جماعت اسلامی ہند کے مرکزی مجلس نمائندگان کا ملکی و بین الاقوامی امور پر واضح موقف

وقف ترمیمی قانون، اسرائیلی جارحیت، یونیفارم سول کوڈ، معاشی استحصال اور آئینی اقدار کے تحفظ پر اہم قراردادیں منظور

جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان کا اجلاس مورخہ 12 تا 15 اپریل 2025 کو مرکزجماعت، نئی دہلی میں امیر جماعت جناب سید سعادت اللہ حسینی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں پورے ملک سے ارکان جماعت کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل اس مجلس کے ارکان نے شرکت کی اور ملک کے حالات پر غور و فکر اور مباحثے کے بعد درج ذیل قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کیں۔
۱۔وقف ترمیمی قانون 2025کی منسوخی کا مطالبہ
اس تناظر میں کہ پارلیمنٹ میں منظور شدہ "وقف ترمیمی قانون 2025” سے مسلمانوں ، اقلیتی برادریوں، ماہرین قانون اور سول سوسائٹی میں گہری تشویش پائی جاتی ہے؛
اس حقیقت کے پیش نظر کہ اس قانون کے ذریعے حکومت کے مقرر کردہ افسر کو وقف املاککےتنازعات میں حَکم کا درجہ دے دیا گیا ہے، جس سے وقف بورڈز کی جائیدادوں کو متنازعہ بنائے جانے اور اپنے ہی معاملےمیں خود ہی فیصلہ کر لینے "judgment in his own cause” کا سلسلہ شروع ہوگا۔ اس طرح سے صدیوں پرانی مذہبی و فلاحی املاک کا نظم و انصرام کمزور ہو گا اور مسلمانوں کے اوقاف مسلمانوں سے نکل کر سرکاروں اور قابضوں کی طرف منتقل ہونے کا عمل شروع ہوگا؛
چونکہ اس ترمیم میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، ماہرین قانون، مسلم تنظیموں ، ریاستی وقف بورڈوں اور متعلقہ فریقوں ، جماعت اسلامی ہند اور پانچ کروڑ سے زیادہ عامۃ المسلمین کی طرف سے (جو کہ وقف معاملات کے اصل اسٹیک ہولڈر ہیں) اٹھائے گئے اعتراضات اور خدشات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا، اور یہ ترمیم موثر مشاورت کے بغیر عمل میں لائی گئی، جو جمہوریت کی روح اور مذہبی حقوق کے اصولوں کے خلاف ہے؛
اس واضح حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ملک میں لاکھوں دینی املاک، بشمول مساجد و قبرستان، صدیوں سے مذہبی مقاصد کے لیے زیراستعمال رہے ہیں، جن کے رسمی دستاویزات موجود نہ ہونے کے باوجود ان کا عملی و عرفی استعمال انہیں "وقف بائی یوزر” کے زمرے میں لاتا ہے۔یہ ایک تسلیم شدہ مذہبی روایت ہے جس سے تمام مذہبی گروہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور عدالت عظمی کی دستوری بینچ نے سابق میں اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم بھی کیا ہے۔ اس قانون میں حالیہ ترمیم کے ذریعے اس دیرینہ مذہبی روایت کو صرف مسلمانوں کے معاملے میں ختم کرنے کی مذموم اور جانب دارانہ کوشش کی جارہی ہے۔
اس لیے بھی کہ یہ قانون آئین ہند کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے جو مذہبی گروہوں کو آزادانہ طور پر اپنے ادارے قائم کرنے،چلانے اور ان کا انتظام کرنے کاحق دیتا ہے؛
اس صریح ناانصافی کو نوٹ کرتے ہوئے کہ اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کے ایک مذہبی ادارے میں غیر مسلموں کی شمولیت کی ایک ایسی روایت قائم کی جارہی ہے جو نہ صرف ان کے مذہبی حقوق میں مداخلت ہے بلکہ اپنے معاملات خود چلانے کا جو حق تمام مذہبی گروہوں کو حاصل ہے اس سے مسلمانوں کو محروم کرنا ہے۔ وقف کے انتظام میں غیر مسلموں کی شمولیت کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
یہ محسوس کرتے ہوئے کہ یہ اقدام مسلمانوں کے اداروں کو کمزور کرنے اور ان پر مرکزی حکومت کااستبدادی کنٹرول بڑھانے کی مذموم وسیع تر پالیسی کا حصہ ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وقف کے حوالے سے جھوٹے پروپگنڈے اور نفرت کے فروغ کی ایک وسیع مہم بھی چھیڑی گئی ہے۔
اس ٹھوس اندیشے کے پیش نظر کہ اس قانون سے وقف املاک کے ناجائز قبضے کا دروازہ کھلنے کا اور جو ناجائز قبضے ہیں ان کے حق میں فیصلے کرائے جانے کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے، جو ان املاک کی اصل دینی و فلاحی غرض و غایت کے خلاف ہے۔
