!جگن ناتھ یاترا سے کمبھ میلے تک بھگدڑ اور موت کا سایہ

کمبھ میں 37 نہیں، 82 اموات ہوئی تھیں۔ بی بی سی کی تحقیقی صحافت سے جھوٹ کا پردہ فاش

0

ڈاکٹر سلیم خان

بھارت کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بھگدڑ اور انتظامیہ کی لاپروائیوں پر بروقت جوابدہی طے کی جانی ضروری
اڈیشہ میں بھگدڑ کا سانحہ وزیر اعظم نریندر مودی کے پیغام کا منتظر تھا ۔ انہوں نے ایکس پر لکھا کہ ’’ جگن ناتھ کی رتھ یاترا کے موقع پر تمام ہم وطنوں کو میری نیک خواہشات، اور بھکتی کا یہ تہوار ہر ایک کی زندگی میں خوشی، امن، خوشحالی، خوش قسمتی اور اچھی صحت لائے۔ جے جگن ناتھ‘‘۔ اس پیغام کو پڑھ کر صوبے کے بی جے پی وزیر اعلیٰ موہن چرن ماجھی خوشی سے جھوم اٹھے اور بے فکر ہو گئے۔ بس پھر کیا تھا انتظامیہ گھوڑے بیچ کر سو گیا۔ چنانچہ جگناتھ رتھ یاترا کے دوران 29 جون 2025 کو بھگڈر کی وجہ سے کم از کم تین عقیدت مند ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ علی الصبح جگن ناتھ کا رتھ جب نندی گھوش مندر پہنچا تو وہاں موجود ہزاروں یاتریوں کی بھیڑ نے داخلے کے لیے دھکم پیلی شروع کی تو ناکافی پولیس کی موجودگی نے صورتحال کو مزید خراب کردیا۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ رتھ کے پہیوں میں کئی لوگ آکر کچلے گئے۔ کسی کو خواتین پر بھی رحم نہیں آیا کیونکہ بسنتی ساہو، پریماکانتی موہانتی اور پربھاتی داس تینوں بھی عورتیں ہیں۔
جگن ناتھ سانحہ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اڈیشہ کی ڈبل بلڈوزر بی جے پی سرکار نے اترپردیش کے کمبھ میلے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق رتھ یاترا کے وسیع تر انتظامات کی خاطر دس ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی سی سی ٹی وی کیمروں کے ساتھ تعینات کیا گیاتھا ۔ ان کے علاوہ نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (این ڈی آر ایف) کو بھی ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیےلایا گیا تھا لیکن وہ خاص خاص لوگوں کی خدمت میں لگے ہوئے تھے اور وہاں موجود دس لاکھ سے زائد یاتریوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس لیے ہجوم آپے سے باہر ہوگیا۔ یہ معاملہ اچانک رونما نہیں ہوا بلکہ دو دن قبل 27 جون 2025 کو یعنی رتھ یاترا کے پہلے ہی دن شدید گرمی اور ہجوم کے دباؤ کی وجہ سے تقریباً 750 ہاتری بیمار ہوگئے تھے۔انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ ان میں سے ایک کی حالت نازک بھی ہو گئی۔ اس صورتحال سے انتظامیہ نے تو کوئی درسِ عبرت نہیں لیا مگر لوگ ازخود اگلے دن دس سے بیس فیصد کم ہوگئے۔ اس کے باوجود 650 سے زائد یاتریوں نے صحت کے مسائل کی شکایت کی۔ ان میں سے ستر کو ہسپتال میں داخل کیا گیاجبکہ نو کی حالت نازک تھی ۔ یہ سب ہورہا تھا اور انتظامیہ کمبھ کرن کی نیند سورہا تھا۔ وہ اگر واقعی ٹھوس اقدامات کرتا تو شاید بھگدڑ نہیں مچتی ۔
