
!جعلی ڈاکٹر، فرضی کالج، مہنگی دوا ۔صحت کے نام پرجان لیوا کاروبار
جن اوشدھی کیندر:امید یا دھوکا؟
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
امریکہ میں بھارتی دوا سستی، بھارت میں مہنگی کیوں؟
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کبھی دعویٰ کیا تھا ’’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا!‘‘ مگر اب حالت بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے گویا وہ کہہ رہے ہوں ’’کھاؤں گا بھی اور کھلاؤں گا بھی!‘‘ بی جے پی کے دورِ حکومت میں ایک کے بعد ایک سنگین گھوٹالے سامنے آ رہے ہیں۔ نیشنل میڈیکل کمیشن (NMC) اور فارمیسی کونسل آف انڈیا جنہیں ملک کی صحت اور طبی تعلیمی معیار کے محافظ ہونے چاہیے تھا خود بدعنوانی اور رشوت کے دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ سی بی آئی کی تحقیقات نے ان اداروں کو سرتاپا گھوٹالوں میں ملوث پایا ہے۔
یہ نیا اسکینڈل مدھیہ پردیش کے بدنامِ زمانہ ویاپم گھوٹالے کو بھی پیچھے چھوڑتا نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ ایک طرف بی جے پی حکومت نوجوانوں کو دھرم، جذبات اور مذہبی تعصب کی افیون پلا کر فسادی بنا رہی ہے تو دوسری طرف اعلیٰ تعلیم، بالخصوص میڈیکل کے شعبے کو تباہ کر کے ان کا مستقبل تاریک کر رہی ہے۔
سی بی آئی کے چھاپوں کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ جعلی میڈیکل کالجوں کو خطیر رشوت دے کر منظوری دی گئی ہے ۔ اس پورے گھوٹالے میں کئی اعلیٰ سیاسی اور سرکاری چہرے ملوث ہیں جن میں وزیرِ اعظم کے قریبی سمجھے جانے والے افراد بھی شامل ہیں۔ اس اسکینڈل میں ایک نمایاں نام ہے — ڈاکٹر جیتو لال مینا کا جنہوں نے دیہی پرائمری ہیلتھ سنٹر، گجرات سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا تھا۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر مینا نے وزارتِ صحت کی حساس فائلوں اور معلومات تک غیر قانونی رسائی حاصل کی۔ ان تعلقات کی بنیاد مودی کے گجرات کے دورِ وزارتِ اعلیٰ میں پڑی جہاں سے انہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہوئی۔ 2018 میں وہ دہلی منتقل ہوئے اور آیوشمان بھارت اسکیم کے زمینی نفاذ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں وہ نیشنل میڈیکل کمیشن کے رکن بنے اور آج وہی اس گھوٹالے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ قرار دیے جا رہے ہیں۔
2023-24 کے صرف 13 دنوں میں 870 فارما کالجوں کو منظوری دی گئی — حیرت انگیز طور پر زیادہ تر منظوری زوم کال کے ذریعے دی گئی جس کے لیے نہ کوئی فزیکل انسپکشن ہوا نہ انفراسٹرکچر کی جانچ کی گئی۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ کس بڑے پیمانے پر رشوت خوری اور جعل سازی کا کھیل جاری ہے۔
نتیجہ: شعبۂ صحت کا نظام چرمرا چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں کم از کم 40 فرضی میڈیکل کالجس کام کر رہے ہیں جنہوں نے ہزاروں جعلی ڈاکٹروں کو پیدا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں انسانی جان کس قدر ارزاں ہو چکی ہے۔ ملک بھر میں فرضی میڈیکل کالجوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ لاکھوں روپے دے کر ڈاکٹری کی سند خریدی جا رہی ہے — وہ بھی ایسے اداروں سے جن کے پاس نہ مناسب انفراسٹرکچر ہے نہ تجربہ کار فیکلٹی اور نہ ہی کسی قسم کا تربیتی معیار ہے۔ یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں ہر روز وزیرِ اعظم کی شبیہ ایک صاف ستھری اور ایماندار لیڈر کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ لیکن جب سچ سامنے آتا ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ گھوٹالے کی جڑیں کہاں تک پہنچی ہوئی ہیں۔
جعل سازی کے عبرت ناک مناظر
