جدید ٹکنالوجی اوراخلاقیات

ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی فریم ورک بھی مرتب کرنا ضروری

ڈاکٹر ابو مظہر خالد صدیقی

جدید ٹکنالوجی کے اثرات براہ راست انسانی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں اور انسانی زندگی صرف اس کے ظاہری قالب پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں اخلاقی محاسن کا پایا جانا از حد لازمی ہے۔ قدیم زمانے میں کسی بھی امر کی ترسیل کی رفتار کافی سست ہوا کرتی تھی لیکن جدید معلوماتی ٹکنالوجی نے ترسیل کی اس رفتار کو بہت تیز کردیا ہے جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ پر مرتب ہونے والے اثرات کا احاطہ کرنا بھی مشکل ترین امر بن چکا ہے، اور اس کی وسعت کا اندازہ لگانا بھی ایک سنگ میل کو عبور کرنے کے مترادف ہے۔مزید برآں ٹیکنالوجی اور اخلاقیات کے درمیان تعلق آج کے دور میں نہایت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو صرف سائنس دانوں اور ماہرین فلسفہ کے درمیان ہی زیر بحث نہیں آتا بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ جیسے جیسے ٹکنالوجی میں ترقی ہو رہی ہے، ویسے ویسے اس کے اخلاقی اثرات اور چیلنجز مسائل و مشکلات بھی ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ ان چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ٹکنالوجی کے استعمال میں اخلاقی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے غور وفکر سے کام لیں اور مناسب روٹ میاپ تیار کریں۔ ذیل میں اسی موضوع کے چند اہم پہلو ملاحظہ کریں :
ٹکنالوجی کا ارتقاء اور اس کے اثرات
ٹکنالوجی کا ارتقاء انسانی تاریخ کے مختلف مراحل میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ آگ کے استعمال سے لے کر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک ہر نئے انکشاف نے انسان کی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے۔ آج کل کی دنیا میں ہم مصنوعی ذہانت، بائیو ٹکنالوجی، اور نینو ٹکنالوجی جیسے جدید ترین ٹکنالوجیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ٹکنالوجیاں ہماری زندگی کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ ہم پر اپنے مثبت و منفی اثرات بھی مرتب کررہی ہیں جس بنا پر ہمیں اس کے اخلاقیاتی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
پرائیویسی اور ڈیٹا سیکیورٹی
ڈیجیٹل دنیا میں پرائیویسی کا مسئلہ ایک اہم اخلاقی مسئلہ بن چکا ہے۔ جیسے جیسے ہم اپنی ذاتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو آن لائن منتقل کر رہے ہیں، ویسے ویسے ہمارا ڈیٹا مختلف کمپنیوں اور حکومتوں کے پاس جمع ہو رہا ہے۔ یہ ڈیٹا ہماری شناخت، ہماری عادات، ہماری دلچسپیاں، ہماری روز مرہ کی زندگی، ہمارے منصوبے، ہمارے اسفار اور ہمارے ذاتی تعلقات کے بارے میں بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس حد تک ہمارا ڈیٹا محفوظ ہے اور کون اسے کس مقصد کے لیے استعمال کر رہا ہے؟ یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔
مصنوعی ذہانت اور اخلاقیات
مصنوعی ذہانت (AI) کی ترقی نے ٹکنالوجی اور اخلاقیات کے درمیان تعلق کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ AI کے استعمال سے ایسے نظام بنائے جا رہے ہیں جو خود مختار طور پر فیصلے کر سکتے ہیں۔ مثلاً خود کار گاڑیاں، جو کہ انسان کے بغیر سڑکوں پر چل سکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسی گاڑی کوئی حادثہ کر دے تو ذمہ داری کس کی ہوگی؟ کیا ہم ایک مشین کو اخلاقی فیصلے کرنے کا اختیار دے سکتے ہیں؟ یہ سوالات صرف تکنیکی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہیں۔مزید یہ نظام تحریری اور تقریری احکامات کو اخذ کرنے کا پابند بھی ہے جس کی وجہ سے وہ ماحصل احکامات کی پابندی کرتے ہوئے متنوع قسم کے نتائج سامنے لارہا ہے جس کو دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے ۔
جینیاتی انجینئرنگ اور بائیو ٹکنالوجی
بائیو ٹکنالوجی اور جینیاتی انجینئرنگ نے طب کے میدان میں انقلاب برپا کیا ہے۔ اس سے ہم جینیاتی امراض کا علاج کر سکتے ہیں اور انسانوں کے جینوم میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کئی اخلاقی سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ کیا ہمیں انسانوں کے جینوم میں تبدیلی کی اجازت ہونی چاہیے؟ کیا یہ قدرتی قوانین کے خلاف نہیں ہے؟ اگر ہم انسانوں کے جینز میں تبدیلی کر کے انہیں بہتر بنا سکتے ہیں، تو کیا یہ ایک نئی قسم کی نابرابری پیدا نہیں کرے گا؟ ان سوالات کا جواب دینا ضروری ہے تاکہ ہم ٹکنالوجی کا استعمال صحیح طریقے سے کر سکیں۔اور اس معاملے میں اسلامی اصول و قوانین کو بھی مدنظر رکھناہوگا۔ کہ اس ضمن میں اسلامی رہنمائی کیا ہے؟
