینے لگتا ہے تو جمہوریت پر آمریت کے خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔ جمہوریت میں اختیارات کی مرکزیت اکثر عوامی فلاح کے لیے مضر ثابت ہوتی ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ عوامی اداروں کے اختیارات کا مناسب بٹوارا ہو اور اختلافِ رائے کو دبایا نہ جائے۔
ملک کا آئین صحافیوں کو کوئی خصوصی مراعات فراہم نہیں کرتا، انہیں اظہارِ رائے کی آزادی بطور شہری ملتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی بارہا دہرایا ہے کہ اظہارِ رائے کے بغیر جمہوریت کا تصور ممکن نہیں ہے۔ اس لیے بنیادی حقوق شہریوں کو ریاستی زیادتیوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ بھارت کا میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہا ہے اور اکثر حکومت کے مفادات کو عوامی مفاد بنا کر پیش کرتا ہے۔ میڈیا کا کام ہے کہ عوامی مسائل کو اجاگر کرے اور حکومت کی کوتاہیوں پر سوال اٹھائے، لیکن بدقسمتی سے موجودہ میڈیا اربابِ اقتدار کی خوشنودی کے لیے کام کر رہا ہے اور سنسنی خیز خبریں پیش کر کے اپنی ذمہ داری سے غفلت کا ثبوت دے رہا ہے۔
حال ہی میں پریس فریڈم انڈیکس نے بھارت کے میڈیا کو ۱۸۰ ممالک میں ۱۶۱واں مقام دیا ہے جو لمحۂ فکریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا عنوان ’’میڈیا کا محاسبہ‘‘ بےحد موزوں ہے۔ آزاد اور غیر جانب دار میڈیا کے بغیر جمہوریت کا تصور ممکن نہیں ہے۔
پچھلے چند برسوں میں میڈیا نے یکطرفہ رپورٹنگ میں اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ نفرت انگیز خبریں بآسانی نشر ہو رہی ہیں جبکہ عدالتیں اور پریس کونسل اس پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت اور سرمایہ داروں کی پشت پناہی ہے جس کے باعث میڈیا حزبِ اختلاف پر تنقید اور حکومت کی تعریف کرنے میں مصروف رہتا ہے۔
سوشل میڈیا سے کچھ امیدیں تھیں لیکن اب اس پر بھی برسر اقتدار جماعت کا غلبہ نظر آتا ہے۔ حکومت کی مخالف آوازوں کو دبایا جا رہا ہے اور بے باک صحافیوں کے سوشل اکاؤنٹ بند کیے جا رہے ہیں۔ ملک میں صحافیوں کو جیل میں ڈالنے اور ان پر حملے ہونے کے واقعات بھی عام ہیں۔
بھارتی میڈیا کی گرتی ہوئی ساکھ کی ایک بڑی وجہ سرمایہ دارانہ مفادات کا غالب ہونا ہے۔ بڑے سرمایہ دار گھرانے میڈیا اداروں کو خرید رہے ہیں اور ان کے ذریعے حکومت پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا میں سماجی تکثیریت کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے؛ نیوز روموں میں مخصوص ذات کے لوگوں کا غلبہ ہے اور محروم طبقات کو اہم عہدوں سے دور رکھا جا رہا ہے۔
اخبارات میں مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کا ادارتی عملے پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ میڈیا کے مالکان کی آمدنی میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن صحافیوں کی تنخواہیں یا تو جمود کا شکار ہیں یا گھٹ رہی ہیں۔ یونین بنانے کا حق ختم ہوتا جا رہا ہے اور صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
میڈیا کو چاہیے کہ وہ بھارت کی تکثیریت کو تسلیم کرے اور سماج کے حاشیے پر موجود لوگوں کی آواز بنے، لیکن اس کے برعکس میڈیا طاقتور طبقات کے مفادات کو قومی مفاد کے طور پر پیش کرتا ہے اور غریبوں کی آواز کو ’’گندی سیاست‘‘ کہہ کر نظر انداز کرتا ہے۔
