جب جب چناو آتے ہیں ، ہم دورہ فرماتے ہیں

کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے میں تاخیر نااہلی کا ثبوت

ڈاکٹر سلیم خان

دہشت گردانہ حملوں پر طویل خاموشی اور یوگا ڈے پر ماتم پرسی، چہ معنی دارد؟
موسمِ باراں کی آمد آمد ہے۔محکمہ موسمیات بادلوں کی نقل و حرکت سے اندازہ لگا کر پیشنگوئی کردیتا ہے کہ کہاں پر کب بارش ہوگی؟ اسی طرح وزیر اعظم کے دوروں سے ملک کے عوام سمجھ جاتے ہیں کہ کس صوبے میں بہت جلد انتخابات ہونے والے ہیں ۔ وزیر اعظم منی پور اس لیے نہیں جاتے کیونکہ وہاں عنقریب الیکشن نہیں ہوگا مگر کشمیر پہنچ جاتے ہیں کیونکہ وہاں الیکشن کروانا سرکار کی مجبوری بن گئی ہے۔ یہ مجبوری سرکار کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ پچھلے سال آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والے مقدمہ میں سماعت کے دوران مودی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ وہ جموں و کشمیر میں ‘ کسی بھی وقت’ انتخابات کروانےکے لیے تیار ہے تاہم اس نے کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے سے متعلق کوئی وقت مقرر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سرکار نے اگست 2023میں الیکشن کی بابت حتمی فیصلہ کرنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن اور ریاستی پولنگ پینل کو سونپ دی تھی ۔
سپریم کورٹ میں یہ معاملہ اس وقت پیش آیا جب دفعہ 370 کے خاتمہ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے جموں و کشمیر میں جمہوریت کو بحال کرنے اور اس کا ریاستی درجہ بحال کرنے کی ضرورت پر زور دے کر پوچھا تھا کہ آخر حکومت وہاں کب تک انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتی ہے اور کب اس کا ریاستی درجہ بحال کرے گی؟ ان سوالات کے جواب میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے پانچ رکنی بنچ کو بتایا تھا کہ ”یونین ٹیریٹری ایک عارضی چیز ہے اور ہمیں کچھ ایسی چیزیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاست حقیقی معنوں میں ایک ریاست بن سکے۔” وہ تو اچھا ہوا کہ جج صاحب نے یہ نہیں پوچھ لیا کہ حقیقی اور مجازی معنیٰ میں ریاست کے درمیان کیا فرق ہے؟ اس لیے کہ موصوف کو اس کا علم ہوتا تو وہ نہیں کہتے کہ ”میں اس کے لیے صحیح ٹائم فریم دینے سے قاصر ہوں کہ یہ عمل کب مکمل ہو گا۔ آگے چل کر انہوں نے حکومت کی اعلیٰ سطحی میٹنگ کے بعد پچھلے سال 31 اگست تک جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی پر ایک ”مثبت” بیان کے آنے کا امکان ظاہر کیا تھا ۔ وہ سرکاری بیان دس ماہ کے بعد اب آیا ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں جون 2018 سے کوئی منتخب حکومت نہیں ہے۔ کشمیر کو دوسری ریاستوں کے برابر لانے کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والوں کو یہ بتانا چاہیے کہ کیا ملک کے اندر کوئی اور صوبہ اتنا طویل عرصہ بغیر صوبائی حکومت کے رہا ہے؟ اس سے قبل خود بی جے پی جموں و کشمیر کی محبوبہ حکومت میں شریک کار تھی۔ اپنی ہی حکومت کو برخواست کرنے کا کام پہلی اور آخری بار مودی سرکار نے کیا ورنہ بی جے پی کی روایت تو یہ ہے کہ اس نےگجرات اور منی پور میں اندوہناک فسادات کے باوجود سرکار برخواست کرنا تو دور وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس سے آگے بڑھ کر پانچ اگست 2019 کو ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے نہ صرف دو حصوں میں تقسیم کردیا بلکہ اس کا درجہ گھٹا کر ہر دو حصے کا انتظام مرکزی حکومت کے متعین کردہ لیفٹننٹ گورنر کو سونپ دیا گیا ۔ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کیونکہ بی جے پی کے حلیف جماعتیں جے ڈی یو اور تلگو دیشم اب بھی بہار اور آندھرا پردیش کی ریاست کے لیے خصوصی درجہ کے خواہش مند ہیں ۔ ماضی میں دہلی و گوا وغیرہ کو یونین ٹیریٹری سے بڑھا کر ریاست کا درجہ دے دیا گیا مگر جموں و کشمیر کے معاملے میں الٹا ہوگیا۔
مرکزی حکومت کی اس دھاندلی کے خلاف ‘پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلیئریشن’ سپریم کورٹ میں جموں و کشمیر ریاست کی بحالی کے ساتھ خصوصی حیثیت کی بحال کرنے پر اصرار کررہا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ ”اگست 2019 میں جو کچھ بھی ہوا وہ ناقابل قبول ہے۔ ریاست کو اس کا خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو غیر آئینی طور پر ہٹا یا گیا ‘‘۔ وہ لوگ آرٹیکل 370 کی بحالی سے کم پر راضی ہونے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ”ہم ہندوستانی آئین کے اندر رہتے ہوئے لڑ رہے ہیں، دفعہ 370 بھی اسی کا حصہ تھا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ”ہماری خصوصی حیثیت ہمیں آئین نے دی تھی، پاکستان، چین یا اقوام متحدہ نے نہیں۔” ان تمام معقول دلائل کے باوجود گزشتہ سال دسمبر میں سبکدوشی سے قبل سپریم کورٹ میں جسٹس کول نے جاتے جاتے جموں و کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے اقدام کو قانوناً درست ٹھیرادیا نیز ریاست کا درجہ واپس کرکے انتخابات کرانے کے احکامات بھی دے دیے۔ یعنی دونوں فریقوں کے ایک ایک مطالبے کو تسلیم کرلیا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بغلیں بجاتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے جموں و کشمیر اور لداخ کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ ان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ان کا عزم غیرمتزلزل ہے۔ انہوں نے ترقی کے ثمرات کو معاشرے کے سب سے کمزور اور پسماندہ طبقات تک بھی پہنچانے کی یقین دہانی کرکے ان کی عدم رسائی کے لیے دفعہ 370 کو موردِ الزام ٹھیرایا تھا ۔ اس غلط بات کو اگر درست مان بھی لیا جائے تو وزیر اعظم مودی کو یہ بتانا ہوگا کہ ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والوں کی کثیر آبادی تک ترقی کے ثمرات کی عدم رسائی کے لیے کون سی دفعہ مانع ہے؟ آزادی کے 70 سال بعد بھی ملک کے 80 کروڑ لوگ پانچ کلو اناج کے محتاج کیوں ہیں؟ ’ ہم دو ہمارے دو ‘ کی حکومت چلانے والے وزیر اعظم نریندرمودی کی زبان سے اس طرح کے الفاظ سن کر ہنسی آتی ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ جلد از جلد واپس لوٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کوئی مدت تو مقرر نہیں کی تھی مگر مرکزی حکومت کو 30 ستمبر 2024 تک انتخابات منعقد کرانے کا حکم ضرور دے دیا تھا ۔
