‘جہاں نور ہی نور تھا ’

معصوم مرادآبادی کا سفر نامہ حج۔ ایک تعارف

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

’’جہاں نورہی نور تھا‘‘ ظاہر ہے کہ وہ جگہ حرمین شریفین کے سوا اور کوئی دوسری نہیں ہوسکتی۔بیہ معصوم مرادآبادی کا سفر نامہ حرمین ہے۔ یہ ایک ایسا سفر نامہ ہے جس میں ایک صحافی کے مشاہدات اور ایک ادیب کے جذبات دونوں بہم ہو گئے ہیں۔ جس میں ہوش بھی ہے اور جوش بھی ہے۔ کبھی دل کے ساتھ پاسبان عقل ہے اور کبھی دل کو جنون شوق اور جذبہ عشق میں بہنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔
دنیا کا کوئی سفرنامہ اتنے ذوق و شوق اور اتنی عقیدت و محبت اور اتنے و جد و حال کے ساتھ نہیں لکھا گیا ہے جتنے حج کے سفر نامے لکھے گئے ہیں۔ دنیا میں سیر وسیاحت کے بہت سے مقامات ہیں، گل و گلزار سے بھرے ہوئے چمن ہیں، سمندروں کے ساحل ہیں، کوہسار و مرغزار ہیں، سبزہ زار اور آبشار ہیں‘ ایسے شہر ہیں جہاں تہذیب جدید کے نگوں کی ریزہ کاری ہے اور اہل سیم و زر ان شہروں اور سیاحتی مرکزوں کا رخ بھی کرتے ہیں لیکن خریطہ عالم پر حرمین شریفین کے سوا ایسا کوئی مقام نہیں جہاں لوگ محبت اور شوق سے اس قدر لبریز دل کے ساتھ سفر کرتے ہوں، حالانکہ وہاں سبزی اور روئیدگی کا نام ونشان نہیں، بے آب و گیاہ صحراء اور اسے وادی غیر ذی زرع کہا گیاہے۔ مکہ اور مدینہ میں ایسی کوئی کشش کا سامان نہیں جو سیاحتی مقامات میں ہوتی ہے لیکن وہاں لوگ شوق کے پروں پر سفر کرتے ہیں ‘قدم قدم پر آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، جہاں کا ہر ذرہ ہیرا نظر آتا ہے، جہاں کے گرم موسم کی بدن سوز ہوائیں بھی باد بہاری سے بڑھ کر خوش گوار محسوس ہوتی ہیں۔ دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے کہ جب اس کا آخری وقت آئے تو وہ اپنے وطن اور اپنے اہل وعیال کے درمیان ہو لیکن یہ استثناء صرف سر زمین حجاز کو حاصل ہے کہ لوگ وہاں مرنا اور جان دینا اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں اور مدینہ منورہ میں آخری سانس لینا تو ہر شخص کے شوق کی معراج ہے۔ چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے
تمنا ہے درختوں پر ترے روضے کے جا بیٹھے
قفس جس وقت ٹوٹے طائر روح مقید کا
آج سے چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی نے ان کی فدویت اور عبدیت کو قبول کرکے یہ حکم دیا تھا: وأذن فی الناس بالحج، حج کے اسی اعلان کی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچتی ہے اور اللہ کے بندے اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے آشفتہ سر، برہنہ سر اور تقریبا برہنہ قدم (جوتوں کی اجازت نہیں ہے) کفن بردوش اس سرزمین تک پہنچتے ہیں جو کوکبہ شہر یار یعنی حضرت ابراہیمؑ اور ان کی اہل کے قدموں سے پامال اور مالا مال ہوئی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ نے خدائے واحد کی عبادت کے لیے گھر بنایا تھا ‘ہمیں اس گھر کاطواف کرنا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی زوجۂ محترمہ پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ رہی تھیں‘ ہمیں بھی سعی کرنی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے شیطان پر کنکری پھیکی تھی‘ ہر حاجی کو یہی کرنا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے قربانی کے حکم پر سر تسلیم خم کر دیا تھا اور اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ بیٹے کی جگہ پر اللہ کے حکم سے جانور رکھ دیا گیا تھا۔ اب ہر حاجی کو جانور کی قربانی کرنی ہوتی ہے اور اس کی نقل میں اب ساری دنیا کے مسلمان قربانی کی ابراہیمی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ یہ عشق کی دنیا ہے یہاں پاسبان عقل کو چھوڑ کر آنا ہوتا ہے۔ سچ پوچھیے تو یہاں عشق ہی عقل کامل کی کسوٹی ہے اور عشق نہ ہو تو شرع و دین بت کدہ تصورات سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ یہاں خدا کی بات ماننی ہے‘ چاہے انسان کی عقل ناقص میں سمجھ آئے یا نہ آئے اور خدا کے چہیتے کے نقش قدم پر چلنا ہے‘ خواہ یہ سب کچھ عجیب ساکیوں نہ لگے۔ خدا کے یہاں محبوبیت کا درجہ پانے کے لیے وہی کرنا ہے جو خدا کے محبوب نے کیا تھا، اسی کی نقل کرنی ہے، اسی کے نقش قدم چلنا ہے۔ اگر کسی کی عقل اس کا ساتھ نہیں دیتی اور وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ بہت عقل والا ہے اور اس عاشقانہ عمل کے لیے تیار نہیں ہے تو نکل جائے اس حرم سے کہ اس کا شمار زمرہ ابلیس میں ہے جس نے اپنی عقل خام کو رہنما بنایا تھا اور اللہ کے حضور یہ کہا تھا کہ میں تو آتشیں وجود ہوں، میں آب وگِل کے بنے ہوئے آدم کو سجدہ کیسے کرسکتا ہوں؟ پھر ابلیس کو راندہ درگاہ کر دیا گیا۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری عقل خام بھی ہمیں راندہ درگاہ بنا دے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اطاعت اور فرماں برداری کا اعلیٰ ترین اور کامل ترین نمونہ پیش کیا تھا‘ اس کی وجہ سے اللہ تعالی نے اپنے اس بندے کے ہر نقش کو جاوداں کر دیا اور اس طرح یہ سمجھا دیا کہ فرماں برداری ہی کا نام اسلام ہے۔
حج کا سفر ایک عاشقانہ سفر ہوتا ہے۔ اس سفر نامہ میں معصوم مرادآبادی نے اپنے عاشقانہ شوق و ذوق کے جذبات کو بہت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے اور ایسے تمام مقامات پر وہ صحافی سے زیادہ قادر الکلام ادیب نظر آتے ہیں۔ ان کے دل کی ولولہ انگیزی، انشاء پردازانہ اسلوب سے بدل جاتی ہے۔ ان کے جملے ان کی دل کی دھرکنوں کے آئینہ دار بن جاتے ہیں۔ سفرنامہ کی ابتداء ڈرامائی انداز میں ہوتی ہے اور یہیں سے ان کے شوق و ذوق کا جام چھلکنے لگتا ہے۔
چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’خواتین وحضرات! ہم کچھ ہی دیر میں مدینہ منورہ کے محمد بن عبدالعزیز ایئر پورٹ پر اترنے والے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اپنی سیٹ بیلٹ باندھے رکھیں اور اس وقت تک اپنی نشست سے اٹھنے کی کوشش نہ کریں جب تک جہاز پوری طرح رک نہ جائے‘‘ بظاہر یہ ایک عام سا اعلان تھا جو ہر جہاز کی لینڈنگ کے وقت کیا جاتا ہے لیکن سعودی ایرلائنز کے عملہ کو نہیں معلوم تھا کہ وہ اعلان جو مسافروں کی سہولت اور تحفظ کو نظر میں رکھ کر کیا گیاہے ‘اس کے لیے درد سر ثابت ہوگا۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی کو مدینہ منورہ پہنچنے کی نوید سنا رہے ہوں اور وہ اس کو سننے کے بعد سکون اور اطمینان سے بیٹھا رہے۔ جس کے دل میں مدینہ کی عظمت اور عشق محمدی کا جوش ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور جس نے ساری عمر اسی تمنا میں گزاری ہو کہ ایک دن وہ اپنی جاگتی آنکھوں سے وہ منظر دیکھے گا جو اب تک اس کے خواب و خیال کا حصہ تھا تو وہ اپنے آپ کو قابو میں کیسے رکھ سکتا ہے۔
لہٰذا اس اعلان کے بعد پورے جہاز میں ہلچل مچ گئی اور تمام مسافر جلد از جلد مدینہ منورہ کو دیکھنے، گنبد خضرا کا دیدار کرنے، مسجد نبوی میں سجدہ ریز ہونے اور مدینہ کی بھینی بھینی خوشبو دار ہواؤں سے لطف اندوز ہونے کے لیے بے چین ہو اٹھے۔
’’ یہ گنہ گار جس نے اب تک دنیا کی آسائشوں اور رنگینیوں کا ہی نظارہ کیا تھا آج اس مقدس اور مامون سر زمین پر قدم رکھ رہا ہے جسے خدا نے مرکز امن و امان بنایا اور جہاں رات دن اس کی بے پایاں رحمتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے، جہاں ہم جیسے گناہ گار اور سیاہ دل لوگوں کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔ جہاں خدا کے سب سے محبوب اور اول آخر پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی آخری آرام گاہ ہے اور جو خدا اور اس کے محبوب کا آخری شہر ہے۔
