جماعت اسلامی ہند کا 75سالہ تاریخی سفر

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

محمد جاوید اقبال، دہلی

جماعت اسلامی یوں تو ۱۹۴۱ء کو لاہور میں قائم ہوئی لیکن آزادی ہند کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ جماعت اسلامی ہند کی تشکیل نو ۱۶ اپریل ۱۹۴۸ء کو الہ آباد میں ہوئی۔ جس کے ۱۵ اپریل ۲۰۲۳ء کو پچھتر سال مکمل ہو جائیں گے۔ اس طویل عرصے میں جماعت نے بہت سے کارنامے انجام دیے جس کا علم عوام و خواص کو ہے۔ ان کاموں میں خاص اور اہم کام یہ ہے کہ جماعت نے یہ شعور بیدار کیا کہ اسلام، انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اس کے نور سے محروم دکھائی دیتا ہو۔ تاریخ کے جھروکوں سے چند جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں تاکہ اس تحریک کا ماضی، اس کا عروج اور اس کی کارکردگی سے قارئین واقف ہو سکیں ۔
تقسیم ہند سے پہلے
مولانا مودودی نے مدراس میں ایک خطبہ دیا تھا جس میں یہ بتا دیا تھا کہ تقسیم کے نتیجہ میں جماعت اسلامی کا نظم بھی دو حصوں میں منقسم ہو جائے گا۔ ہندوستان میں جو لوگ رہ جائیں گے ان کو کس طرح کام کرنا ہو گا اور جو پاکستان میں ہوں گے وہ کس طرح کام کریں گے۔ تقسیم کے بعد جو حالات پیش آئے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے خطبے کو پڑھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نے مستقبل میں جھانک کر دیکھ لیا تھا کہ کیا ہونے والا ہے اور اس کا ممکنہ حل کیا ہو سکتا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کی تشکیلِ نو بمقام الہ آباد
ملک کی تقسیم کے تقریبا آٹھ ماہ بعد ۱۶ تا ۱۸ اپریل کو ہندوستان میں رہ جانے والوں کا ایک اجتماع الہ آباد میں ہوا۔ اس اجتماع میں ۴۱ افراد نے شرکت کی تھی۔ بحث و مباحثے کے بعد مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی کو ہندوستان کی جماعت کا امیر منتخب کر لیا گیا۔ مولانا نے اس فیصلہ کو اس شرط کے ساتھ قبول کیا تھا کہ مولانا مودودی کے جواب کا انتظار کیا جائے گا اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ چنانچہ کچھ دنوں کے بعد مولانا مودودی کا خط موصول ہو گیا جس میں مولانا نے فرمایا کہ ہندوستان کے لوگ خود فیصلہ کریں۔ البتہ مشورہ مولانا ابواللیث اصلاحی کے حق میں دیا۔ اس طرح مولانا ابواللیث صاحب نے امارت کی ذمہ داری سنبھال لی۔
جماعت اسلامی ہند کیپہلی شوریٰ کا انتخاب
مولانا نے امیر جماعت منتخب ہو جانے کے بعد گیارہ افراد پر مشتمل ایک سال کے لیے شورائی نظام قائم کیا۔ اس موقع پر مولانا محمد یوسف صاحب الہ آبادی کو قیم جماعت (جنرل سکریٹری) مقرر کیا گیا۔جماعت اسلامی ہند کا پہلا مرکز ملیح آباد ضلع لکھنو قرار پایا جہاں منشی ہدایت اللہ صاحب مرحوم نے اپنا ۲۷ بیگھ باغ جماعت اسلامی اور درس گاہ کو ہدیہ کر دیا تھا۔ کچھ مہینوں کے بعد مولانا ابواللیث صاحب ملیح آباد منتقل ہو گئے جہاں سے جماعت اسلامی ہند کے کام کا از سر نو آغاز کیا گیا۔ جماعت نے پہلے تین شعبہ جات قائم کیے۔ درس گاہ اسلامی، شعبہ ہندی اور تیسرا مرکزی مکتبہ اسلامی۔
مرکزی درس گاہ اسلامی
درس گاہ اسلامی کا سب سے پہلے قیام ملیح آباد میں عمل میں آیا۔ جناب افضل حسین صاحب ایم اے، ایل ٹی اس کے پہلے ناظم مقرر ہوئے۔ محمد شفیع مونس صاحب جو دہلی میں اینگلو عربک کالج میں استاد تھے استعفیٰ دے کر وہاں چلے گئے اور درس گاہ کے استاد مقرر ہوئے۔
اجتماع الہ آباد، یو پی