اس فیصلے کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ قومی انتخابات کے ساتھ جہاں سکم، اروناچل پردیش ، آندھرا پردیش اور اڈیشہ کے ریاستی الیکشن ہوں گے تو اس میں جموں و کشمیر کو بھی شامل کیاجائے گا مگر مودی سرکار نے پھر ایک بار جموں و کشمیر کے ساتھ تفریق و امتیاز کا سلوک کرکے اپنا چال، چرتر اور چہرا دکھا دیا ۔ رواں سال کے اواخر میں مہاراشٹر اور ہریانہ کے ساتھ یہ لازمی ہوگیا ہے ورنہ عدالت میں پھٹکار پڑے گی ۔ ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایوان پارلیمنٹ کے ساتھ چار صوبوں کے انتخاب کا اعلان کیا گیا تو مودی سرکار جموں و کشمیر میں الیکشن کرانے کی ہمت کیوں نہیں کرسکی ؟ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہاں تشدد کا خطرہ تھا۔ سری نگر میں اپنی بھارت جوڑو یاترا کا اختتام کرکے راہل گاندھی یہ ثابت کرچکے تھے کہ محبت کی دکان کو کشمیر میں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن نفرت کا کاروبار کرنے والوں کے اندر پایا جانے والا احساسِ جرم انتخاب کروانے میں رکاوٹ پیدا کررہا تھا اور الیکشن کے نتائج نے یہ بات ثابت کردی کہ ان کا اندیشہ غلط نہیں تھا ۔
پچھلی مرتبہ متحدہ ریاستِ جموں و کشمیر کی جملہ چھ لوک سبھا سیٹوں میں سے تین سیٹیں بی جے پی کے پاس تھیں اور دو این سی و ایک پی ڈی پی کے پاس تھی۔ اس بار بی جے پی نے لداخ سے اپنا امیدوار بدل دیا اور وہ تیسرے نمبر پر رہا۔ کانگریس کے امیدوار کو نیشنل کانفرنس کے باغی امیدوار نے ہرا دیا ۔ جموں کی دونوں نشستیں تو بی جے پی جیت گئی مگر وادی میں اس کو امیدوار ہی نہیں ملا ۔ سابق علیحدگی پسند رہنما سجاد لون کو بی جے پی کی بلاواسطہ حمایت حاصل تھی مگر وہ بھی تیسرے نمبر پر رہے ۔ بارہ مولہ نشست کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں سے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی اپنی قسمت آزما رہے تھے مگر ان دونوں کو عوامی اتحاد پارٹی کے انجنیئر شیخ عبدالرشید نے شکست فاش دوچار کردیا۔ موصوف دو مرتبہ لنگاٹے سے رکن اسمبلی رہے ہیں اور 2019 میں انہیں مرکز کی بی جے پی سرکار نے دہشت گردی کے الزام میں جیل بھیج دیا ۔ انجنیئر رشید کے بیٹوں ابرار اور اصرار نے اپنے والد کے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے اور بارہ مولہ کی عوام نے انہیں کامیاب کرکے بتا دیا کہ وہ دفع 370 کوختم کرکے نہ تو انہیں ڈرا سکتے ہیں اور نہ جھکا سکتے ہیں۔ شیخ عبدالرشید کی ڈیڑھ لاکھ ووٹ کے فرق سے کامیابی ساڑھے چار سال تک 370کا ڈھول پیٹنے والوں کے گال پر کشمیر کی عوام کا ایسا زبردست طمانچہ ہے جس کی دھمک دیر تک اور دور تک گونجتی رہے گی۔
نریندرمودی کشمیر تو ہار گئے مگر کسی طرح بھان متی کے کنبہ کو جوڑ کر 10 جون 2024 کو اپنی حلف برداری کرواہی لی لیکن اسی کے ساتھ کشمیر میں تشدد کا سلسلہ چل پڑا ۔پلوامہ پر شکوک و شبہات کی روشنی لوگوں نے سوچنا شروع کردیا کہ کہیں یہ جموں و کشمیر میں انتخابی تیاری کی ابتدا تونہیں ہے؟ اس تناظر میں انتخابی مہم کے دوران مصروف ترین وزیر داخلہ کے دو روزہ دورے کی یاد آتی ہے۔ مئی کے وسط میں امیت شاہ نے وقت سری نگر میں گزارا مگر کسی عوامی جلسہ عام سے خطاب نہیں کیا۔ بی جے پی نے اس دورے کو غیر سیاسی قرار دے کر کہا تھاکہ اس کا مقصد امرناتھ یاترا کو محفوظ بنانے پر غورو خوض تھا۔ یہی اگر سچائی ہے تو اچانک الیکشن کے ختم ہوتے ہی ان تیاریوں کا کیا ہوا ؟ کشمیری تشدد وادی سے نکل کر جموں میں کیوں کر پہنچ گیا؟حلف برداری کے بعد 72گھنٹوں کے دوران ریاست کے ہندو اکثریتی علاقوں میں 3 بڑے ملی ٹینٹ حملے ہوئے جن میں 9 زائرین ، ایک سی آر پی ایف جوان مارے گئے جبکہ 35 مسافر اور 5 سیکورٹی فورسز کے اہلکار زخمی بھی ہوئے ۔ کٹھوعہ میں سیکورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں ایک عدم شناخت ملی ٹینٹ بھی ہلاک ہو گیا۔
ان واقعات میں پہلا حملہ ڈوڈہ کے چھتر گلہ علاقے میں پیش آیا جہاں جنگجووں نے نصف شب میں عارضی آپریٹنگ بیس پر حملہ کیا۔ اس کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز کے پانچ اہلکار زخمی ہوئے۔ کٹھوعہ کے ہیرا نگر علاقے میں سیکورٹی فورسز اور ملی ٹینٹوں کے مابین تصادم میں ایک ملی ٹینٹ اور سی آر پی ایف جوان ہلاک ہوگئے جبکہ ایک عام شہری بھی زخمی ہوا ۔ اس سلسلے کا سب سے بھیانک واقعہ ضلع ریاسی کے کانڈا علاقے میں پیش آیا ۔ وہاں یاتریوں کو لے جا نے والی ایک بس پر فائرنگ ہوئی جس کی وجہ سے وہ گہری کھائی میں گر گئی۔ اس سانحہ میں 9 مسافر جاں بحق جبکہ دیگر 33 زخمی ہوگئے۔ راہل گاندھی نے اس پر وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’’مبارکبادی پیغامات کا جواب دینے میں مصروف نریندر مودی کو جموں و کشمیر میں بے دردی سے مارے گئے عقیدت مندوں کے اہل خانہ کی چیخیں تک سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ریاسی، کٹھوعہ اور ڈوڈہ میں تین دنوں کے اندر تین الگ الگ دہشت گردی کے واقعات پیش آئے ہیں لیکن وزیر اعظم ابھی بھی جشن منانے میں مگن ہیں۔ ملک جواب مانگ رہا ہے، آخر بی جے پی حکومت میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو پکڑا کیوں نہیں جاتا؟‘‘
اس موقع کا فائدہ اٹھا کرکانگریس نے کہا تھا کہ ’’جموں و کشمیر میں امن اور معمول کی صورت حال کا بڑبولے پن والے کھوکھلے دعووں کی پوری طرح سے پول کھل گئی ہے۔ بی جے پی کا وادی کشمیر میں انتخاب لڑنے کی زحمت نہ کرنا ، اس کی ’نیا کشمیر‘ کی پالیسی کے پوری طرح ناکام ہوجانے کا منہ بولتا ثبوت ہے‘‘۔ وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ جموں و کشمیر دورے کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مودی نے اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے وادی کے باشندوں کو یقین دلایا کہ خطہ میں جلد ہی ایک نئی حکومت کا انتخاب ہوگا اور ریاست کا درجہ بحال کردیا جائے گا۔ انہوں نے سری نگرمیں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جموں و کشمیر کے لوگ مقامی سطح پر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور ان کے ذریعے آپ مسائل کے حل کی راہیں تلاش کرتے ہیں، اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے؟‘ سوال یہ ہے کہ اس ریاست کے لوگوں کو پچھلے چھ سالوں کے دوران اس سہولت سے کیوں محروم رکھا گیا؟
وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا کہ اسمبلی انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب آپ جموں و کشمیر کی نئی حکومت کو اپنے ووٹوں سے منتخب کریں گے۔ وہ دن بھی جلد آئے گا جب ریاست جموں و کشمیر ایک بار پھر اپنی حکومت بنائے گی لیکن وزیر اعظم کو اس تاخیر کے لیے جموں و کشمیر کے لوگوں سے معافی مانگنا چاہیے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو چھ سالوں کے بعد سری نگر میں بین الاقوامی یوگا ڈے منانے کاخیال آیا۔ دس دنوں کی پراسرار خاموشی کے بعد عسکریت پسندوں کی جانب سے کیے گئے حالیہ کارروائیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ حکومت ان پر سنجیدہ ہے۔ انہوں نے عوام کو یقین دہانی کی کہ وہ جموں و کشمیر کے دشمنوں کو سبق سکھانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا وہ خود اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھنا گوارا کریں گے؟ہر انتخاب سے قبل مودی مختلف ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کی جھڑی لگا دیتے ہیں وہی انہوں نے وادی میں بھی کیا۔ مودی نے 1,500 کروڑ روپے مالیت کے 84 ترقیاتی پروجیکٹس کا افتتاح کیا۔اس کے علاوہ 1,800 کروڑ روپے کے زرعی شعبے سے متعلق پروجیکٹس بھی شروع کیے گئے ۔ اس دوران مایوسی کے شکار مودی خود اپنی پیٹھ تھپتھپاتے رہے لیکن اگر ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ ہوتا توبی جے پی کو وادی سے انتخاب لڑنے کے لیے کم از کم ایک امیدوار تو لوک سبھا الیکشن کے لیے میدان میں اتار دیتے لیکن ان کا ایسا نہ کرنا کشمیر کے حوالے سے بی جے پی کی زبردست ناکامی کا بین ثبوت ہے۔
***

 

***

 پچھلی مرتبہ  متحدہ ریاستِ جموں و کشمیر کی  جملہ چھ لوک سبھا سیٹوں میں سے تین سیٹیں بی جے پی کے پاس تھیں اور دو این سی و ایک پی ڈی پی کے پاس تھی۔ اس بار بی جے پی نے لداخ سے اپنا امیدوار بدل دیا اور وہ تیسرے نمبر پر رہا۔ کانگریس کے امیدوار کو نیشنل کانفرنس کے باغی امیدوار  نے ہرا دیا ۔ جموں کی دونوں نشستیں تو بی جے پی جیت گئی مگر وادی میں اس کو امیدوار ہی نہیں ملا ۔ سابق علیحدگی پسند رہنما سجاد لون کو بی جے پی کی بلاواسطہ حمایت حاصل تھی مگر  وہ بھی تیسرے نمبر پر رہے ۔ بارہ مولہ نشست کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں سے  سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ  بھی اپنی قسمت آزما رہے تھے مگر ان دونوں کو عوامی اتحاد پارٹی کے انجنیئر شیخ  عبدالرشید نے شکست فاش دوچار کردیا۔  موصوف دو مرتبہ لنگاٹے سے رکن اسمبلی  رہے ہیں اور 2019 میں انہیں مرکز کی بی جے پی سرکار نے دہشت گردی کے الزام میں جیل بھیج دیا ۔  انجنیئر رشید کے بیٹوں ابرار اور اصرار نے اپنے والد کے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے اور بارہ مولہ کی عوام نے انہیں کامیاب کرکے بتا دیا کہ وہ دفع 370 کوختم کرکے نہ تو انہیں ڈرا سکتے ہیں اور نہ جھکا سکتے ہیں۔  شیخ عبدالرشید کی ڈیڑھ لاکھ ووٹ کے فرق سے کامیابی ساڑھے چار سال تک 370کا ڈھول پیٹنے والوں کے گال پر کشمیر کی عوام کا ایسا  زبردست طمانچہ  ہے جس کی دھمک دیر تک اور دور تک گونجتی رہے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024