ایک اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ میڈیا شخصیت پرستی کو فروغ دے رہا ہے اور تمام مسائل کے حل کے طور پر ایک خاص لیڈر کو پیش کیا جا رہا ہے جبکہ جمہوریت اجتماعی کوششوں پر زور دیتی ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیرِ اعظم کابینہ کے برابر ہوتا ہے لیکن موجودہ دور میں سیاست ایک ہی لیڈر کے گرد گھوم رہی ہے۔
اسی طرح کورونا وبا کے دوران میڈیا نے عوام کی صحت عامہ کے بجائے فرقہ وارانہ نقطہ نظر اختیار کیا ہے۔ تبلیغی جماعت کو وبا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھیرایا گیا اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران میڈیا نے مزدوروں کی مشکلات اور صحت عامہ کے مسائل پر بات کرنے کی بجائے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔
ہندی نیوز چینلوں نے تو تمام حدیں پار کر دیں۔ مثال کے طور پر ایک چینل نے ’’کورونا کی جنگ میں جماعت کا اگھات‘‘ پرپروگرام نشر کیا۔ دیگر نیوز چینلز بھی پیچھے نہیں تھے۔ اس وقت ٹی وی سرخیاں کچھ یوں تھیں: ’’دھرم کے نام پر جان لیوا ادھرم‘‘، ’’نظام الدین کا ولن کون‘‘، ’’کرونا جہاد سے دیش بچاؤ‘‘۔ ان پروگراموں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو عام کیا۔
صحافیوں کی بے حسی اس وقت ظاہر ہوئی جب ایک اینکر نے مسلمان مہمان کو شو میں بلا کر ذلیل کیا۔ ایک اور اینکر نے تبلیغی جماعت کو ’’طالبانی جماعت‘‘ قرار دیا اور مولانا سجاد نعمانی کی بھی کردار کشی کی۔
اس وقت فرقہ پرستی کا وائرس کورونا سے بھی تیز پھیل رہا تھا مگر سچائی بالآخر سامنے آ گئی۔ مہینوں بعد بامبے ہائی کورٹ نے تسلیم کیا کہ تبلیغی جماعت کو بلی کا بکرا بنایا گیا تھا۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ نے حکومت کی ناکامیوں کو واضح کیا جس کے مطابق بھارت میں کورونا کے باعث 47 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے برعکس ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار دس گنا زیادہ ہیں اور ماہرین صحت کے مطابق وہ زیادہ درست ہیں کیونکہ حکومت نے عوام کو بے سہارا چھوڑ دیا تھا۔
کورونا کے دوران میڈیا کے کردار نے یہ خدشہ پیدا کیا کہ میڈیا اب کاروباری مفادات کا حصہ بن چکا ہے اور عوامی مسائل کو ثانوی حیثیت دی جا رہی ہے۔
کسانوں کی تحریک کے دوران بھی میڈیا نے منفی کردار ادا کیا، زرعی قوانین کے نفاذ پر ان کی بات سننے کے بجائے انہیں ’’خالصتانی‘‘ اور دہشت گردوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی کسانوں کے مسائل کی بجائے اخبارات میں ٹریفک جام اور اپوزیشن کی سیاست پر بات کی جاتی رہی۔
میڈیا کا منفی کردار شہری حقوق کے معاملات پر بھی ظاہر ہوا۔ اتر پردیش میں انسانی حقوق کی پامالی کے کئی واقعات سامنے آئے اور پولیس نے انکاؤنٹروں اور بلڈوزر کارروائیوں کو معمول بنا لیا۔
حال ہی میں جے این یو کی طالبہ آفرین فاطمہ کے گھر کو یو پی پولیس نے غیر قانونی طور پر مسمار کیا۔ قانون کے ماہرین نے اس اقدام کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا مگر میڈیا نے ان معاملات کو نظر انداز کیا اور انکاؤنٹر کلچر کو جائز قرار دینے کی کوشش کی۔
جمہوریت کو بچانے کے لیے محکوم طبقات کو قیادت کرنی ہوگی۔ نوم چومسکی کی تحریریں، خاص طور پر ’’مینوفیکچرنگ کنسنٹ‘‘ متبادل میڈیا کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
