(آخری قسط ):جماعت اسلامی ہندکے کل ہند اجتماعات بیک نظر

اجتماعات کی روایت 1951: سے 2024 تک آل انڈیا اجتماعات کا جائزہ

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

۱۵ تا۱۷ نومبر۲۰۲۴ء کو آل انڈیا ارکانِ جماعت کا اجتماع حیدرآباد میں منعقد ہونے جارہا ہے۔عام طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب آن لائن اجتماعات کیے جاسکتے ہیں توملکی سطح پر بڑے اجتماعات کی کیا ضرورت ہے جس کے انعقاد میں کافی رقم بھی خرچ ہوتی ہے اور لوگوں کو طویل مسافت طےکرکے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے لگ بھگ ۵دن کی مصروفیات کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ یہ بات دیگر تنظیموں کے لیے درست ہو سکتی ہے جماعتِ اسلامی کے لیے نہیں، کیوں کہ جماعت اسلامی محض ایک تنظیم نہیں ہے بلکہ ایک تحریک بھی ہے جس کا وجود ملک کی ہرریاست ہر شہراور دیہی علاقے میں ہے ۔کسی بھی مہم کے لیے جب آواز دی جاتی ہے تو ملک بھر کے سارے ارکان و کارکنان متحرک ہوجاتے ہیں اور اس مہم کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔کل ہندارکان کے اجتماعات یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ سارے ملک کے ارکان ایک جگہ جمع ہوں جس میں ان کو یہ نادر موقع ملتا ہے کہ ایک رکن کسی بھی ریاست کے دوسرے ارکان سے شخصی طورپر مل سکتا ہے۔اس طرح کے اجتماعات میں ارکانِ جماعت کا آپس میں تعارف ہوتا ہے جس سے وہ ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہوسکتے ہیں اور باہمی تجربات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔تقاریر تو بہت سنی جاتی ہیں لیکن جو تین روزہ تحریکی ماحول اس اجتماع سے پیداہوتا ہے اس سے ارکان کے اندرنیا عزم اور حوصلہ پیداہوتا ہے۔ حیدرآباد کی ایک وادی میں بسائی جانے والی یہ تین دن کی تحریکی بستی ارکان کے اندر تحریکی شعور تازہ کرنے اور غیر متحرک ارکان کو مہمیز دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔بالخصوص جو یادیں اس عارضی بستی سے وابستہ ہوتی ہیں وہ کافی عرصہ تک تحریکی شعورکو زندہ رکھتی ہیں ۔پچھلے شماروں میں ماضی بعید کے تین کل ہندعام اجتماعات (۱۹۵۱ء ،۱۹۵۲ءاور ۱۹۶۰ء) کی مختصر رودادوں کو پیش کیا گیا تھا ۔اس شمارے میں ۱۹۶۷ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۱ء میں منعقدہ اجتماعات کی کچھ جھلکیوں کو پیش کیا جارہا ہے۔
چوتھاکل ہند اجتماع عام ۱۹۶۷ء:
جماعت اسلامی ہند کا چوتھا کل ہند اجتماع عام۱۰ تا ۱۲ نومبر ۱۹۶۷ء حیدراباد میں زیبا باغ میں منعقد کیا گیا جو ۸ ایکڑ پر محیط تھا ۔راقم کو اس اجتماع میں شرکت کا موقع ملاتھا اس وقت میری عمر ۹ سال تھی۔ والدِمحترم مرحوم محمد عبدالباسط نے مع اہل وعیال اس اجتماع میں شرکت کی تھی اس وقت ہم ورنگل میں رہا کرتے تھے ۔ اس اجتماع کا ایک سین میری یادداشت میں ابھی بھی محفوظ ہے۔یہ مطبخ تھا اور ہرروز صبح ناشتے کے لیے تندورکی روٹیاں بنائی جاتی تھیں اورکھانے کے لیے نظم تمام شرکاء کے لیے ایک ہی جگہ پر تھا فرش پر طویل دستر خواں بچھادیا جاتاتھا۔
