آئی یو ایم ایل 13 اضلاع کے کلکٹرز کو غیر مسلم اقلیتوں کو شہریت دینے کی اجازت دینے والے وزارت داخلہ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ پہنچا
نئی دہلی، 2 جون: بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق انڈین یونین مسلم لیگ نے منگل کو وزارت داخلہ کے اس نوٹیفکیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں رجوع کیا جس میں 13 اضلاع کو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اقلیتی برادری کے ممبروں کی شہریت کی درخواستوں کے قبول، توثیق اور منظوری کی اجازت دی گئی ہے۔
وزارت نے 28 مئی کو جاری کردہ ایک گزٹ نوٹیفیکیشن میں کہا ہے کہ ’’اقلیتی برادری‘‘ میں ہندو، سکھ، جین، بدھسٹ، پارسی اور عیسائی شامل ہوں گے جو تین پڑوسی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور مذکورہ بالا ریاستوں میں مقیم ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ نوٹیفکیشن شہریت ایکٹ 1955 کی موجودہ دفعات کے تحت جاری کیا گیا ہے کیوں کہ ابھی تک شہریت ترمیمی قانون کے قواعد وضع نہیں کیے گئے ہیں۔
شہریت ترمیمی قانون، جو دسمبر 2019 میں منظور ہوا، مسلمانوں کو چھوڑ کر چھ اقلیتی مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو شہریت فراہم کرتا ہے، بشرطیکہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں رہ رہے ہوں اور31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔
اس قانون کے منظور ہونے کے بعد ملک بھر میں اس کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے کیوں کہ اسے آئین کے سیکولر اقدار اور مسلمانوں پر حملہ مانا گیا ہے۔
منگل کے روز انڈین یونین مسلم لیگ نے نوٹ کیا کہ وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ پر پابندی نہ لگائے کیوں کہ اس نے ابھی تک اس کے قوانین وضع نہیں کیے ہیں۔ اپنی درخواست میں آئی یو ایم ایل نے دعوی کیا ہے کہ 28 مئی کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں جمع اس بیان کے خلاف جانے کی کوشش ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر درخواست دہندگان کو شہریت دی جاتی ہے اور عدالت عظمیٰ CAA کو ختم کرتی ہے تو یہ دی گئی شہریت واپس لینا ایک ’’قریب قریب ناممکن‘‘ ہوگا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ’’چوں کہ شہریت ترمیمی ایکٹ اس عدالت کے سامنے زیر التوا ہے، لہذا یہ انصاف کے حق میں ہوگا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کے لیے ترمیمی ایکٹ کے تحت اس طرح کے طریقۂ کار سمیت ترمیمی ایکٹ کا عمل عدالت کے ذریعے اس معاملے کا فیصلہ آنے تک روک دیا جائے۔‘‘
آئی یو ایم ایل نے یہ بھی کہا کہ وزارت داخلہ کے ذریعہ نوٹیفکیشن میں بیان کیے گئے شہریت ایکٹ کے حصے مذہب کی بنیاد پر درخواست دہندگان کی درجہ بندی کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے ’’لہذا جواب دہندہ یونین کی طرف سے ایگزیکیٹو آرڈر کے ذریعے دونوں دفعات کے اطلاق کو ختم کرنے کی کوشش غیر قانونی ہے۔‘‘
ایکٹ کی دفعہ 5 (1) (a) – (g) ان افراد کو بتاتا ہے جو اندراج کے ذریعہ شہریت کے لیے درخواست دینے کے اہل ہیں۔ دفعہ 6 کسی بھی فرد کو، جو غیر قانونی تارکین وطن نہیں ہے، نیچرلائزیشن کے ذریعہ شہریت کے لیے درخواست دینے کی اجازت دیتا ہے۔
درخواست گزار نے یہ بھی دلیل پیش کی کہ وزارت داخلہ کا حکم آئین کے آرٹیکل 14 کے خلاف ہے کیوں کہ یہ درخواست دہندگان کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر غیر مساوی سلوک کرتا ہے۔
IUML پہلی پارٹی تھی جس نے صدر کی رضامندی ملنے سے پہلے ہی شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔
معلوم ہو کہ وزیر داخلہ کے تازہ حکم کے تحت گجرات میں موربی، راجکوٹ، پٹن اور وڈوڈرا، چھتیس گڑھ میں درگ اور بلودا بازار، راجستھان میں جالور، اُدے پور، پلی، باڑمر اور سروہی، ہریانہ میں فرید آباد اور پنجاب میں جالندھر کے ضلعی کلکٹرز کو شہریت کے لیے درخواستوں کی تصدیق کے عمل کو انجام دینے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ اسی طرح کے اختیارات ہریانہ اور پنجاب کے ہوم سکریٹریوں کو بھی دیے گئے ہیں۔
2018 میں مرکز نے کچھ اضلاع کے سلسلے میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، گجرات، راجستھان، اترپردیش اور دہلی کے کلکٹرز اور ہوم سکریٹریوں کو بھی اسی طرح کے اختیارات دیے تھے۔