جماعت اسلامی ہند کے کل ہند اجتماع ارکان کے تاثرات
تجدیدِ عہد کی متاثر کن روایت۔ عدل و قسط کے پیغام کے ساتھ یادگار انتظامات
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
رفاہ ایکسپو سے تحریکی شو کیس تک: دلکش جھلکیوں نے دل موہ لیے
انفراسٹرکچر: تعمیراتی نقطہ نظر سے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اس اجتماع کے ذریعے عارضی بستی کے قیام کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا گیا۔ناظمِ اجتماع کی بہت لوگوں نے ستائش کی کہ انہوں نے وادی ہدیٰ کی ۳۵ ایکڑ زمین میں اجتماع گاہ، نمازگاہ، شرکاء کی رہائش و طعام ،تحریکی شوکیس اور رفاہ ایکسپو کےلیے اعلیٰ معیار کی منصوبہ بندی کی۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب زمین کا accurate سروے کرواکر نقشہ کی مدد سے meticulous پلاننگ کی گئی ہو۔ قیام گاہ کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ہر حصہ میں چھ ہزار افراد کی گنجائش رکھی گئی جس میں طعام، قیام اور بیت الخلا بنائے گئے۔ کھانے کی عادتوں کے لحاظ سے طعام کا الگ الگ ریاستوں کے لحاظ سے انتظام بہت مناسب فیصلہ تھا۔ ناظمِ اجتماع نے اظہارِ تشکر کے خطاب میں کہا کہ اللہ نے قبل از اجتماع باد و باراں کا انتظام کیا جس کے باعث زمین نرم ہوئی اور اس کو ہموار کرنے میں قدرتی مدد ملی۔ اجتماع گاہ جانے والے راستوں کو اسفالٹ (ٹار) سے پکی سڑک میں بدلا گیا جس سے پیدال چلنے والوں اور وہیل چیر والوں دونوں کو سہولت ہوئی۔ اجتماع گاہ تین اعلیٰ کوالٹی کے pre-fabricated aluminum gable framed structures پر مشتمل تھا جن کو واٹر پروف فیبرک سے cover کیا گیا۔یہ اسٹرکچر pre-engineered کہلاتا ہے جس کو اس طرح ڈیزائین کیا جاتا ہے کہ وہ سو کلو میٹر کی طوفانی ہوا کو بھی برداشت کر سکے۔ اسے جرمن کمپنی نے بنایا ہے۔ یہ اسٹرکچر pre-engineered کہلاتا ہے جس کو اس طرح ڈیزائین کیا گیا کہ وہ سو کلو میٹر کی طوفانی ہوا کو بھی برداشت کر سکے۔ ہر ایک gable frame کا span سو فیٹ رکھا گیا جس سے اجتماع گاہ کی جملہ چوڑائی تین سو فیٹ ہوگئی۔ 51 فریمس کے استعمال سے اجتماع گاہ کی کل لمبائی 500 فیٹ ہو گئی۔ اس ٹنٹ اسٹرکچر کی اونچائی 36 فیٹ رکھی گئی تاکہ 15 ہزار شرکاء کے لیے ہوا کا سرکولیشن اچھی طرح ہو۔ چونکہ چھت کے لیے فیبرک کو استعمال کیا گیا اس لیے بارش میں بھی یہ واٹر پروف ہوتا ہے۔اجتماع گاہ کے اس اسٹرکچر کو اس طرح بنایا گیا کہ اس کو صرف نٹ اور بولٹ کے ذریعے assemble کیا گیا تھا۔جس آسانی کے ساتھ اس کو assembleکیا گیا، اجتماع کے بعد اسی طرح اس کو کھولا جا سکتا ہے اور کسی اور جگہ اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس کی stability کے لیے اس میں cross bracing استعمال کی گئیں۔اس اسٹرکچر کی اصل خوبی یہ تھی کہ درمیان میں کوئی ستون نہیں تھا۔عام طور پر مذہبی اجتماعات میں جو خیمے لگوائے جاتے ہیں ان میں بے شمار لکڑی یا لوہے کہ ستون ہوتے ہیں جو اجتماع گاہ میں اجتماع کی کارروائی کو دیکھنے میں روکاوٹ بن جاتے ہیں۔ایسے خیمے رہائش کے لیے تو موزوں ہوسکتے ہیں لیکن اجتماع گاہ کے لیے نہیں۔