ناظمِ اجتماع اس وقت کے امیرِ حلقہ آندھراپردیش مرحوم جناب عبدالرزاق لطیفی صاحب تھے۔ پانی دستیاب نہیں تھا تو اس وقت اجتماع گاہ میں ایک کنواں کھدوایا گیا تھا۔تمام ریاستوں سے آئے ہوئے افراد کےلیے کھانے کا ایک ہی جگہ انتظام تھا ۔ اجتماع کی کارروائی کےلیے جو ڈائس بنایا گیا تھا اس پر مقررین کرسیوں کے بجائے فرش پربراجمان تھے۔ناظمِ اجتماع جناب عبدالرزاق لطیفی صاحب نے اپنے والد(رکنِ جماعت کریم نگر ) کو ڈائس پر بٹھایا تھا ۔امیرِجماعت مولانا ابواللیث اصلاحی کی رقت انگیز تقریر کے دوران اسٹیج سے ایک زوردار چیخ سنائی دی ۔یہ چیخ عبدالرزاق لطیفی صاحب کے والدِمحترم کی تھی جس کے بعد وہ بے ہوش ہوگئے تھے۔ مولانا نے تقریر روک دی ۔ناظم اجتماع اپنے والد کی اس حالتِ غیر کے باوجود مولانا سے درخواست کی کہ تقریر جاری رکھی جائے۔نوجوان کارکنان ان کو طبی امداد کے لیےاجتماع گاہ سے باہر لے گئے ۔اس اجتماع میں چھ ہزار مندوبین تھے جو مقامی اور بیرونی ریاستوں سے آئے تھے ۔ خطابِ عام میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی ۔طعام اور حسنِ انتظام کے اعتبارسے یہ بہت کامیاب اجتماع تھا ۔
رات کو سونے کے لیے جب جناب محمد عبدالحی صاحب رکن مجلس شوریٰ اورمولانا محمد یوسف صاحب اصلاحی قیام گاہ کی گیٹ پر پہنچے تو ایک والنٹیر نے انہیں اندرجانے نہیں دیا اور بیج(badge) کا مطالبہ کیا ۔ان کو اس وقت تک اندرجانے نہیں دیا گیا جب تک جناب محمد شفیع مونس صاحب نے آکر والنٹیر کو سمجھایا کہ یہ تحریک کے اکابر ہیں اور وہ اپنے بیج حاصل نہیں کرسکے ۔اگلی صبح ان کو داخلہ کا بیج تیار کیا گیا ۔لاؤڈاسپیکر سے وقفہ وقفہ سے کھوئی ہوئی چیزوں کے بارے میں اعلان ہوتا جو Lost items point میں جمع کردی جاتیں ۔ایک صاحب کے لفافے پر ان کا نام لکھا ہوا تھا جس کے اندر ۲۰۰روپیے رکھے ہوئے تھے ۔والنٹیر نے اس کو گراہوا دیکھا تو اس لفافے کو کاونٹر پر جمع کروایا جس کے بعد ان کے نام کا اعلان کرکے ان تک پہنچا دیاگیا ۔ جب ان کو پیسے ملے تو وہ حیرت زدہ رہ گئے کیوں کہ ان کو اس کی بھی خبر نہ تھی ان سے اپنا لفافہ گم ہوگیاہے ۔
ان دنوں بارش کے بھی امکانات تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمتِ خاص نے بادِ باراں کو روکے رکھا ۔ان دنوں سردی بھی تھی لیکن سرد راتوں میں چالیس پچاس ہزارافراد شوق سے پروگرام سنتے رہے۔سمپوزیم میں ایک جن سنگھی نے ناخوش گوار تقریر کی لیکن سامعین صبر سے سنتے رہے۔
طعام وقیام کا انتظام تین ہزار مندوبین کے لیے کیا گیا تھا لیکن تعداد دگنی ہونے کے باوجود بہت عمدگی سے اس صورتحال سے نمٹا گیا۔حیدرآباد کے اہل ثروت نے باہر سے آنے والے رفقاء کو آرام پہنچانے میں عالی ظرفی کا ثبوت دیا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مرحوم جناب عبدالرزاق لطیفی صاحب کے حیدرآباد میں کافی رسوخ و اثرات تھے ۔
پانچواں کل ہند اجتماع عام ۱۹۷۴ء:
جماعت اسلامی کا پانچواں کل ہند عام اجتماع ۸تا ۱۰ نومبر ۱۹۷۴ میں گاندھی درشن دلی (متصل گاندھی سمادھی)کے میدان میں منعقد ہوا ۔اس اجتماع کے ناظم سید حامد حسین صاحب تھے اور ان کے معاون عبدالباری صاحب تھے ۔اس اجتماع میں مندوبین میں مردوں کی تعداد۱۷ہزاراور خواتین کی تعداد پانچ ہزارتھی ۔اس اجتماع کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بیرونِ ملک عرب ،ایشیا ،افریقہ ،یورپ اورامریکہ سے ۳۸ مہمانوں نے شرکت کی تھی ۔ان شرکاء میں قابل ذکرعمرمیتا صاحب تھے جو جاپان کی مسلم اسوسی ایشن کے ڈائرکٹر تھے۔اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے قرآن کے انگریزی ترجمہ سے اس کا جاپانی ترجمہ کیا ۔جب ان کو پاکستان جانے کا موقعہ ملا تو وہاں انہوں نے مولانامودودی سے ملاقات کی اور جاپانی زبان میں تفہیم القرآن کا ترجمہ کیا ۔سعودی عرب سے ڈاکٹراحمد تتونجی اورعمرعبداللہ اور امریکہ سے ڈاکٹر ہشام الطالب شریک ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے اخباری نمائندوں کی بڑی تعداد نے اس اجتماع میں شرکت کی تھی ۔اندرونِ ملک سے کلدیپ نیر ایڈیٹر اسٹیٹس مین اور شیام لال اسٹنٹ ایڈیٹڑہندی ویکلی دنمان نے شرکت کی تھی ۔
اس اجتماع میں مولانا مودودی کی شرکت کی خبر عام ہوچکی تھی لیکن ان کی حاضری نہ ہوسکی ۔ خطابِ عام میں شرکاء کی تعداد ۵۰سے ۶۰ہزار تک پہنچ گئی تھی ۔مندوبین کی تعداد: مرد سترہ ہزاراور خواتین پانچ ہزار ۔اس اجتماع میں جو اہم دروس و تقاریر ہوئیں ہیں ان کے خلاصے کوقارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
۱۔درسِ قرآن آیات سورۃ المائدہ ۷ تا ۱۱ : مولانا جلیل احسن ندوی ۔ان آیات میں میثاقِ الٰہی کو یاد دلایا گیا ہےجبکہ دین کی تکمیل بھی ہوچکی تھی اور دین قائم بھی ہوچکا تھا ۔ہر مسلمان کلمہ پڑھ کر اللہ سے عہد باندھتا ہے اوریہ اقرارکرتا ہے کہ میں نے سنا اور اطاعت قبول کی ۔اس عہد کا تقاضا یہ ہے کہ اہل ایمان تقویٰ کا روش پر گامزن ہوں اور زمین پر عدل و قسط کا رویہ ختیار کریں چاہےمعاملہ اپنے دشمنوں ہی سے کیوں ہو۔
۲۔ درسِ قرآن آیات سورۃ الصف ۹ تا ۱۴: مولانا سید عروج احمد قادری ۔ان آیات میں پہلا نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا ایک مقصدیہ ہےکہ دینِ حق کو ادیان باطلہ پر غلبہ ہو تاکہ انسانیت پر ظلم کے بجائے عدل سایہ فگن ہو ۔
۳۔درسِ حدیث : مولانا جلیل احسن ندوی ۔حدیث کا متن ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ میری محبت واجب ہوگئی ان لوگوں کےلیے جومحض میرے لیے باہم محبت کرتے ہیں ،محض میرے لیے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں ، صرف میرے لیے باہم ایک دوسرے کو خوشی خوشی اپنا مال دیتے ہیں ۔‘‘
۴۔خطبۂ صدارت : مولانا محمدیوسف امیر جماعت اسلامی ہند۔مولانا نے کہا کہ اس وقت دنیا سنگین مسائل سے دوچارہے جن میں سےاہم یہ ہیں : انسانی خودغرضی کی وجہ سے غذا کی قلت اور بھوک کی صورتحال پیداہوچکی ہے ،ملکوں اور قوموں کے مابین خوف اور بے اعتمادی کی فضا پیداہوچکی ہے ، الحاد کے سبب سے انسانی معاشرہ مسلسل اخلاقی زوال کا شکار ہوچکا ہے۔سچی خدا پرستی اور آخرت میں جوابدہی کا احساس ہی ان تمام مسائل کا حل ہے۔دنیاکے مسائل کا حل امتِ مسلمہ کے پاس اللہ کے پیغام کی صورت میں موجود ہے۔
۵۔دعوت اسلامی کے مطالبات اپنے کارکنوں سے:مولانا صدرالدین اصلاحی ۔مولانا نے کہا کہ کسی تحریک کی کامیابی کے لیے اس تحریک کا نصب العین جس نوعیت کا ہوتا ہے اسی نوعیت کی فکری و عملی صفات رکھنے والے کارکن درکار ہوتے ہیں ۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کی لازمی صفات یہ ہیں: نصب العین کا گہرایقین ،موقف کی استقامت ،صبر واستقلال ،خلقِ خداکی محبت و خیرخواہی ،طریقِ کار کی پاکیزگی اور اخلاص۔
