جمہوری سیاست میں بندر بانٹ
سترّ ہزار کروڑ کا گھپلا اچانک گنگا میں بہہ گیا اور بدعنوانیوںکے پاپ دھل گئے!
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
اجیت پوار کی حکومت میں شمولیت سے بی جے پی اور شندے گروپ کے ارکان کی امیدیں متاثر
بچپن کا معصوم زمانہ اور بھولی بھالی کہانیاں جب جوان ہوتی ہیں تو خاصی مکار و پیچیدہ ہوجاتی ہیں۔ بلی اور بندر کی کہانی سے تو سبھی واقف ہیں۔ اس کی ابتداء حیوانی ضرورت بھوک سے ہوتی ہے۔ ہر جان دار اپنا پیٹ بھرنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور بھوک مٹ جائے تو سکون سے سو جاتا ہے لیکن انسان کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کے لالچ کی بھوک کبھی نہیں مٹتی۔ اسے اگر سونے کی ایک وادی مل جائے تو وہ دوسری کی خواہش کرتا ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھر دیتی ہے۔ خیر، بچوں کی کہانیوں میں دو بھوکی بلیوں کو تلاشِ بسیار کے بعد روٹی کا ایک ٹکڑا نظر آتا ہے۔ ایک بلی جھپٹ کر اُسے لے بھاگتی ہے اور دوسری اس کا پیچھا کرتے ہوئے ایک درخت کے نیچے پہنچ کر لڑنے جھگڑنے لگتی ہے۔ اتفاق سے اس درخت پر بیٹھا ایک چالاک بندر اس منظر کو دیکھ کر افسردہ ہونے کے بجائے خوش ہو جاتا ہے۔ اس کو غالباً وزیر اعظم کا مشہور مکالمہ ’’آپدا میں اوسر‘‘ (یعنی آفت میں راحت کا موقع) یاد آگیا ہو گا۔
دوسروں کی مصیبت سے اپنا کام نکال لینے کے فن سے وہ بندر بھی خوب واقف تھا اس لیے فوراً نیچے اُتر آیا اور ہمدردی کی اداکاری کرکے کہنے لگا ’’اے بدنصیب بلیو! تم ایک ہی نسل کی ہونے کے ساتھ بھوکی (غریب و مسکین ) بھی ہو اور دیکھو تمہیں غذا (آزادی) بھی مل گئی ہے، مگر لالچ اور خود غرضی نے تمہیں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار کر رکھا ہے۔ انصاف کے مطابق اگر دونوں اس ٹکڑے کو برابر بانٹ لیتیں تو کتنا اچھا تھا۔ تمہاری لڑائی کا شور سن کر کوئی کتا آ گیا تو پوری کے چکر میں آدھی بھی چلی جائے گی۔ بلیوں نے بندر کی چکنی چپڑی باتوں کے جھانسے میں آکر سوچا کہ بندر کی سمجھ داری اور انصاف سے بہت جلد ان کے اچھے دن آجائیں گے، چنانچہ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے بندر کو ہی اپنا حکم بنالیا اور فریاد کی کہ اب تم ہی انصاف کر کے ہمارا قضیہ چکاو۔ یہ سن کر بندر کی باچھیں کھل گئیں وہ دوڑ کر کمل چھاپ ترازو لے آیا اور روٹی کو دو ٹکڑے کر کے دونوں پلڑوں میں رکھ دیا لیکن منصوبے کے مطابق وزن برابر نہیں رکھا۔ اس نے بڑے ٹکڑے کو دانتوں سے کاٹ کر کم کیا اور کھا گیا۔ پھر دوبارہ وزن کیا تو اب دوسرا ٹکڑا بڑا ہو گیا۔ اس کو بھی دانتوں سے کاٹا اور کھا گیا۔
انصاف کی منتظر حیران پریشان بلیاں اس بندر بانٹ کو ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ یہ منظر دیکھتی رہیں یہاں تک کہ بندر ساری روٹی چٹ کر گیا۔ بندر نے جاتے جاتے اپنی چوری کو چھپانے کے لیے میڈیا کے سامنے الٹا بلیوں کو ہی موردِ الزام ٹھیرا دیا۔ اس نے کہا ان کے نیت کی خرابی نے یہ سارا کام بگاڑا ہے۔ اپنا احسان جتاتے ہوئے وہ بلیوں کو مخاطب کرکے بولا ’’میں نے تمہاری ہمدردی میں دونوں ٹکڑوں کا وزن برابر کرنے کی خاطر جان توڑ محنت کی۔ تمہاری خاطر کمل کے ترازو کو اٹھائے رہا اور اٹھارہ گھنٹوں سے نہیں سویا۔ اس دوران میں نے تمہارے تحفظ کے لیے میں نے کیا کچھ نہیں کیا؟ اب میرے ہاتھ بھی بہت تھک چکے ہیں۔ خیر مجھے میری مزدوری مل گئی اب تم دونوں کسی پکوڑے کی دوکان میں کچھ بچا کچا تلاش کرکے اپنا پیٹ بھر لو۔ مجھے یونیفارم سیول کوڈ لانے اور اسے بھنانے کی بڑی تیاری کرنی ہے لہٰذا میں تو چلا‘‘ اس من کی بات کے ساتھ ہی کھیل بھی ختم اور روٹی بھی ہضم۔ مودی کال میں سیاسی قلا بازیوں کو اس کہانی کے تناظر میں دیکھا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔
مہاراشٹر کی کہانی دہلی سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ گاندھی جی کے قتل نے گجرات سے زیادہ مہاراشٹر کو متاثر کیا کیونکہ ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کا تعلق اسی صوبے سے تھا۔ وہ کوئی انفرادی فعل نہیں تھا بلکہ اس کی ذہن سازی کرنے والی آر ایس ایس کی داغ بیل مہاراشٹر کی سر زمین پر پڑی اور اس کا صدر دفتر بھی اسی کے شہر ناگپور میں تھا۔ ناتھو رام گوڈسے کو آشیرواد دے کر اس مہم پر روانہ کرنے والے ساورکر بھی مہاراشٹر کے رہنے والے تھے اس لیے گاندھی جی کے قتل کا سب سے شدید ردعمل اسی صوبے میں ہوا اور مراٹھا سماج نے ان برہمنوں پر بھی نزلہ اتارا جن کا سنگھ یا گوڈسے سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیہ جن سنگھ کا قیام دہلی میں عمل میں لایا گیا۔ ہندو مہاسبھا کے بنگالی رہنما شیاما پرساد مکرجی کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ اس کے بعد چھبیس سالوں میں ایک درجن صدور میں سے کوئی بھی مہاراشٹر کا نہیں تھا۔ ایمرجنسی کے دوران جن سنگھ کو جنتا پارٹی میں ضم کر دیا گیا اور تین سال بعد جب بھارتی جنتا پارٹی کی شکل اس کا پنر جنم ہوا تب بھی انتیس سال تک کسی مرہٹے کو صدارت کی گدی نہیں ملی۔ نتن گڈکری پہلے اور آخری صدر تھے مگر ان کو بھی بدعنوانی کا الزام لگا کر استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔
مہاراشٹر میں بی جے پی نے پرمود مہاجن کو آگے کرنے کے بجائے گوپی ناتھ منڈے جیسے پسماندہ رہنماوں کی مدد سے پارٹی کو مضبوط کیا اور پہلی بار شیوسینا کے ساتھ مل کر اقتدار پر فائز ہوئی۔ کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرکے جب شیوسینا کے منوہر جوشی وزیر اعلیٰ بنے تو منڈے نائب وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔ ان کے علاوہ وزارتِ مالیات کے اہم عہدے پر نتن گڈکری کی جگہ ایکناتھ کھڑسے کو فائز کیا گیا۔ اس کے بعد بیس سالوں تک بی جے پی اور شیو سینا انتخاب نہیں جیت سکے ۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی پہلی بار مہاراشٹر کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ اس وقت تک گوپی ناتھ منڈے آنجہانی ہوچکے تھے۔ وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لیے ریاست میں ایکناتھ کھڑسے اور مرکز میں نتن گڈکری سب سے طاقتور دعویدار تھے۔ نتن گڈکری کو کمزور کرنے کے لیے مودی نے ان کے برہمن حریف دیویندر پھڈنویس کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ اس طرح ایکناتھ کھڑسے کی حق تلفی ہوئی اور وہیں سے بی جے پی کا زوال شروع ہوگیا جو ہنوز جاری ہے۔ مودی کے باوجود بی جے پی 2014 جتنی اسمبلی کی نشستیں پھر نہیں جیت سکی اور نہ مستقبل میں اس کا امکان ہے کیونکہ دیویندر پھڈنویس نے اپنی کرسی محفوظ کرنے کے لیے ایکناتھ کھڑسے، پنکجا منڈے اور ونود تاوڑے جیسے مقبول پسماندہ حریفوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ اس سے پارٹی کی جڑیں کمزور ہوگئیں جس کو پورا کرنے کے لیے بیرونی مدد لی گئی جو کام نہ آئی۔
