جان ہے تو جہان ہے

اچھی صحت کے لیے صاف ستھرا ماحول ہونا ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

اسلام نے ہی پاکی صفائی پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے لہذا دنیا میں صحت مند رہیں اور آخرت میں اجر پائیں
ماحولیاتی صحت کا انسانی صحت سے براہ راست اور گہرا تعلق ہے۔ ہمارا ماحول جتنا صاف ستھرا، بہتر اور صحت مند ہوگا ہماری صحت بھی اتنی ہی بہتر اور تندرست ہوگی۔ اس لیے ہم ماحول کا جتنا بہتر طریقے سے خیال رکھیں گے ماحول بھی ہماری صحت کا بھرپور خیال رکھے گا اور ہم متعدد بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔ اس لیے ماحولیاتی صحت کی سلامتی و تحفظ کو یقینی بنانا ہماری اولین ذمہ داری بھی ہے اور مجبوری بھی۔ ماحولیات محض صحتمند رہنے کے لیے بلکہ کرہ ارض میں زندگی کے سارے لوازمات کو بہتر رکھنے کی ضرورت بن گئی ہے۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ ہم نے قدرت کے ساتھ کھلواڑ اور چھیڑ چھاڑ کو اپنا وظیفہ حیات بنالیا ہے۔ ہم اپنی خود غرضی کے باعث قدرت کے بے جا استعمال سے دریغ نہیں کرتے اور اسی وجہ سے عالمی ماحولیات کو شدید اور ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے جس کا خمیازہ دنیا کے سارے لوگ خواہ متمول ہوں یا مفلوک الحال سب کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ ترقی یافتہ ملک ہو یا ترقی پذیر یا غریب ممالک سب اس کے زد میں ہیں۔ قدرت کے ساتھ کھلواڑ اور چھیڑ خانی کی وجہ سے کرہ ارض گرم سے گرم تر ہورہا ہے۔ زمین بخار میں تپ رہی ہے۔ ماہرین موسمیات اور دنیا بھر کے ممالک میں آنے والے مسلسل گردابی طوفان کا سلسلہ، قحط، سیلاب اور جنگلوں میں لگنے والی آگ جو خاص طور سے کناڈا، آسٹریلیا، امریکہ کے جنگلوں میں لگتی ہے وہ تباہی کی داستاں بیان کرتے ہیں۔ آگ کے 6400 سے زائد حادثات نے تقریباً اٹھارہ ملین ہیکٹر جنگلی علاقوں کو جھلسا کر رکھ دیا ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ دیگر قدرتی آفات میں تیزی سے اضافہ دراصل ماحولیاتی صحت میں بگاڑ موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کے پس منظر میں جائزہ لیں تو یہاں موسم سرما کا تناسب کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے۔ فروری اور مارچ میں سخت گرمی اور لو کی لپیٹ سے لوگ پریشان نظر آرہے ہیں۔ موسم برسات میں کہیں شدید بارش کی وجہ سے شہر ڈوبتے نظر آتے ہیں تو کہیں قحط کا قہر نمودار ہوتا ہے اور پھر چہار طرف تباہی ہی تباہی دکھائی دیتی ہے۔ امسال ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، مہاراشٹرا اور مدھیہ پردیش میں پہاڑ اور زمین کے کھسکنے سے سیکڑوں لوگ ہلاک ہوگئے۔ ہزاروں کروڑ روپے کا مالی نقصان ہوا۔ ریاست ہماچل پردیش نے مرکزی حکومت سے اسے قومی آفت قرا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ماحولیات کو ہونے والے شدید نقصان اور مختلف طرح کے امراض سے تحفظ کے لیے لوگوں کی توجہ مرکوز کرنے کے لیے عوامی بیداری لانے کی ضرورت اب زیادہ ہی ہوگئی ہے۔ اس سلسلے میں آفس آف پرنسپل سائنٹفک ایڈوائزر برائے وزیراعظم نے ایک اہم پیش رفت کی ہے۔ مگر اس کے لیے ورلڈ بینک و دیگر مالیاتی اداروں کی مالی امداد کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اس مسئلہ پر انتظامیہ اور بڑے اشتراک کی بھی ضرورت ہوگی۔ حالات ماحولیات کے تعلق سے بد سے بدتر ہوں اسے روکنے کے مقصد سے ہر سال 26 ستمبر کو ایک خصوصی تھیم کے ساتھ یوم عالمی ماحولیاتی صحت منایا جاتا ہے۔ امسال یہ دن عالمی ماحولیاتی عوامی صحت کی سلامتی کے لیے تیار رہنا تھیم کے ساتھ منایا جارہا ہے جبکہ گزشتہ سال 2022 کا تھیم تھا ’’ہمہ جہتی ترقی کے لیے ماحولیاتی صحت کے نظام کو مضبوط کرنا تھا جس کے تحت ماحولیاتی صحت نظام کو اس طرح مضبوط اور متحرک بنایا جائے کہ طویل عرصہ تک ماحولیات اور انسان کی طبی عمر اور اچھی صحت کے مقصد کو پورا کیا جاسکے۔
