جدوجہد سے انقلاب ممکن

مکتی باہنی کے لواحقین کے لیے سرکاری ملازمتوں میں مختص کوٹہ

مسعود ابدالی

بنگلہ دیش میں فسادات، بدترین سینسر۔ سارا ملک مفلوج
بنگلہ دیش آج کل شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ رائٹرز کے مطابق 19 جون کو صرف دو گھنٹے کے دوران ڈھاکہ کے مرکزی ہسپتال میں جامعات کے27 طلبا کی لاشیں لائی گئیں جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔یہ خونریزی اب تک 200 نوجوانوں کا لہو چاٹ چکی ہے۔ ملک گیر کرفیو، فون و موبائل اور انٹرنیٹ پر پابندی کے باوجود ہنگامے جاری ہیں۔ ذرایع ابلاغ کے ساتھ فون (لینڈ لائن) پر پابندی کی وجہ سے بیرونی دنیا سے بنگلہ دیش کا رابطہ منقطع ہے۔سیاسی تجزیہ نگاوں کا خیال ہے کہ اس نوعیت کی پابندیاں 2011میں مصری صدر محمد مرسی کی معزولی پر ہونے والے ہنگاموں کی خبریں روکنے کے لیے جنرل السیسی نے لگائی تھیں۔حوالہ:رائٹرز
بنگلہ دیشی طلبا کو سرکاری ملازمتوں میں نام نہاد جنگِ آزادی کے سپاہیوں کی اولاد کے لیے کوٹہ مختص کرنے پر اعتراض ہے۔
کوٹہ سسٹم کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ قیامِ بنگلہ دیش کے بعد سرکاری ملازمتوں میں مکتی باہنی کے ارکان کے لیے دس فیصد آسامیاں مختص کردی گئیں۔قوم پرستوں کا کہنا تھا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والی جنگ آزادی میں مصروفیت کے سبب ان نوجوانوں کا تعلیمی سال ضائع ہوا جس کا مداوا ضروری ہے۔ آہستہ آہستہ کوٹے کا حجم تیس فیصد کرکے سپاہیوں کے بچوں کے ساتھ ان کے پوتے پوتی،نواسے اور نواسیوں کو بھی کوٹے کا حق دار قرار دےدیا گیا۔ اس وقت یہاں سرکاری ملازمتوں میں مختلف طبقات کا کوٹہ کچھ اس طرح ہے۔
اقلیت : 5 فیصد
خواتین: 10 فیصد
پسماندہ اضلاع : 10
مکتی باہنی کے جوانوں کے بچے :30 فیصد
وزیراعظم کی صوابدید: 1 فیصد
میرٹ: 44 فیصد
دنیا کے دوسرے مسلم معاشروں کی طرح بنگلہ دیش میں نوجوانوں کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہے جس کی بڑی تعداد بیروزگاری کا عذاب سہ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تین کروڑ 20 لاکھ تعلیم یافتہ بنگالی نوجوان بیروزگار ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کا بڑا حصہ مکتی باہنی کے لواحقین کے لیے وقف ہے۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نجی ادارے اور آجر انتہائی ظالمانہ شرائط پر نوجوانوں کو نوکریاں دے رہے ہیں۔
گزشتہ کئی برس سے کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک جاری ہے۔ حکومت نے اعتراض کو ‘جماعتی سازش’ قراردےکر مسترد کردیا اور سارے ملک میں اسلامی چھاترو شبر کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ شبر کے درجنوں کارکن ’پولیس مقابلے‘کا شکار ہوئے۔ تاہم تحریک جاری رہی اور طلبا کےتیور دیکھ کر حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ وزیراعظم کی اتحادی جاتیہ پارٹی نے بھی اپنا وزن تحریک کے پلڑے میں ڈال دیا۔ حسینہ واجد کو اس بات کا احساس تھا کہ پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، چنانچہ انہوں نےاپنی طلبا تنظیم چھاترو لیگ کو اعتماد میں لے کر مکتی باہنی کا کوٹہ ختم کردیا۔منصوبہ یہ تھا کہ کوٹہ ختم کرنے کی یادداشت (میمورنڈم) کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کردیا جائے گا اور عدلیہ اس میمورنڈم کو کالعدم قراردے دے گی۔
اس طرح ایک طرف تو بنگلہ دیشی عدالت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع ملتا کہ عدلیہ نے بلا خوف وزیر اعظم کا حکم کالعدم قراردے دیا اور دوسری طرف وہ مظاہرین کو کہہ سکیں گی کہ میں نے تو اپنی سی کوشش کرلی لیکن عدلیہ کے آگے میرے ہاتھ بندھے ہیں
اور ہوا بھی ایسا ہی کہ 5 جون کو عدالت عالیہ نے مکتی باہنی کے لواحقین کا کوٹہ ختم کرنے کا حکم غیر آئینی قراردے دیا۔عدالت کے فیصلے پر چھاترولیگ نے جشن منایا لیکن طلبا اس پر سخت برہم تھے۔ لاوا پکتا رہا اور 12 جولائی کو ملک بھر کی جامعات کے طلبا سڑکوں پر آگئے۔ حکم راں عوامی لیگ اور ان کی طلبا تنظیم چھاترو لیگ نے ہر جگہ مزاحمت کی اور تصادم میں چار طلبا ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے ۔ تشدد سے تحریک میں مزید شدت آگئی۔