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ الہ آباد کے پہلے اجتماع میں ۴۱ افراد شریک ہوئے تھے۔ یہ اجتماع تین روز تک جاری رہا۔ اس میں مصارف 350 روپے ہوئے۔ مختلف مقامات سے آئے ہوئے رفقاء نے اجتماع کی مد مصارف اجتماع میں 376 روپے اعانت کی۔باقی رقم مبلغ 26 روپے بیت المال میں جمع کر دیے گئے۔ اس اجتماع میں امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی صاحب نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس کا خلاصہ اس طرح ہے: اللہ تبارک تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد آپ نے فرمایا کہ ہم سب اللہ کے بندے ہیں وہی ہمارا حقیقی فرماں روا ہے۔ ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی بھی فکر کرنی چاہیے۔ لیکن اگر ہماری توجہ صرف دوسروں کی اصلاح پر رہی اور ہم اپنی اصلاح کرنا بھول گئے تو یہ بڑی بے غیرتی کی بات ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہمارا بنیادی فریضہ ہے جس کو ہمیں ہر قیمت پر انجام دینا ہے۔
مرکزی مجلس شوریٰ کا پہلا اجلاس منعقدہ اگست ۱۹۴۸ء بمقام ملیح آباد
اس اجلاس میں درس گاہ اسلامی شعبہ ہندی اور مرکزی مکتبہ کے علاوہ بھی کچھ فیصلے کیے گئے۔ آخر میں امیر جماعت نے بیت المال کا حساب پیش کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم نے حساب میں کوئی غلطی کی ہو تو آپ ہمیں متنبہ فرمائیں اور آپ لوگوں کو اس میں ہرگز کسی قسم کا دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک مجھ پر اور جماعت پر آپ کا یہ بڑا احسان ہوگا کہ اگر آپ حساب و کتاب میں کوئی غلطی دیکھیں یا آپ کو کوئی بات قابل اعتراض نظر آئے تو پوری صفائی کے ساتھ متنبہ کریں۔ میں اس کے لیے آپ کا مشکور ہوں گا۔
مرکز جماعت کی رام پور منتقلی
اکتوبر ۱۹۴۹ء میں مرکز جماعت اسلامی ہند ملیح آباد سے رام پور یو پی میں منتقل کر دیا گیا۔ مرکز منتقل ہونے سے پہلے مرکزی درس گاہ کو منتقل کیا گیا۔ پھر مرکز اور مکتبہ اسلامی منتقل کیے گئے۔ اس میں سید احمد علی صاحب مرحوم کی قابل قدر خدمات رہیں۔ اللہ تعا لیٰ قبول فرمائے۔ آمین!
اخبار ’الانصاف‘
’الانصاف‘ الہ آباد سے نکلتا تھا جس کے مالک حکیم محمد خالد صاصب تھے اور مدیر محمد اسحاق صاحب تھے۔ جماعت کے جملہ اعلانات اسی پرچے میں شائع ہوتے تھے۔ ۱۹۵۳ء میں اس پرچے کو مالکین نے جماعت اسلامی کے حوالے کر دیا۔ جماعت نے طے کیا کہ یہ اخبار دلی سے نکالا جائے۔ چنانچہ اس کے لیے کوشش کی گئی۔ لیکن اس نام سے ڈیکلریشن نہیں مل سکا بلکہ سہ روزہ دعوت کے نام سے ڈیکلریشن حاصل ہوا۔ چنانچہ یہ سہ روزہ دعوت ۱۳ ستمبر ۱۹۵۳ء سے دلی سے نکالا گیا۔ جس کے پہلے ایڈیٹر اصغر علی عابدی تھے۔ اس کے کچھ دن بعد محمد مسلم صاحب معاون ایڈیٹر مقرر کیے گئے۔
جماعت اسلامی کے آغاز کے وقت کا ایک اہم معاملہ
یہ اس وقت کی بات ہے جب مولانا منظور نعمانی مولانا مودودی کے ساتھ مرکز جماعت میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس وقت مولانا مودودی نے رسالہ دینیات اور ماہنامہ ترجمان القران کے علاوہ اپنی جملہ تصنیفات جماعت اسلامی کو دے دی تھیں۔ مولانا منظور نعمانی اور جماعت کے ایک دوسرے رفیق نے مولانا مودودی سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ رسالہ دینیات اور ماہنامہ ترجمان القران کو بھی جماعت کے حوالے کر دیں اور مشاہرہ جماعت اسلامی سے لے لیں۔ مولانا مودودی نے اس کا تحریری جواب اس طرح دیا ’’آپ حضرات کا یہ مطالبہ غیر شرعی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے یہ حکم نہیں دیا کہ سب لوگ اپنے وسائل معیشت جماعت کے حوالے کر دیں اور جماعت کے تنخواہ دار کارکن بن کر رہیں۔ یہ مارکس اور لینن کی شریعت کا قاعدہ ہے نہ کہ خدا اور رسول کا۔ قریبی دور کے تجربہ سے یہی معلوم ہوا ہے کہ جس نے بھی جماعتی فنڈ سے تنخواہ لے کر کام کیا ہے وہ پھر جماعت کی قیادت کا کام نہیں کر سکا۔‘‘ اقتباس : ’مولانا مودودی کی رفاقت میں‘ از خواجہ اقبال احمد ندوی صفحہ ۸۲ بیت المال سے وظائف پانے والے کارکنوں اور بلا معاوضہ جماعت کی خدمت کرنے والے بیت المال سے و ظائف پانے والے کار کنوں اور بلا معاوضہ جماعت کی خدمت کرنے والے کار کنوں کی معاشی حیثیت کا فرق
مولانا نے مزید تحریر کیا کہ ’’کسی شخص کا بیت المال سے تنخواہ لے کر کام کرنا اور اس کا اپنی معیشت آزاد ہو کر بلا معاوضہ جماعت کی خدمت کے لیے وقت دینا ان دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ کسی شخص کو بیت المال سے اس کی ضرورت زندگی پورا کرنے کے لیے تو دیا جا سکتا ہے مگر فارغ البال اور خوش حال معاشرت رکھنے کے لائق نہیں دیا جا سکتا۔
وَ مَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَ مَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ
(یتیم کا سرپرست) جو مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقے سے کھائے۔ (سورۃ: النساء آیت ۶)
بر خلاف اس کے جو اپنا آزاد معاشی ذریعہ رکھتا ہو وہ حق رکھتا ہے کہ اللہ کے فضل اور اپنی محنت سے جائز طور پر اگر لاکھوں کما سکتا ہے تو کمائے اور خدا اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے بعد حدود شرع کے اندر فار غ البالی کی زندگی گزار سکتا ہے تو نہ صرف یہ کہ کسی کو اعتراض حق نہیں ہے بلکہ یہ بات اسلامی زندگی کے بالکل خلاف ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں لوگ اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھیں۔ بیت المال تو بہر حال کبھی اپنے کارکنوں کو اتنی تنخواہ نہیں دے سکتا کہ وہ ایسے آزاد معیشت رکھنے والوں کے ساتھ معاشی مساوات حاصل کر سکیں۔ اگر کوئی اس لحاظ سے مساوات چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ راستہ کھلا ہوا ہے کہ جا کر آزادانہ کام کرے اور اپنے رب کا فضل تلاش کرے۔‘‘(خطوط مودودی اول صفحہ ۸۲۔۸۴)
جماعت اسلامی کی خستہ حالی
جماعت اسلامی ہند کا مرکز ۱۹۴۹ء میں رامپور منتقل ہوا اس سے کچھ ماہ قبل مرکزی درس گاہ اسلامی کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۵۱ء میں درس گاہ میں بچوں کو خیاطی (Tailoring) سکھانے کی تجویز منظور کی گئی جس کے لیے ایک سینے کی مشین کی ضرورت تھی۔ جماعت کی مجلس شوریٰ نے طے کیا کہ مشین خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اخبار ’الانصاف‘ میں اشتہار دے دیا جائے کہ اگر کسی رفیق کے پاس کوئی سلائی مشین خالی ہو تو وہ اس کام کے لیے مستعار یا بطور ہدیہ پیش کر دے۔ اسی طرح ۱۹۶۰ء میں جب سہ روزہ دعوت کا دفتر کشن گنج دہلی میں تھا تب اخبار کا اسٹاف چٹائیوں پر بیٹھ کر کام کرتا تھا اور گرمی کے دنوں میں ہاتھ کے پنکھوں کا استعمال کرتا تھا۔ اس وقت ایک پرانا بجلی کا پنکھا کباڑی بازار سے خریدا گیا تو تمام اسٹاف کے افراد خوش ہو گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اسٹاف کی تنخواہیں ۶۵ روپے سے ۱۰۰ روپے ماہانہ تھیں۔
جون ۱۹۷۳ء میں جب میرا کسی کام سے دہلی آنا ہوا تو میں اس وقت کے امیر جماعت مولانا محمد یوسف صاحب سے ملنے جماعت کے دفتر چتلی قبر دہلی حاضر ہوا تب ان کے دفتر میں ایرکولر کا انتظام نہیں تھا۔ اس وقت ایرکولر کی قیمت محض 400 روپے تھی۔ میری درخواست پر بھی ایرکولر نہیں خریدا گیا۔
