جماعت اسلامی ہند کے اجتماع ارکان میں منظورہ قراردادیں

نفرت کا طوفان ملک کے لیے سنگین خطرہ، فرقہ پرست طاقتوں کی ریشہ دوانیاں باعث تشویش

حیدرآباد : (دعوت نیوز ڈیسک)

نیا وقف بل مسترد۔ انصاف پسندوں کا ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا خوش آئند اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ روکنے کے لیے مثبت رائے عامہ کی تشکیل ضروری
فلسطین کے بہادر عوام کی استقامت عالمی رائے عامہ کو متاثر کر رہی ہے بھارت، فلسطینیوں کی حمایت کے اپنے تاریخی موقف پر قائم رہے
حیدرآباد کے وادی ہدیٰ میں 15 تا 17 نومبر 2024 کو منعقدہ جماعت اسلامی ہند کے پانچویں کل ہند اجتماع ارکان میں درج ذیل قرارد ادیں منظور کی گئیں:
جماعت اسلامی ہندکے ارکان کا یہ کل ہند اجتماع اس بات پر تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کی مسلسل ریشہ دوانیوں نے ملک عزیز میں مسلمانان ہند کے لیے حالات مشکل سے مشکل تر کر دیے ہیں۔ ان کے متعدد ادارے، عبادت گاہیں، املاک اور افراد قانونی پیچیدگیوں اور کبھی کبھار غیر قانونی کارروائیوں اور تشدد کے ذریعے نشانہ بنائے جا رہے ہیں، عدالتی کارروائیوں کی سست رفتاری انصاف اور قانون کی بالادستی پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی ہے۔ بلڈوزنگ کے خلاف سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود مختلف ریاستی حکومتیں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر منصفانہ انہدامات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو پوری قوت سے دبایا جا رہا ہے۔ یہ اجلاس اس صورتحال کو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھتا ہے اور آگاہ کرتا ہے کہ اگر نفرت کے اس طوفان کو روکا نہ گیا تو یہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
یہ اجلاس نئے وقف بل کو مسترد کرتا ہے۔ یہ پہلو خوش آئند ہے کہ مسلمانوں نے وقف بل کی خامیوں اور اس سے ہونے والے بڑے نقصانات کو عوام پر اچھی طرح واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ جماعت نے بھی پوری وضاحت کے ساتھ جے پی سی (JPC) کے سامنے اپنا موقف رکھا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس بل کو عوامی خواہشات کا خیال رکھتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا جائے۔ یہ اجلاس اس مطالبے کی پرزور تائید کرتا ہے۔
یہ بات باعث مسرت ہے کہ وطن عزیز میں کئی حق پسند اور انصاف کے علم بردار افراد مظلوموں کے حق میں کھڑے ہیں، اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ افراد اپنی جان و مال کو جوکھم میں ڈال کر حق کی حمایت کر رہے ہیں، جن میں کئی خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انسانیت کا جوہر اور ہمارے ملک کا عظیم سرمایہ ہیں۔ یہ اجلاس ان سب حامیان حق اور ان کی جدو جہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ برادران وطن سے اور ان کے با اثر افراد سے ہر سطح پر اپنے روابط اور تعلقات کو مستحکم اور وسیع کرنے اور باہمی اعتماد، محبت اور تعاون کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں کو مزید تیز کریں۔
مسلمانانِ ہند کو یہ اجلاس یاد دہانی کرانا چاہتا ہے کہ ان حالات میں ان کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنے دین پر ثابت قدم رہیں، خدا پر بھروسا رکھیں اور مایوسی کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔ اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی پیدا کریں اور انفرادی و اجتماعی طور پر دین اسلام کی صحیح ترجمانی کریں۔عدل و قسط کے قیام کی کوشش کریں اور کمزور اور مظلوم طبقات کے حقوق اور ان کی انسانی عظمت کے لیے جدوجہد کریں کہ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے۔ لہٰذا اس فریضے کی ادائیگی پر توجہ دیں۔ شر پسندوں کی اشتعال انگیز حرکتوں پر منفی رد عمل کا شکار ہونے کے بجائے حوصلہ و ہمت اور داعیانہ اخلاق و کردار کے ساتھ حالات کو بدلنے کی کوشش کریں اور سماجی، سیاسی اور عدالتی میدانوں میں منصوبہ بند کوشش کرتے رہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان حالات میں بھی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور اس امر کویقینی بنائیں کہ یہ وقتی حالات انہیں ان کے اصل مقصد اور ذمہ داریوں سے غافل نہ کر دیں۔