حال ہی میں سی بی آئی کی چھاپہ ماری کے دوران انکشاف ہوا کہ کئی دواخانوں میں نقلی مریض، جعلی لیبارٹریاں، کرائے پر لیے گئے۔ آپریشن تھیٹروں فرضی ڈاکٹرز اور نرسیں کام کر رہے تھے۔ یہ کوئی فلمی کہانی نہیں ہے بلکہ ہمارے ملک کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو ڈاکٹر ہمیں دواخانوں میں نظر آتے ہیں کیا وہ واقعی تجربہ کار اور تربیت یافتہ ہیں؟ ہمارے ملک میں ڈاکٹروں کو بھگوان کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن افسوس کہ جعلی ڈاکٹروں کا ایک منظم نیٹ ورک سرگرم ہے۔ ایسے افراد بڑی تعداد میں جعلی ڈگریاں حاصل کر کے مختلف دواخانوں میں تعینات ہو چکے ہیں۔
میڈیکل تعلیم کا بخار عام ہے۔ ہر والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ڈاکٹر بنے، چاہے اس کے لیے لاکھوں روپے فیس دینا پڑے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بہت سے میڈیکل کالجوں میں نہ بنیادی ڈھانچہ ہے نہ فیکلٹی نہ سہولتیں ہیں۔
گزشتہ دہائی میں 40 سے زائد فرضی میڈیکل کالجوں کا انکشاف ہو چکا ہے۔ دہلی-این سی آر کے ایک معروف اخبار کے ایڈیٹر نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ انسپکشن کے موقع پر فلمی سیٹ کی طرح ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ نقلی ڈاکٹر، نرسیں، مریض اور لیبارٹریوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پھر انسپکشن ٹیم کو طے شدہ 50 تا 55 لاکھ روپے رشوت دی جاتی ہے تاکہ منظوری حاصل ہو جائے — یہ رقم یا تو حوالہ کے ذریعے، دی جاتی ہے یا براہِ راست نقدی کی صورت میں دی جاتی ہے۔ حیدرآباد، بنگلورو اور چنئی جیسے بڑے شہروں میں بھی جعلی میڈیکل کالج اور ڈگری فروخت کرنے والے گروہ پکڑے جا چکے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں ’’شرمی راؤت پورہ سرکار انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ‘‘ کھولا گیا، جس کی پس پشت پر ایک با اثر مذہبی شخصیت تھی۔ ان کے سرپرست اعلیٰ درجے کے صنعت کار اور سیاست داں تھے۔ دوسری طرف مدھیہ پردیش کا انڈیکس میڈیکل کالج بھی اسی دھوکہ دہی کی ایک مثال ہے۔ یہاں ڈاکٹر سی این مجپا، ڈاکٹر ایم ایس چترا اور ڈاکٹر بی کے شلکے جیسے افسران انسپکشن کے دوران رشوت لیتے ہوئے پکڑے گئے۔
ویاپم گھوٹالہ (2013-15) میں فرضی امیدوار، سیٹوں کی خرید و فروخت اور سازشوں کا انکشاف ہوا جس کی تفتیش کے دوران 40 سے زائد افراد کی پراسرار موت واقع ہوئی — جنہیں یا تو مشتبہ قرار دیا گیا یا خود کشی۔۔مہاراشٹر میں بھی جعلی فیکلٹی لسٹیں جمع کروا کر کالج کو منظوری دلائی گئی۔ دہلی، نوئیڈا، غازی آباد میں جعلی ڈگریاں بیچنے والے نیٹ ورک کا بھی پردہ فاش ہوا۔ جب میڈیکل کونسل آف انڈیا کا چیئرمین ہی رشوت لیتے پکڑا گیا تو باقی نظام کی کیا حالت ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
2024 کا نیٹ اسکینڈل اسی زنجیر کی ایک اور کڑی ہے۔ کروڑوں روپے کے لین دین کے ذریعے پرچہ ایک دن قبل آؤٹ کر دیا گیا۔ کوچنگ سنٹرز، وزرا، افسران — سب ملوث پائے گئے۔ کئی مراکز پر امیدواروں کو مصنوعی طور پر اونچے نمبر دلائے گئے۔ ملک میں ایسے افراد ڈاکٹر بن رہے ہیں جن کے پاس نہ مناسب تعلیم ہے، نہ تربیت۔ صرف رشوت، تعلقات اور جعلی کاغذات کے سہارے انسانی زندگی ان کے سپرد کر دی گئی ہے۔
کیا ہم ایک ایسی قوم بننا چاہتے ہیں جہاں ڈاکٹرز خریدے جائیں؟ جہاں دواخانے فلمی سیٹ بن جائیں؟ جہاں دوا سے زیادہ ڈگری کی قیمت ہو؟
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُلو ہی کافی تھا
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟
دواؤں کا دھندا، مریضوں کی جیب پر ڈاکہ
ہمارے ملک میں مریض کے علاج کا معیار اس کی جیب کی موٹائی سے طے ہوتا ہے۔ یہاں ایک منظم نیٹ ورک کام کر رہا ہے، جہاں مریض سے زیادہ اہمیت ڈاکٹر کے نسخے کو دی جاتی ہے، کیونکہ مخصوص کمپنیوں کی دوائیں تجویز کرنے پر ڈاکٹروں کو تحفے، کمیشن، گاڑیاں، غیر ملکی دورے اور نقد رقم دی جاتی ہے۔