یہ بھی محسوس کرتے ہوئے کہ اوقاف کے نظم وانصرام کوبہتر بنانے کی جو کوششیں برسہا برس سے جاری تھیں اور جس کی طرف مزید پیش قدمی درکار تھی، اس قانون کے ذریعے اس سفر کا رخ ہی پلٹ دیا گیا ہے اور برسوں کی حصولیابیوں پر پانی پھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے کسی بھی طبقے کو اس ترمیم سے کسی فائدے کا امکان نہیں ہے اور نہ ملک کے عام عوام یا ان کےمفادات کا اس سے کوئی تعلق ہے۔
مذکورہ امور کو ملحوظ رکھتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس:
مطالبہ کرتا ہے کہ "وقف ترمیمی قانون 2025” کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے ؛
اجلاس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ بعض فرقہ پرست تنظیمیں اور میڈیا کے بعض حصے اوقاف کے سلسلے میں جس طرح جھوٹ پھیلارہے ہیں اور نفرت کو فروغ دے رہے ہیں اس پر فوری روک لگائی جائے۔
یہ اجلاس اپیل کرتا ہے کہ تمام جمہوری ادارے، انسانی حقوق کے علمبردار، دانشور طبقہ اور ذرائع ابلاغ اس قانون کے نقصانات کو اجاگر کریں اور ملک بھر میں ان املاک کے اصل نگہبانوںیعنی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں؛
مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس ملت اسلامیہ سے اپیل کرتا ہے کہ وقت ترمیمی قانون 2025 کی مخالفت میں وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طئےکردہ مہم کو کامیاب بنائیں ، موثر طریقے سے حقائق کو سامنے لائیں،شر پسندوں کی ریشہ دوانیوں اوراشتعال انگیزیوں سے باخبر اور چوکس رہتے ہوئے پر امن طریقے سے اپنا احتجاج درج کرائیں اور اللہ تعالی سے مسلسل دعا کرتے رہیں کہ ظلم کا یہ ماحول جلد از جلد ختم ہو۔
یہ اجلاس اُن تمام اراکینِ پارلیمان اور سیاسیجماعتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جنہوں نے پارلیمنٹ میں اوقاف میں حکومتی مداخلت اور ناانصافی کے خلاف مضبوط مؤقف اختیار کیا نیز ان تمام سول سوسائٹی تنظیموں، دانشوروں، ماہرین قانون، صحافیوں، مذہبی و سماجی رہنماوں اور عوام کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے عوامی سطح پر اس بل کے خلاف پرزور آواز بلند کی اور امید کرتا ہے کہ وہ اس قانون کی منسوخی تک آواز بلند کرتے رہیں گے۔
۲۔اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینی عوام کی نسل کشی کے خلاف قرارداد
اس دردناک حقیقت کے پیش نظر کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام، بالخصوص اہلِ غزہ کے خلاف جدید ترین مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے ساتھ جو منظم نسل کشی جاری ہے، وہ انسانی تاریخ کے بدترین مظالم میں سے ایک ہے؛
ان واضح شواہد کوسامنے رکھتے ہوئے کہ وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں ساٹھ ہزار سے زیادہ بے گناہ اور معصوم فلسطینی شہری جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے، شہید کر دیے گئے، اوراس کے تین گنا سے زائد افراد معذور یا شدید زخمی ہو چکے ہیں؛ اسکولوں،ہسپتالوں، رہائشی علاقوں، ریلیف مرکزوں اور پناہ گزین کیمپوں کی تباہی، اور اساتذہ، ڈاکٹروں، صحافیوں و طبی عملے کی ٹارگٹ کلنگ ، یہ سب انسانی تہذیب کے دامن پر بدنما داغ ہیں ؛
چونکہ اسرائیل ایک غاصب استعماری ریاست ہے، جو مقبوضہ علاقوں پر اپنا تسلط قائم رکھنے اور ان میں مسلسل توسیع کرنے کے لیے ایسے اقدامات کر رہا ہے جو بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور جنیوا کنونشن جیسے عالمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں؛ موجودہ اسرائیلی حکومت کے اقدامات ظلم و جارحیت کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں، جس کے نتیجے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے موجودہ سربراہِ حکومت کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے؛
اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئےکہ غزہ، استعماری عزائم کے خلاف مزاحمت کی ناقابلِ تسخیر علامت بن کر ابھرا ہے، اور اسرائیل و امریکہ کے مکروہ توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کیا جا رہا ہےاور اسی مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے اسے مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے؛
