اسرائیلی انتقام: ‘بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا’

ایران پر کیے جانے والے جوابی حملے سے اسرائیل کی کمزوری طشت از بام

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

معاہدہ ابراہیم سے مشترکہ فوجی مشق تک کا مبارک سفر مجاہدینِ غزہ کے طفیل کامیاب
یکم اکتوبر 2024 کو ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد گودی میڈیا کا دل بَلیوں اچھلنے لگا تھا۔ ایران کی جرأت و دلیری کو سراہنے کے بجائے یا اسرائیل کی ناکامی پر گفتگو کرنے کے بجائے قیاس آرائیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ہر کوئی اسرائیلی وزیر اعظم کی دھمکی کو اسی طرح بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا تھا جیسے وہ اس کے عزیز دوست مودی کا بیان ہو۔ کوئی کہہ رہا تھا اب ایران پر قیامت آنے ہی والی ہے کیونکہ اس نے اپنی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کا بہترین موقع از خود اسرائیل کو دے دیا ہے۔ اب ایرانی تیل کے سارے ذخائر تباہ کردیے جائیں گے اور کوئی کہتا تھا کہ ریفائنری محفوظ نہیں رہے گی، ایران اس غلطی کی بہت بڑی قیمت چکائے گا اور اس کے معیشت کی کمر ٹوٹ جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ اگر وہ دھمکی دیتے وقت نیتن یاہو کے کانپتے ہاتھوں پر نظر ڈالتے تو شاید اتنا آگے تک نہیں جاتے مگر جب آنکھوں پر نفرت کی پٹیاں چڑھی ہوں اور عصبیت کے فروغ سے معاشی فائدہ جڑ جائے تو نہ حقیقت دکھائی دیتی ہے اور نہ دکھائی جاتی ہے۔ خیر پچیس منٹ کے اندر غزہ پر چڑھ دوڑنے والا اسرائیل پچیس دنوں تک شش و پنج میں رہا اور پھر ایسی معمولی پھلجڑی چھوڑی کہ بے ساختہ آتش کا یہ شعر یاد آ گیا؎
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
ایرانی حملے کے بعد ایک معروف دفاعی ماہر فرینک گارڈنر نے پیشنگوئی کی تھی اسرائیل شاید اس بار ایران کے خلاف اس تحمل کا اظہار نہیں کرے گا جو اس نے اپریل میں بین الاقوامی طاقتوں کے دباؤ آ کر میں کیا تھا۔ اس کے باوجود پچیس دنوں تک وہ تذبذب کا شکار رہا۔ اس دوران وہ اپنے مخالفین کو فضائی حملوں اور خفیہ کارروائیوں سے قتل کرنے اور ایران سمیت اس کے اتحادیوں پر اپنی فضائی طاقت کی برتری ثابت کرنے کے لیے پیچ و تاب کھاتا رہا مگر اس کی ہمت نہیں کرسکا۔ اسرائیل کے سابق انٹیلی جنس افسر اوی ملامد ایرانی اہداف کے خلاف فوری اسرائیلی جوابی کارروائی دیکھنے کی امید کر رہے تھے مگر وہ پوری نہیں ہوئی۔ یہ قیاس آرائی بھی ہو رہی تھی کہ اسرائیل نے طویل عرصے سے ایران کے خلاف کارروائی کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اب تو بس اس کو عملی جامہ پہنانے کی دیر ہے مگر وہ قیاس بھی غلط نکلا۔
اسرائیل کی جوابی کارروائی میں سب سے واضح اہداف تو وہ اڈے تھے جہاں سے ایران نے اسرائیل پر میزائل داغے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ کمانڈ اینڈ کنٹرول نیز ایندھن فراہم کرنے والی سہولیات بھی شامل تھیں لیکن ان میں سے کسی کا بھی بال بیکا نہیں ہوا۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ وہ ایران میں اپنے خفیہ ایجنٹوں کی مدد سے ان سرکاری عہدیداروں کے خلاف کارروائیاں کرے جنہوں نے میزائل حملے کا حکم دیا یا ان پر عمل درآمد کیا تھا لیکن وہ مقصد بھی پورا نہیں ہوا۔ اسرائیل کو سب سے بڑی پریشانی ایران کے جوہری تنصیبات سے ہے۔ وہ ایران کو مشرق وسطیٰ میں جوہری طاقت کے طور پر اپنا شریک دیکھنا نہیں چاہتا اس لیے ماضی میں کئی بار ان کو تباہ کرنے کا ارادہ ظاہر کرچکا ہے۔ اس لیے وطن عزیز کے اندر بھی موجود ہمدردان اسرائیل کی شدید خواہش تھی کہ وہ ایران کا جوہری مرکز تباہ کردے تاکہ یہاں خوشیوں کے شادیانے بجائے جاسکیں لیکن دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے کے مصداق ایران کی ریفائنریوں اور تیل کے کنوؤں کو جلتا دیکھنے والوں کی خواہش بھی دھواں دھواں ہوگئی۔