جگن ناتھ یاترا کے دوران بھگدڑ کا یہ پہلا موقع نہیں ہے، پچھلے سال بھی ایک یاتری کی ہلاکت ہوئی تھی، جب کہ 2015 میں نبا کلیبر رتھ یاترا کے دوران دو خواتین ہلاک اور دس لوگ زخمی بھی ہوئے تھے لیکن سرکار اور انتظامیہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ دونوں پرانی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنی اصلاح کرنے کے بجائےذرائع ابلاغ کے ذریعہ معاملہ رفع دفع کردیتے ہیں اور میڈیا بھی بڑی سعادت مندی سے اجرت کی طلب میں یہ خدمت انجام دیتا ہے۔ ہندوستانی میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کو پچھلے دنوں امریکہ کے سب بڑے اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ میں آپریشن سندور سے متعلق ہندوستانی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر بے نقاب کر دیا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس کی گرد بیٹھتی برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) نے کمبھ میلے کے حوالے سے ایک تفتیشی رپورٹ شائع کرکے یوگی اور مودی کی ڈبل بلڈوزر سرکار کو بالکل برہنہ کردیا تھا۔ بھارت کا میڈیا خودتحقیق کرکے حقائق کو اجاگر کرنے کے بجائے سرکاری تلوے چاٹنے کواپنی سعادت سمجھتا ہے ۔اس کی سب سے بڑی مثال کمبھ میلے میں حقائق کو چھپانا ہےمگر بی بی سی کی رپورٹ تو اسی ماہ آئی ۔ ریاستی سرکار اگر اس سے کوئی سبق سیکھتی تو اڈیشہ کا یہ سانحہ رونما نہیں ہوتا ۔

بھارت کا میڈیا دنیا کا سب سے وسیع اور لسانی طور پر متنوع ہے۔ 900 ٹی وی چینلز ہر شام کروڑوں ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں ۔ ان کے علاوہ اخبارات اور ان کے پورٹل بھی دن رات خبریں نشر کرتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو ایک سونامی آئی ہوئی ہےلیکن میدان میں اتر کر حقائق کا پتہ لگانے کی توفیق بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ۔ عام طور پرانتظامیہ کے جھوٹےسچے بیانیہ کو نمک مرچ لگاکر پیش کردیا جاتا ہے اس لیے سچائی سامنے آنے کے بجائے کہیں کھو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گودی میڈیا پر سے عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحث کو لوگ تفریح کی غرض سے دیکھتے ہیں ۔ ملک کے اندر میڈیا ہاوس کے ابن الوقت اور مادہ پرست مالکین نظریاتی ہم آہنگی سے کم اور مالی مفاد سے زیادہ سرکاری دباؤ میں کام کرتے ہیں۔ وہ صحافی جو سرکارکی چاکری نہیں کرتے ان کو دہشت گردی، بغاوت اور ہتکِ عزت جیسے الزامات لگا کر خوفزدہ کیاجاتا ہے۔ ای ڈی وغیرہ کے ذریعہ ڈرا دھمکا کر تنقیدکرنے والوں کی آوازوں کو خاموش کردیا جاتا ہے۔ ایسے میں کمبھ میلے کےتعلق سے بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ اس دور کی صحافت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
