اسرائیلی ہٹ دھرمی کی انتہا ۔عالمی عدالت کا فیصلہ مسترد

!کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں

مسعود ابدالی

ہسپانیہ، ناروے اور آئرلینڈ کا فلسطین کو بطور ملک تسلیم کرنا بڑی سفارتی کامیابی
امریکی طلباء کے ساتھ انتقامی کاروائی جاری۔ متعدد فارغین کی اسناد زیرِ التواء
عالمی عدالت (ICJ) نے رفح میں فوری جنگ بندی کا حکم دے دیا۔ دو ہفتہ پہلے جنوبی افریقہ نے عدالت کو دہائی دی تھی کہ اسرائیلی حملے سے وہاں پناہ لیے ہوئے 12 لاکھ شہریوں کی زندگی خطرے میں ہے لہٰذا فوری طور پر عبوری حکم جاری کیا جائے۔ جمعہ 24 مئی کو جسٹس نواف سلام نے فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ رفح میں فوجی آپریشن فوراً بند کردے۔ تل ابیب کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کی رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ فاضل عدالت نے کہا کہ رفح میں اسرائیلی اقدامات سے حیاتِ انسانی کے لیے درکار بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے اور فلسطینی عوام کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ فوجی کارروائی جاری رہنے سے ایک خوف ناک انسانی سانحہ جنم لے سکتا ہے۔ فیصلے میں بہت صراحت اور غیر مبہم انداز میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی تفتیشی ٹیم کو غزہ جانے کے لیے سہولت فراہم کرے۔عبوری حکم میں 28 مارچ کو جاری ہونے والے حکم کا اعادہ کرتے ہوئے غزہ پٹی پر امداد کی فراہمی میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ پندرہ رکنی بنچ کے 13 ججوں کی حمایت سے جاری ہوا۔ صرف یوگنڈا کی جسٹس Julia Sebutinde نے مخالفت کی اس لیے کہ مخالفت کرنے والے دوسرے جج کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ آئی سی جے مدعی اور مدعا علیہ کے ایک ایک جج کو عدالت کی معاونت کے لیے رکھتی ہے۔
اسرائیل اور اس کے اتحادی جو عالمی فوج داری عدالت (ICC) کے مستغیث (Prosecutor) کریم خان کی جانب سے وزیر اعظم نتن یاہو، وزیر دفاع اور عسکری ونگ کے سربراہ کے خلاف پروانہ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست پر پہلے ہی خاصے مشتعل تھے،اس حکم پر پھٹ پڑے۔ فیصلے کو یہودی دشمن (Antisemitic) قرار دیتے ہوئے قدامت پسند حکم راں اتحاد کے ترجمان اتامر بن گوئر نے تبصرے کے طور پر اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن گوریان کا یہ قول نقل کیا کہ ’ہمارا مستقبل اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ Gentiles (غیر یہودی) کیا کہیں گے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہودی کیا کریں گے۔‘
غزہ کی پٹی کو دنیا سے ملانے والے راستے معبر رفح (Rafah Crossing) پر اسرائیلی قبضے کی وجہ سے غذا اور دوا کی فراہمی منقطع ہے۔ ہسپتال اندھیروں میں ڈوبے ہوئے اور بچھی کھچی ایمبیولینس گاڑیاں ناکارہ ہو چکی ہیں۔ اسرائیل کے دباؤ پر مصری صدر جنرل السیسی نے پاکستان کی الخدمت سمیت مسلم دنیا سے غزہ کے لیے مصر آنے والی مدد اسرائیل کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ یعنی افریقہ و ایشیا کے غریب مسلمانوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر جو امدادی سامان فلسطینیوں کے لیے بھیجا ہے وہ اب سرائیل میں تقسیم ہوگا! جنرل صاحب کی ’فراخ دلانہ‘ پیشکش پر مقتدرہ فلسطین (PA) کے سربراہ محمود عباس بھی نہال ہیں اور صدر بائیڈن نے مصر کا پرجوش شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
