اتحاد

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو

مبصر: محمد عارف اقبال
(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی۔۲ موبائل نمبر 9953630788)

اردو کے معروف و ممتاز صحافی، ادیب اور دانشور جناب عالم نقوی مقصدی صحافت کے علمبردار ہیں۔ ان کی تقریباً چالیس سالہ صحافتی زندگی کا سفر قومی آواز سے شروع ہوا۔ اس کے بعد وہ روزنامہ انقلاب ممبئی، اردو ٹائمز ممبئی اور اودھ نامہ لکھنؤ سے وابستہ رہے۔ ایک عرصہ تک اودھ نامہ لکھنؤ کے لیے اداریہ نویسی بھی کی جبکہ وہ لکھنؤ سے علی گڑھ منتقل ہوگئے تھے۔ ملک کے تقریباً ہر طبقے میں ان کو ایک دانشور صحافی کا اعتبار حاصل ہے۔ پیرانہ سالی اور ضعف کے سبب ان کے لکھنے کی رفتار ابھی مدھم ہوگئی ہے لیکن فکری اعتبار سے وہ ہمیشہ چاق و چوبند رہتے ہیں۔ ادب اور اسلامیات کے علاوہ وہ زندگی کے جملہ شعبہ جات کے بارے میں نہ صرف اَپ ڈیٹ (update) رہتے ہیں بلکہ اپنی مدلل رائے بھی رکھتے ہیں۔
زیرنظر کتاب ان مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے جو 2014 سے 2018 کے درمیان میں روزنامہ اخبارات کے لیے لکھے گئے۔ اس طرح کے مضامین کے چھ مجموعے ’امید‘، ’اذان‘، ’بیسویں صدی کا مرثیہ‘، ’مستقبل‘، ’زمین کا نوحہ‘ اور ’عذابِ دانش‘ کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ ان میں چند کتابوں پر ’اردو بک ریویو‘ میں تبصرے بھی شائع ہوئے۔ اس کتاب کا مقدمہ ادیب و دانشور طاہر نقوی نے لکھا ہے۔ موصوف نے اپنے مقدمہ میں مصنف کی تحریروں پر اپنی رائے کچھ اس طرح دی ہے:
’’… موصوف نے قلم کاری کے زعم میں نہ تخیلاتی گھوڑے دوڑائے اور نہ ہی غیر ضروری خامہ فرسائی سے قاری کو بد دل کیا، بلکہ حقائق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مشیت ایزدی کی گم گشتہ راہوں کی بازیافت کے لیے نہایت سلیقے سے شعوری کوشش کی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ یہ ’کام‘ عبادت الٰہی کا درجہ رکھتا ہے۔ نیز یہ کہ صحرا نوردی صحافت کے لیے ان کی منتخب کردہ راہ بہت دشوار ہے۔‘‘
عالم نقوی کے لکھے ہوئے چالیس مضامین کے اس مجموعہ کا مرکزی موضوع ’اتحاد‘ ہے۔ ’اتحاد‘ سے ان کی مراد ظاہر ہے کہ ’اُمت مسلمہ‘ کا اتحاد ہے جسے وہ قرآن مجید کی اصطلاح میں اُمت واحدہ اور خیر اُمت کہتے ہیں۔ ان چالیس مضامین میں چند کے عنوانات اس طرح ہیں:
کی محمد (ﷺ) سے وفا تو ہم تیرے ہیں، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ، وسعت اللہ خاں اور ہمارا درد مشترک، برطانیہ میں جعلی علما سازی، احتساب، فرعونی فتنہ، عفو درگزر اور صلہ رحمی، شاتم رسول (ﷺ) اور ہم، عالم اسلام کی سیاسی وحدت سازی، اُف یہ پندرہویں صدی کے خوارج، یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے، مسلمان کثیر جہتی سازشوں کے شکار، ابن سینا اور ہم، مرض اور علاج، مشن 2019 : مسلم اتحاد مہم، وغیرہ۔
مصنف نے نیوزی لینڈ کے ایک مورخ سیاح کے حوالے سے اپنے مضمون مرض اور علاج میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’… انڈیا کا اصل مسئلہ کرپشن ہے جو اس کے کلچر کا حصہ بن چکا ہے! وہ سماج میں اتنا رچ بس چکا ہے کہ لوگ اسے ناگزیر خیال کرنے لگے ہیں لہٰذا انہیں اس کے خاتمے کا خیال بھی نہیں آتا۔ اور اس کا سبب اُس کے خیال میں عام ہندوستانیوں کا تصور مذہب ہے۔‘‘ (صفحہ 112-113)