بی بی سی نے میدان عمل میں جاکر جو تفتیش کی اس کے مطابق کمبھ کی بھگدڑ میں کم از کم 82 لوگ مارے گئے تھے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے پسماندگان نے بی بی سی کے نامہ نگاروں سے بات چیت کی۔ ان کے بیانات پر اکتفا کرنے کے بجائے شواہد اور دستاویزات کی جانچ پڑتال کی گئی۔ بی بی سی نے سارے ثبوت اپنی سائیٹ پر ڈال منصۂ شہود پر پہنچا دیا ۔ یہ ایسے ناقابلِ انکار حقائق ہیں کہ جن کی تردید ممکن نہیں ہے۔ اس تفتیشی رپورٹ نے سرکار کے اس دعویٰ کی قلعی کھول دی کہ کمبھ میلے کے دوران صرف 37 یاتریوں نے جان گنوائی ۔ اس طرح سرکار کا جھوٹ بے نقاب ہوا تو حزب اختلاف کو حکومت کے خلاف محاذ کھولنے کا موقع مل گیا مگر افسوس کہ میڈیا نے اس احتجاج کو بھی دبا دیا ۔ بی بی سی کی رپورٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس پارٹی نےلکھا کہ "یوپی کی بی جے پی حکومت نے کمبھ بھگدڑ میں صرف 37 لوگوں کی ہلاکت کو تسلیم کیا جبکہ بی بی سی کی تحقیقات میں 82 ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ۔بی بی سی کو ایسے 26 خاندان ملے جنہیں کمبھ میلےسے 5 لاکھ روپے کے بنڈل دے کر ہٹا دیا گیا تھا تا کہ انہیں مرنے والوں کی گنتی میں شامل نہ کیا جائے۔‘‘
مذکورہ بالا حقائق کا حوالہ دینے کے بعد کانگریس پارٹی نے بی جے پی سے سوال کیاکہ بی جے پی حکومت کمبھ بھگدڑ میں مارے گئے لوگوں کی تعداد کو چھپانے کی کوشش کیوں کر رہی تھی؟ اور اسے لوگوں کی موت سے زیادہ اپنی شبیہ کی فکر کیوں تھی؟اس کے ساتھ ہی کانگریس کی ترجمان سپریا شرینیت نے بی بی سی ہندی کی خصوصی رپورٹ پر لکھا "کمبھ بھگدڑ میں کم از کم 82 لوگ مارے گئے تھے۔ یہ تعداد یوپی حکومت کی طرف سے بتائی گئی 37 اموات سے کہیں زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں 11 ریاستوں کے 50 سے زیادہ اضلاع میں 100 سے زیادہ خاندانوں سے بات کی گئی ہے‘‘۔ اتر پردیش کامعاملہ ہوتوسماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کیسے چوک سکتے ہیں؟ انہوں نے بی جے پی سے سوال کیا "حقائق بمقابلہ سچ: 37 بمقابلہ 82۔ ہر کسی کو(یہ بات) دیکھنا، سننا، جاننا، سمجھنا اور شئیر کرنا چاہیے۔ صرف سچائی کی تحقیقات کافی نہیں ہے بلکہ اس کی تشہیر بھی اتنی ہی ضروری ہے۔‘‘
اکھلیش یادو نےبی جے پی والوں کو خود اپنا جائزہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو لوگ کسی کی موت کے بارے میں جھوٹ بول سکتے ہیں، وہ جھوٹ کے کس پہاڑ پر چڑھ کر خود کو اپنی جھوٹی سلطنت کا سربراہ سمجھ رہے ہیں؟‘‘ اکھلیش یادو نے آگے لکھا "کوئی بھی ایسے بی جے پی ممبروں پر بھروسا نہیں کرے گا جو غلط اعدادوشمار دیتے ہیں‘‘۔ یہ دراصل اکھلیش یادو کی غلط فہمی ہے۔ ہندوستانی عوام بار بار دھوکہ کھانے کے لیے مشہور ہے۔ ان کی یادداشت بہت کمزور ہے اور اس کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی جیسی جماعتیں بار بار اقتدار میں آجاتی ہیں۔ بی بی سی کی یہ رپورٹ بڑی مشقت کے بعد تیار کی گئی ۔ اس نے تفتیش کے لیے 11 ریاستوں کے 50 اضلاع میں 100 سے زیادہ خاندانوں کے ساتھ ملاقات کی ۔ اس دوران بی بی سی کو ایسے 26 خاندان ملے جن کے نقصان کو چھپانے کے لیے پچیس کے بجائے پانچ لاکھ روپے نقد پکڑا دیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی بھول چوک کا معاملہ نہیں تھا بلکہ جان بوجھ کر پھیلایا جانے والا جھوٹ تھا۔یوگی سرکار نے اپنی جھوٹی شان کو بگھارنے کے لیے گنگا کے کنارے مرنے والوں کا حق مارا ہے۔
