آئی ٹی ضوابط میں تبدیلی اور نیت کاکھوٹ

اختیارات کا بے جا استعمال کرنے کی کوشش!

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

مرکزی حکومت نے آئی ٹی قوانین میں تبدیلی لاتے ہوئے ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا ہے۔ اس نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کا جھوٹا مواد جیسے فیک ویڈیو یا آڈیو یا جھوٹی خبریں یا کوئی جھوٹی تحریر فیس بک، یوٹیوب یا کسی بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اپلوڈ کرتا ہے، اور اگر پریس انفارمیشن بیورو جو حکومتی ادارہ ہے اس کی تحقیقاتی اکائی اسے غلط سمجھتی ہے، جھوٹ سمجھتی ہے تو اسے سماجی رابطے کی ویب سائٹس سے نکال دیا جائے گا اور اپلوڈ کرنے والے شخص پر قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔ اگر کسی نے حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کوئی ویڈیو بنایا اور لوگ اسے دیکھیں اور اگر پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) اسے جھوٹا قرار دیتا ہے تو حکومت ان سماجی رابطے کی سائٹس یعنی فیس بُک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب سے کہا جائے گا کہ وہ اس ویڈیو کو فوری ہٹا دیں یا ڈلیٹ کردیں۔ اگر وہ ادارے اس ویڈیو کو نہیں ہٹاتے ہیں تو ایسی صورت میں ان پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ یہ حکم نامہ دستور کی خلاف ورزی کرتا ہے، اس لیے یہ قانون کے سامنے ٹک نہیں پائے گا، کیوں دستور ملک کے ہر شہری کو اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ لیکن مرکزی حکومت اس حق سے اپنے شہریوں کو محروم کرنا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کو کیا اختیار ہے کسی کی آزادی کو سلب کرنے کا؟
تقریباً یہی سوال بمبئی ہائی کورٹ نے اٹھایا ہے، جب بمبئی ہائیکورٹ میں طنزو مزاح نگار کنال کامرا، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، ایسوسی ایشن آف انڈین میگزینز نے مل کر اظہار خیال کی آزادی کو جھوٹی خبروں کے نام پر حکومت کے روک لگانے پر مقدمہ درج کیا تھا۔ بمبئی ہائی کورٹ نے اس بارے میں بڑے غور کے بعد چند باتیں کہیں۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ آج کی حقیقت یہ ہے کہ جھوٹی خبریں یعنی فیک نیوز پیش کی جا رہی ہیں جس کی روک تھام کرنا ضروری بھی ہے۔ کون سی خبر غلط ہے اور کونسی خبر سچی ہے لوگوں بتانا چاہیے اور حکومت اس بابت قانون سازی بھی کر سکتی ہے۔ لیکن اس کی آڑ میں یہ جو قوانین ترتیب دیے گئے ہیں وہ دستور کی حدود سے آگے ہیں۔ اس میں ایک شہری کے بنیادی حقوق تلف ہو رہے ہیں۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ ’’چیونٹی کو مارنے کے لیے آپ کیا ہتھوڑا استعمال کریں گے؟‘‘ یہاں ایک اور اہم نکتہ ہائی کورٹ یہ بیان کرتا ہے کہ جمہوری نظام میں حکومت اور شہری دونوں مساوی حقوق رکھتے ہیں، جمہوریت میں دونوں کا درجہ مساوی ہوتا ہے۔ جمہوری نظام میں حکومت ایک حصہ ہوتی ہے تو عوام اس نظام کا دوسرا حصہ ہوتے ہیں، اس نظام میں حکومت کی رائے ہی حتمی نہیں ہوتی، عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی رائے پر سوال اٹھائے، عوام حکومت کے کاموں پر سوال اٹھاتے بھی ہیں اور یہ ان کا جمہوری حق بھی ہے، حکومت کا کام یہ ہے کہ وہ عوام کے سوالات کا جواب دے۔ اسی لیے جمہوریت میں حکومت اور عوام مساوی حصہ دار ہوتے ہیں۔ ہائی کورٹ کا یہ پہلا مشاہدہ تھا۔
ہائی کورٹ نے اپنے دوسرے مشاہدے میں کہا کہ حکومت نے جو ضوابط بنائے ہیں اس کی کوئی حدود مقرر نہیں کی ہیں۔ کون سی خبر جھوٹی ہے، کون سی خبر سچی ہے، سچی اور جھوٹی خبروں کے درمیان کوئی حدود مقرر نہیں کیے گئے ہیں۔ اگر مقرر کیے گئے ہیں تو ان کو پیش کیا جانا چاہیے۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچی جانی چاہیے، ضوابط واضح ہونے چاہئیں، اگر اصول و ضوابط طے نہیں ہیں تو کیا حکومت اپنی مرضی سے کہے گی کہ یہ سچ ہے اور یہ جھوٹ؟ جو خبر حکومت کو پریشانی میں مبتلا کرنے والی ہو گی وہ جھوٹی خبر اور جو خبر حکومت کی تعریف کرنے والی ہوگی تو وہ سچی خبر؟ یہ اصول و ضوابط کسی ڈکٹیٹر یا ملوکیت میں تو ہو سکتے ہیں لیکن کسی جمہوری طرزِ حکمرانی میں نہیں ہوسکتے۔