اس بات کا ادراک کرتے ہوئے کہ فلسطین کے معاملے میں اکثر مسلمان ملکوں کا کردار حد درجے افسوس ناک اور مایوس کن ہے۔
ان خبروں کا بھی نوٹس لیتے ہوئے کہ امریکی صدر غزہ کی پٹی کو اس کے اصل باشندوں سے خالی کرا کے اپنی مرضی سے دوبارہ آباد کرنے کا ظالمانہ منصوبہ رکھتا ہے یعنی گویا نو آبادیاتی توسیع پسندی کے تاریک دور کو دوبارہ عالم انسانیت پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔
درآں حالیکہ غاصب اسرائیلی ریاست عالمی معاہدات، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی ضوابط کی مسلسل خلاف ورزی کرتی رہی ہے؛ اس کی تاریخ وعدہ خلافیوں، بلا جواز جارحیت، اور فریب کاری سے بھری پڑی ہے؛ اور وہ ایسے لوگوں کی جان کے در پہ ہےجو مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو اسرائیلی تسلط سے آزاد کرنا اور اپنی سرزمین کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، مگر انہیں ظالم اور مجرم بنا کر عالمی برادری کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے؛
چونکہ امریکہ اور اس کے بعض اتحادی فلسطینی عوام پر جاری ظلم میں شریک و مددگار ہیں اور ان کے دوہرے معیارات کھل کر سامنے آئے ہیں؛ عالمی ضمیر ان کے ناپاک اور ظالمانہ رویوں پر سراپا احتجاج ہے، اس کی ایک تابندہ مثال یورپ اور امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ اور دیگر عوام کا مسلسل احتجاج ہے جسے یہ اجلاس قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے؛
ان امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ اجلاس:
مطالبہ کرتا ہے کہ فلسطین میں فوری مکمل جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے، فلسطینیوں کی اپنے وطن میں آزادی اور مکمل خود مختاری کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اسے فی الفور نافذ کیا جائے۔
اجلاس پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ فلسطینی عوام جس ہولناک صورت حال کا نشانہ بنائے گئے ہیں اور بھوک، بیماری، فاقہ کشی ، پانی و بجلی کی سہولیات سے محرومی، علاج وادویات کی عدم فراہمی وغیرہ جیسی جن غیر انسانی کیفیتوں سے انہیں دوچار کردیا گیا ہے، انہیں فی الفور ختم کیا جائے اور انسانیت کی بنیادی قدروں اور عالمی معاہدات کی پاسداری کرتے ہوئے، راحت رسانی کے لیے غزہ کی سرحدیں کھولی جائیں، اور غزہ کے عوام کی نو آباد کاری جلد از جلد شروع کی جائے۔
یہ اجلاس عالمی برادری سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کی جارحیت پر فی الفور کارروائی کرے، اسے ہر طرح کی فوجی و مالی امداد سے محروم کرے، بین الاقوامی قوانین کے تحت اس کا محاسبہ کرے اور مظلوم فلسطینی عوام کی دادرسی کرے؛
اجلاس مسلمان ملکوں سے پرزورمطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے تمام فوجی، سفارتی، ابلاغی اور معاشی وسائل کو متحدہ طور پر بروئے کار لاتے ہوئے جلد سے جلد نہ صرف جنگ بندی کرائیں بلکہ فلسطین کی آزادی اورمکمل طور پر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنائیں اور ظالموں کو سزا دلائیں۔
یہ مجلس دنیا بھرکی حکومتوں، عوام، غیر سرکاری اداروں اور تاجروں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ تجارتی اداروں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، اسرائیلی کمپنیوں سے سرمایہ کاری واپس لیں disinvestment اوراس پر سخت ترین اقتصادی و سفارتی پابندیاں (Sanctions) عائد کی جائیں تاکہ انسانی حقوق کی پامالی اور ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ روکا جا سکے؛
نیز یہ ہاوس حکومتِ ہند سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی دیرینہ خارجہ پالیسی کے تسلسل میں مظلوم فلسطینی عوام کی سیاسی و انسانی حمایت جاری رکھے، اسرائیلی حکومت کو کسی بھی قسم کی براہِ راست یا بالواسطہ مدد—چاہے وہ تجارتی ہو، عسکری ہو یا سفارتی—فراہم نہ کرے، اور بین الاقوامی فورموں پر فلسطین کے حق میں کھل کر مؤقف اختیار کرے؛ اور فلسطینی ریاست کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرے۔