۶۔جماعت اسلامی ہند کے پروگرام کے چنداہم اجزاءاور ان کے تقاضے:ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی ۔ڈاکٹرصاحب نے دو انتہائی اہم امور کی طرف توجہ کو مبذول کروائی: ا)غیر مسلموں سے ربط:بے لوث روابط اوربرادرانہ تعلقات جن کا موجودہ مسموم فضا میں حصول بے حددشوارہے۔سچی داعیانہ تڑپ ہی سے اس کا حصول ممکن ہے۔ ب)مسلمانوں کی منتخب آبادیوں میں کام: مسلمانوں میں اصلاح کا کام اسی وقت موثرہوسکتا ہے جب اصلاحی کاموں کے ساتھ ان کی معاشی و تعلیمی پسماندگی دورکرنے کی کوشش کریں ۔حکومت کی فلاحی اسکیموں سے استفادہ کروانے میں ہم بھرپورتعاون کریں ۔
۷۔تقریر:حسن سلوک ۔مولانا حبیب اللہ :مولانا حبیب اللہ بہترین خطیب اور پایے کے عالمِ دین تھے ۔اپنی تقریر میں انہوں نے کہا :ہم پر اللہ کے اور بندگانِ خداکے حقوق عائد ہوتے ہیں ۔اس سلسلے میں چند تجاویز کو پیش کیاگیا ہے:i)معاشرہ سے غربت و افلاس کو دورکیا جائے۔ii)نفرت ،تشدداور لاقانونیت کو روکا جائے۔ iii)بداخلاقی اور اباحیت کو روکا جائے ۔ iv)امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے۔
۸۔تقریر: انسان کے مسائل اور اسلام کا پیغام ۔ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی :اس تقریر میں ویلفیر اسٹیٹ کے اصول کے بارے میں سوال کھڑاکیا گیا کہ مغربی ممالک میں جب ایک ملک کے اندر محروم لوگوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل حکومت کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے تو ساری دنیا کے محرومین کےلیے دنیاکے مالداراور طاقتورممالک کیوں خیرخواہی نہ کریں تاکہ لوگ بھوک اور علاج کی عدم دستیابی سے نہ مریں ۔اس دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ چکا ہے۔طاقتورممالک کمزورممالک کو سیاسی اور فوجی طور پر غلام بنارہے ہیں ۔اس کا حل یہ ہے کہ قومی تعصب کے بجائے وحدت انسانی کا سبق پڑھایاجائے۔ وحدتِ انسانی کے تصورکا مآخذ توحید ہے۔اس کائنات کا خالق ایک ہے اور سارے انسان ایک ماں باپ کی ذریت ہیں۔اس کے بعد یہ سوال پید اہوگا کہ انسان کا مقصدِ تخلیق کیا ہے اورخالق نے انسانی زندگی کے لیے کیا اصول دیے ہیں۔خالق نے عدل واحسان کا اصول دیا ہے۔اس کے برخلاف قومی تعصبات نے ایک قوم کو دوسری قوم کا دشمن بنادیا ہے اور مملکتیں اپنی قومی آمدنی کا کثیر حصہ خوراک ،صحت اور تعلیم پر خرچ کرنے کے بجائے اسلحہ پر خرچ کررہےہیں ۔
۹۔تقریر:ہندوستان کی تعمیرِ نومیں جماعت اسلامی ہند کا حصہ ۔مولانا عبدالعزیز۔مولانا نے اپنی تقریر میں ایک شعرپڑھا اور ان کی تقریر کو اسی شعر کی نسبت سےآج بھی یاد رکھا جاتا ہے :
زنداں میں تو مجھ کو ڈال دیا اے حاکم زنداں تونے مگر
پروازکو میری روک سکے ایسی بھی کوئی دیوار اٹھا
ہماری دعوت تین بنیادی حقائق پر مبنی ہے ۔ پہلی حقیقت یہ ہےکہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔دوسری حقیقت یہ ہے کہ اسی نے ہماری ہدایت کے لیے اپنے دین کو آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمایا ہے۔اورتیسرانکتہ یہ ہے کہ یہ دنیادارالامتحان ہے اور ہر انسان اللہ کے پاس جواب دہ ہے۔ہمارے حیوانی ومادی وجودکے ساتھ ہمارا ایک اخلاقی وروحانی وجودبھی ہے۔اخلاقی وجودکے انکارنے انسان کو مادہ پرست بنادیا ہے۔ اس وجہ سے انسان دوسرے انسان کا دشمن بن چکا ہے۔ہم ہمارے ملک میں جمہوریت کو ایک نعمت سمجھتے ہیں لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب جمہوری سیاست عدل و قسط کے اصولوں پر چلائی جائے نہ کہ خودغرضی اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر۔ جماعت اسلامی نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں :i)اقلیتوں کے حقوق کے معاملےمیں مسلم مجلس مشاورت کی تشکیل ،child adoption billکی مخالفت ،مسلم پرسنل لا کی حفاظت اور تعلیمی اداروں کے اقلیتی کردارکی بحالی میں جماعت نے نمایاں رول اداکیا ۔ii)مسلمانوں کے اندر خوداعتمادی کو پیداکیا تاکہ وہ خود کو دوسرے درجہ کے شہری نہ سمجھیں ۔iii)فسادات کے خلاف حکومت کو جھنجھوڑنےاور ریلیف کاکام انجام دینے میں جماعت نے مثبت رول ادا کیا ۔iv) علاقائی زبانوں میں اسلام کے پیغام کو پہنچانے اور اسلامی لڑیچر کے ذریعے لسانی عصبیتوں کے مقابلے میں ہم آہنگی کو پیداکرنےکی کوشش کی گئی ۔v)معاشی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے جماعت نے مسلم امت کوزکوٰۃ و انفاق پر ابھارا اور اخلاقی تعلیم کے ذریعے ان کو اخلاقی جرائم سے روکنے کی کوشش کی جن کا معیشت پر بھی اثر پڑتا ہے ۔
۱۰۔تقریر: مسلمانانِ ہند کے لیے جماعت اسلامی ہند کا پروگرام ۔مولانا سید حامدعلی ۔مسلمان کسی نسلی ،لسانی یا وطنی قوم کا نام نہیں ہےبلکہ ایک نظریاتی و اصولی امت ہیں ۔امت مسلمہ کا مقصدِ وجود اقامتِ دین ہے۔جو کام امت کو کرنے ہیں وہ یہ ہیں : i)دین کا علم حاصل کریں ۔علم سے ہی اختلافات اور تفرقہ دورہوگا۔علم کے مآخذقرآن و سنت ہیں ۔ii)اللہ کے احکام پر عمل کریں ۔اللہ کے اور بندوں کے حقوق اداکریں۔دین میں پورے کے پورے داخل ہوں۔ہمارے گھروں کو اسلامی گھر بناکر غیرمسلموں کے لیے بہترین نمونہ بنیں۔رسوم ورواج سے دین کوبوجھل نہ بنائیں ۔iii)دین کو غیر مسلموں کے سامنے پیش کریں جس طرح ہمارے اسلاف نے بھارت میں امانت دار تاجروں کی صورت میں آکر اسلام کو پیش کیا تھا۔iv)تفرقہ سے پرہیزکرکے متحد ہوجائیں ۔ہمارے اتحاد کی بنیا د قومی عصبیت نہ ہوبلکہ دعوت الی اللہ اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کا مقصدہو۔
۹ نومبر کو مولانا سراج الحسن نے متفقین سے خطاب کیا ۔تقریر کا عنوان تھا’تحریکِ اسلامی کے تقاضے‘۔مولانانے تاریخی جملہ کہا کہ :ہم اسلام کے نام لیوا بھی ہوں اور ہماری زندگی اسلام سے خالی بھی ہوتویہ دراصل دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی مذاق نہیں ہوسکتا اورنہ اس سے بڑا کوئی تماشا ہوسکتا ہے ۔پھر اس مذاق اورتماشے کا نتیجہ اس شکل میں سامنے آئے گا کہ آپ بھی اس دنیا کے اندر تماشا اور مذاق بن جائیں گے۔
طلبہ کا اجتماع تمل ناڈوکی قیام گاہ میں ۹ نومبر کو ۳بجے سہ پہر شروع ہوا جس میں تین ہزارطلبہ و نوجوان موجود تھے۔جناب احمداللہ صدیقی نےپچھلے چھ سال کی رپورٹ پیش کی ۔اس وقت پورے ملک میں تقریباً ۱۵ہزارطلبہ تحریک اسلامی سے وابستہ ہیں۔طلبہ کی اس نشست کو بیرونِ ہند کے مہمان مقررین نے خطاب کیا جن میں مصر سے ابراہیم طحاوی ،ریاض یونیورسٹی سے ڈاکٹر احمد توتونجی ،امریکہ سے ڈاکٹر ہشام الطالب ،انڈونیشیا سے برادرعمادالدین اورماریشش سے برادرعبدالخالق تھے ۔