ہفتہ 13 جولائی کو وزیراعظم نے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر جذباتی خطاب کیا اور کہا کہ انتخابات ہارنے کے بعد جماعت اسلامی اور بی این پی تشدد کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔پاک فوج کے تنخواہ دار’جماعتی‘ سنار بنگلہ کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مکتی باہنی کے احسانات نہیں بھول سکتے۔ حسینہ واجد نے جذباتی انداز میں کہا ‘دیش کو 1971 کی سی صورتحال کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش میں اگر مکتی باہنی کی اولاد کو نوکری نہیں ملے گی تو کیا 1971 کے ’’خونی رجاکاروں‘‘کی اولاد کو نوازا جائے؟ یہ دراصل 1971 میں مکتی باہنی کے مقابلے میں پاکستانی رجاکاروں (رضاکاروں) کی مزاحمت کی طرف اشارہ تھا جو البدر اور الشمس کے عنوان سے منظم ہوئے تھے۔
قومیت کا یہ تیر کارگر تو کیا ہوتا، وزیر اعظم کی تقریر کے بعد جامعات میں کچھ نئے نعرے گونجنے لگے کہ
توئی کی، امی کی، رجاکار، رجاکار (تو کون؟ میں کون؟ رضاکار، رضاکار)۔ چھیتے گلم اودھیکار، ہوئے گلم رجاکار (اگر حق چاہتے ہو تو رضاکار بن جاؤ)
طلبا کے ساتھ اب عام سیاسی کارکن بھی مظاہرہ کررہے ہیں۔ منگل 16 جون کو کاکس بازار میں عوامی لیگ اور چھاترو لیگ کے تمام دفاترتباہ کر دیے گئے۔ اسی روز ڈھاکہ میں ٹیلی ویژن کی مرکزی عمارت جلادی گئی اور اس کے تین دن بعد مظاہرین ڈھاکہ جیل پر چڑھ دوڑے اور وہاں نظر بند 800 قیدیوں کو باہر نکال کر عمارت کونذزِ آتش کردیا گیا۔ (حوالہ: رائٹرز)
پولیس کے غیر موثر ہوجانے پر بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (BGB) کے دستے طلب کرلیے گئے۔ اس پر مزید اشتعال پھیلا کہ عام بنگالی، BGBکو ‘بھارتی گارڈ’ کہتے ہیں۔ گارڈز کی تعیناتی پر ہنگاموں میں مزید شدت آگئی اور مشتعل مظاہرین نے ڈھاکہ چاٹگام شاہراہ کے مرکزی پل کونذرِ آتش کرکے دارالحکومت کا باقی ملک سے رابطہ جزوی طور معطل کردیا۔ طلبا نے الزام لگایا کی عوامی لیگ کی طلبا تنظیم چھاترو لیگ کے کارکن BGBکی وردی پہن کر فائرنگ کررہے ہیں۔ طلبا نے کا کہا کہ حکومت مارے جانےوالوں کی لاشیں غائب کررہی ہے۔
جمعہ 19 جولائی کو BGBہٹاکر ملک کو فوج کے حوالے کردیا گیا اور ساتھ ہی طلبا کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے حسینہ واجد نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کا خون بہتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔عدالتی احکام کی خلاف ورزی ممکن نہیں لیکن قابل عمل درمیانی راستہ تلاش کرنے کے لیے ہم ’اپنے بچوں‘کو بات چیت کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وزیر اعظم نے طلبا سے مذاکرات کے لیے وزیر قانون انیس الحق اور وزیرتعلیم محب الحق پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کردی۔ لیکن طلبا نے مذاکرات کی دعوت مسترد کردی۔ طالب علم رہنما حسنات عبداللہ نے صاف صاف کہاکہ پہلے کوٹے کی منسوخی کا سرکاری گزٹ جاری کرو پھر بات ہوگی۔ دبلے پتلے چھریری بدن کے حسنات نے پرعزم لہجے میں کہا کہ ہم اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے نہ اپنے ساتھیوں کے لہو کا سودا کریں گے، حوالہ: ہندوستان ٹائمز، روزنامہ ہندو، بی بی سی۔
بہیمانہ تشدد بھی جب کام نہ آیا تو باعزت پسپائی کے لیے عدلیہ سے مشاورت کی گئی اور 19 جولائی کو سرسری سماعت کے بعد ڈھاکہ ہائیکورٹ نے مکتی باہنی کا کوٹہ پانچ فیصد کردیا۔ عدالتی حکم کے مطابق دو فیصد آسامیاں اقلیتوں کے لیے مختص ہوں گی جبکہ 93 فیصد تقرریوں کی بنیاد قابلیت (میرٹ) ہوگی۔ذرائع عامہ پر بندش کی وجہ سے عدالت کے اس نئے حکم پر طلبا کا ردعمل ،تا دمِ تحریر سامنے نہیں آیا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024