اور آخر میں، یہ اجلاس یاد دہانی کراتا ہے کہ ظلم و جبر کا نظام زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظالموں کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوا ہے، اللہ تعالیٰ سنبھلنے اور اصلاح کرنے کی مہلت دیتا ہے لیکن بالآخر پکڑتا ہےتو اس کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے۔خدا کے غیض و غضب سے کوئی ظالم نہیں بچا ہے۔ اس دنیا کے رسوا کن عذاب کے علاوہ، یوم آخرت حقیقی اور مکمل انصاف کا دن ہوگا جب مظلوموں کی دادرسی ہوگی اور ظالم دردناک عذاب سے دوچار ہوں گے۔ ظلم اور اس کی راست یا بالواسطہ حمایت میں شریک تمام ظالموں کو اس انجام سے ڈرنا چاہیے اور جلد سے جلد اپنے ظالمانہ رویوں سے باز آنا چاہیے۔
۳۔عالمی ٹیرف پالیسیوں پر تشویش اور انصاف پر مبنی معاشی نظام کا مطالبہ
اس یقین کے پیش نظر کہ اسلام کا معاشی وژن انسانوں کے مابین عدل، توازن، تکافل وخیرخواہی اور دولت کے امیروں سے غریبوں کی طرف بہاو کے مقاصد پر مبنی ہے اور ارتکاز دولت اور استحصال سے پاک معاشی نظام کا داعی ہے، اور اسلامی تعلیمات ہمیں معاشی فیصلوں میں نہ صرف انصاف بلکہ کمزور طبقات کے تحفظ کا بھی پابند کرتی ہیں؛
چونکہ دنیا میں معاشی مفاد پرستی اس انتہاکو پہنچ چکی ہے کہ کھلے تضاد کا مظاہرہ کرتےہوئے ، آزاد منڈی (Free Market) کے علمبردار ممالکمحض سرمایہ دارانہ مفادات کے تحفظ کی خاطر،اب تحفظاتی پالیسیوں (Protectionism) کی طرف مائل ہو رہے ہیں؛
اس واقعے کے پیش نظر کہ حالیہ دنوں بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ تباہ کن رخ اختیار کرچکی ہے۔ امریکہ کی طرف سے تمام درآمدات imports پر دس فی صد عمومی ٹیریف اور بعض ممالک پر ساٹھ فی صد یا اس سے زائد محصول عائد کرنے کی تجویز نے اور پھر ٹیرف اور انتقامی ٹیرف کے سلسلوں نے عالمی سطح پر تجارتی بحران کی فضا کو جنم دیا ہے، جس کے اثرات صرف حکومتوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ کروڑوں عام انسانوں کی زندگیوں پر بھی پڑیں گے؛
اس حقیقت کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ ایسے معاشی فیصلوں اور بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان ایسی بدنما کشمکش کے نتیجے میں عام انسان مہنگائی، بے روزگاری، اور غربت کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں، اور ان کا اصل نشانہ غریب ممالک اور غریب عوام بنتے ہیں۔
یہ مانتے ہوئے کہ یہ ٹیرف جنگ ،مفاد پرستی، مادہ پرستی، بدترین قوم پرستی، اور سرمایہ داری کے اُن مکروہ رجحانات کی دین ہے جنہوں نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ خالق کائنات کی جانب سے ایک سخت تنبیہ ہے کہ اس کی تعلیمات اور اعلیٰ انسانی اقدار کو نظر انداز کرکے مفادات کی جنگ کیسے انسانی سماج کو جہنم بنا دے سکتی ہے۔
اس ادراک کے ساتھ کہ یہ بحران ہمارے لیے یعنی ہندوستان اور اس جیسے دیگر ملکوں کے لیے ایک آزمائش ہونے کے ساتھ ایک موقع بھی ہے کہ ہم اپنی معاشی سمت کو از سر نو درست کریں، بڑی طاقتوں پر خصوصاً امریکہ پر تجارتی انحصار کو کم کریں، اور ایک باعزت، منصفانہ اور خود کفیل اقتصادی نظام کی طرف پیش قدمی کریں؛
یہ محسوس کرتے ہوئے کہ موجودہ صورتحال میں، ہمارے ملک میں سب سے زیادہ متاثر چھوٹے اور درمیانی کاروبار (SMEs)، برآمدی سیکٹر، اور نچلے طبقے کے لوگ ہوں گے، اور حکومتِ ہند کا یہ فرض ہے کہ وہ ان طبقوں کو بچانے اور تقویت دینے کے لیے ہنگامی اقدامات کرے؛
مذکورہ باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے:
یہ اجلاس عالمی طاقتوں سے دردمندانہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تجارت کو بالادستی اور معاشی تسلط کا آلہ بنانے سے باز رہیں۔ ٹیرف کے ذریعے کمزور اقوام پر یک طرفہ بوجھ ڈالنا انصاف اور انسانیت کی مشترکہ قدروں کے خلاف ہے اور اس طرح اچانك arbitrary اور سیاسی محرکات کے تحت ٹیرف کے فیصلے عالمی تجارتی قوانین اور صاف ستھری تجارتfair trade کے مسلمہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ انصاف پر مبنی عالمی اقتصادی نظام ہی دیرپا امن کی ضمانت ہے۔
