اسرائیلی جارحیت کے معاشی اور انسانی پہلو

مہلک ترین اسلحہ جات کی ٹیسٹنگ کے لیے فلسطین کے معصوموں کا انتخاب!

0

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

7 اکتوبر 2024 غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا ایک سال مکمل ہوگیا۔پچھلے ایک سال کے دوران کئی دیگر ممالک جیسے کہ علاقائی طاقت ایران بھی براہِ راست نہیں تواس کی حامی تنظیموں کی وجہ سے ان تنازعات میں الجھ گئے ہیں۔ وہیں اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ اور حماس کی تمام اعلیٰ قیادت کو ختم کرنے اور ان تنظیموں کو مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے کاکام جاری ہے۔ اپنے واضح مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اسرائیل نے مکمل استثنیٰ کے ساتھ لبنان، سیریا اور یہاں تک کہ یمن میں بھی فوجی حملے کیے ہیں۔تو کیا اس سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ کسی اور طاقت نے اسرائیل کو ان ممالک کو نیست و نابود کرنے اور ان کی آبادی کو ختم کرنے کا کام سونپا ہے؟
اسرائیل کے خلاف ایران کے اقدامات کو ’محور مزاحمت‘ کا ردِعمل قرار دیا گیا ہے، لیکن اسرائیل کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ وحشیانہ انداز میں مختلف ممالک میں فوجی کارروائی کرے؟ ساتھ ہی اب وقت آگیا ہے کہ اس بات کا حتمی فیصلہ کیا جائے کہ فلسطین میں اصل غاصب کون ہے؟
پوشیدہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ایک جارح ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے سب سے بڑے اسلحہ ساز اور برآمد کنندہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ موجودہ جنگ کے اس پوشیدہ پہلو کو ترکی کے خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی نے فاش کیا ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کے ایک سال کے موقع پر انادولو نے ایک سیریز کے طور پرکتاب ’دی فلسطین لیبارٹری‘ کے مصنف اینٹونی لووینسٹائن سے بات کی کہ کس طرح اسرائیل اپنی دفاعی صنعت کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے فلسطینی عوام کو بطور آلہ استعمال کرتا ہے۔
اینٹونی نے کہا کہ غزہ کی جنگ، جس میں 41,000 سے زیادہ جانیں جا چکی ہیں، اسرائیل کے نئے ہتھیاروں کے لیے ایک آزمائشی میدان بن چکا ہے۔’’اسرائیل اس سے قبل مغربی کنارے اور غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کے ذریعے نئے ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کا تجربہ اور استعمال کرتا رہا ہے۔ اور7 اکتوبر 2023سے پہلے ہی ان ہتھیاروں کے مختلف عالمی میلوں میں ان آلات اور ٹیکنالوجیوں کو فروخت کرنے کا کام کرتا رہا ہے۔‘‘ سڈنی میں مقیم مصنف نے انادولو کو بتایا کہ 2023 میں اسرائیلی دفاعی برآمدات ریکارڈ 13.1 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔
یہاں ہمیں اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ جو نیا اسلحہ اسرائیل ’عالمی اسلحہ مارکیٹ‘ میں فروخت کرتا ہے اسے وہ ‘فیلڈ ٹیسٹڈ’ کہتا ہے۔یعنی کہ ان اسلحہ جات کی کارکردگی فلسطینی عوام کی جانیں لے کر پہلے ہی طے کی جاچکی ہوتی ہے۔دراصل دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ کے بعد ہتھیاروں اور اسلحہ سازوں کے لیے اپنے اسلحہ انسانوں پرٹیسٹ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی تھی۔جبکہ اسرائیل نے انہیں مغربی کنارے میں حاصل کرلیا۔ جہاں یہ اپنی مرضی سے فلسطینیوں پر اور ان کے گھروں پر نئے ہتھیاروں کے ساتھ فوجی حملے کرتا ہے اور بعد میں وہی ہتھیار فروخت کرتا ہے جن پر’فیلڈ ٹیسٹڈ‘ کا لیبل چسپاں ہوتا ہے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے اسرائیل مغربی کنارے سے اپناقبضہ کبھی بھی ختم نہیں کرے گا۔
ستم ظریفی اس حقیقت سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ہتھیار ہمسایہ عرب ریاستیں خریدتی ہیں، جن میں سے اکثر فلسطینی کاز کی حمایت کا دعویٰ کرتی ہیں، لیکن اپنے علاقائی عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے وہ اپنے مبینہ دشمن اسرائیل سے ہتھیار خریدتے ہیں۔
تھنک ٹینک مڈل ایسٹ آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں اسرائیل کی ریکارڈ 12.5 بلین ڈالر کی دفاعی برآمدات کا تقریباً 25 فیصد حصہ ان عرب ممالک نے خریدا تھا جو کہ ان ممالک کے اسرائیل کے ساتھ گہرے اقتصادی اور دفاعی روابط کا اشارہ دیتے ہیں۔
اسرائیل کی وزارت دفاع کے مطابق، 2022 کی اسلحہ کی قیمتوں میں پچھلے تین سالوں سے 50 فیصد اضافہ ہوا ہے اور پچھلے دہائی کے مقابلے میں اس کا حجم دوگنا ہوگیا ہے۔ رائٹرز کے مطابق 2022 کی برآمدات میں ڈرونز کا حصہ 25 فیصد تھا، جب کہ میزائل، راکٹ یا فضائی دفاعی نظام 19 فیصد تھے۔