اس موقع پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ایک کروڑ تیس لاکھ کی رقم کہاں سے آئی ؟ بی جے پی مسلمانوں کی حق تلفی کا ڈھول پیٹ کر ہندوؤں کو خوش کرنے کی کوشش تو کرتی ہے مگرساتھ ہی ہندو یاتریوں کا حق مار کر اسے چھپاتی بھی ہے۔ ایسے لوگ گنگا میں ڈبکی لگاتے ہوئے چاہے جتنی ویڈیو بنالیں خود سناتن عقیدے کے مطابق بھی پاک صاف نہیں ہوسکتے۔ ویسے جن لوگوں کے باقیات اور لاشوں کو یوگی سرکار نے بلڈوزر سے گنگا میں بہا دیا ان تک تو بی بی سی بھی نہیں پہنچ سکی اور ان کی بابت 8 سو سے زیادہ کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ قدرت کا یہ عجب کھیل ہے کہ بی بی سی کی مذکورہ بالا رپورٹ ایسے وقت میں منظر عام پر آئی جب آئی پی ایل میں آر سی بی کی جیت کا جشن منانے کے لیے بنگلورو کے چنا سوامی اسٹیڈیم میں ہزاروں کرکٹ شائقین کے درمیان بھگدڑ مچ گئی اور اس میں 11 افراد ہلاک ہوئے اور 40 سے زائد زخمی ہوئے۔ وہاں چونکہ کانگریس برسرِ اقتدار ہے اس لیے بی جے پی والوں نے اس سانحہ پر سیاست شروع کردی۔ اس کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سدارمیا نے کہہ دیا کہ، "ہم نے ہجوم کا اندازہ تو لگایا تھا، لیکن اتنی بڑی بھیڑ کی کسی نے توقع نہیں کی تھی‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’بھگدڑ کوئی پہلی بار نہیں ہوئی ہے۔ مہاکمبھ جیسے میلوں میں بھی ایسی وارداتیں ہوتی رہی ہیں۔” اس بیان میں کمبھ میلے کے حوالے نے بی جے پی کو آگ بگولا کر دیا۔ وزیراعلیٰ سدارمیا کے بیان پر بی جے پی کے سینئر رہنما اور مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے کہا کہ گزشتہ روز کے سانحے کا موازنہ کمبھ میلے سے نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے تو انہوں نے سدارمیاّ کے خلاف یہ بیان دیا مگر بی بی سی کی رپورٹ نے ثابت کردیا کہ واقعی دونوں کا موازنہ نہیں کیا جانا چاہیے ۔ وزیراعلیٰ سدارمیا نے سب سے پہلے تو لیپا پوتی نہیں کی بلکہ اپنی غلطی کو کھلے دل سے تسلیم کرلیا۔ انہوں نے نہ تو مرنے والوں کی تعداد چھپائی اور نہ کسی اور پر الزام تراشی کی۔ سرکار نے بھگدڑ میں مرنے والوں کے لواحقین کو نہ صرف معاوضہ دیا بلکہ زخمیوں کا مفت علاج بھی کرایا۔
اس وقت پرہلاد جوشی نے سدارمیا پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب پولیس نے اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا تو آپ نے انہیں مجبور کیوں کیا؟” سچائی تو یہ ہے کہ کرناٹک میں حکومت کے ایما پر پولیس اجازت نہیں دے رہی تھی دوسری جانب اترپردیش سرکار ملک بھر میں پوسٹر اور بینر لگا کر کمبھ میلے میں لوگوں کو بلا رہی تھی ۔ عوام سے یہ جھوٹ کہا جارہا تھا کہ سو کروڑ لوگوں کا بندو بست کیا گیا ہے اس لیے وہ کمبھ میلے میں پہنچیں۔ عوام کے مذہبی جذبات کواچھال کر اپنی سیاست چمکانے والوں نے بغیر تیاری کے لوگوں کو بلایا اور اپنی ساری توجہات کو عوام کے بجائے خواص تک محدود کردیا ۔ اس کے بعد جو لوگ مارے گئے ان پر افسوس کرنے کے بجائے ان کی تعداد چھپائی گئی اور دھوکہ دیا۔ اس جھوٹ و فریب کے لیے تو وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ کو استعفیٰ دینا چاہیے لیکن بی جے پی والوں کی بے حیائی انہیں ایسا کرنے سے روکتی ہے ۔