اس دن ماحولیات کی وجہ سے انسانی صحت پر پڑنے والے خراب اثرات کے متعلق عوامی بیداری پیدا کی جاتی ہے۔ آلودگی، موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ سے پیدا شدہ خطرات کے بارے میں لوگوں کو بیدار کرنا پہلے کے مقابلے میں زیادہ ضروری ہوگیا ہے کیونکہ ہماری صحت ماحولیات سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں وہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث نئی نئی بیماریاں بھی نمودار ہونے لگتی ہیں۔ مثلاً انفلوائنزا، میزلس، جاپانی انفلائٹس، ڈینگو، دست وقے وغیرہ جو طبی نظام کو کافی متاثر کرتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی محض متعدی امراض تک محدود نہیں ہوتے بلکہ موسمی طبی حادثات کو بھی بڑھاتے ہیں۔ سانس کی تکلیف، دل کے امراض اور نفسیاتی بیماریوں کو بڑھادیتے ہیں کیونکہ ہماری صحت ماحولیاتی، صحت سے منسلک ہے اور ماحولیات کو ہونے والے مسلسل نقصان سے انسانی زندگی کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
دراصل آلودگیوں میں اضافہ اور قدرت سے چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے گرین ہاوز گیسوں کے اخراج کا اثر انسانی زندگی پر زیادہ ہی پڑتا ہے۔ ماحول کو آلودہ کرنے میں کلورو فلورو کاربن (CFC) کا بڑا رول ہوتا ہے۔ ریفریجریٹر، ایرکنڈیشننگ، صفائی کرنے والی کیمیکل مادے سے سی ایف سی کا اخراج بڑی مقدار میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کارخانوں کے دھویں اور گیسز خلا میں پہنچ کر انسانی زندگی کا تحفظ کرنے والی اوزون لیئر کو تباہ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس اوزون لیر کی سب سے
بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ سورج سے آنے والی شعاعوں کے نقصان دہ مادہ کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے جس سے ہم بہت سارے امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔ مثلاً جلدی بیماری اور کینسر وغیرہ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے کارخانے اور موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والی گیسوں میں زیادہ مقدار کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ، نائیٹرک آکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ سلفر ڈائی آکسائیڈ، وغیرہ ہوتے ہیں جو فضائی ماحول کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ جنگل اور دیہی علاقوں کے سبزہ زار کو ختم کرکے اور شہروں کا جنگل بسانے سے ہمارے خوردونوش، پانی اور ہوا کی شفافیت اور خصوصیات پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرح ماحولیاتی صحت کی خرابی سے ہماری صحت بھی خراب ہوتی ہے اور ہماری قوت مدافعت (Immunity) بھی متاثر ہوتی ہے۔ ایسی مشکلات اور تکالیف کے مد نظر عوام الناس کو ماحولیاتی صحت کے لیے بیداری میں تیزی لانے کے لیے انٹرنیشنل فیڈریشن آف انوارنمنٹل ہیلتھ (IFEH) کے ذریعہ 26 ستمبر 2011 کو عالمی ماحولیاتی صحت کا آغاز ڈینپاس بالی (انڈونیشیا) میں کیا گیا تھا۔ اس دن دنیا بھر کے انسانوں کو صحت کے تعلق سے متوجہ کرنا تھا۔ IFEH سائنسی اور ٹکنالوجیکل ریسرچ کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اور مکمل طور پر ماحولیاتی صحت کو لے کر آئی ای ایف ایچ ہمہ دم گفت  وشنید کرتا نظر آتا ہے۔ یہ ادارہ ان قومی اداروں کے لیے متحدہ پلیٹ فارم ہے جو ماحولیاتی صحت کے تعلق سے اپنے ملکوں میں سرگرم عمل ہیں۔ 2018 میں اس فیڈریشن نے 40 ممالک کو مکمل طور پر تسلیم کیا تھا۔ آئی ایف ای ایچ کے صدر سوجان پیکسو کے مطابق دنیا کے تمام لوگوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ماحولیات، صحت اور معیشت کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ اصلاً ماحولیات کو صحت کسی خاص خطہ کے کیمیاوی، طبعی و تمدنی ماحول کو اس کی ماحولیاتی صحت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور کسی خطہ کی ماحولیاتی صحت ہوا کی خراب حالت، ماحول میں تنوع کا نقصان اور کیمیائی شعبہ جات اور دیگر سبھی عوامل جو کسی خطے کے ماحولیاتی صحت کو تباہ کرتے ہیں سے متاثر ہوتا ہے اس طرح کسی خطہ کی ماحولیاتی صحت کی پیمائش میں ماحولیاتی صحت اشاریے، آلودگی کی سطح، حالات کا تنوع اور صاف پینے کے پانی کی دستیابی اہم رول ادا کرتے ہیں۔
رسول رحمت (ﷺ) نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے جو ہدایت فرمائی ہے وہ آج ہمارے لیے کتنی اہم ہوگئی ہے۔ اللہ کے نبیؐ فرماتے ہیں کہ اگر ہمیں پتہ ہو کہ قیامت کل آنے والی ہے تب بھی آج ایک درخت لگادو (مسلم) ماحولیات کے تحفظ کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ آپؐ نے فرمایا اس شخص پر لعنت ہو جو بہتے ہوئے پانی میں پیشاب کرے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا اس شخص پر لعنت ہو ، لعنت ہو لعنت ہو تو صحابہ نے پوچھا کس شخص پر؟ تو آپؐ نے فرمایا جو سائے دار درخت کے نیچے پیشاب و پاخانہ کرے۔ یعنی گندگی سے صحیح اور مناسب جگہ پر ہی فارغ ہوا جائے۔ حضرت ابو ہریرہؓ ایک بار درخت لگارہے تھے تو آپؐ نے ان کی ستائش فرمائی۔ رسولؐ اللہ نے مدینہ سے 25 میل کی دوری پر ایک چراہ گاہ کی تعمیر فرمائی جو بڑی ہی وسیع و عریض تھی جس نے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے میں تیز گھوڑ سوار کو گھنٹہ بھر وقت لگتا تھا۔ اب ضرورت ہے کہ ماحولیاتی صحت کی تحفظ کے لیے آگے بڑھیں، دنیا میں صحت مند رہیں اور آخرت میں اجر پائیں۔
***

 

***

 ماحولیاتی صحت کا انسانی صحت سے براہ راست اور گہرا تعلق ہے۔ ہمارا ماحول جتنا صاف ستھرا، بہتر اور صحت مند ہوگا ہماری صحت بھی اتنی ہی بہتر اور تندرست ہوگی۔ اس لیے ہم ماحول کا جتنا بہتر طریقے سے خیال رکھیں گے ماحول بھی ہماری صحت کا بھرپور خیال رکھے گا اور ہم متعدد بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔ اس لیے ماحولیاتی صحت کی سلامتی و تحفظ کو یقینی بنانا ہماری اولین ذمہ داری بھی ہے اور مجبوری بھی۔ ماحولیات محض صحتمند رہنے کے لیے بلکہ کرہ ارض میں زندگی کے سارے لوازمات کو بہتر رکھنے کی ضرورت بن گئی ہے۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ ہم نے قدرت کے ساتھ کھلواڑ اور چھیڑ چھاڑ کو اپنا وظیفہ حیات بنالیا ہے۔ ہم اپنی خود غرضی کے باعث قدرت کے بے جا استعمال سے دریغ نہیں کرتے اور اسی وجہ سے عالمی ماحولیات کو شدید اور ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023