مزید برآں، ایک اور سطح پر ایک دوسرا اہم مسئلہ جسے بین الاقوامی برادری کو جلد از جلد حل کرناہے، وہ موجودہ تنازعہ کا انسانی زاویہ ہے۔اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق اس تنازعے میں اب تک کم از کم 41,431 افراد ہلاک، 95,818 زخمی اور 2.2 ملین آبادی میں سے 1.9 ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔جولائی 2024 میں سیٹلائٹ امیجری کے سروے میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ غزہ کی 63 فیصد عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے، جس میں 215,137 ہاؤسنگ یونٹس شامل ہیں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے رابطہ کار نے ستمبر میں رپورٹ کیا کہ 46 فیصد امداد کی فراہمی میں اسرائیل کی جانب سے رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ستمبر میں لبنان-اسرائیل سرحد پر تنازعات میں اضافے سے پہلے ہی تقریباً ایک لاکھ لبنانی افراد اسرائیلی گولہ باری کی وجہ سے ملک کے جنوب میں اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے تھے۔ وہیں حزب اللہ کے راکٹ حملوں کی وجہ سے تقریباً 63,000 اسرائیلی بھی ملک کے شمال سے اندرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں۔
لیکن ستمبر 2024 کے اواخر سے، بیروت اور پورے لبنان میں حزب اللہ اور فلسطینی اہداف پر اسرائیلی حملوں میں سیکڑوں شہری مارے گئے اور اندرونی اور سرحد پار نقل مکانی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اسرائیل کے حملے اور بمباری کے درمیان اب چند ہی دنوں میں دس لاکھ سے زیادہ لبنانی اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔
اس کے علاوہ شامی پناہ گزینوں اور لبنان میں مہاجر مزدوروں کی بڑی آبادی بھی بے گھر ہو گئی ہے، بہت سے لوگ سڑکوں پر یا عارضی خیموں میں رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔وہ ان عمارتوں تک رسائی سے قاصر تھے جنہیں لبنانیوں کے لیے پناہ گزینوں کے مراکزمیں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
کئی دہائیوں کے دوران، مشرق وسطیٰ میں متعدد وجوہات کی بنا پر بہت بڑے پیمانے پر سرحد پار نقل مکانی کا احیا کیا گیا ہے۔
لبنان میں اسرائیل-حزب اللہ کی موجودہ جنگ پہلی بار نہیں ہورہی ہے۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو ختم کرنے کے لیے، اسرائیل نے 1978 میں اور پھر 1982 میں لبنان پر حملہ کیا تھا۔ اسرائیل کے 1982 کے حملے کے نتیجے میں صابرہ اور شتیلا کے کیمپوں میں تقریباً 1,500 سے 3,000 فلسطینی شہریوں کا قتل عام ہوا تھا۔اور تب سے اب تک اس پورے خطے میں مختلف ممالک کے عوام ایک دوسرے ملک میں اپنی جان بچانے کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور رہے ہیں۔لیکن اس میں گزشتہ ایک سال کے دوران غزہ میں تقریباً 1.9ملین افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہوچکے ہیں کیونکہ غزہ کا 63فیصد حصہ کھنڈر بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہاں پر بھکمری جیسے حالات پیدا ہورہے ہیں اور پچیس سالوں کے بعد غزہ میں نومولود اور کم عمر بچوں میں پولیو کے نئے کیسز دریافت کیے گئے ہیں۔ کیونکہ عوام تک طبی سہولتیں اور ساتھ ہی کھانے پینے کا سامان پہنچانے میں عالمی تنظیموں کے کاموں میں اسرائیلی فوجی رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر مغربی دنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گی۔ اسرائیل کی وجہ سے اس پورے خطے میں کہیں بھی امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی مختلف عرب ممالک ایک پلیٹ فارم پر آسکتے ہیں اور مغربی طاقتیں یہی چاہتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا ہے کہ مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کی اصل وجہ وہاں کے فلسطینی عوام پر اپنے اسلحہ کی ٹیسٹنگ کرنا ہے اور مغربی ممالک اس چیز کو کبھی ختم کرنے کے لیے اسرائیل کے خلاف نہیں بول سکتے۔کیونکہ اس سے ان کے اپنے مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ مختلف بین الاقوامی ادارے بالخصوص اقوام متحدہ اور امریکہ اور برطانیہ جیسے مغربی ممالک خطے میں جنگ بندی کے نفاذ کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔ واضح طور پر اگلا قدم اسرائیل کو تمام مقبوضہ یا الحاق شدہ علاقوں سے نکالنا اور پھر اسرائیل کی بڑھتی ہوئی اسلحے کی صنعت کے مسئلے کو سنبھالنا ہے، لیکن اس کے لیے مغرب کو اپنے ہتھیاروں کی تیاری اور خرید و فروخت کو روکنا ہو گا۔
***

 

***

 ’’گزشتہ ایک سال میں ایک مرتبہ پھر اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ عالمی برادری کسی بھی فوجی تنازع میں انسانی جانوں کے ضیاع سے بہت کم متاثر ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اسلحہ کی صنعت سے بھاری منافع کمانے کے لالچ کو چھپایا جاتا ہے کیونکہ اس صنعت سے بہت سے مغربی ممالک کی معیشت کو سہارا ملتا ہے۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024