’’ہم ہوٹل میں وضو کرکے حرم نبوی کی طرف چل پڑے اس وقت کی کیفیت نا قابل بیان ہے۔ جس کی طلب اور تڑپ میں کتنے دن اور راتیں گزاری تھیں‘ اب وہ منزل نگاہوں کے سامنے آنے والی تھی۔ لیجیے وہ منزل عقیدت آبھی گئی۔ پہلی نظر مسجد نبوی کے بلند و بالا مینار پر پڑی تو آنکھیں چھلک گئیں۔ رات کی تاریکی میں طاقتور سرچ لائیٹ کی مدد سے میناروں پر ایسی رونق اور نور بکھرا ہوا تھا کہ اس سے نظریں ہٹا نے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔جوں جوں ہم مسجد نبوی کے قریب پہنچ رہے تھے ‘ہماری قلبی کیفیت پر بہار آرہی تھی‘‘۔
’’ہماری تو بساط ہی کیا ہے، بڑے بڑے علمائے دین،متقی پرہیزگار اور خدا رسیدہ بزرگ یہاں آکر خود کو اس تنکے سے بھی کمتر محسوس کرتے ہیں جسے ہوا کا ایک جھونکا آن واحد میں اڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ دربار ہی ایسا ہے۔ اللہ کے پیارے نبی کی آخری آرام گاہ پر پہنچ کر اہل ایمان کے جذبات و احساسات پر جو بہار آتی ہے وہ بیان ہی نہیں کی جاسکتی‘‘۔
’’آج مدینہ منورہ میں ہمارے قیام کا آخری دن ہے۔ ہم نے تمام دن مسجد نبوی ہی میں گزارنے کو ترجیح دی اور نماز عشاء کے بعد تصور کی غم ناک آنکھوں سے گنبد خضرا کو بوسہ دیا اور پھر درود وسلام پیش کیا۔ یہ سوچ کر کہ اب زندگی میں نہ جانے کب روضہ اطہر کے دیدار ہوں اور نہ جانے کب مسجد نبوی میں دوبارہ سجدہ ریز ہونے کا موقع ملے۔ جسم پر کپکپی سی طاری ہوگئی۔ دل و دماغ پر عجیب کیفیت گزری اور وہ جذبات و احساسات جو اب تک لطف ومسرت سے لبریز تھے یکایک افسردگی میں تبدیل ہونے لگے۔ مگر کیا کریں یہ ہمارے بس میں کہاں تھا۔ اگر حالات اجازت دیں تو وہ کون مسلمان ہوگا جو مدینہ منورہ میں قیام کو ترجیح نہ دے یا اس مقدس سر زمین کا پیوند نہ ہونا چاہے‘‘ ۔
حج کے سفر ناموں میں بعض سفر نامے تو وہ ہوتے ہیں جن میں واقعات اور مشاہدات کا بیان ہوتا ہے اور بعض وہ ہوتے ہیں جن میں حج اور عمرہ کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں اور ہر موقع کی دعائیں لکھی جاتی ہیں۔ ایسے سفر ناموں کو ہم حج اور عمرہ کی گائیڈ بک بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اچھے سفر نامے وہ ہوتے ہیں جس میں قدم قدم پر قلب کی کیفیات اور واردات کا بیان ہوتا ہے اور قلب کی کیفیات اچھے الفاظ اور عبارتوں میں ڈھل کر پڑھنے والوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ایسے سفر نامے’ از دل خیزد بر دل ریزد‘ کا مصداق ہوتے ہیں کیونکہ:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
حج چونکہ ایک عاشقانہ عبادت ہے‘ اس لیے اگر عشق کی گرمی نہ ہو تو سفر اور سفرنامہ دونوں میں کوئی جان نہیں ہوتی۔ ’’جہاں نور ہی نور تھا‘‘ ایک جان دار سفرنامہ ہے اور حج کے سفر ناموں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔معصوم مرادآبادی کو لوگ ایک اچھے صحافی کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ ملک کے متعدد اخباروں میں ان کے فکر انگیزنمضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جن سے وہ شائستہ ذوق قارئین کے درمیان مقبول بھی ہیں لیکن، بتا دیں کہ اسی کے ساتھ وہ ایک کامیاب مصنف اور بہترین ادیب بھی ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ تصنیف لطیف بھی جس میں اسلوب کی دلکشی جلوہ گر ہے شوق وذوق کے ہاتھوں لی جائے گی۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
9810780563
***

 

***

 ’’ہماری تو بساط ہی کیا ہے، بڑے بڑے علمائے دین،متقی پرہیزگار اور خدا رسیدہ بزرگ یہاں آکر خود کو اس تنکے سے بھی کمتر محسوس کرتے ہیں جسے ہوا کا ایک جھونکا آن واحد میں اڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ دربار ہی ایسا ہے۔ اللہ کے پیارے نبی کی آخری آرام گاہ پر پہنچ کر اہل ایمان کے جذبات و احساسات پر جو بہار آتی ہے وہ بیان ہی نہیں کی جاسکتی‘‘۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024