یہ اجلاس ہندوستان سمیت دنیا کےتمام ممالک خاص طور پرتیسری دنیا کے ممالک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ مساوات اور تعاون باہمی کی قدروں کے تحت باہم علاقائی تجارت کو فروغ دیں اور نئے تجارتی معاہدوں اور اشتراک کے ذریعہ استحصالی عالمی طاقتوں اور عالمی معاشی ومالیاتی اداروں پر انحصار کم سے کم کریں تاکہ کسی بھی ملک یا اس کے حکمران کو آئندہ اس طرح یک طرفہ فیصلوں کے ذریعے استحصال کا موقع نہ مل سکے۔
یہ اجلاس حکومتِ ہند پر بھی زور دیتا ہےکہ وہ امریکہ کی تجویز کردہ ٹیرف پالیسیوں کے ملکی معیشت پر ممکنہ اثرات کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور بالخصوص برآمدات، روزگار، چھوٹے کاروبار، اور قیمتوں میں استحکام کے سلسلے میںشفاف تجزیہ کرے، ، اور نقصان دہ اثرات کے تدارک کے لیے بروقت اقدامات کرے۔
یہ مجلس تجویز کرتی ہے کہ وہ شعبہ جات،جن کےاس بحران سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ان کے لیے فوری سبسڈی، رعایتی قرضے، ٹیکس میں نرمی، اور بازار تک رسائی کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ساتھ ہی وہ شعبہ جات جنہیں ٹیرف سے استثنیٰ حاصل ہے، ان میں نمو اور افزائش روزگار کی نئی راہیں تلاش کرکے نقصانات کی ممکنہ تلافی کی منصوبہ بندی کی جائے۔
یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بیرونی تجارت میں توازن لانے کے لیے امریکہ پر انحصار کم کرے، اور یورپی یونین، ASEAN، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ جیسے خطوں کے ساتھ متبادل تجارتی و اقتصادی معاہدات پر فوری توجہ دے۔
یہ اجلاس ملک کے تمام طبقات، خصوصاً تاجروں، صنعت کاروں، پالیسی ساز محکموں اور تعلیمی اداروں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ موجودہ عالمی بحران کو ملک کی معیشت کو ترقی دینے کا ایک مناسب موقع سمجھیں اور ایسی اسکیمیں وضع کریں جس کے نتیجے میں خود کفالت، اور حلال و دیانتدار معیشت پروان چڑھے۔
آخر میں، یہ ایوان عالمی برادری کو یاد دلاتا ہے سرمایہ، فوج، یا ٹیکنالوجی انسانوں کی اصل طاقت یا قیادت و سیادت کا اصل محور نہیں ہیںبلکہ عدل، توازن اور انسانی ہمدردی جیسی اعلیٰ قدروں پرمبنی عالمی قیادت، انسانیت کی اصل ضرورت ہے۔ اگر عالمی فیصلے غریبوں، کمزوروں ،محروموں، کمزور طبقات اور پسماندہ ممالک کی محرومی مزید بڑھانے کے لیے کیے جاتے رہیں گے تو انجام صرف بحران، بے چینی اور انتشار کی شکل میں رونما ہوگا۔
۴۔ملک کی موجودہ صورتحال اور آئینی و اخلاقی اقدار کے تحفظ کے متعلق قرارداد
یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ہمارا ملک عملی حقائقکے اعتبار سے ایک تکثیری سماج ہے، جہاں مختلف مذاہب، زبانوں، تہذیبوں اور برادریوں کے لوگ رہتے ہیں؛ ان مختلف طبقات کے درمیان رواداری کا ہونا ملک کی سالمیت اور وحدت کے لیے ناگزیر ہے، اور اس کے لیے عوام، اداروں اور حکومتوں سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ان دنوں فرقہ پرست تنظیموں اور بعض نمایاں افراد کی جارحیت اپنے عروج پر ہے اور وہ اپنے بیانات، اقدامات اور پالیسیوں کے ذریعہ سماج میں نفرت اور تفریقفروغ دے رہے ہیں اور باہمی اعتماد کی فضا کو زہرآلود کر رہے ہیں۔ مسلمانوں، دلتوں ، کمزوروں آدیباسیوں ، دیگر اقلیتوں، اور خواتین پر طرح طرح کے مظالم روا رکھے جا رہے ہیں۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود کئی ریاستوں میں آئے دن خانگی اور مذہبی جائیدادوں پر بلڈوزر کے ذریعے دہشت گردی، نماز جیسی پر امن اور پرسکون عبادت کو جانب دارانہ طور پر روکنے کی کوششیں، مسجدوں پرمسلسل حملے، مدارس کے امور میں مسلسل خلل اندازی وغیرہ جیسی شرانگیزیوں سے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی دانستہ کوششیں ہورہی ہیں ؛ ان تباہ کن رجحانات کے سلسلے میں بعض ریاستی حکومتوں کا بلکہ مرکزی حکومت کا رویہ بھی بہت افسوس ناک ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر کہ مذہبی مقامات کے تحفظ کا قانون ہوتے ہوئے مسجدوں کو لے کر مذہبی منافرت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے ، قانون کی اسپرٹ کو بالائے طاق رکھ کر نت نئے بہانےاور چور دروازے تلاش کیے جا رہے ہیں اور اکثر کسی بہانے کے بغیر صریح اور علانیہ قانون کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ قانون کی بالادستی کو قانون بنانے والے اور قانون کے رکھوالے خود نظر انداز کرتے ہوئے لا قانونیت کو فروغ دے رہے ہیں،بلکہ اس سے آگے بڑھ کر غلط قسم کے قوانین بھی بنائے جا رہے ہیں؛