اڈانی کے این ڈی ٹی وی نے دونوں حملوں کی ویڈیوز ساتھ ساتھ چلا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ ہندوستان ٹائمز اور ٹائمز آف انڈیا نے بھی اسرائیلی حملے کو ناکام قرار دے دیا۔ اسرائیل کی یہ حالت اس لیے ہوئی کیونکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ایرانی میزائل حملے کے جواب میں جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اسرائیل کو ضرورت بھر یعنی علامتی کارروائی کرنے کی تلقین کی۔ اس طرح گویا بائیڈن نے احتیاط کے ساتھ برابر کی کارروائی کرنے کی توثیق پر اکتفا کیا۔ ایران کی جانب سے اسرائیل پر 180 سے زائد بیلسٹک میزائل داغے گئے تھے۔ اس سے قبل رواں سال اپریل میں بھی دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے بعد ایران نے اسرائیل کی جانب ڈرونز اور میزائل داغے تھے، اس طرح ایک قلیل عرصے کے اندر دو حملوں کا دباؤ تھا۔
ایران کے دوسرے حملے سے متعلق پہلے تو اسرائیل نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے پوری طرح ناکام بنا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد بتایا گیا کہ وہ سب نشانہ چوک کر غیر آباد علاقوں میں جا پڑے اور بالآخر یہ تسلیم کیا گیا کہ فوجی ٹھکانوں پر تو گرے مگر کوئی نقصان نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ فوجی تنصیبات پر ویرانی کیوں چھائی ہوئی تھی؟ عصر حاضر میں تصاویر کے ساتھ ویڈیوز سارا جھوٹ پکڑ لیتی ہیں۔ ایران کے مطابق ہائپرسونک میزائل میں سے 90 فیصد اپنے ہدف یعنی تین اسرائیلی دفاعی اڈوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اسرائیل نے ایرانی حملوں کا انتقام لینے کے لیے جو میزائل داغے وہ ایران کو بڑا نقصان پہنچانے میں ناکام رہے۔ اس بار پھر ایران نے اسرائیلی میزائل حملے ناکام بنانے کا ویڈیو جاری کرکے اسرائیل کی پول کھول دی۔ ایرانی ایئر ڈیفنس نے تہران، خوزستان اور ایلام کے فوجی مراکز سے دفاعی نظام کے ذریعے اسرائیل کے حملے کو موثر انداز میں ناکام کرنے کے ثبوت پیش کردیے۔ البتہ دو فوجیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ اس کے علاوہ کوئی بھاری نقصان نہیں ہوا۔
اس کے برعکس اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ اس نے ایران میں بیس مقامات کو نشانہ بنایا مگر ایرانی ہوائی اڈوں پر معمول کے مطابق صورتحال کی ویڈیوز جاری کرنے کے بعد احتیاطاً پروازوں کو روکنے کا اعلان کیا گیا۔ اس دوران تہران کی معمول کے مطابق زندگی کو نہ صرف ایرانی ٹیلی ویژن پر دیکھا جاسکتا تھا بلکہ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ایف پی آئی کے نامہ نگار نے بھی اس کی تصدیق کی۔ ایرانیوں کا دعویٰ تھا کہ تہران کی آوازیں اس کے دفاعی نظام سے مزاحمت کے سبب تھیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے صہیونی جارحیت اور اس کو روکنے میں ایرانی ائیر ڈیفنس سسٹم کی کامیابی کو تسلیم کیا نیز، عرب ذرائع ابلاغ نے بھی ایرانی فضائی دفاعی نظام کے موثر اور طاقتور ہونے کو سراہا۔العہد نامی عراقی چینل نے اس حوالے سے کہا کہ صہیونی دعوے کے برعکس تہران کے امام خمینی ہوائی اڈے اور مہر آباد ائیرپورٹ پر کوئی حملہ نہیں ہوا جبکہ مختلف مقامات پر ہونے والے دھماکے ایرانی دفاعی نظام کی جانب سے فائرنگ کا نتیجہ تھے۔