اس اجتماع گاہ میں بیس ہزار لوگوں کی گنجائش رکھی گئی۔درمیانی gable framed structure میں وسیع اسٹیج بنایا گیا اور اسی لمبائی کا ٹی وی display بھی بنایا گیا۔ اجتماع کی کارروائی اور مقررین اور سامعین کے فاصلے کو کم کرنے کے لیے جگہ جگہ پر displays کا انتظام کیا گیا۔اجتماع گاہ کے داہنے جانب زمین کو نماز گاہ کے لیے مسطح کیا گیا جس پر بیک وقت بیس ہزار لوگ نمازا دا کر سکتے ہیں تھے۔ اجتماع گاہ اور نماز گاہ دونوں کو وسیع سبز فرش سے آراستہ کیا گیا۔ قبلہ کی جگہ کو سات خوبصورت محرابوں سے مزین کرکے ہر ایک پر آیاتِ قرآنی سے تذکیر کا سامان کیا گیا۔اجتماع گاہ میں داخلہ کے لیے سیکیورٹی کی خاطر اراکین کے بیج پر QR کوڈ کے ذریعے اراکین ہی کی شرکت کو یقینی بنایا گیا۔ مین گیٹ اور اجتماع گاہ کے درمیان D نما گارڈن بنایا گیا جس سے اجتماع گاہ کی دلکشی میں بے حد اضافہ ہوا۔مین گیٹ کے بائیں جانب ادراک تحریک شو کیس بنایا گیا جس میں تحریکی کاموں کو چارٹس اور ماڈلز کی شکل میں بہت ہی دلکش انداز میں پیش کیا گیا۔ہر ریاست کے تحریکی کاموں کی الگ الگ کمروں میں نمائش کی گئی۔ مین گیٹ کے داہنے جانب قدرے دوری پر رفاہ اکسپو (تجارتی نمائش) لگائی گئی جو عام نمائشوں کے معیار سے بہت اعلیٰ معیار کی تھی۔ نومبر کا مہینہ ہونے کے باوجود دن کے اوقات میں اچھی خاصی گرمی تھی۔اجتماع گاہ میں ہیوی ڈیوٹی کولرز لگائے گئے تھے۔ نمازیں نمازگاہ میں اداکی گئیں جو کھلا میدان تھا۔ جن لوگوں کے لیے نمازِ ظہر گرمی کی شدت میں ادا کرنا دشوار ہورہا تھا وہ متصل اجتماع گاہ میں کولروں کی ٹھنڈک میں نماز ادا کر رہے تھے، کچھ کرسیوں پر اور کچھ صف بنا کر۔
معیار کے اعتبار سے یہ اجتماع بہت ہی اعلیٰ قسم کے انفراسٹرکچر کے ساتھ منعقد کیا گیا۔ عام طور پر مذہبی اجتماعات کے لیے اعلیٰ قسم کا انفراسٹرکچر نہیں بنایا جاتا۔بڑے مذہبی پروگراموں کو اعلیٰ معیار اور انفراسٹرکچر کے ساتھ منعقد کرنے کی روایت ڈاکٹر ذاکر نائک نے ممبئی میں ڈالی تھی۔بالخصوص اسٹیج کو انہوں نے بہت پر کشش بنایا تھا۔ان سے اکثر یہ سوال پوچھا گیا کہ اتنا بھاری خرچہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ان کا جواب راقم نے ایک پروگرام میں خود سنا تھا جب انہوں نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ جب کفرو شرک کے علم بردار اعلیٰ معیار پر کفر و شرک پھیلارہے ہیں تو ہم کیوں نہ اسلامی پروگراموں کو اعلیٰ معیار پر منعقد کریں؟ دوسری اہم وجہ انہوں نے یہ بتلائی تھی کہ اس پروگرام کے جو ویڈیوز بنائے جائیں گے وہ صدیوں تک رہیں گے۔ یہ ایک وقت کا انوسٹمنٹ ہے۔ ایک خوبصورت پروگرام ہمیشہ کے لیے ویڈیو میں محفوظ ہو کر مسلموں غیر مسلموں کے لیے مستقبل میں لائقِ توجہ بنتا رہے گا ۔ اگر ساؤنڈ اور پکچر کی کوالٹی خراب ہو گی تو حق بات موثر انداز میں اگلی نسلوں میں کیسے منتقل ہوتی رہے گی جبکہ باطل اور شر کی طاقتیں دلکش انداز میں فحش اور الحاد پھیلارہے ہیں۔