یہ اجلاس مسلمانان ہند کو اس اہم فریضے کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پروپیگندے کو روکنے کے لیے وہ بڑے پیمانے پر برادران وطن تک اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں صحیح اور مستند معلومات پہنچائیں اور رائے عامہ کو مثبت رخ پر ڈالنے کی منصوبہ بند جدوجہد کریں۔
ارکان جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس یہ محسوس کرتا ہے کہ ہمارے ملک کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے بے شمار مواقع دستیا ب ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی، نوجوانوں کی فعال افرادی قوت، سائنس و ٹیکنالوجی خصوصاً انفارمیشن و کمیونکیشن ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی، جمہوری اور فلاحی ریاست کا واضح تصور دینے والا دستور، مختلف تہذیبوں، زبانوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی موجودگی اور ان کے درمیان صدیوں سے خوش گوار تعلقات، یہ سب وہ مواقع ہیں جو ملک عزیز کے لیے قیمتی اثاثوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں متعدد ایسے مہلک رجحانات پیدا ہوگئے ہیں جو ہمارے پیروں کی بیڑیاں بن چکے ہیں۔
اجلاس کا احساس ہے کہ فرقہ وارانہ جارحیت، نسل پرستی، تعصب، ظلم و استحصال اور کرپشن نے ملک کی پر امن فضا کو مکدر بنا دیا ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کے سبب معاشی نا برابری بڑھتی جا رہی ہے اور ملک کی دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ عوام کی اکثریت غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے۔ ملک کے آئینی ادارے زوال پذیر ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ جمہوری قدریں مٹتی جارہی ہیں جس کے نتیجے میں مطلق العنانی اور خود مختارانہ طرز حکم رانی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ میڈیا اور تعلیمی نظام بھی انتہا پسند فرقہ واریت کی زد میں ہیں، جن سے عوام میں تعصبات فروغ پا رہے ہیں اور ذہنی و علمی ارتقا میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ اجلاس تمام باشندگانِ ملک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ سماج میں نفرت کے ایجنڈے کو روکنے کی متحدہ کوششیں کریں اور معاشرے میں تقسیم اور پولرائزیشن (Polarization) کو ختم کرنے کے لیے متحد ہوں۔ ظلم و استحصال، ناانصافی و کرپشن اور بد اخلاقی کا طوفان، اس ملک کے اصل مسائل ہیں۔ اجلاس اہل ملک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ذات پات اور فرقہ ومذہب کی بنیادوں پر انہیں تقسیم کرنے کی کوششوں کو ناکام بناکر ان حقیقی مسائل کے حل کے لیے متحدہ جدوجہد کریں۔ دوسری جانب ملک میں اخلاقی بحران ایک سنگین صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں بچا جہاں خواتین کی عزت و عصمت محفوظ ہو۔ مجرموں کو شاذ و نادر ہی سزا ملتی ہے، یہ طرزِ عمل نہ صرف انصاف کی توہین ہے بلکہ دوسرے مجرموں اور بدعنوان عناصر کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی بن رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرہ بدترین اخلاقی پستی کا شکار ہوتا جا رہا ہے جہاں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا کے بجائے عزت بخشی جا رہی ہے جو ہمارے لیے تشویش ناک امر ہے اور ملک کی مجموعی اخلاقی و معاشرتی صورت حال پر گہرے منفی اثرات ڈال رہا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس اس سنگین صورت حال کو ملک کی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک سمجھتا ہے اور حکومت کے سربراہوں اور قانون کے محافظوں سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات اور تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں، آئینی اداروں کی بقا اور ملک میں امن و انصاف کی فضا بحال کرنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔ یہ اجلاس مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ قانون کی بالادستی کو قائم کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری ایمان داری سے ادا کریں۔ سماج میں نفرت پھیلانے اور بد امنی پیدا کرنے والے، چاہے جتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہوں، ان پر فوری اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے ۔