مصنف کے تمام مضامین نہ صرف فکر انگیز ہیں بلکہ گہری معلومات پر مبنی ہیں۔ ایک مضمون ’مسلمان کثیر جہتی سازشوں کے شکار‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
’’سنگھ پریوار کی موجودہ حکومت عالمی صہیونی پریوار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ وہی سب کرنے کے منصوبے پر اپنے عمل درآمد کو تیز سے تیز تر کر رہی ہے جو اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے۔ آئی ایس آئی ایس (داعش) اور مردہ القائدہ کے نام پر وطن عزیز میں مسلمانوں کے تازہ شکار کی تیاریاں مکمل ہیں۔ اب وہ ہوسکتا ہے جو ابھی تک نہیں ہوا تھا۔‘‘ (صفحہ 132)
مصنف نے اپنے ایک مضمون ’برطانیہ میں جعلی علما سازی‘ کے عنوان سے معیشت نیوز پورٹل کے دانش ریاض کے حوالے سے نواب محمد احمد خاں چھتاری (12 دسمبر 1888 – 1982) کی خود نوشت سوانح (یاد ایام) میں درج ایک واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اُس برطانوی ادارے کا ذکر کیا ہے جس نے 1920 میں توہین رسالت پر مبنی ایک کتاب لکھوائی تھی نیز یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بناکر کھڑا کرنے والا بھی یہی ادارہ تھا۔ انہوں نے ماہنامہ الحیات (سری نگر) کے حوالے سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس نے اپنے فروری 2016 کے شمارے میں لکھا ہے کہ سلمان رشدی سے ’شیطانی آیات‘ بھی اُسی ادارے نے لکھوائی تھی۔
نواب محمد احمد خاں چھتاری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔ وہ حکومت برطانیہ میں یونائیٹڈ پرونسنر کے گورنر اور وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ نظام حیدرآباد کی ایگزیکیوٹیو کونسل کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے 1911 سے خود کو محمڈن اینگلو اورینٹل (MAO) کالج کے لیے وقف کردیا تھا۔ واضح ہو کہ ان کے دادا نواب لطف علی خاں بھی محمڈن اینگلو اورینٹل (MAO) کالج فاؤنڈیشن کمیٹی کے کنوینر تھے۔ وہ 8 جنوری 1877 کو فاؤنڈیشن تقریب میں بانی درس گاہ سرسید احمد خاں کے ہمراہ موجود تھے۔
نواب حافظ محمد احمد خاں چھتاری (مرحوم) کی خودنوشت سوانح ’یاد ایام‘ تین جلدوں میں تقریباً پچاس برس قبل ان کی حیات میں شائع ہوئی تھی۔ بعد میں تینوں جلدوں کو یکجا کرکے شائع کیا گیا۔ اسی خودنوشت سوانح میں ’جعلی علما سازی‘ کا واقعہ بھی درج ہے۔ غالباً سب سے پہلے اردو ڈائجسٹ (لاہور) نے نواب محمد احمد خاں آف چھتاری کے برطانیہ کے اس سرکاری دورے کے دوران میں پیش آنے والے اس واقعہ کوشائع کیا۔ نواب چھتاری نے اپنی یادداشتوں کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ان کے ایک انگریز دوست نےجو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکا تھا، نواب صاحب سے کہا کہ چلیے آج آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کراتے ہیں جہاں کوئی دوسر اہندوستانی آج تک نہیں پہنچ سکا۔ عالم نقوی صاحب نے ’یاد ایام‘ کے اس پورے واقعہ کو اپنے مضمون میں لکھا ہے۔(صفحہ 44)