خواتین کا انتظام :
اجتماع گاہ کے بائیں اسٹرکچر کو خواتین کے لیے مختص کردیا گیا اور بیچ میں فیبرک کی دیوار کو اتنا اونچا کیا گیا کہ خواتین نظر نہ آسکیں اور وہ اپنے چہروں کو کھلا رکھنے میں آزادی محسوس کر سکیں۔پہلی نشست میں جب دیوار اونچی نہ تھی تو خواتین اپنے چہروں کو کھلا نہیں رکھ سکتی تھیں۔منتظمین کو جیسے ہی خواتین کے اس اضطراب کا پتہ چلا تو فوراً دیوار کو اونچا کر دیا گیا۔ اسی طرح خواتین کی رہائش کو بھی مردوں کی قیام گاہوں سے علحیدہ بنایا گیا تھا۔ اس انتظام کو بہت سے لوگوں نے حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے ناقدین نے بھی سراہا۔
تقاریر کا معیار اور مواد :
اس اجتماع میں کی گئی تقاریر کی کئی اہم خصوصیات ہیں جن کی بنا پر ان کو یاد رکھا جائے گا۔ اس اجتماع کا مرکزی مضمون تھا "عدل و قسط” چونکہ یہ مرکزی عنوان جماعت اسلامی کے نصب العین سے عین مناسبت رکھتا ہے اس لیے اس کو بہت پسند کیا گیا۔ ملک میں اور دنیا میں بالخصوص مشرق وسطیٰ میں ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے اس لیے عدل وقسط کے عنوان کا انتخاب وقت کا عین تقاضا تھا۔ اقامتِ دین دو چیزوں سے عبارت ہے۔اس کا پہلا مرحلہ ہے فکری انقلاب جس کے ذریعے انسانوں کے افکار میں تبدیلی لائی جاتی ہے۔اس تبدیلی کے ذریعے لوگوں کو کفر و شرک،الحاد اور فحش پر مبنی نظریات اور ان کے نقصات سے آگاہ کرکے ان کو توحید، رسالت و آخرت پر مبنی افکار اور نیکی کے راستے سے واقف کروایا جائے جس میں دنیا وآخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اقامتِ دین کا دوسرا مرحلہ ہے عدل و قسط کا نظام برپا کرنا تاکہ انسانوں کو ہر طرح کے ظلم سے چھٹکارا ملے۔ اقامتِ دین کے اس پہلو سے طاغوتی طاقتیں خائف رہتی ہیں۔ ان کو اطمینان ہے کہ فکری تبدیلی کی کاوششیں الحاد و فحش پھیلانے کے وسائل کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں لیکن جب ظالمانہ نظام کو چیلنج کرکے عدل و قسط کے نظام کو نافذبکرنے کی بات کی جائے تو ہر ظالم، جبار، متکبر اور طاغوت کے لیے یہ آواز ناقابلِ قبول ہوتی ہے۔ اس مرکزی موضوع کے ساتھ اس اجتماعِ ارکان کا مقصد یہ تھا کہ اقامتِ دین کے اس پہلو کا ارکان کے اندر شعور پیدا کیا جائے۔ ارکان کے اجتماع کا آغاز جس درسِ قرآن سے ہوا اس میں قرآن کی انہی آیات کو پیش کیا گیا جن میں عدل و قسط کا حکم دیا گیا ہے۔امیرِ جماعت کے کلیدی خطاب میں بھی کہا گیا کہ اسلام کی فکر افراط و تفریط کے درمیان اعتدال کی فکر ہے۔دوسرے سیشن کے پروگرام میں جناب واثق ندیم خان کی تقریر کا موضوع بھی ظلم و جارحیت کے خلاف مزاحمت تھا ۔