مرکز جماعت اسلامی ہند کی دہلی منتقلی
۱۹۶۰ء میں مرکز جماعت اسلامی ہند دہلی منتقل کر دیا گیا۔ سوئیوالان میں ایک عمارت خریدی گئی جس میں مرکز جماعت، مرکزی مکتبہ اور سہ روزہ دعوت کے دفاتر تھے۔
بازار چتلی قبر کی عمارت کی خریداری
۱۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو 1353 بازار چتلی قبر کی عمارت خریدی گئی اب اسی عمارت میں جماعت کا دفتر منتقل کیا گیا۔ یہ ایک غیر مسلم کی عمارت تھی جس کا سودا ایک لاکھ روپے میں طے ہوا تھا۔ چند روز بعد جب ادائیگی کے لیے تیاری ہوئی تو مالک نے دس ہزار روپے مزید بڑھا دیے۔ اس پر رد و کد ہوئی۔ مگر اس وقت ادائیگی نہیں ہوئی پھر چند روز گزر گئے اور اس کی مطلوبہ رقم ایک لاکھ دس ہزار روپے بڑھا کر دی جانے لگی تو مالک نے پھر بات بدل دی اور عمارت کی قیمت ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کر دی۔ امیر جماعت یہ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے۔ سید احمد علی رامپور بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے امیر جماعت سے کہا کہ آپ ایک لاکھ دس ہزار روپے مجھے دیجیے میں معاملہ طے کراؤں گا۔ موصوف نے پندرہ ہزار روپے اپنی طرف سے دیے اور ۱۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو رجسٹری جماعت اسلامی ہند کے نام کر واکر عمارت پر قبضہ حاصل کر لیا گیا۔
جماعت کے بعض اہم کام
جماعت اسلامی ہند نے ہندوستان کی مختلف زبانوں میں اخبارات و رسائل نکالے جو اب بھی شائع ہو رہے ہیں۔ ۱۹۸۱ء میں جماعت نے ملک کی چودہ علاقائی زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے شائع کیے۔ مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لابورڈ کی تشکیل میں جماعت نے اہم کردار ادا کیا۔ تعلیم کے میدان میں اداروں کا قیام اور درسیات کی تیاری میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ طلبہ کی تنظیم SIO اور طالبات کی تنظیم GIO کے قیام اور سرپرستی جماعت کے عظیم کارناموں میں سے ہے۔ جماعت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے امیر کا انتخاب موروثی نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایک صاف شفاف نظام ہے۔ جماعت نے اپنے رفقاء کا ذہن اس طرح تیار کیا ہے کہ قرآن اور سنت ہی معیار حق ہے۔ نیز اس نے لوگوں میں یہ بھی تبلیغی بیداری پیدا کی کہ قران کا پیغام تمام انسانوں کے لیے ہے۔ چنانچہ اس کے لیے وسیع لٹریچر ہندوستان کی بیشتر زبانوں میں تیار کیا گیا۔
امرائے جماعت اسلامی ہند
۱- مولانا ابو اللیث اصلاحی صاحب ۱۹۴۸ء سے ۱۹۷۲ء (۲۴ سال)
۲- مولانا محمد یوسف صاحب ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۱ء (۹ سال)
۳- مولانا ابواللیث اصلاحی صاحب ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۰ء (۸سال)
۴- مولانا محمد سراج الحسن صاحب ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۳ء (۱۲ سال)
۵- ڈاکٹر عبدالحق انصاری صاحب ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء (۴ سال)
۶- مولانا جلال الدین عمری صاحب ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۹ء (۱۲ سال)
۷ انجینئر سید سعادت اللہ حسینی صاحب ۲۰۱۹ء سے تا حال
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اقبالؔ

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022