لہٰذا پورے واقعہ کو یہاں دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ’یاد ایام‘ کا تازہ ایڈیشن (یکجا ایک جلد میں) 2020 میں براؤن بکس پبلی کیشنز، نئی دہلی/ علی گڑھ نے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ ترتیب و تدوین پروفیسر اطہر صدیقی (سابق صدر شعبہ حیوانیات اور ڈین فیکلٹی آف لائف سائنسز، اے ایم یو، علی گڑھ) کے محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ میرے سامنے یہی تازہ ایڈیشن ہے جس میں سب سے پہلے ’معروضات‘ کے عنوان سے نواب ابن سعید خاں آف چھتاری (و: یکم جون 2021) نے لکھا ہے جن کا انتقال 98 سال کی عمر میں ہوا۔ وہ اے ایم یو کے دوبار پروچانسلر بھی رہے۔ ان کے ’معروضات‘ کے آخر میں ان کے دستخط کے ساتھ 20 اکتوبر 2019 درج ہے۔ پروفیسر اطہر صدیقی نے اپنے ’حرفے چند‘ میں جہاں نواب صاحب کو بےحد کھلے ذہن کا مالک اور سیکولر نظریہ پر یقین رکھنے والا کہا ہے، یہ بھی لکھا ہے کہ ’’نواب صاحب کی خود نوشت سوانح ہندوستان کی تاریخ اور تقسیم ملک کے وقت کے حالات کے بارے میں ایک ایسی کلاسک کی حیثیت رکھتی ہے اور ایک ایسی نایاب دستاویز ہے جس کی اہمیت وقت گزرنے کے باوجود کبھی کم نہیں ہوگی۔‘‘
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ’یاد ایام‘ کا تازہ ایڈیشن شائع ہوگیا اور نواب حافظ محمد احمد خاں آف چھتاری کی یادداشتیں محفوظ ہوگئیں۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ ’اپنی یادداشت‘ میں جو واقعہ نواب صاحب نے برطانیہ میں، جعلی علما سازی‘ کے بارے میں لکھا ہے، اس میں سرے سے موجود نہیں ہے۔ یہ بھی نہیں اندازہ کہ تین جلدوں میں شائع ہونے والی ’یادداشتوں‘ کی کس جلد میں یہ واقعہ درج ہے۔ تاہم گمان یہ ہے کہ نواب صاحب نے اسے دوسری جلد میں رقم کیا ہوگا۔ اب ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اردو ڈائجسٹ لاہور نے جو کچھ شائع کیا تھا، کیا وہ ساقط الاعتبار ہے۔ پھر اس کے حوالے سے جن رسائل و اخبارات میں ’برطانیہ میں جعلی علما سازی‘ کا واقعہ شائع ہوا تھا، کیا وہ بھی درست نہیں ہے۔ اب آخری سوال یہ ہے کہ کیا اس تازہ ایڈیشن میں اس واقعہ کو جان بوجھ کر مصلحتاً حذف کردیا گیا ہے۔ کیا یہ بھی ایک سازش کا حصہ ہے۔ بہرحال یہ امر تحقیق کا مستحق ہے۔ اس واقعہ میں دلچسپی لینے والے ریسرچ اسکالرز پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ جلد سے جلد ’یاد ایام‘ کے پہلے ایڈیشن (تینوں جلدوں) کو تلاش کرکے اہل علم کے سامنے اصل حقیقت کو منظر عام پر لائیں۔
عالم نقوی صاحب کے مضامین کا یہ فکر انگیز مجموعہ یقینی طور پر ہر تعلیم یافتہ شخص کو غور و فکر کی طرف مائل کرتا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ حیات میں درست لائحہ عمل اور فیصلے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کاش اس کی پروف ریڈنگ اور ایڈیٹنگ پر خاص توجہ دی جاتی۔ توقع ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس خامی کو دور کرلیا جائےگا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023