تجدیدِ عہد:
آخری سشن میں تجدیدِ عہد کو بہت لوگوں نے پسند کیا۔ محی الدین شاکر صاحب نے کہا کہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں کوئی خطبہ ایسا نہیں دیا جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ اس شخص کا ایمان نہیں جس کے پاس امانت داری نہ ہو اور اس شخص کا دین نہیں جس کے پاس وعدہ کی پاسداری نہ ہو۔اس کے بعد جن باتوں پر عہد کیا وہ یہ ہیں: میرا عقیدہ میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہوگا، میں اس عقیدہ کے تقاضوں کو پورا کروں گا۔ میں اس عقیدہ کی طرف انسانوں کو دعوت دوں گا۔ میرا جینا اور مرنا اقامتِ دین کے نصب العین کے لیے ہوگا۔ میں دعوت، اصلاح، تزکیہ و تربیت اور خدمتِ خلق کے میدانوں میں اپنی ذمہ داری کو ادا کروں گا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رحمآء بینھم جیسا معیاری تعلق قائم رکھوں گا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ تعلق باللہ، حبِ رسول، توکل و ایثار جیسی صفات کو اختیار کروں گا۔ زندگی کو سادگی سے گزاروں گا۔ غیر اسلامی رسوم و رواج سے پرہیز کروں گا۔میری تمام سرگرمیوں کا محرک رضائے الٰہی اور فلاحِ آخرت ہوگا۔ میں عبادات کا التزام کروں گا، اسلامی اخلاق کو اختیار کروں گا اور معاملات میں اللہ کی رضا کو ملحوظ رکھ کر اس کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کروں گا۔ خوف اور لالچ کا ایمان اور صبر و استقامت سے مقابلہ کروں گا۔ قرآن و سنت کے مطابق اپنے کرداربکی تعمیر کروں گا۔ میں بحیثیت رکن اپنی ذمہ داریوں کو پورا کروں گا اور اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کروں گا۔ چاہے سات سمندر اپنا رخ پھیرلیں اور پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں میں اس عہد کی پابندی کروں گا۔
تجدیدِ عہد کا پروگرام اتنا اہم تھا کہ شاید لوگوں کو اس پورے پروگرام میں یہی یاد رہ جائے۔
امیرِ جماعت کے خطاب میں کہی گئی ایک بات کو سراہا گیا کہ: امرائے مقامی کو چاہیے کہ ایسے افراد جو رکنیت کے معیار پر نہ اترتے ہوں ان کو رکن بنا دینا اور ایسے افراد کو جو رکن بننے کے سارے اوصاف رکھنے کے باوجود ان کو رکنیت سے محروم رکھنا تحریک سے ساتھ خیانت اور بد دیانتی ہے۔ ان سے کہا گیا کہ ایسے افراد کے لیے دیوار مت بنیں بلکہ دروازہ بنیں۔ Acronyms کا استعمال:
امیر جماعت جناب سعادت اللہ حسینی صاحب نے اپنی دو تقریروں میں acronym کا استعمال کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے باتوں کونکات کی شکل میں یاد رکھا جاسکتا ہے۔ مثلاً کیڈر کنونشن میں انہوں نے RISE کا استعمال کیا جس کے معنی اٹھنے کے ہیں۔ RISE یہاں پر acronym بھی ہے اور معنی خیز لفظ بھی ہے جس کے معنی اٹھنے کے ہیں۔ قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قُمْ فَأَنذِرْ اُٹھو اور خبر دار کرو۔ ایک اور جگہ فرمایا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر کھڑے ہو جاؤ انصاف کی گواہی دینے والے بن کر۔ (سورۃ المائدہ ۸) اس acronym میں R سے مراد ہے Reach Out جس کا مطلب ہے غیر مسلموں سے وسیع البنیاد رابطہ بنانا اور اسلام سے متعلق ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا۔ I سے مراد ہے Individual Contribution جس کا مطلب ہے ہر فرد کا تحریک میں اپنا حصہ انفرادی سطح پر ادا کرنا جس میں دعوت،خدمتِ خلق،اصلاح اور تربیت بیک وقت شامل ہیں۔ S سے مراد ہے Shift in Public Opinion جس کا مطلب ہے لوگوں سے مکالمہ کرنا اور ان کے ذہنوں پر اثر انداز ہونا اور اسلامی فکر کے حق میں ان کی رائے کو بدلنا۔ E سے مراد ہے Engagement with Muslims جس کا مطلب ہے: مسلمانوں کے اندر جاکر فکری فساد اور عملی بگاڑ کی اصلاح کریں۔ Acronym کی ایک اور مثال امیر جماعت کے آخری سشن کی تقریر میں ملے گی جس میں اردو acronym کو استمال کیا گیا ہے جس کا نام ہے جرأت (ج رأت) اس میں ’ج‘ سے مراد جہد مسلسل ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَـئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ۔جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ (سورۃ انفال ۷۴) اللہ پر ایمان لانے کے بعد آدمی کو ہجرت کرنی پڑتی ہے۔ ہجرت سے یہاں مراد ہے اپنی پسند کی ان چیزوں کو چھوڑے جو اسلام کے راہ میں مزاحم ہوں یا ان کو چھوڑنا ناگزیر ہوجائے۔ اس کے بعد تحریک سے وابستہ فرد جہدِ مسلسل کے ذریعے اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔ ’ر‘ سے مراد ہے رفاقت ۔تحریکی افراد سے ایسی رفاقت مطلوب ہے جو بنیان مرصوص کی شکل اختیارکرے ۔’ا‘ سے مراد ہے استقامت۔ ’ت‘ سے مراد ہے تربیت۔خود کی تربیت پر زور ہو۔ خارج سے زیادہ نظر اپنے باطن پر ہو۔ خود احتسابی ہو اور اس کے بعد خارج کی اصلاح پیش ِ نظر ہو۔
ادراک تحریک شو کیس:
لوگوں نے ادراک تحریک شو کیس یکسپو کو بہت پسند کیا جس کو دیکھنے کے بعد لوگوں کو محسوس ہوا کہ جماعت کی سرگرمیاں کتنی متنوع ہیں اور جماعت اسلامی کن کن میدانوں میں کام کر رہی ہے۔ ہر ریاست کی خصوصیات، چیلنجز اور اس کے اندر جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا تھا۔یہ ایکسپو چھ pavilions پر مشتمل تھا جو حسب ذیل ہیں:
۱) تکبیر: ملک میں دعوتی کام، دعوتی مراحل، اسلامی لٹریچر، دعوتی ادارے
۲) تفکیر: فکر اسلامی، تحقیق و تصنیف، جرائد،اشاعتی ادارے
۳) تطہیر: مربی داعی رہنما پروجیکٹ، تربیتی امور
۴) تدبیر : سِول رائٹس، اوقاف امور، میڈیا، صحت عامہ، معاشی ترقی، تعلیم
۵) تعمیر: عملی سماجی کام، ویژن پروجیکٹ، زکوۃ سنٹر، اشاعت اسلام، خصوصی تعلیمی ادارے، آدی واسی پروجیکٹس
۶) تنویر: علمی ادارے، الجامعہ، اسلامی اکیڈمی، اعلی تعلیمی ادارے،جامعتہ الفلاح اور دیگر تعلیمی پروجیکٹس وغیرہ
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024