۹ نومبر کو اسی وقت یعنی ۳بجے سہ پہر غیر مسلم معاونین کے ساتھ نشست ہوئی ۔صدرِ جلسہ مولانا سید حامد علی تھے ۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ انسانوں کی امتیازی شان یہ ہے کہ وہ حیوانات کے مقابلے میں اخلاقی حس رکھتے ہیں ۔جو انسان اخلاق و کردار سے خالی ہوں وہ زمین پر بوجھ اور شر کا باعث ہیں ۔ہم انگریزکے غلام اس لیے ہوئے کہ بھارت کے ہی کچھ لوگوں نے چند پیسوں کی خاطر انگریزوں کا ساتھ دیا ۔ٹیپوسلطان اس لیے ناکام ہوئے کہ چند نوابوں اور راجاؤں نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور ان کے کچھ وزیراور فوج کے افراد چند پیسوں کے لالچ میں انگریزوں سے مل گئے۔اخلاق وکردارکے بغیر ہمارا وجود اورہماری سالمیت خطرہ میں رہے گی ۔پائیداراخلاق کی بنیاد اللہ کے حضورآخرت میں جواب دہی کا احساس ہے۔اجلاس کے آخرمیں یہ طے کیا گیا کہ مسلم اور غیر مسلم مل کر دوبنیادی کاموں میں اشتراک وتعاون کریں : غریب لوگوں کی مدداور سماج سے برائیوں کو دورکرنا ۔
۱۰ نومبر کی شب کوادارۂ ادب اسلامی ہند کے زیر اہتمام ادبی و شعری نشست جناب عمربن عبداللہ حیدرابادی (مقیم جدہ) کے زیرِ صدارت منعقدہوئی۔اس میں مولانا سید عروج احمد قادری ،مولانا عامر عثمانی ،حفیظ میرٹھی ،مائل خیرآبادی ،ابوالمجاہدزاہداور سید جمال احمد امین آبادی شامل تھے۔
مولانا مودودی چونکہ خواہش کے باوجود تشریف نہیں لاسکے اس لیے ان کے دوخطوط پڑھ کر سنائےگئے۔امیر جماعت مولانا محمد یوسف صاحب نے عربی زبان میں بیرون ملک کے اکابرین کے سامنے خیر مقدمی تقریر کی اور جماعت کی سرگرمیوں کا تعارف پیش کیا تھا ۔
۱۰ نومبرکا اجلاس مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی کی خیرمقدمی صدارتی تقریر سے شروع ہوا اوراس اجلاس کا اختتام مولانا ہی کے اختتامی کلمات پر ہواجس میں انہوں نے تمام شرکاء سے اظہارتشکر کیا ۔
۱۱ نومبر کو مولانا محمد یوسف امیر جماعت نے پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے اپنےابتدائی کلمات میں کہا کہ جماعت چاہتی ہے کہ بھارت سارے عالم میں اخلاقی اقدارمیں دنیا کی امامت کرے ۔انہوں نے بتلایا کہ دنیا کے مسائل کا حل اخلاقی نوعیت رکھتا نہ کہ مادی ۔
اس وقت کےامیرِ حلقہ آندھراپردیش مولانا عبدالرزاق لطیفی صاحب کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور سفر کے متحمل نہیں تھے لیکن ان کا اصرار تھا کہ وہ اس اجتماع میں شریک ہوں گے ۔چنانچہ فلائیٹ کے ذریعےوہ اجتماع میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے ۔
چھٹا کل ہند اجتماعِ عام ۱۹۸۱ء:
یہ اجتماع حیدرآباد میں وادی ھدیٰ میں۲۰تا ۲۲ فروری میں منعقد ہوا۔اس میں مندوبین ایک لاکھ اورعام شرکاء دولاکھ شریک تھے ۔خواتین شرکاء کی تعداد تیس ہزارتھی ۔یہ جماعت اسلامی کا اب تک کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔راقم کو اس اجتماع میں شرکت کا موقع ملا۔اس وقت میں عثمانیہ یونیورسٹی کے چوتھے سال کا طالبِ علم تھا اور یونیورسٹی ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا ۔اجتماع کے انعقاد سے ایک ماہ قبل سے SIUکے طلبہ ہر اتوارکو وادی ھدیٰ جاتے اور زمین کی ہمواری اور صفائی کے کام میں اپنا حصہ