اردن کے الغد چینل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صہیونی حکومت کے حملے کو ایرانی ائیرڈیفنس سسٹم نے کامیابی کے ساتھ ناکام کیا۔ الغد نے ایرانی ڈیفنس سسٹم کی ہوشیاری اور بروقت کارروائی کو سراہا۔ روسیا الیوم نے ویڈیوز جاری کرکے اپنے نامہ نگار کے حوالے سے کہا کہ تہران میں دفاعی سسٹم کے فعال ہونے کے بعد دھماکوں کا سلسلہ بند ہوا۔ خبروں کی ویب سائٹ المصراوی نے بھی ایک ویڈیو کلپ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی ڈیفنس سسٹم نے کامیابی کے ساتھ صہیونی حملے سے اپنا دفاع کیا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب کا کوئی مرکز صہیونی حملے کا شکار نہیں ہوا۔ القاہرہ الاخباریہ نے لکھا کہ ایرانی ائیر ڈیفنس سسٹم نے ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بروقت کارروائی کی اور صہیونی جارحیت کو ناکام بنادیا۔ بعض مقامات پر جزوی نقصان ہوا جس کی تحقیقات کی جاری ہیں۔ صدی البلد نامی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق تہران کے مشرق میں ائیر ڈیفنس سسٹم فعال ہوگیا ہے۔ صہیونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی کارروائی کے بعد دفاعی نظام خاموش ہوا۔
مہر خبر رساں ایجنسی کی بین الاقوامی سروس عراقی "نجباء” تحریک کے نمائندے سید عباس موسوی نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ اس ناکام اور مایوس کن حملے نے صیہونی حکومت کی کمزوری کو برملا ظاہر کر دیا ہے اور تمام تر بین الاقوامی حمایت کے باوجود شیطانی دہشت گرد ریاست کا یہ حملہ ناکام ہو گیا ہے۔ غاصب مقتدرہ کا حملہ ناکام، احمقانہ اور اس کی ہٹ دھرمی کا مظہر تھا۔ اس حملے سے ظاہر ہوا کہ صیہونی حکومت مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ اس کا ایک ثبوت حماس کے ساتھ ایک سال سے طویل مزاحمت ہے۔ اسی ہفتے بھی چار اسرائیلی افسر مارے گئے جن میں 401 ویں آرمرڈ بریگیڈ کا کمانڈر اور کرنل بھی شامل تھا۔ اس پر بارودی سرنگوں سے حملہ کیا گیا تو اس نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ ایسے میں القسام کے ایک اسنائپر نے سینئر افسر کی گردن میں گولی مار دی۔ اسے انتہائی نازک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسرائیلی فوج نے اس کی ہلاکت کا باضابطہ اعلان کر دیا اور وزیر دفاع سمیت کئی رہنماؤں نے اس کی تعزیت کی۔
اسرائیل اپنے 900 سے زیادہ فوجیوں کے ہلاک ہونے کا اعتراف کرچکا ہے حالانکہ جس طرح شہریوں کی ہلاکت بڑھا چڑھا کر بتائی جاتی ہے اسی طرح فوجیوں کی اموات کو کم کرکے بتانے کا رواج ہے اس لیے فوجیوں کی موت بہت زیادہ ہوگی۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے واپس آنے کے بعد خود کشی کرلی یا نروس بریک ڈاون کا علاج کروا رہے ہیں۔اسرائیل کے ساتھ ایران کے براہِ راست تصادم کا یہ تیسرا موقع ہے۔ ایران کے روحانی قائد آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی پچھلی تقریر میں کہا تھا کہ ’حالات ایران عراق جنگ جیسے ہوگئے ہیں‘ اس سے قبل 1982 میں ایرانی فوج نے شہر خرم کو عراقی فوج کے قبضے سے آزاد کرواتے وقت ایسی ہی کارروائی کی تھی۔ اس کے فوری بعد اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا تھا اور ایران نے لبنان کی مدد کے لیے اپنے فوجی بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس واقعہ کے کئی سال بعد 2006 میں جب اسرائیل نے ایک بار پھر لبنان پر حملہ کیا تو کسی کو فتح کی امید نہیں تھی مگر رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے خفیہ طور پر پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی سے لبنان کی مدد کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس وقت اسرائیل کو پہلی بڑی شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس کے تقریباً اٹھارہ سال بعد جب اسرائیل کی جانب سے لبنان پر ایک اور حملہ کیا گیا تو اس کے جواب میں ایران نے بھی اسرائیل پر دوسری بار میزائل حملہ کر دیا۔ آگے چل کر حسن نصر اللہ سمیت دیگر حزب اللہ رہنما شہید کردیے گئے اور اس سے قبل تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا گیا تو اس تیسرے حملے کی ضرورت پڑی۔ یہ صورتحال اس معنی میں ماضی سے بہت مختلف ہے جب 1967 میں اردن، شام اور مصر کے ساتھ اسرائیل کی جنگ چھ دنوں میں ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد مشرقی یروشلم کے علاوہ غرب اردن اور گولان کی پہاڑیاں اس کے قبضے میں چلی گئی تھیں۔
فی زمانہ اسرائیل پر نہ صرف غزہ بلکہ لبنان، عراق، شام، یمن بلکہ اب ایران سے بھی حملے ہو رہے ہیں اور اسرائیلی انتظامیہ کا نروس بریک ڈاون ہونے والا ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل کی ظالمانہ کارروائی کا بلا واسطہ جواز پیش کرتے ہوئے خود مظلوم پر اکسانے کا الزام ڈال دیا جاتا تھا۔ اس بار تو ایران نے پہلے حملہ کرکے یہ کام بہت آسان کر دیا تھا مگر اسرائیل کو حیرت کا جھٹکا لگا کیونکہ ایران پر حملے کے خلاف صیہونی ریاست کو جارحانہ پالیسیاں ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے اسے ’بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی‘ قرار دیا گیا۔ عراقی حکومت کے ترجمان بسیم الوادی نے ایک بیان میں اسرائیلی اقدامات پر ’بین الاقوامی برادری کی خاموشی‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی ریاست اپنی جارحانہ پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے اور ایرانی اہداف کے خلاف بلا روک ٹوک حملوں کے ذریعے خطے میں تنازعہ کو وسیع کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ عراق ’غزہ اور لبنان میں جنگ بندی اور خطے میں استحکام کی حمایت کے لیے جامع علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں پر زور دینے والے اپنے پختہ موقف کا اعادہ کرتا ہے‘۔
سعودی وزارت خارجہ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’ایران کی خود مختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ قرار دیا اور تمام فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرکے کشیدگی کم کرنے کی تلقین کی تاکہ خطے کے ممالک اور عوام کی سلامتی اور استحکام کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے ایران کے خلاف ’صہیونی جارحیت‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے ایران کی خود مختاری کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کے اس اقدام سے نہ صرف خطے کی سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوگا بلکہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا، امریکہ کی حمایت یافتہ صہیونی ریاست اس جارحیت کے نتائج کی مکمل طور پر ذمہ دار ہے۔ پاکستان نے ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا اور سلامتی کونسل سے امن کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ وزارت خارجہ نے تنازعہ کو بڑھانے اور پھیلانے کی پوری ذمہ داری اسرائیل پر ڈال دی۔