کمبھ میں جملہ تین بار بھگدڑ مچی اور پھر نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھی وہی کہانی دہرائی گئی۔یہ حادثہ کلی طور پر ریلوے انتظامیہ کی بد انتظامی کے سبب رونما ہوا۔ جس پریاگ راج اسپیشل ٹرین کو پلیٹ فارم نمبر 12 سے روانہ ہونا تھا اسے اچانک پلیٹ فارم نمبر 16 پر منتقل کر دیا گیا۔ جب پلیٹ فارم نمبر 12 پر انتظار کرنے والی بھیڑ اور باہر انتظار کرنے والے لوگوں نے پلیٹ فارم 16 تک پہنچنے کی کوشش کی تو یاتری ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایسکلیٹرز اور سیڑھیوں پر گر پڑے اور بھیڑ کے پاؤں کے نیچے آ کر کچل گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کون سی دھرم یاترا ہے جس میں لوگ دوسروں کو پیروں تلے کچل دیتے ہیں؟ اپنے پاپ کو دھو کر پونیہ کمانے کا یہ کون سا جنون ہے جو انسانوں سے ان کی انسانیت چھین لیتا ہے؟ سرکار پہلے تو اس سے انجان بن جاتی ہے لیکن جب بات نہیں دبتی تو ریلوے کے ذریعہ مرنے والوں کے لواحقین کی خاطر 10 -10 لاکھ روپے، شدید زخمیوں کے لیے 2.5 لاکھ روپے اور معمولی زخمیوں کے لیے ایک لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیاجاتا ہے۔
ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ موت تو موت ہے پریاگ جانے سے پہلے دس اور وہاں پہنچنے کے بعد مرنے کا معاوضہ پچیس لاکھ کیوں؟ یہ کون سی منطق ہے؟ ریلوے بورڈ کے چیئرمین ستیش کمارتو جائے وقوع کا معائنہ کرنے ریلوے اسٹیشن پہنچتےہیں مگر مودی یا وزیر ریلوے یا شاہ کو یہ توفیق نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور لیفٹننٹ گورنر وی کے سکسینہ گھر میں بیٹھے بیٹھے بیان جاری کرکے افسوس کا اظہار کرکے مرنے والوں کی تعزیت کر دیتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات دے دی جاتی ہیں ۔وزارتِ ریلوے اس معاملے کی اعلیٰ سطح کی جانچ کا حکم بھی دے دیتا ہے مگر ہنوز وہ رپورٹ ندارد ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو کام بی بی سی کرسکتا ہے وہ سرکار اور ہندوستانی میڈیا کیوں نہیں کرسکتا؟الٰہ باد ہائی کورٹ کے جسٹس ارون بھسالی اور جسٹس کشیتیج شیلیندر کی ڈویژن بنچ نے ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری سریش چندر پانڈے کی دائر کردہ پی آئی ایل پر ہلاکتوں اور لاپتہ لوگوں پر فروری کے آخری ہفتے تک رپورٹ طلب کی تھی۔ فی الحال جون ختم ہوچکا ہے مگر یوگی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی اور عدالت کے حکم پر جو کام اسے کرنا تھا وہ ذمہ داری ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے اداکردی ۔ یہ بات نہ صرف سرکار بلکہ ہندوستانی میڈیا کے لیے شرمناک ہے کہ وہ تو ہندو مسلم کارڈ کھیلتا رہا ہے اور باہر والوں نے اس بڑے ظلم کو بے نقاب کردیا لیکن سرکار نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا ورنہ اڈیشہ کے پوری میں جگن ناتھ رتھ یاترا کے دوران یہ حادثہ رونما نہیں ہوتا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025