امریکہ میں طلباء کے خلاف انتقامی کارروائی جاری ہے۔ جامعہ ہارورڈ نے مظاہرہ کرنے والے 13 طلباء کی اسناد کا اجراء ایک سال کے لیے مؤخر کر دیا ہے جن میں زیادہ تر پی ایچ ڈی کے امیدوار ہیں جو چھ سات سال محنت کر کے سند کے حق دار بننے والے تھے۔سزا پانے والوں میں Rhodes scholar پاکستانی طالب علم اسمر اسرار صفی اور ہندوستان کی شردھا جوشی بھی شامل ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف اساتذہ کی منظور شدہ قرارداد جامعہ کے گورننگ بورڈ نے مسترد کر دی ہے۔ اسرائیلی نواز عناصر، طلباء کے ساتھ ہارورڈ کے اساتذہ پر بھی Anti-Semitic ہونے کا الزام لگا رہے ہیں کہ احتجاجی مظاہرے میں Harvard Out of Occupied Palestine کے نعرے لگائے گئے، یعنی اسرائیل کو ’مقبوضہ فلسطین‘ کہا جا رہا ہے۔
جبرو تشدد کے ذریعے امریکی جامعات میں طلباء کے احتجاجی کیمپ اکھاڑ دیے گئے ہیں لیکن اب اسرائیل کے پارکوں اور سڑکوں کے کنارے خیمے لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ غزہ سے متصل علاقوں کے دو لاکھ افراد کو اسرائیلی فوج نے وہاں سے ہٹنے کا حکم دیا تھا۔ کچھ عرصہ انہیں ہوٹلوں میں رکھا گیا لیکن اب ان کا خرچ بند ہے۔ چنانچہ یہ لوگ امریکی طلباء کی طرح بطور احتجاج خیمہ زن ہوگئے ہیں۔
امریکی اہل دانش کی طرح اسرائیلی تعلیمی اداروں میں بھی بے چینی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ ہفتہ اسرائیلی جامعات کے 1400 سے زیادہ اساتذہ نے وزیر اعظم کے نام ایک کھلے خط میں لکھاکہ ’ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ کو بلا تاخیر ختم کرے اور یرغمالیوں کی فوری واپسی کو یقینی بنائے کہ فوری جنگ بندی اخلاقی تقاضا اور اسرائیل کے مفادات کے عین مطابق ہے۔‘
حکومتی حلقے بھی عسکری حکمت پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسرائیلی سلامتی کونسل کے سینئر رکن Dr. Yoram Hemo نے مایوس ہو کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دےدیا، وزیر اعظم کے نام خط میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا ’موجودہ طریقہ کار جاری رکھ کر مزاحمت کاروں کو شکست دینا ممکن نہیں بلکہ مجھے یہ ناممکن لگتا ہے۔اصل ہدف کے علاوہ متبادل کامیابیاں حاصل کی جاسکتی تھیں لیکن اس کے امکانات بھی اب ختم ہوگئے ہیں۔ حکومت آپریشن جاری رکھنا چاہتی ہے’ خاکم بدہن انجام تصور سے بھی بدتر ہوسکتا ہے‘
سفارتی محاذ پر فلسطینیوں کو گزشتہ ہفتہ بڑی کامیابی نصیب ہوئی جب ہسپانیہ، ناروے اور آئرلینڈ کے وزرائے اعظم نے مشترکہ بیان میں اعلان کیا کہ یہ ممالک 28 مئی سے فلسطین کو خود مختار ریاست تسلیم کرلیں گے۔ بیان میں کہا گیا کہ فلسطین کو تسلیم کیے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن نہیں قائم ہو سکتا اور جتنے زیادہ ممالک جتنا جلد فلسطین کو تسلیم کر لیں گے اتنی ہی تیزی سے علاقے میں امن بحال ہوگا۔ دوسرے دن اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آئرلینڈ کے وزیر خارجہ مائیکل مارٹن نے کہا کہ ان کا ملک ریاست فلسطین کو 1967 کی سرحدوں کے مطابق تسلیم کر رہا ہے، یعنی غزہ، مغربی کنارہ اور دو یروشلم۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی یروشلم (دیوارِ گریہ) اسرائیل کا اور مشرقی بیت المقدس (القدس شریف) فلسطین کا دارالحکومت ہے۔