اداکرتے تھے۔ ہر اتوار کو میں بھی اس کام میں شریک ہواکرتا تھا ۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کو ہٹا کر 65ایکڑ زمین کو ہموارکرنے کا کام بہت دقت طلب تھا۔بڑی پہاڑیوں کو جوں کا توں رہنے دیا گیا جن پر قرآنی آیات اور اقوالِ زریں لکھ کر شرکاءکے لیے پرکشش بنادیا گیا تھا ۔ امیرِ حلقہ مولانا عبدالعزیز ناظم اجتماع تھے ۔وہ زمین کی تیاری کے دوران نوجوانوں کے ہمراہ ایک خیمے میں شریک رہتے اور مقامِ اجتماع پر قرآنی آیات سےمختصر تذکیر کرتے اور مولانا مودودی ؒکے دروسِ قرآن ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے سنواکر کہتے کہ یہ تمہاری محنت کا معاوضہ ہے ۔اس دورمیں مولانا مودودی کی آواز میں ان کا درس سنناہم جیسے نوجوانوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں تھا۔ اجتماع سے ایک دن قبل ریلوے اسٹیشن پر نوجوانوں کی ڈیوٹی لگادی گئی تھی کہ وہ ٹرین سے آنے والے زائرین کا استقبال کریں اور ان کو اسپیثل بسوں کے ذریعے اجتماع گاہ روانہ کریں ۔میری ڈیوٹی نامپلی اسٹیشن پر لگی ہوئی تھی ۔
چونکہ اجتماع گاہ کی زمین ڈھلوان تھی اس لیے بالائی علاقہ سے اجتماع کا منظر بہت دلکش نظر آرہا تھا۔ایس ایم ملک صاحب بتلارہےتھے کہ نجات اللہ صدیقی صاحب جب گیٹورائی کے آفس پرتشریف لائے جو بالائی حصہ پر تھا تو انہوں نے عرض کیا کہ یہ اجتماع میدانِ عرفات کی یاد دلارہا ہے۔مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی نے اجتماع عام کے موقع پر جب تین لاکھ لوگوں کی شرکت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو کہا کہ اس سے بڑا اجتماع شاید آئندہ ممکن نہیں ہوگا۔
اس اجتماع کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بیرونِ ملک سے اہم شخصیات نے حصہ لیا تھا جن میں سب سے اہم شخصیت ایران کے روحانی قائد آیت اللہ خمینی کے نائب علی خامنہ ای کی تھی جو اِس وقت ایران کے سپریم مذہبی قائد ہیں ۔بالخصوص اس وقت جب اسرائیل کی بدترین جارحیت جاری ہے اس کے مقابلے میں غزّہ کی مزاحمتی جنگ میں ایرانی مذہبی رہنما کا کردار کلیدی طورپر دنیا کے سامنے آیا ہے ۔مصر سے اخوان المسلمون کی خاتون قائدمحترمہ زینب الغزالی نےبھی شرکت کی تھی ۔محترمہ زینب غزالی نےجب خواتین سے خطاب کیا تھا تو انہوں نے اعتراض کیا تھا کہ خواتین کے لیے الگ پنڈال کیوں بنایا گیا اور ان کو مرکزی اجتماع گاہ کی کارروائیوں کو دیکھنے سے کیوں محروم رکھا گیا۔ احمدتوتونجی صاحب نے بھی شرکت کی تھی ۔امام کعبہ کی بھی شرکت متوقع تھی ۔عبدالرحمٰن بکران صاحب عربی لباس زیب تن کرکے جب اجتماع گاہ میں داخل ہوئے تو لوگوں نے سمجھا کہ یہ امامِ کعبہ ہیں چنانچہ ان سے ملنے کے لیے ان پر ٹوٹ پڑے ۔بڑی مشکل سے ان کو جان چھڑانی پڑی ۔
مولانا عبدالعزیز ناظم اجتماع کےکلیدی خطاب میں چھ نکاتی خطبہ پیش کیا گیا جس میں تین اوامر اور تین نواہی کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا تھا جو سورۃ النحل کی آیت ۹۰ پر مبنی ہے۔
نمازفجر کے بعد مولانا عبدالعزیز نے سورۃ الحشر کی آخری آیا ت پر درسِ قرآ ن دیا تھا ۔امیرجماعت مولانا محمدیوسف جن کو توسیع دعوت کی فکر ہمیشہ دامن گیر ہوتی ہے انہوں نے ہرطبقہ (کسانوں ،مزدوروں ،صنعت کاروں ،نوجوانوں ،خواتین وغیرہ) میں دعوتی کام کے لیے کمیٹیاں بنوائی تھیں ۔
پانی کے انتظام کےلیے ایک عارضی ٹنکی بنائی گئی تھی جو عین اجتماع کے دوران ٹوٹ گئی جس سے ساراپانی ضائع ہوگیا جس سے پانی کا بحران پیداہوگیا تھا ۔ طہارت ، وضو،پینے اور پکوان کےلیے پانی کی اچانک عدم دستیابی سے بہت دشواری پیداہوچکی تھی ۔اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے شہر کے تمام واٹر ٹینکر والوں سے رابطہ کرکے ہنگامی طورپر پانی کا انتظام کیا گیا ۔ مولانا عبدالعزیز نے اختتامی تقریر میں کہا:’’ پانی کے مسئلہ نے ان کی ساری کاوشوں پر پانی پھیر دیا۔‘‘