ماحولیات اور پائیداری
ٹکنالوجی کا اثر صرف انسانوں پر نہیں بلکہ ہمارے ماحول پر بھی ہوتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے ٹکنالوجی کی ترقی نے ماحول پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ فضائی آلودگی، ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کا ضیاع ان ہی اثرات کا نتیجہ ہیں۔ آج کل کلین انرجی اور رینیوایبل ریسورسز کے ذریعے ان مسائل کا حل تلاش کیا جا رہا ہے، لیکن یہ بھی ایک اخلاقی مسئلہ ہے کہ ہم کس طرح ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ماحول کی حفاظت کر سکتے ہیں اور اپنے ماحول کو بہترین قدرتی مناظر کا مظہر بنا سکتے ہیں ۔
ڈیجیٹل ڈیوائیڈ اور معاشرتی انصاف
ٹکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے: ایک طرف وہ لوگ ہیں جو جدید ٹکنالوجی تک رسائی رکھتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اس سے محروم ہیں۔ اس فرق کو ڈیجیٹل ڈیوائیڈ کہا جاتا ہے۔ یہ فرق معاشرتی ناانصافی اور اقتصادی نابرابری کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ٹکنالوجی کی فراہمی کو ہر فرد تک پہنچانے کے لیے اقدامات کریں تاکہ معاشرتی انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔
اخلاقی فریم ورک کی ضرورت
ٹکنالوجی کے استعمال میں اخلاقیات کا ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ ہم اس کے منفی اثرات سے بچ سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک مضبوط اخلاقی فریم ورک تیار کریں جو کہ ٹکنالوجی کے ہر پہلو کو مدنظر رکھے۔ یہ فریم ورک ہماری رہنمائی کرے گا کہ ہم کس طرح ٹکنالوجی کا استعمال کریں اور اس کے اثرات کا مقابلہ کیسے کریں۔
نتیجہ
ٹکنالوجی اور اخلاقیات کا تعلق ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو کہ ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اصولوں کو بھی مدنظر رکھیں تاکہ ہم زیادہ منصفانہ اور پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔ ٹکنالوجی کی ترقی ہماری زندگی کو آسان بنا رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کا استعمال اخلاقی طور پر کریں اور اس کے منفی اثرات کا مقابلہ کریں۔ ٹکنالوجی کا صحیح استعمال ہی ہمارے معاشرتی، اقتصادی، اور ذاتی مسائل کا حل ہے، بشرطیکہ ہم اسے اخلاقی اصولوں کے مطابق استعمال کریں۔ جس کی مدد سے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سائنسی اور تکنیکی ترقی اور انسانی بہبود کے درمیان توازن قائم کیا جاسکے گا۔ خلاصہ کلام یہی ہےکہ سائنسی اور تکنیکی ترقی نے ہماری زندگی میں بے شمار سہولتیں اور ترقی کے مواقع فراہم کیے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی اخلاقی مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ایک مضبوط تکنیکی اخلاقیات کے فریم ورک پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہے ۔
(مضمون نگار جے آئی ایل ٹی پرائیویٹ لیمٹڈ کے ڈائریکٹر اور مسئول برائے ٹرانسلیشن اینڈ اٹیسٹیشن ہیں )
فون نمبر :7396719556
ای میل : [email protected])

 

***

 ٹکنالوجی کی ترقی ہماری زندگی کو آسان بنا رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کا استعمال اخلاقی طور پر کریں اور اس کے منفی اثرات کا مقابلہ کریں۔ ٹکنالوجی کا صحیح استعمال ہی ہمارے معاشرتی، اقتصادی، اور ذاتی مسائل کا حل ہے، بشرطیکہ ہم اسے اخلاقی اصولوں کے مطابق استعمال کریں۔ جس کی مدد سے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سائنسی اور تکنیکی ترقی اور انسانی بہبود کے درمیان توازن قائم کیا جاسکے گا۔ خلاصہ کلام یہی ہےکہ سائنسی اور تکنیکی ترقی نے ہماری زندگی میں بے شمار سہولتیں اور ترقی کے مواقع فراہم کیے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی اخلاقی مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ایک مضبوط تکنیکی اخلاقیات کے فریم ورک پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024