2014 میں بننے والی دیویندر پھڈنویس کی حکومت واضح اکثریت سے محروم تھی۔ اس وقت اسے اپنی نظریاتی حلیف شیو سینا کے ساتھ ہاتھ ملا کر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا چاہیے تھا مگر اس نے ادھو ٹھاکرے کے بجائے این سی پی کی بلا واسطہ مدد سے اپنا مقصد حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ حکومت سازی کر کے تمام اہم وزارتوں پر قبضہ کرنے بعد شیو سینا سے الحاق کیا اور چند روٹی کے ٹکڑے رکھ دیے۔ اپنی پارٹی کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ادھو ٹھاکرے کو وہ رسوائی برداشت کرنی پڑی۔ ان کو بی جے پی سے جس بات کا خطرہ تھا وہ بالآخر ساڑھے سات سال بعد درست ثابت ہوا اور ایکناتھ شندے کی مدد سے شیو سینا کو توڑ دیا گیا۔ 2019 میں انتخابی کامیابی کے بعد بی جے پی اور شیو سینا کے درمیان ڈھائی سال کی حکومت پر اختلاف رونما ہوا تو دیویندر پھڈنویس نے اپنے ہندوتوا نواز کو اعتماد میں لینے کے بجائے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اجیت پوار کو نائب وزیر اعلیٰ بنا دیا اور ان کی مدد سے حکومت سازی کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ وہ اگر ڈھائی سال کی تقسیم پر راضی ہوجاتے تو آج نائب نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہوتے۔
دیویندر پھڈنویس اپنی نادانی سے شیو سینا کے ساتھ ساتھ این سی پی کو بھی ناراض کرچکے تھے اس لیے شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے ایک ساتھ آگئے۔ اس موقع پر شرد پوار نے کانگریس کو الحاق میں شامل کر کے مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کا منفرد تجربہ کیا۔ ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں حکومت ٹھیک ٹھاک چلی حالانکہ کورونا کی وبا نے پہلے حالات خراب کیے اور اس کے بعد خود ادھو ٹھاکرے بھی بہت بیمار ہو گئے۔ اس دوران پارٹی کا سارا کام کاج ایکناتھ شندے کو سونپ دیا گیا یعنی اقتدار کی کرسی پر نام ادھو ٹھاکرے کا اور کام ایکناتھ شندے کا تھا۔ بی جے پی کے چالاک بندر نے دیکھا کہ اب یہ روٹی عملاً دو بلیوں کے درمیان تقسیم ہوگئی ہے اس کے باوجود دونوں صبر و سکون کے ساتھ اسے مل جل کر کھا رہے ہیں تو اس نے سوچا کہ اگر ان کو آپس میں لڑا دیا جائے تو اس کا فائدہ ہو سکتا ہے، اس کے لیے سازش کے طور پر ایکناتھ شندے کے سامنے کرسی پیش کی گئی جسے انہوں نے لپک لیا اور اپنے پندرہ ایم ایللوں سمیت سورت فرار ہو گئے۔ اب کیا تھا شیو سینک چیتوں کو جیل جانے یا پھر ڈبل انجن ریل گاڑی میں سوار ہونے کی پیشکش کی جانے لگی۔ جیل کی صعوبت کے برعکس ریل میں کروڑوں کے تحائف کو دیکھ کر اچھے اچھوں کی نیت بدل گئی اور وہ بلی بن کر گوہاٹی روانہ ہوگئے۔ بلیوں کی یہ فوج جب گوا کے راستے ممبئی پہنچی تو بندر کو امید تھی کہ اب اقتدار کا تاج اس کے سر پر رکھا جائے گا لیکن اسے بلی کے سر پر رکھ کر اس کے گلے کا پٹا بندر کو تھما دیا گیا۔ اس طرح بندر وزیر اعلیٰ بننے کے بجائے مداری بن گیا اور مرکز کے اشارے پر تماشا کرنے لگا۔