ان حقائق کو بھی ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ملک میں اخلاقی انحطاط، و بدکرداری تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ شراب جوا، چوری، دھوکہ دہی ، سائبر جرائم، زنا اور فحاشی جیسے معاملات نہ صرف روز افزوں ہیں بلکہ ان کے انسداد کی طرف سے حکومت اور اکثر مذہبی ادارے بھی غافل ہیں۔خصوصاً خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں شدید اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے؛
ان سب حقائق کے پیش نظر:
یہ اجلاس حکومت کو یاد دلانا چاہتا ہے کہ جس طرح عوام اور ادارے دستور کے پابند ہیں، ویسے ہی حکومت اور حکومتی نمائندے بھی اپنے تمام اقوال و افعال کے لیے آئینی حدود اور ملکی قوانین کے پابند ہیں۔ یہ عین قانون کا تقاضہ ہے کہ حکومت تمام شہریوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرے، عدل و انصاف سے کام لے ، مخصوص طبقات پر سخت قوانین کے منتخب نفاذ selective application of law کے ذریعے قانون کو فرقہ پرستی کا ذریعہ نہ بنائے، اپنے فیصلوں اور اقدامات کو قانونی عمل کا پابند بنائے اور آئینی اداروں کو آزادانہ طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع دے۔
اسی طرح، یہ ایوان پوری سنجیدگی کے ساتھ اس نکتے کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہے کہ عوام کے دلوں میں جو مذہبی فرقہ وارانہجنون اور نفرت کی دیوانگی کو فروغ دیا جارہا ہے، وہ اس ملک اور اس کے تمام عوام پر بہت بڑا ظلم ہے ۔ نفرت اور تنگ نظری کی زہر الود فضا میں نہ عوام مہذب بن سکتے ہیں اور نہ ہی حقیقی معنوں میں ان مذاہب ہی کے پیروکار بن سکتے ہیں جن کے وہ دعوےدار ہیں۔ یہ تباہ کن رجحانات نسلوں کومجرم بنانے،معاشرے میں انارکی پھیلانے اور ملک کی فضا میں ایسا تناو اور گھٹن پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں جس کے رہتے ہوئے نہ کسی کی بھی ترقی ہوسکتی ہے اور نہ کوئی تہذیب پروان چڑھ سکتی ہے۔ ان رجحانات سے معاشرے میں گھر گھر فتنے اور فتنہ پروری بڑھے گی، ساری اخلاقی و انسانی قدروں کا دیوالیہ نکلے گا، ملک کی ساکھ بگڑے گی ،اور مجموعی طور پر شدید گراوٹ اور زوال کا ایسا تباہ کن سفر شروع ہوگا جس کی روک تھام کسی کے بس میں نہیں ہوگی۔
جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس امت مسلمہ کو بھی اس کی منصبی ذمہ داری یاد دلانا چاہتا ہے کہ وہ خیر امت ہیں نیکیوں کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ان کی دینی ذمہ داری ہے، نفرتوں اور برائیوں کے ماحول میں اُن کا اصل کام پورے ملک کو اس تباہی سے بچانے کی کوشش کرنا ہے۔
اسی طرح یہ اجلاس اُن فرقہ پرست تنظیموں اداروں اور سوسائٹیوں سے جو ملک کی فضا کو زہر آلود کرنے میں منفی رول ادا کر رہے ہیں مخلصانہ اوردرد مندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ جلد از جلد ان کوششوں کی تباہ ناکیوں کو محسوس کریں اور اپنی منفی سرگرمیوں سے باز آئیں اور مل جل کر ماحول کو بہتر بنانے اوردرست رخ پر اور سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ملک سے محبت کا اصل تقاضہ یہ ہے کہ ملک کے تمام عوام سے محبت کی جائے اور سب کی بھلائی کے لیے مل جل کرجدوجہد کی جائے۔
۵۔ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اور عوامی استحصال کے خلاف قرارداد