اس فیصلے پر اسرائیل میں سخت اشتعال ہے۔ وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے اسے دہشت گردوں کی پشت پناہی قرار دیتے ہوئے تینوں ممالک سے سفیروں کو مشورے کے لیے واپس بلا لیا ہے۔ ہسپانیہ کی وزیر محنت و معاشیات اور نائب وزیر اعظم دوم محترمہ جولاندا دیز (Yolanda Díaz) نےایک جلسے میں From the river to the sea, Palestine will be Free کا نعرہ لگا کر غصے کی آگ پر تیل چھڑک دیا۔ جب کسی صحافی نے اس ’آمد کی شانِ نزول‘ پوچھی تو موصوفہ نے کندھے اچکاتے ہوئے شانِ بےنیازی سے کہا’’آج کل ہر شخص یہی کہہ رہا ہے‘‘ یعنی ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی۔ معاملہ یہاں تک رہتا تب بھی ٹھیک تھا، لیکن اسی شام تل ابیب کے ہسپانوی سفارت خانے کے باہر سلیم الفطرت اسرائیلیوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرکے غدر کی ابتدا کر دی۔ سفارتی و سیاسی تنہائی اپنی جگہ، اسرائیل کے نظریاتی حامی اب بھی پر جوش ہیں۔ ایک عرصے سے گوشہ تنہائی میں رہنے والے دانشور سلمان رشدی نے جرمن رسالے Bild کو ایک انٹرویو میں فلسطینی ریاست کے ’متوقع قیام‘ پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ بھارتی نژاد سلمان رشدی کا خیال ہے کہ ’اگر فلسطینی ریاست قائم ہوئی تو یہ تنگ نظر طالبانی ریاست سے مختلف نہیں ہوگی اور جو لوگ آزاد فلسطین کے نعرے لگا رہے ہیں وہ آزاد ریاست نہیں انتہا پسند جنونی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘
اپنے تین اتحادیوں کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر صدر بائیڈن نے بہت محتاط ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ قصر مرمریں کے ترجمان نے کہا کہ ’صدر بائیڈن ہمیشہ سے دو ریاستی حل کے پرجوش حامی رہے ہیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے عمل میں آنا چاہیے، مختلف ممالک کی جانب سے یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی کوشش میں صدر بائیڈن تیزی سے غیر مقبول ہو رہے ہیں یعنی نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم والی بات ان پر صادق آ رہی ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے کے مطابق، امریکہ کی اُن چھ ریاستوں میں جہاں اس بار گھمسان کا معرکہ درپیش ہے، ڈونالڈ ٹرمپ آگے لگ رہے ہیں۔ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیواڈا، وسکونسن اور پنسلوانیہ کی ریاستوں میں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔گزشتہ انتخابات میں یہ تمام ریاستیں جیت کر جناب بائیڈن نے 79 انتخابی ووٹ اپنے نام کر لیے تھے۔ اگر اس بار ان میں سے دو تین ریاستوں میں بھی وہ ہار گئے تو صدر صاحب کو قصرِ مرمریں سے بوریا بستر لپیٹنا ہوگا یعنی بے گناہوں کے لہو سے جنم لینے والے تالاب میں بائیڈن سیاست غرق ہو جائے گی۔