ڈاکٹروں کے لیے نہ صرف مریضوں کی وفاداری اہم ہوتی ہے، بلکہ دوا ساز کمپنیوں کے نمائندے بھی۔ یہ نمائندے نئی دواؤں کے بارے میں معلومات دیتے ہیں، اور ’’ڈیل‘‘ طے ہوتی ہے کہ مریض کی جیب کتنی کٹے گی اور صحت کتنی بچے گی۔
مثلاً کورونا کے دوران ڈولو 650 بڑے پیمانے پر تجویز کی گئی۔ بعد میں CBDT کی رپورٹ سے پتہ چلا کہ کمپنی نے ڈاکٹروں کو ایک ہزار کروڑ روپے کے تحفے دیے تھے۔
ڈاکٹروں، دکانداروں اور کمپنیوں کے درمیان سانٹھ گانٹھ ہے۔ مہنگی برانڈ کی دوائیں تجویز کی جاتی ہیں، حالانکہ بھارت دنیا کی 20 فیصد سستی جینرک دوائیں تیار کرتا ہے — مگر یہاں کے مریضوں کو وہ نہیں ملتیں۔
ایک سروے کے مطابق 96 فیصد مریض چاہتے ہیں کہ انہیں مرض اور ٹیسٹ کی مکمل تفصیل دی جائے مگر 40 فیصد کو تو ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرنے کا بھی موقع نہیں ملتا — صرف مہنگی دوا کا نسخہ تھما دیا جاتا ہے۔
جن اوشدھی: امید کی ایک کرن؟
حکومت نے کچھ بہتری کی کوشش کی ہے۔ پردھان منتری جن اوشدھی یوجنا کے تحت ستمبر 2024 تک 13,822 مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ پچھلے 10 برسوں میں 6,100 کروڑ کی دوائیں فروخت ہوئیں، اور 30,000 کروڑ روپے کی بچت ہوئی۔
امریکہ میں 90 فیصد افراد جنرک دوائیں استعمال کرتے ہیں، جس سے 38 لاکھ کروڑ روپے کی بچت ہوئی — بیشتر دوائیں بھارت سے فراہم کی جاتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب ہم دنیا کو سستی، مؤثر اور محفوظ دوائیں فراہم کر سکتے ہیں تو خود اپنے شہریوں کو کیوں نہیں؟ اس کا جواب ہے لالچ اور پیسہ۔
جب تک جیبیں بھرتی رہیں گی، مریض مرتے رہیں گے۔
ہمیں بیدار ہونا ہوگا، ڈاکٹروں سے کمپوزیشن لکھوانا ہوگا اور جن اوشدھی مراکز سے سستی دوائیں خریدنی ہوں گی۔
دواؤں کی قیمت پر سوال
اشوک دانودا نے سوشل میڈیا (X) پر سوال اٹھایا ہے کہ دواؤں کی ایم آر پی حکومت کیوں طے نہیں کرتی؟ مثال کے طور پر ایک دوا 120 روپے میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ وہی دوا ہول سیل میں 18 روپے کی ہے۔ ہم اگر 90 روپے میں خریدیں تو سمجھتے ہیں کہ رعایت ملی۔
ان کا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں دواؤں کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے قانون بنایا جائے، جیسے دیگر اشیاء کی ایم آر پی طے ہوتی ہے، ویسے ہی دواؤں کی بھی ہو۔ تاہم، ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جن اوشدھی کی بعض دوائیں کوالٹی چیک میں ناکام رہی ہیں۔ مرکزی ادویات کنٹرول بورڈ کی رپورٹ کے مطابق پیراسیٹامول 500 ملی گرام کوالٹی ٹیسٹ میں فیل ہو چکی ہے۔ دیگر ریاستی بورڈز نے بھی 130 سے زائد ادویات کو غیر معیاری قرار دیا ہے۔
صرف مئی میں 196 دوائیں ناکام ہوئیں، جن میں دو تو بالکل جعلی پائی گئیں۔
غرض یہ واضح ہے کہ میڈیکل کرپشن میں صرف ڈاکٹر نہیں بلکہ نجی اسپتال، افسران، وزرا، حتیٰ کہ پوری حکومت کی پشت پناہی شامل ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ قوم کیسے ترقی کرے گی جس کے شہری صحت مند نہیں بلکہ بیمار، کمزور اور ناقص غذائیت کا شکار ہوں؟
***
***
میڈیکل کرپشن کی داستان: 2013 سے 2024 تک
2013 : ویاپم اسکینڈل
2017 : مہاراشٹر میں جعلی فیکلٹی گھوٹالا
2020 : ڈولو 650 اسکیم
2023-24 : 13 دن میں 870 کالجوں کو منظوری
2024 : نیٹ امتحانی پرچے کے افشاءکا اسکینڈل
دوا کی قیمت کس طرح لگائی جاتی ہے۔
فرض کریں دوا کی اصل قیمت 18 روپے ہے تب :
ہول سیل قیمت: 40 روپے
ایم آر پی: 120 روپے
صارف کو رعایت کے ساتھ فراہمی : 90 روپے
نوٹ: صارف کو لگتا ہے کہ رعایت ملی، جبکہ اس سے غیر متناسب نفع کمایا گیا۔
مریض کو جو دوا ملتی ہے وہ اکثر اس کی بیماری سے زیادہ ڈاکٹر کے کمیشن کی ہوتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025