اس ایقان کے ساتھ کہ ایک منصفانہ اور انسان دوست معیشت وہ ہے جس میں ترقیو تکوین دولت اور دولت کی منصفانہ تقسیم دونوں پر یکساں توجہ ہو، ہر فرد کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کو پورا معاشرہ اپنی ذمے داری سمجھے، دولت کا بہاو امیروں سے غریبوں کی طرف ہو، تجارت اور پیداوار دولت کی آزادی اور بھرپور مواقع ہوں لیکن ساتھ ہی تعاون باہمی اور انسان دوستی کا جذبہ معیشت کا ایک اہم رہ نما اصول ہو۔ دستور ہند کے رہنما اصولوں میں بھی ایسی ہی معیشت کا خواب دیکھا اور دکھایا گیا ہے اور ہمارے پیدا کرنے والے خالق و مالک کے احکام کا بھی یہی تقاضہ ہے۔
اس مشاہدے کے ساتھ کہ ہمارے ملک کی معیشت بظاہر کئی شعبوں میں بالخصوص آئی ٹی، ڈجیٹل ریٹیل، بایو ٹیکنالوجی، دفاعی خریداری اور شہری انفرااسٹرکچر میں ترقی کر رہی ہے، اور کچھ شعبوں میں ہم عالمی معیارات تک بھی پہنچ رہے ہیں؛
اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہ ہماری ترقی چند شعبوں تک محدود ہے اور وسیع روزگار پیدا کرنے والے شعبے، مثلاً زراعت و دیہی معشیت، چھوٹے بیوپار اور ریٹیل، چھوٹی اور درمیانی مینوفیکچرنگ انڈسٹری MSME وغیرہ بری طرح عدم توجہی اور نتیجتاً زوال کے شکار ہیں۔
اس عدم توازن کی وجہ سے دولت کی پیداوار کے باوجود ملک میں بے روزگاری تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ معاشی تفریق بڑھتی جارہی ہے اور غربت و محرومی کی صورت حال بے قابو ہوتی جارہی ہے۔
اس بات کو بھی نوٹ کرتے ہوئے کہ سماجی اخراجات پر توجہ بھی بہت کم ہے، سبسڈیز کوایک ناپسندیدہ چیز باور کرایا جارہا ہے، تعلیم، صحت جیسے شعبوں میں اخراجات کا تناسب بڑھانے کے دیرینہ مطالبے کی تکمیل کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں، مسلمانوں کی ترقی و بہبود کی اسکیموں کو یکے بعد دیگرے ختم کیا جارہا ہے اور دوسری طرف مٹھی بھر سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے والے منصوبوں پر بے دریغ خرچ ہورہا ہے۔ ترجیحات میں یہ بے اعتدالی تشویش ناک حد کو پہنچ چکی ہے۔
اس حقیقت کا بھی ادراک کرتے ہوئے کہ یہ بے اعتدالی خرچ کے ساتھ ساتھ آمدنی کے ذرائع میں بھی بڑھتی جارہی ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں indirect taxes کا بوجھ عام آدمی پر بڑھتا جارہا ہے جبکہ بڑی کمپنیوں اور دولت مندسرمایہ داروں کے ہزاروں کروڑ روپیوں کے قرضے معاف کیے جارہے ہیں اور ٹیکسوں میں ان کو مسلسل سہولتیں دی جارہی ہیں۔
چونکہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو اقتصادی ترقی کے مرکزی دھارے سے دانستہ باہر رکھا جا رہا ہے، وقف بل بھی مسلمانوں کو معاشی طور پر پسماندہ کرنے کی ایک مذموم اسکیم ہے، اور معاشی اعتبار سے انہیں کمزور بنا کر ان کی آئندہ نسلوں کو بھی پسماندگی کے عمیق غار میں دھکیلنے کی کوشش ہورہی ہے۔
ان سب باتوں کو پیش نطر رکھتے ہوئے مجلس نمائندگان کایہ اجلاس
حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ دستور کی رہنمائی کے مطابق،معاشی پالیسیوں کے رخ کو اس طرح تشکیل دے کہ ملک عزیز ایک فلاحی ریاست بن سکے۔ روزگار بڑھے، غریبی دور ہو، معاشی عدم مساوات میں کمی آئے اور ترقی کے ثمرات کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاسکے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس محض ایک نعرہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ حکومت کی پالیسیاں اس کی آئینہ دار ہوں۔
یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ سماجی سیکٹروں میں یعنی تعلیم؛ صحت، ازالہ غربت اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل پر سرکاری خرچ کو بڑھایا جائے۔ بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کو ہر شہری کا حق تسلیم کیا جائے۔ اس خرچ کو انسانی فلاح و بہبود کے مقصد کے لیے سرمایہ کاری سمجھا جائے۔
اجلاس کامطالبہ ہے کہ زراعت اور دیہی معیشت کے فروغ کو معاشی پالیسی کا ایک اہم مقصد قرار دیا جائے۔ کسانوں کو ان کے جائز مطالبوں کے مطابق مناسب قیمت کی ادائیگی کے لیے قانون سازی کی جائے، زرعی ودیہی انفرااسٹرکچر کے فروغ پر توجہ دی جائے اور زرعی معیشت کو نظر انداز کرنے کا رویہ بدلا جائے۔