ارکان جماعت کے اس اجلاس کو اس بات پر بڑی تشویش ہے کہ گزشتہ سال غزہ سے شروع ہونے والی جنگ اب لبنان اور ایران تک پھیل چکی ہے، اور اس پورے خطے پر جنگ کے مہیب بادل منڈلا رہے ہیں۔ یہ اجلاس اسرائیل اور اس کی پشت پناہ طاقتوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔ فلسطین میں جاری وحشیانہ نسل کشی بلا شبہ حالیہ تاریخ میں انسانیت کے خلاف سب سے سنگین اور بدترین جرم ہے۔ اجلاسں خبردار کرتا ہے کہ ظلم و ستم کا انجام ہمیشہ رسوائی اور شکست ہوتا ہے۔ اس وحشت و بربریت کے خلاف فلسطین اور خصوصاٌ غزہ کے بہادر عوام نے جس شجاعت اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، اجلاس اسے خوش آئند سمجھتا ہے۔ ان کے حوصلے نے نہ صرف امتِ مسلمہ بلکہ دنیا بھر میں انصاف پسند افراد اور اداروں کو متوجہ کیا ہے اور عالمی رائے عامہ میں ایک مثبت تبدیلی پیدا کی ہے جس کا ایک اہم مظہر عالمی عدالت انصاف کا وہ تاریخی فیصلہ ہے جس میں اس نے اسرائیل کو غاصب اور نسل پرست ریاست قرار دیا ہے اور جس کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اکثریت نے بھی حمایت کی ہے۔ اجلاس فلسطین کے عوام کو اس استقامت اور حوصلے کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہے اور ان کی کام یابی کے لیے دعا کرتا ہے۔
اجلاس اہل ملک اور سربراہان ملک کو یہ یاد دلانا چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کے جائز حقوق کی حمایت بھارت کا تاریخی موقف رہا ہے۔ یہ موقف دستور ہند کی رہنمائی کے مطابق اور ان اصولوں سے ہم آہنگ رہا ہے جو ہماری جدوجہد آزادی کی اساس رہے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس حکومت ہند سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انصاف کا ساتھ دیتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت میں پہلے سے زیادہ طاقت سے آواز اٹھائے اور غزہ میں جاری نسل کشی کو ختم کرنے میں فعال کردار ادا کرے۔ اجلاس یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل کی فوجی مدد اور اسے ہتھیاروں کی فروخت ہمارے دیرینہ استعمار مخالف موقف کی صریح خلاف ورزی ہے اس لیے اسے فوری روکا جائے۔
پچھلے تین برسوں سے جاری روس-یوکرین جنگ اور وسط ایشیا کی حالیہ کشیدگی سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ جنگیں محض سیاسی نہیں بلکہ معاشی مفادات سے جڑی ہوئی ہیں۔ اسلحہ ساز کمپنیاں اپنے مفادات کے لیے حکومتوں کی خارجہ پالیسیوں پر اثر اندازی کے ذریعے جنگوں کو ہوا دے رہی ہیں۔ یہ صورتحال عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
یہ اجلاس بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں سے پر زور اپیل کرتا ہے کہ وہ سیاسی و معاشی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر نسل انسانی اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں، جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لاکر انہیں سزائیں دیں اور عالمی سطح پر قیام امن و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس مسلم ممالک کے حکم رانوں سے بطور خاص اپیل کرتا ہے کہ وہ اسلامی اخوت اور آخرت کے محاسبے کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کی عملی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ ان کی انسانی اور دینی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں مظلوم اقوام کے حق میں آواز بلند کریں اور ظالموں کے خلاف عالمی رائے عامہ کو بیدار کریں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024