بھارت میں ’’کاؤنٹر کرنٹس‘‘ جیسے متبادل پورٹل کی مثال موجود ہے جو 2002 کے گجرات فسادات کے بعد قائم ہوا تھا۔ اس نیوز پورٹل کے بانی بینو میتھیو نے ثابت کیا کہ اصولوں پر سمجھوتا کیے بغیر ادارتی آزادی کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
جہاں تک میڈیا کے اخراجات کا تعلق ہے، بینو میتھیو عوامی تعاون پر انحصار کرتے ہیں۔ ملک کے مین اسٹریم میڈیا کی حالت پر وہ افسردہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے صحافی اب کھلے عام نفرت پھیلا رہے ہیں۔ لبرل طبقہ ان کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہے کیونکہ وہ بائیں بازو سے دائیں بازو تک سب کو خوش کرنے میں مصروف ہے۔ اس پس منظر میں آزاد اور خود مختار میڈیا کی اشد ضرورت ہے۔ بینو میتھیو کا ماننا ہے کہ ملک کے حالات تبھی بہتر ہوں گے جب ہزاروں کی تعداد میں ’’کاؤنٹر کرنٹس‘‘ جیسے پلیٹ فارم کام کریں گے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عوامی صحافت مختلف زبانوں اور خطوں سے شروع کی جائے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سرگرم صحافیوں کے لیے بھی بینو میتھیو کا پیغام ہے کہ انہیں سستی شہرت کے لیے اپنے مشن سے دور نہیں جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی صحافتی ادارے کو اپنے صحافیوں اور قلم کاروں پر کسی خاص نظریے کو مسلط نہیں کرنا چاہیے، بلکہ مختلف آراء کو جگہ دینی چاہیے۔ بینو کا ماننا ہے کہ دنیا کے مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں، اس لیے ہر محاذ پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سامراجیت اور گلوبلائزیشن کی مخالفت سے لے کر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات تک سب پر بات کرنا لازمی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ فرقہ واریت کی مخالفت، دلتوں اور دیگر محروم طبقات کے حقوق کا تحفظ بھی اہم ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد اور شہری و انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانا بھی صحافیوں کی ذمہ داری ہے۔
سچ پوچھیے تو ’’کاؤنٹر کرنٹس‘‘ کا تجربہ پہاڑ پر رکھے ہوئے اس چراغ کی مانند ہے جو اکیلا تو اندھیرے کو ختم نہیں کر سکتا لیکن تاریکی سے لڑنے کا حوصلہ ضرور پیدا کرتا ہے۔ اگر ہمیں اس مایوسی کے اندھیرے کو دور کر کے روشنی پھیلانی ہے تو کسی فرشتے کا انتظار کیے بغیر خود آگے آنا ہوگا۔ جمہوریت کو بچانے اور میڈیا کی آزادی کے تحفظ کے لیے ہمیں ایک ایک چراغ جلانا ہوگا۔ عوامی مسائل سے متعلق صحافت کا چراغ جلانا ہوگا کیونکہ طاقتور طبقہ محروموں کی آواز نہیں اٹھا سکتا۔ کمزور طبقات کو اپنا میڈیا قائم کرنا پڑے گا۔ یہ سب کسی کرشمے سے نہیں بلکہ اجتماعی کوششوں سے ممکن ہوگا۔
یہ 17ویں محفوظ الرحمٰن میموریل لیکچر کا متن ہے جو 14 مئی 2023 کو غالب اکیڈمی، نظام الدین، نئی دلی میں دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر ابھے کمار مصنف اور آزاد صحافی ہیں۔ انہوں نے جے این یو کے شعبۂ تاریخ سے پی ایچ ڈی کی ہے اور ان کی دلچسپی سماجی انصاف، اقلیتی حقوق اور میڈیا سے جڑے موضوعات میں ہے۔
[email protected]
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024