غزہ خونریزی کا دباو ڈونالڈ ٹرمپ بھی محسوس کر رہے ہیں۔ جمعہ 24 مئی کو جب سابق صدر نیویارک کے علاقے برونکس میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے تو وہاں موجود اسرائیل نواز افراد نے Bring them home کے نعرے لگائے۔ کئی بار جناب ٹرمپ نے نظر انداز کرتے ہوئے پُر اعتماد لہجے میں sure کہا لیکن بار بار کی مداخلت سے جنجھلا کر اپنے مخصوص لہجے میں بولے۔ ’میرا خیال ہے جن کا آپ اور ہر کوئی انتظار کر رہا ہے، ان میں سے بہت سے مر چکے ہیں، کچھ شاید زندہ ہوں لیکن اکثر مر چکے ہیں۔‘
غزہ کو ملیا میٹ کردینے کے ساتھ آزاد اظہار کا گلا گھونٹ دینے کی کارروائی میں مزید شدت آگئی ہے۔ الجزیرہ پر پابندی کے بعد گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (AP) کے دفتر پر چڑھ دوڑی اور نشریات بند کرکے کیمرے، کمپیوٹر اور دوسرے آلات بھی چھین لیے۔اسرائیلی وزیر اطلاعات سلام کرہی کا کہنا ہے کہ اے پی، میدان جنگ کی روداد براہ راست دکھا کر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ دوسری طرف اسرائیل کے فوجی شرم ناک تصاویر اور بصری تراشے خود جاری کر رہے ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل نے ایک تصویر شائع کی ہے جس میں جامعہ غزہ پر قبضے کے بعد لائبریری کی کتابوں کو دیاسلائی دکھا کر ایک دلاور کتاب پڑھتا نظر آرہا ہے۔صدیوں قبل بغداد پر قبضے کے بعد سب سے پہلے وہاں کا مرکزی کتب خانہ جلا دیا گیا تھا۔ لیکن ان میں سے کچھ نے جب کتابیں پڑھنے کی ہمت کر لی تو یہ وحشی، انسانیت کا فخر اور تہذیب و اخلاق کے استاد بن گئے۔ صحافت کا گلا گھونٹنے اور جھوٹے پروپیگنڈے کی ایک عبرتناک مثال پر گفتگو کا اختتام کرتے ہیں کہ سات اکتوبر کی کارروائی میں اسرائیلی فوج کے دوسرے افسروں کےساتھ غزہ بریگیڈ کے کمانڈر کرنل آصف حمامی (Assaf Hamami) کو مزاحمت کاروں نے جنگی قیدی بنالیا تھا لیکن اسرائیلی فوج نے ان کے اہل خانہ کو مطلع کیا کہ کرنل صاحب داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان کے لیے شجاعت کے اعلیٰ اعزاز کی سفارش ہوئی اور دسمبر میں موصوف کی تدفین بھی پورے عسکری تزک و احتشام سے کردی گئی مگر گزشتہ ہفتے امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے مزاحمت کاروں کے حوالے سے بتایا کہ کرنل صاحب نے پہلے ہی ہلے میں ہتھیار ڈال کر خود کو مزاحمت کاروں کے حوالے کر دیا تھا اور موصوف غزہ میں قید ہیں۔ دعوے کے ثبوت میں مستضعفین نے بصری تراشا بھی جاری کردیا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 امریکہ میں طلباء کے خلاف انتقامی کارروائی جاری ہے۔ جامعہ ہارورڈ نے مظاہرہ کرنے والے 13 طلباء کی اسناد کا اجراء ایک سال کے لیے مؤخر کر دیا ہے جن میں زیادہ تر پی ایچ ڈی کے امیدوار ہیں جو چھ سات سال محنت کر کے سند کے حق دار بننے والے تھے۔سزا پانے والوں میں Rhodes scholar پاکستانی طالب علم اسمر اسرار صفی اور ہندوستان کی شردھا جوشی بھی شامل ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف اساتذہ کی منظور شدہ قرارداد جامعہ کے گورننگ بورڈ نے مسترد کر دی ہے۔ اسرائیلی نواز عناصر، طلباء کے ساتھ ہارورڈ کے اساتذہ پر بھی Anti-Semitic ہونے کا الزام لگا رہے ہیں کہ احتجاجی مظاہرے میں Harvard Out of Occupied Palestine کے نعرے لگائے گئے، یعنی اسرائیل کو ’مقبوضہ فلسطین‘ کہا جا رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024