ہائی کورٹ کا تیسرا مشاہدہ یہ تھا کہ کیسے حکومت کے پاس ہی اختیار ہوگا کہ آخری بات اسی کی ہوگی؟ کیسے حکومت کے فیصلے کو ہی حتمی فیصلہ مانا جائے گا؟ کیسے حکومت کی بات ہی حرفِ آخر ہوگی؟ ایک جمہوری نظام میں حکومت اور عوام کی حصہ داری مساوی ہوتی ہے، پھر کیوں کر حکومت کی بات حرفِ آخر ہوسکتی ہے؟ جبکہ تنقید اور اختلاف جمہوریت کی اصل روح ہوتی ہے۔ اگر بات یوں ہے تو پھر حکومت کی بات ہی حتمی کیسے ہوسکتی ہے؟ سارے اختیارات حکومت کے پاس ہی کیسے ہوسکتے ہیں؟ فیصلے کا اختیار صرف حکومت کے پاس ہی کیسے رہ سکتا ہے، حکومت جو بولے وہی سچ عوام جو بولے وہ غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ حکومت جھوٹ بول رہی ہو، ہوسکتا ہے کہ عوام سچ بول رہے ہوں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت کئی معاملات میں غلط بیانی سے کام لیتی ہے، عوام کو گمراہ کرتی ہے۔ ایک اور بات ہائی کورٹ نے کہی کہ جو ادارہ جھوٹ اور سچ کی تصدیق کرنے والا ہے اس کا احتساب کون کرے گا؟ خبروں کی تصدیق کرنے والا ادارہ کسی خبر کو حتمی طور پر کیسے جھوٹی قرار دے سکتا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک خبر کو جھوٹی کہے اور وہ سچ ہو؟ ادارہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہو؟ اس ادارے کو کون چیک کرے گا؟ اس کے کوئی ضوابط مقرر نہیں ہیں، لہٰذا ان مدون کردہ ضوابط سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کیا ہے۔
ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ بنیادی حقوق ہی حتمی چیز نہیں ہے، اظہار خیال کی آزادی ایک بنیادی حق ضرور ہے لیکن اس بنیادی حق کو جس طرح چاہے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے اس پر کچھ اصول طے کیے جاتے ہیں، انہیں اصول و ضوابط کی روشنی میں اپنا حق حاصل کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کو اختیار ہے کہ ان بنیادی حقوق پر اصول و ضوابط طے کرے۔ لیکن عدالتوں نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے بارے میں جو فیصلے سنائے ہیں وہ غیر معمولی خلاف اصول جا کر سنائے ہیں، عدالتوں نے ہمیشہ بنیادی امور کو اوپر رکھا ہے۔ عدالتوں نے ہمیشہ یہ کہا ہے اور اپنے فیصلوں میں یہ بات بتائی ہے کہ اصولوں اور مستثنیات کے درمیان فرق ہونا چاہیے، یہ دونوں چیزیں مساوی نہیں ہیں اور نہ ہوسکتی ہیں۔ اصول کیا ہیں؟ وہ بنیادی حقوق ہیں جو اہمیت کے حامل ہیں۔ مستثنیات کیا ہیں؟ ان حقوق پر ضوابط مقرر کرنا ان پر چند حدود مقرر کرنا۔ اظہار خیال کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، اس پر حدود مقرر کرنا استثنائی صورت ہے، اسی لیے جب بھی بنیادی حقوق پر حدود مقرر کیے جائیں تو یہ حدود ایسے نہ ہوں کہ اس سے بنیادی حقوق ہی سلب ہو جائیں اور بنیادی حقوق ہی ختم ہو جائیں۔ ضوابط ایسے مقرر کیے جائیں جس سے بنیادی حقوق پر کوئی اثر نہ پڑے۔ وہ ضوابط بنیادی حقوق پر غالب نہ آنے پائیں، ورنہ جمہوریت کی روح ہی ختم ہو جائے گی۔
***

 

***

 حکومت نے جو ضوابط بنائے ہیں اس کی کوئی حدود مقرر نہیں کی ہیں۔ کون سی خبر جھوٹی ہے، کون سی خبر سچی ہے، سچی اور جھوٹی خبروں کے درمیان کوئی حدود مقرر نہیں کیے گئے ہیں۔ اگر مقرر کیے گئے ہیں تو ان کو پیش کیا جانا چاہیے۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچی جانی چاہیے، ضوابط واضح ہونے چاہئیں، اگر اصول و ضوابط طے نہیں ہیں تو کیا حکومت اپنی مرضی سے کہے گی کہ یہ سچ ہے اور یہ جھوٹ؟ جو خبر حکومت کو پریشانی میں مبتلا کرنے والی ہو گی وہ جھوٹی خبر اور جو خبر حکومت کی تعریف کرنے والی ہوگی تو وہ سچی خبر؟ یہ اصول و ضوابط کسی ڈکٹیٹر یا ملوکیت میں تو ہو سکتے ہیں لیکن کسی جمہوری طرزِ حکمرانی میں نہیں ہوسکتے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023