اسلامی نمائش کا انتظام کیا گیا جس میں اسلامی تصورات ونظریات کو تصویروں کی شکل میں پیش کیا گیا ۔مثلاً منافقانہ زندگی کو اس طرح پیش کیا گیا جیسےایک شخص دریا میں بیک وقت دوکشتیوں میں ایک ایک پیر رکھ کر سفر کررہا ہے۔
بیرونِ ملک کے مہمانوں کو معظم جاہی مارکیٹ کے قریب اس ہوٹل میں ٹھیرایا گیا تھا جوآج کل Care Hospital کی عمارت ہے۔ ان کے کھانے کا انتظام باہر سے کیا گیا تھا ۔
اس اجتماع میں بھارت کی ۱۲زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے کی اجراء کی تقریب بھی منعقدہوئی تھی ۔
ہر ریاست کے لیےالگ الگ خیموں ہی میں ان کے ذوق کے مطابق مطبخ میں پکوان کرکے کھانا گاڑیوں اور ٹرالیوں سے بھجوایا جاتا تھا۔
وادی ھدیٰ میں تعمیرات کے ذمہ دار جناب ابوالنصر عابر صاحب تھے جن کا تعلق ورنگل سے تھا۔اس اجتماع میں ایک سعودی بزنس مین بھی مہمان کی حیثیت سے شریک ہوا تھا ۔جب اس کو معلوم ہوا کہ تین دن کے ایک عارضی اورمختصر شہر کو جس طرح آبادکیا گیا اس کی پلاننگ جناب ابوالنصر عابر صاحب نے کی تو وہ ان سے ملنا چاہا۔جب ملاقات ہوئی تو وہ ان سے مل کر اتنا متاثر ہوا کہ اس نے ان کو ویزا دے کر سعودی عرب ریاض بلوایا اور ان کو اپنی کمپنی کے پروجکٹ پر کام کرنے کا موقعہ عنایت کیا۔
مولانا عبدالعزیز کو کسی نے دیکھا کہ وہ پلیٹ لےکر کھانے کی قطار میں کھڑے ہوئے ہیں جبکہ اگلی نشست میں ان کی تقریر تھی۔ جب ان سے کہا گیا کہ آپ قطارسے بے نیاز ہوجائیں تاکہ آپ وقت پر نشست میں پہنچ سکیں ۔انہوں نے کہا کہ چاہے وہاں دیر ہوجائے مگر میں سسٹم کو توڑ نہیں سکتا ۔ارکان یہ باتیں بھول نہیں سکتے اور برسہابرس ان کو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں درسِ عمل دیتی رہتی ہیں ۔
اس اجتماع میں نئی صدی ہجری کی تقریبات کو بھی شامل کرلیا گیا تھا ۔
امیرِجماعت مولانا محمد یوسف نے جب اپنی تقریر میں دعوت الی اللہ کی اہمیت پر تقریر کی تو اس تقریر کا حوالہ دے کر ایک تلگو روزنامے میں دعویٰ کیا گیا کہ اسی طرح کی تقاریر تمل ناڈوکے میناکشی پورم میں تبدیلی مذہب کے واقعات کا سبب بنی ہیں۔ یہ تھیں ان تین کل ہند اجتماعات کی چند جھلکیاں ۔چھٹے کل ہند عام اجتماع کے بعدیہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ کل ہندعام اجتماعات کے بجائے کل ہند ارکان کے اجتماعات ہوں گے۔
***

 

***

 کل ہندارکان کے اجتماعات یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ سارے ملک کے ارکان ایک جگہ جمع ہوں جس میں ان کو یہ نادر موقع ملتا ہے کہ ایک رکن کسی بھی ریاست کے دوسرے ارکان سے شخصی طورپر مل سکتا ہے۔اس طرح کے اجتماعات میں ارکانِ جماعت کا آپس میں تعارف ہوتا ہے جس سے وہ ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہوسکتے ہیں اور باہمی تجربات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔تقاریر تو بہت سنی جاتی ہیں لیکن جو تین روزہ تحریکی ماحول اس اجتماع سے پیداہوتا ہے اس سے ارکان کے اندرنیا عزم اور حوصلہ پیداہوتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024