نو ماہ تک کالو اور بالو کا یہ تماشہ چلانے کے بعد دلی میں بیٹھے ہوئے ایک اور بندر کو احساس ہوا کہ آئندہ انتخاب میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے شیر نما بلی کی حمایت کافی نہیں ہے۔ اس لیے اس نے این سی پی کے خیمے سے پرانی لومڑی کو اپنے کچھار میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ اس بار لومڑی کو روٹی کا لالچ دے کر اس کے چاچا سے لڑا دیا گیا۔ ہندووں کو مسلمانوں سے لڑانے کی جو تربیت انگریزوں سے حاصل کی گئی تھی اس کا پہلا استعمال تو ہندوتوا نواز دوست سے اس کے دست راست سے لڑانے کے لیے کیا گیا اور دوسرا فائدہ چچا کو بھتیجے سے لڑا کر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ چچا کو اس کی بھنک لگی تو اس نے ہمدردی بٹورنے کے لیے استعفیٰ دینے کا ڈرامہ کردیا۔ شرد پوار سے جب استعفیٰ سے متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ روٹی کو الٹا پلٹا نہ جائے تو وہ جل جاتی ہے۔ یہ الٹ پھیر روٹی کو جلنے سے بچانے کے لیے نہیں بلکہ ٹوٹنے سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔
روٹی کو دوچار دنوں تک الٹنے پلٹنے کے بعد شرد پوار نے آٹا گوندھنے کی ذمہ داری اپنی بیٹی سپریا سولے کے حوالے کی اور پرفل پٹیل کو روٹی سینکنے کا کام سونپ دیا اور اجیت پوار کو تندور میں جھونک کر خود اپنے گھڑی چھاپ بھٹیار خانے کے گلے پر براجمان ہو گئے۔ اجیت پوار اندر سے جلے بھنے نکلے تو پرفل پٹیل کو ان پر رحم آگیا اور وہ اجیت پوار کے ساتھ روٹیاں بغل میں دبا کر سالن کی تلاش میں فرار ہوگئے۔ کمل والا بندر برنال کی ٹیوب لے کر انتظار کررہا تھا۔ وہ کود کر نیچے آیا اور پرانی لومڑی کو اپنے ساتھ لے گیا۔ سب سے پہلے اجیت پوار کا گنگا اسنان کرایا گیا اور بدعنوانی کے سارے پاپ بہہ گئے۔ یہ دیکھ کر پٹیل، بھجبل اور مشرف جیسے پاپیوں نے بھی گنگا اسنان کیا اور وزیر بن گئے۔ سترّ ہزار کروڑ کا گھپلا اچانک گنگا میں بہہ گیا۔ ان نئے مہمانوں کی آمد نے پہلے سے موجود بلیوں کو بے چین کردیا اور انہوں نے نو واردین کا استقبال کرنے کے بجائے صدائے احتجاج بلند کرنی شروع کردی ۔
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے دستِ راست سنجے شرساٹ نامی بلے نے شکایت کی کہ موجودہ حکومت کے پاس 170؍ ارکان اسمبلی کی حمایت ہے اس لیے این سی پی کو اس میں شامل کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بھرت گوگولے نام کی بلی نے دل کی بات کہہ دی۔ وہ بولی نئی لومڑیوں کی آمد سے اب آدھی روٹی کھانی پڑے گی۔ اس نے اعتراف کیا کہ اب بندر کے اس اقدام سے ناراض ہوکر کیا فائدہ؟ کیونکہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ بندر کے چکر میں عوام کو ناراض کردیا اور اب بندر سے بھی رشتہ بگاڑ لیا جائے تو وہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔ ان سے سب قربانی کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر قربانی ہی دینی ہے تو سرکار میں کیوں رہیں؟ یہ ایک حقیقت ہے لیکن اس کا اعتراف کوئی نہیں کرتا ۔بھولے بھالے لوگ جنہیں عام فہم زبان میں بیوقوف کہا جاتا ہے سچ بول کر اپنا نقصان مگر سامعین کا فائدہ کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس مکار لوگ جھوٹ کے سہارے اپنے فائدے کی خاطر دوسروں کو فریب دیتے ہیں۔ اس لیے بھرت گوگولے کی صاف گوئی قابلِ ستائش ہے۔
شیو سینا کے رکن پارلیمنٹ گجانن کیرتیکر نے تو صاف کہہ دیا کہ اجیت پوار کی زیر قیادت این سی پی کے دھڑے کو مہاراشٹر کابینہ میں شامل کرنے سے بی جے پی اور شیو سینا کے وزارتی دعویداروں کی امیدیں متاثر ہوئی ہیں اور ان میں سے کچھ ناراض ہیں اور وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو اس بات کا علم ہے۔ اجیت پوار کیمپ کے نو وزراء کی حلف برداری کے بعد شندے-پھڈنویس کابینہ کے ارکان کی تعداد انتیس ہوگئی ہے۔ اب کابینہ میں صرف چودہ عہدے خالی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر کے سیاسی منظر نامہ میں اس تبدیلی سے نہ صرف شرد پوار پریشان ہیں بلکہ ایکناتھ شندے کے دھڑے میں بھی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اپنے ناراض ارکان اسمبلی سمجھانے منانے کی خاطر وزیر اعلی ایکناتھ شندے کو اچانک اپنے تمام پروگراموں کو منسوخ کرکے ناگپور سے ممبئی آنا پڑا کیونکہ ارکان اسمبلی کی گھر واپسی کا امکان روشن ہوگیا تھا۔ ایکناتھ شندے کی قیادت والی شیو سینا کے رہنماوں کا مطالبہ ہے کہ اقتدار میں شرکت کا مطلب اقتدار میں حصہ داری ہے۔ بلیوں کا ایک گروہ جلد از جلد وزارتی عہدوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔
مہاراشٹر میں جو رائتا پھیلا دیا گیا ہے اس سے بلیوں کے علاوہ بندر بھی پریشان ہیں کیونکہ اجیت پوار کھلی آنکھوں سے وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ بی جے پی ہائی کمان کے پاس نا اہل اور بے اثر وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے سے نجات حاصل کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔ اسپیکر نارویکر کے ذریعہ شندے کی رکنیت رد کروا کر انہیں دودھ سے مکھی کی مانند نکال کر پھینکا جا سکتا ہے۔ یہ تنازعہ کئی ماہ سے زیر التوا ہے مگر اب اسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر نے شندے گروپ کے اراکین کی رکنیت ختم کرنے کی درخواست پر نوٹس تھما دیا ہے۔ اسے لوگ شندے گروپ کی الٹی گنتی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر نے شیو سینا (شندے گروپ) کے چالیس اراکین کو نوٹس جاری کرکے پوچھا کہ ان کے خلاف وہپ کی خلاف ورزی کے معاملے میں کارروائی کیوں نہ کی جائے؟ اور جواب دینے کے لیے سات دنوں کا وقت دیا ہے۔
اسپیکر نے ادھو گروپ کے چودہ اراکین کو بھی اسی طرح کا نوٹس دیا ہے۔ اس طرح کل ملا کر انہوں نے چوون اراکین اسمبلی کے سر پر ننگی تلوار لٹکا دی ہے۔ اب اگر مرکز کے اشارے پر ایکناتھ شندے کی چھٹی کر کے ان کی جگہ اجیت پوار کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے تو دیویندر پھڈنویس کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ایم وی اے کی سرکار میں شیوسینکوں کو شکایت تھی کہ نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار سارا پیسہ این سی پی والوں کو بانٹ دیتے ہیں جس سے ان کے لیے میدانِ عمل میں کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نئی حکومت میں بھی ان کا طریقہ کار وہی رہا تو یہ شکایت بی جے پی کے ارکان کو ہوجائے گی۔ اس سے ان کے لیے عوام میں کام کرنا اور ساتھ میں اپنی جیب بھرنا مشکل ہو جائےگا۔ روٹی تقسیم کرنے کی ذمہ داری اگر بندر کے بجائے لومڑی کو سونپ دی جائے تو بلیوں کے ساتھ ساتھ بندروں کا بھی جینا بھی دو بھر ہوجائے گا۔ مہاراشٹر میں بندر، بلی اور لومڑی کا یہ کھیل آگے اور کیا گل کھلائے گا یہ کوئی نہیں جانتا لیکن بہرحال اس کہانی کا انجام نہ صرف دلچسپ بلکہ چونکانے والا ہوگا۔
***
***
روٹی تقسیم کرنے کی ذمہ داری اگر بندر کے بجائے لومڑی کو سونپ دی جائے تو بلیوں کے ساتھ ساتھ بندروں کا بھی جینا دو بھر ہوجائے گا ۔ مہاراشٹر میں بندر، بلی اور لومڑی کا یہ کھیل آگے کیا کیا گل کھلائے گا یہ کوئی نہیں جانتا لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کہانی کا انجام نہ صرف دلچسپ بلکہ چونکانے والا ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023