اجلاس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ گھریلو صنعتوں اور ایم ایس ایم ای سیکٹر کو نیز غیر رسمی سیکٹر کو فروغ دینے کے لیے خصوصی پالیسیاں بنائی جائیں۔ اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی ختم کیا جائے اور لکژری اشیاء پر ٹیکس بڑھایا جائے۔ بہت زیادہ دولت رکھنے والوں کے اثاثوں پر ازالہ غربت کی خاطر خصوصی ٹیکس لگائے جائیں۔
اجلاس چاہتا ہے کہ مسلمانوں، پسماندہ طبقات اور دیگر معاشی طور پر کم زور طبقات کی فلاح و بہبود کی خاطر خصوصی اسکیمیں نافذ کی جائیں اور ان پرخرچ بڑھایا جائے۔بلاسودی مالیات کی راہیں ہم وار کرنے کی خاطر قانون سازی کے دیرینہ مطالبے کی جلد از جلد تکمیل کی جائے۔
۶۔یونیفارم سول کوڈ کے خلاف قرارداد
چونکہ ہندوستان ایک کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی، اور کثیر لسانی ملک ہے، جس کی آئینی بنیاد کثرت میں وحدت (Unity in Diversity) کے اصول پر قائم ہے۔ آئینِ ہند میں ہر شہری کو مذہبی آزادی، نجی قوانین پر عمل کرنے نیز اپنے رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔
اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا نجی قانون (شریعت) ان کے دین کا لازمی جزو ہے، جس میں شادی، طلاق، وراثت اور تعدد ازدواج جیسے دیگر ذاتی معاملات کے اصول قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں۔ خدا کا نازل کردہ قانون حکمت سے پر انسانوں کے لیے سراسر رحمت ہے ۔
اس کا بھی ادراک کرتے ہوئے کہ ملک میں مختلف مذہبی اور تہذیبی گروہوں کے اور اقلیتوں کے بھی اپنے اپنے پرسنل لاء موجود ہیں اور دستور ہند میں ہر مذہبی اکائی کو ان کی مذہبی تعلیمات کے مطابق ذاتی زندگی کے معاملات برتنے کا اختیار دیاگیا ہے۔
اس سمجھ کے ساتھ کہ یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ نہ صرف ملک کے شہریوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق پر ضرب ہے، بلکہ اس سے ملک کے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ مزید یہ کہ یونیفارم سول کوڈ شریعت ایپلیکیشن ایکٹ اور دستور ہند کی دفعہ 25 سے راست ٹکراتا ہے؛
چونکہ قانونی تکثیریت (Legal Plurality) تکثیری معاشروں کی ایک بنیادی ضرورت ہے، اسی ضرورت کے پیش نظر ہمارے دستور میں وفاقی نظام اور وفاقی قانون سازی کو یقینی بنایا گیا ہے تاکہ جغرافیائی تنوعات کا لحاظ ہو اور ساتھ ہی نجی قوانین کو بھی تحفظ دیا گیا ہے تاکہ تہذیبی تنوعات کا بھی لحاظ ہوسکے۔
یہ بھی نوٹ کرتے ہوئے کہ چونکہ حال ہی میں اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کا بل منظور کیا گیا اور دیگر طبقات کو مستثنی رکھ کر خاص طور پر مسلمانوں کو اس میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ کچھ طبقات کو مستثنی کردینے سے قانون خود بخود یکساں سول کوڈ نہیں رہا بلکہ عملاً اس کی حیثیت مسلمانوں پر زبردستی اکثریتی نجی قانون مسلط کرنے کی کوشش کی بن گئی ہے۔ اب گجرات میں بھی ایسی ہی قانون سازی کی تیاری ہورہی ہے۔
اس بات کو بھی یاد دلاتے ہوئے کہ دستور کے رہنما اصولوں میں شراب بندی، دولت کی مساویانہ تقسیم وغیرہ جیسے متعدد اصول موجود ہیں جن کی صریح خلاف ورزی کی جارہی ہے اور یہ بھی یاد دلاتے ہوئے کہ دفعہ 44 جس میں یکساں سول کوڈ کا ذکر ہے،وہ دستور سازوں کی واضح تشریحات کے مطابق ملک کے تمام طبقات کے درمیان اتفاق رائے کے ساتھ مشروط ہے۔
ان سب امور کے پیش نظر:
مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس یکساں سول کوڈ (UCC) کے نام پرمسلمانوں سے اپنے نجی معاملات میں نجی قوانین پر عمل کا حق ختم کرنے کی مذموم کوششوں پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے اور انہیں مسترد کرتا ہے۔
اجلاس کامطالبہ ہے کہ اتراکھنڈ کا قانون فی الفور واپس لیا جائے اورگجرات میں ہورہی کوششوں پر روک لگائی جائے۔
یہ اجلاس واضح کرتا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور مسلم پرسنل لا میں مداخلت کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تمام مذاہب کے پرسنل لاز اور مذہبی آزادی کا احترام کرے، اور کسی بھی یکطرفہ اور غیر مشاورتی قانون سازی سے اجتناب کرے، جو آئینی طور پر اقلیتوں کے حقوق کو مجروح کرتی ہو۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025