جہانِ نو ہورہا ہے پیدا جہانِ پیر مررہا ہے

ٹرمپ اور زیلنسکی کی تکرار: عالمی منظر نامے میں تبدیلی کے آثار

0

ڈاکٹر سلیم خان

ناٹو کا خاتمہ اور عالمی سیاست پر تیزی سے بدلتے اشاریے۔ نئے مستقبل کی آہٹ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے یوکرین جیسے دوست ملک کے سربراہ کو روس جیسے دشمن کی ناز برداری کی خاطر ذلیل کر دینے سے ساری دنیا ششدر رہ گئی ہے۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی قصرِ ابیض میں ٹیلی ویژن کیمرے کے سامنے رسوائی ایک ایسا افسوس ناک واقعہ ہے جس کا تصور بھی محال تھا۔ عالمی رہنماوں کے درمیان اختلافات فطری ہیں۔ ان کی گفتگو میں گرما گرمی بھی ہوجاتی ہے لیکن وہ سب بند دروازوں میں ہوتا ہے۔ عوام کے سامنے انہیں ظاہر نہیں ہونے دیا جاتا۔ زیلنسکی کا اوول دفتر سے نکال دیا جانا امریکہ کے نیٹو سے نکل جانے جیسا ہے۔ عالمی سیاست پر اس کے ویسے ہی اثرات پڑیں گے جیسے خلافتِ عثمانیہ سے ترکی کے دستبردار ہو جانے سے پڑے تھے۔ وہ مسلمانوں کی مغلوبیت کا آغاز تھا اور یہ مغرب کے زوال کی ابتدا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ چین جیسا طاقتور حریف امریکی برتری کو چیلنج کر رہا ہے، امریکہ کو یوروپی حمایت کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ ٹرمپ نے سنسکرت کے محاورہ ’وناش کالے ویپریت بدھی‘ کی مصداق خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے۔
پچھلے دو ہفتوں کے اندر نیٹو میں شامل ممالک کو دو جھٹکے لگے اور دونوں کا مرکز و محور یوکرین-روس تنازعہ تھا۔ پہلے تو یوکرین کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور حفاظتی کونسل میں دو متضاد قراردادیں منظور ہوئیں جن میں اس اتحاد کے ممالک مخالف سمتوں میں نظر آئے۔ جنرل اسمبلی میں یوروپی ممالک کے ذریعہ پیش کردہ قرارداد میں روس کو حملہ آور بتایا گیا تو امریکہ اس کی مخالفت میں جارحیت کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ اقوام متحدہ میں یوکرین کی علاقائی وحدت کی حمایت کے لیے قرارداد پر ووٹنگ ہوئی تو اس کے حق میں 93 ووٹ آئے جبکہ 16 ممالک نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا اور 65 غیر جانب دار بن گئے۔ پہلے مرحلے میں امریکہ بھی ماسکو کے ساتھ قرارداد کا مخالف تھا۔ اس کو راضی کرنے کے لیے ترمیم شدہ متن لایا گیا تب بھی امریکہ نے اس کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کیا۔ اس کے بعد جب حفاظتی کونسل میں امریکہ نے تجویز پیش کی تو اس کے متن سے علاقائی وحدت کے الفاظ مٹا دیے گئے۔ یوروپی ممالک نے اس کی حمایت نہیں کی اور دس کے مقابلے میں صفر سے وہ قرار داد بھی منظور ہوگئی۔ اس طرح مغربی ممالک کی پھوٹ کھل کر سامنے آگئی۔
اقوام متحدہ میں جس روز یہ تماشا چل رہا تھا فرانس کے صدر ایمینوئل میکروں امریکہ میں تھے۔ صدر ٹرمپ نے جب ان پر دھونس جمانے کی کوشش کی تو بات بگڑنے لگی۔ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ یوروپ نے یوکرین کے معاملے میں اپنی ذمہ داری نہیں ادا کی۔ اس الزام کی تردید کرتے ہوئے میکروں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں ٹوکا اور کہا کہ جناب، یہ بات غلط ہے۔ یوروپ نے جنگ کا 65 فیصد خرچ اٹھایا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی اس ذلت کا بدلہ میکروں سے تو نہیں لے سکے البتہ زیلنسکی جیسے کمزور سربراہ کو دبانے کی کوشش کی۔ اس پر روس کے علاوہ دنیا کے سارے رہنما یوکرین کی حمایت میں آگئے۔ روس کے سابق صدر دیمتری میدودوف نےخوش ہوکر کہا کہ امریکی صدر نے زیلنسکی کو زور دار تھپڑ مارا ہے، ان کے سامنے یہ سچ بولا گیا ہے کہ وہ تیسری عالمی جنگ چاہتے ہیں۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے زیلنسکی کو نیو نازی رہنما قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے واشنگٹن میں قیام کے دوران اپنے غضب ناک رویے سے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ایک غیر ذمہ دار جنگجو کے طور پر عالمی برادری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ ایک یہودی رہنما کے لیے نازی کے لقب سے بڑی گالی کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ اور وینس کا تصادم کے دوران زیلنسکی کو مارنے سے خود کو روکنا ایک معجزہ ہے حالانکہ امریکہ کے ذریعہ روس کی ایسی زبردست حمایت کسی کرامت سے کم نہیں ہے۔
روس کا اس نعمتِ غیر مترقبہ پر پھولے نہیں سمانا تو خیر فطری ہے لیکن صدر ٹرمپ اور ان کے یوکرینی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان تکرار نے مؤخر الذکر کو اچانک زیرو سے ہیرو بنا دیا۔ زیلنسکی نے اپنی جرأتمندی سے نہ صرف وائٹ ہاوس کو فائٹ ہاوس میں تبدیل کر دیا بلکہ بیک وقت ٹرمپ اور وینس کو گھر میں گھس کر مارا۔ ٹرمپ نے جب اپنی شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ بیوقوف بائیڈن نے تمہیں کئی بلین ڈالر دیے تو جواب میں زیلنسکی نے کہہ دیا کہ وہ آپ کا صدر تھا۔ یعنی اگر تم اپنے صدر کی عزت نہیں کرتے تو کسی اور کی کیا کرو گے؟ اسی طرح جب دونوں صدور کی بات چیت کے دوران وینس نے مداخلت کر کے ٹرمپ کا موقف سمجھانے کی کوشش اور ان کے ملک کی بربادی کا بے سرا راگ الاپا تو زیلنسکی نے ان سے سوال کر دیا کہ کیا آپ کبھی یوکرین آئے ہیں؟ اس پر وینس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ انہوں نے کہا میں یوکرین گیا تو نہیں ہوں مگر میں نے رپورٹس دیکھی ہیں۔ اس پر زیلنسکی کا کہنا تھا ایک بار آکر دیکھیے۔ گویا کہہ رہے ہوں کہ ہوا میں تیر مت چلائیں، بولنے سے پہلے دیکھیے پھر بولیے۔
سچ تو یہ ہے کہ زیلنسکی نے دونوں بڑے میاں اور چھوٹے میاں کو چاروں خانے چِت کر دیا۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے دنیا کو بتانے کے لیے کہ وہ کس قدر دلیر ہیں اور اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے کہ وہ کیسے اپنے مد مقابل کو رسوا کرتے ہیں یہ تماشا ٹیلیویژن کیمرے کے سامنے کیا لیکن داؤ الٹا پڑگیا۔ یہ سب اگر بند کمرے میں ہوتا اور کوئی گھر کا بھیدی اس راز کو فاش کرتا تو کسی کو یقین نہیں آتا مگر اپنے آپ کو رسوا کرنے کا انتظام خود ٹرمپ نے کروایا، اوپر سے یہ احمقانہ دعویٰ بھی کر دیا کہ وہ ایک اچھا ٹی وی شو ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ ’حقیقی بگ باس شو‘ بہت دلچسپ تھا مگر اس میں سے زیلنسکی نام کا سابق کامیڈین ہیرو بن کر باہر آیا اور اپنے آپ کو رستم زماں سمجھنے والا ٹرمپ ویلن بن گیا۔ نائب صدر وینس کی حالت ایک ایسے کامیڈین کی ہو گئی جس کی اداکاری پر ہنسی کے بجائے رونا آتا ہے۔ ساری دنیا کے سامنے ٹرمپ اور وینس کی احمق جوڑی نے امریکہ کو ذلیل کر دیا اور وہ خود امریکہ کے اندر بھی تنقید کا نشانہ بن گئے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ اوول کے آفس میں لفظی جنگ کے بعد یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے شکریہ تو ادا کیا مگر معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا چونکہ انہوں نے کوئی غلطی کی ہی نہیں اس لیے وہ کسی قسم کی معافی نہیں مانگیں گے۔ ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ امریکی صدر اور ان کے عوام کا احترام کرتے ہیں، امریکہ اور یورپ ہمارے دوست، روس اور پوتن ہمارے دشمن ہیں۔ یعنی امریکہ سے مرعوب ہوئے بغیر روس کے تعلق سے انہوں نے اپنے غیر متزلزل موقف کو پیش کردیا۔ یہ یوکرینی عوام کے دل کی آواز ہے۔ زیلنسکی یوکرین کے لیے امریکی حمایت کو اہم قرار دیتے ہیں مگر حفاظتی ضمانتوں کے بغیر امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جبکہ، ٹرمپ فوری جنگ بندی پر اصرار کر رہے تھے۔ زیلنسکی کے لیے یہ تجویز اس لیے ناقابلِ قبول تھی کیونکہ ان کے مطابق پچھلے گیارہ سالوں میں پوتن پچیس بار وعدہ خلافی کر چکے ہیں۔
ٹرمپ کا سارا زور اس بات پر تھا چونکہ زیلنسکی جنگ ہار رہے ہیں اس لیے انہیں سِپر ڈال دینا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ثابت کرتے کہ روس حق پر ہے اور زیلنسکی ناحق لڑ رہے ہیں۔ بصورتِ دیگر ان کو کہنا چاہیے تھا حالانکہ تم ہار رہے ہو مگر ہم تمہارے ساتھ ہیں اس لیے اپنے حق کے لیے لڑتے رہو۔ ٹرمپ کا یہ بزدلانہ موقف کسی سُپر پاور کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا تھا۔ ٹرمپ بھول گئے کہ بلی کو اگر دروزہ بند کرکے مارا جائے تو وہ پلٹ کر جھپٹ پڑتی ہے۔ زیلنسکی نے یہی کیا اور وہ اپنے عوام کی نظروں میں شیر بن گئے۔ زیلنسکی کی مدت کار پچھلے سال ختم ہو گئی مگر انہوں نے جنگ کے بہانے مارشل لا لگا کر انتخابات ملتوی کر دیے۔ اسی لیے ٹرمپ نے ان کو نااہل اور آمر قرار دے کر استعفیٰ دینے کے لیے کہہ دیا تھا۔ ٹرمپ کے مطابق زیلنسکی کی مقبولیت میں چار فیصد کمی آگئی ہے۔ اس لیے انہیں نئے الیکشن کی طرف جانا چاہیے۔ اس دخل اندازی پر اعتراض کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا تھا ‘یہ اعداد و شمار ٹرمپ کو روس نے فراہم کیے ہیں۔’
روس پچھلے سال مئی سے یوکرین میں نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہا ہے مگر اب اسے امریکہ کے اعلیٰ ترین سطح سے غیر متوقع تائید مل گئی۔ ویسے تازہ سروے میں 57 فیصد نے زیلنسکی کی حمایت کی اور 37 فیصد نے ان کے خلاف رائے دی ہے۔ لیکن ٹرمپ کی حماقت کے بدولت ان کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ہوگا اور وہ بڑے آرام سے الیکشن جیت جائیں گے۔ ٹرمپ نے زیلنسکی کو نقصان پہنچانے کے چکر میں ان کا فائدہ کر دیا۔ فی الحال ہنگری اور سلواکیہ کے علاوہ جو جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعہ امن کے خواہاں ہیں پورا یوروپ زیلنسکی کے ساتھ کھڑا ہے۔ عالمی و یورپی رہنماؤں نے یوکرینی صدر کی حمایت میں بیانات جاری کرتے ہوئے ان کی حمایت کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ سے خار کھائے بیٹھے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے لے کر برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر تک اور یورپی یونین کے سربراہوں میں ارسولا وان ڈیرلیین، انتونیو کوسٹا یا بلاک کے اعلیٰ سفارت کار کاجا کالس تک سب ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں، جرمن رہنما اور ممکنہ چانسلر فریڈرش مارس، سبکدوش ہونے والے چانسلر اولاف شولز، ہالینڈ کے وزیر اعظم ڈک شوف، پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونالڈ ٹسک اور ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز، یہاں تک کہ آسٹریلیا کے صدر نے بھی امریکہ کے بجائے یوکرین کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان سب نے یوکرین کے لیے غیر متزلزل حمایت کے ساتھ روس کو جارح قرار دیا ہے۔ بے چارے ہندوستان کی حالت قابلِ رحم ہے اور اس بابت وزیر اعلیٰ جئے شنکر نے جو کہا وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ دنیا کے دیگر رہنماوں نے اپنے منفرد انداز میں حمایت کا الگ الگ جواز پیش کیا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ زیلنسکی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ناروے کے وزیر اعظم یوناس گاہر اسٹوئرے بولے کہ آزادی کی جدوجہد میں ناروے یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے۔ فرانسیسی صدر میکروں نے یوکرینی اور امریکی ہم منصبوں کو ٹیلی فون کر کے کہا ہے کہ ہم سب کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔ یہ نصیحت دراصل ٹرمپ کے لیے تھی کیونکہ انہوں نے ادب و احترام کی ساری حدود و قیود کو پامال کیا تھا۔ نیٹو کے سربراہ مارک روٹے کا کہنا تھا کہ امریکہ، یوکرین اور یورپ کو یوکرین میں دیرپا قیام امن کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔مارک روٹے نے یوکرینی صدر سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنے پر زور دیا مگر پھر یوکرین کے لیے ایک بلین ڈالر کی مدد کا اعلان بھی کر دیا۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے واپسی میں ٹین ڈاوننگ اسٹریٹ میں برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر سے ملاقات کی ہے، اس موقع پر برطانوی وزیر اعظم نے یوکرین کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ان کا خیر مقدم کیا۔ برطانوی وزیراعظم نے انہیں گلے لگایا اور تھپکی بھی دی، یوکرینی صدر یورپی اتحادیوں کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے لندن پہنچے تھے۔ اس موقع پر زیلنسکی کی شاہ چارلس سوئم کے ساتھ بھی ملاقا ت ہوئی۔ اس اعزاز و اکرام کا کریڈٹ ٹرمپ کو جاتا ہے۔ وہ اگر بدسلوکی نہ کرتے تو رد عمل میں یہ سب نہ ہوتا۔ یوروپ اور برطانیہ کی غیر معمولی حمایت نے زیلنسکی کا موقف بدل دیا ہے۔ وہ اب معدنی ذخائر کا معاہدہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اخباری ترجمانوں سے صاف کہا کہ وہ بات چیت کرنے کے لیے گئے تھے لیکن کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جس سے یوکرین کی عوام کو کئی نسلوں تک پچھتانا پڑے۔ یوکرین کے تمام حامی ممالک اس پر متفق ہیں کہ یوکرین پر روس نے ایک مکمل اور بھرپور حملہ کیا تھا۔ نیز وہ سب یوکرین کی علاقائی وحدت کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
یوروپ اور امریکہ کے درمیان یہ بنیادی قسم کا اختلاف دراصل عالمی منظر نامے کی تیزی سے تبدیلی کا اشارہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945 میں قائم ہونے والا عالمی اتحاد ٹوٹنے کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف برطانیہ کے معروف جریدے اکنامسٹ نے تک کر لیا ہے۔ اس کے لیے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو موردِ الزام ٹھیراتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ وہ ایک نیا مافیا جیسا انداز اپنا کر عالمی برتری کے حصول کی دوڑ میں جٹ گئے ہیں۔ اس دوڑ میں شامل بڑی طاقتیں چھوٹے ممالک پر دباؤ ڈال کر سودے بازی کر رہی ہیں۔ یعنی وہی قدیم ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور پھر سے لوٹ کر آ رہا ہے۔ یہ کام چوری چھپے ہمیشہ سے جاری رہا مگر اقوام متحدہ میں امریکہ نے یوکرین اور یورپ کے مقابلے میں روس اور شمالی کوریا کا ساتھ دے کر دباؤ بنایا تاکہ معدنیات کا سودا ممکن ہوسکے۔ اس طرح امریکہ نے از خود اپنے چہرے سے نقاب نوچ کر پھینک دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے ممکنہ نئے چانسلر فریڈرک مرز نے جون تک نیٹو کے خاتمہ کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔
ٹرمپ امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کا نعرہ لگا کر وارد ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے پچھلے 80 سال سے امن قائم کرنے کے نام پر امریکہ کا استحصال ہوا ہے۔ اب ٹرمپ امریکہ کے مفاد میں سودے بازی کر کے اسے پھر سے سوپر پاور بنانا چاہتے ہیں۔ اس بابت ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح دنیا زیادہ خطر ناک ہو جائے گی اور امریکہ خود کمزور اور غریب ہو جائے گا۔ ٹرمپ نے 24 فروری کو فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ یوکرین پر بات چیت کے بعد کہا تھا کہ میری پوری زندگی ڈیلز کے گرد گھومتی ہے۔ سوداگری کا یہ انداز عالمی بساط پر تباہی مچا سکتا ہے اس لیے کہ روس اس کا فائدہ اٹھا کر اپنے اوپر سے پابندی اٹھوالے گا۔ امریکہ کے جرمنی اور آسٹریلیا میں موجود فوجی اڈے بند ہوجائیں گے۔ چین سنگا پور اور تائیوان میں اپنی برتری قائم کرلے گا۔ مشرق وسطیٰ میں اگر ایران اور سعودی عرب اسی طرح ساتھ رہیں تو وہاں سے امریکہ کا عمل دخل ختم ہوجائے گا۔ اس طرح امریکہ تو عظیم نہیں بن سکے گا لیکن یوروپ نے پچھلے 80 سالوں میں امریکہ کو ساتھ لے کر نیٹو کی مدد سے جو عالمی فتنہ و فساد برپا کر رکھا ہے اس پر لگام لگے گی۔ ایسے میں علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
جہانِ نو ہورہا ہے پیدا جہانِ پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا تھا قمار خانہ
***

 

***

 ٹرمپ امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کا نعرہ لگا کر وارد ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے پچھلے 80 سال سے امن قائم کرنے کے نام پر امریکہ کا استحصال ہوا ہے۔ اب ٹرمپ امریکہ کے مفاد میں سودے بازی کر کے اسے پھر سے سوپر پاور بنانا چاہتے ہیں۔ اس بابت ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح دنیا زیادہ خطر ناک ہو جائے گی اور امریکہ خود کمزور اور غریب ہو جائے گا۔ ٹرمپ نے 24 فروری کو فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ یوکرین پر بات چیت کے بعد کہا تھا کہ میری پوری زندگی ڈیلز کے گرد گھومتی ہے۔ سوداگری کا یہ انداز عالمی بساط پر تباہی مچا سکتا ہے اس لیے کہ روس اس کا فائدہ اٹھا کر اپنے اوپر سے پابندی اٹھوالے گا۔ امریکہ کے جرمنی اور آسٹریلیا میں موجود فوجی اڈے بند ہوجائیں گے۔ چین سنگا پور اور تائیوان میں اپنی برتری قائم کرلے گا۔ مشرق وسطیٰ میں اگر ایران اور سعودی عرب اسی طرح ساتھ رہیں تو وہاں سے امریکہ کا عمل دخل ختم ہوجائے گا۔ اس طرح امریکہ تو عظیم نہیں بن سکے گا لیکن یوروپ نے پچھلے 80 سالوں میں امریکہ کو ساتھ لے کر نیٹو کی مدد سے جو عالمی فتنہ و فساد برپا کر رکھا ہے اس پر لگام لگے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025