متحدہ عرب امارات سے چند جزیروں کو لے کر ایران سے تنازعہ ہے، لیکن اس نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی اور خطے میں ’مسلسل کشیدگی اور علاقائی سلامتی اور استحکام پر اس کے اثرات پر گہری تشویش‘ کا اظہار کیا۔ عمان کی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی حملے کی مذمت میں کہا گیا کہ یہ حملہ ایران کی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اسرائیلی فضائی حملے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ عمان نے بین الاقوامی برادری سے ایک بار پھر جارحیت اور ہمسایہ ممالک کی سرزمین پر خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک پر اسرائیل کے مسلسل حملے خطے کو وسیع پیمانے پر جنگ کے دہانے پر لا رہے ہیں۔ کویت اور لبنان کی خارجہ وزارتوں نے بھی اسرائیل کے ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کشیدگی کو بڑھاوا دینے والے اقدامات سے گریز کے لیے کہا گیا ہے۔ اردن نے واضح کیا کہ اس کی فضائی حدود سے کسی بھی فوجی طیارے کو گزرنے کی اجازت نہیں دی گئی جو علاقے میں کسی فریق سے تنازع کا شکار ہے۔
شام نے ایران سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایران کو اپنی خود مختاری اور اپنے شہریوں کی زندگی کو بچانے کے لیے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔‘ مصر کے دفتر خارجہ نے بھی ایک بیان میں اسرائیل کے ایران پر حملے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے علاقائی استحکام کو ضروری قرار دیا۔ اس کے برعکس واشنگٹن نے یہ اعتراف تو کیا کہ اسے اسرائیلی حملوں کے بارے میں پہلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس میں امریکہ ملوث نہیں ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے ایران کو اسرائیلی حملوں کا جواب نہ دینے کی نصیحت کرتے ہوئے فریقین کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ یہاں تک کہ ہندوستان نے بھی ایران پر صہیونی حکومت کی جارحیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں موجودہ صورت حال سے کشیدگی میں اضافے اور خطے کے امن و استحکام پر اس کے نتائج سے گہری تشویش ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب بے گناہ شہری مصائب کا شکار ہیں، دشمنی چھوڑ کر تحمل اور بات چیت کی دعوت دی۔
اس دوران اسرائیل کے لیے سب سے ہیبت ناک خبر یہ آئی ایران اور سعودی عرب نے خلیج عمان میں مشترکہ بحریہ کی مشق شروع کر دی ہے۔ سعودی وزارت دفاع کے ترجمان نے 23 اکتوبر کو جنگی مشقوں میں اپنے ملک کی شرکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ رائل سعودی نیول فورسز نے حال ہی میں بحیرہ عمان میں دیگر ممالک کے ساتھ ایرانی بحری افواج کے ساتھ مشترکہ بحری مشق کا اختتام کیا۔ اس سے آگے بڑھ کر ایرانی خبر رساں ایجنسی ISNA نے ایران کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل شہرام ایرانی کے حوالے سے کہا تھا "سعودی عرب نے بحیرہ احمر میں بھی مشترکہ مشقوں کا اہتمام کرنے کی پیشکش کی ہے۔ یہ فوجی مشقیں اس ماہ کے شروع میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ریاض کے دورے کے بعد ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی۔ چین کی ثالثی میں سعودی اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات بحال کرنے کا پچھلے سال جو معاہدہ طے پایا تھا یہ اس میں بہت بڑی پیش رفت ہے۔ معاہدہ ابراہیم سے مشترکہ فوجی مشقوں تک کا یہ مبارک سفر غزہ کے مسلمانوں کی عظیم مزاحمت کے طفیل ہے۔ ایسے میں علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024