اسرائیلی عوام سڑکوں پر

غزہ سے فوج بلاو، ہمارے پیاروں کو واپس لاو

مسعود ابدالی

انتہا پسند وزیر اندرونی سلامتی کے منہ پر خاک پھینک دی گئی
ناروے، نسل کشی کے سہولت کار اداروں میں سرمایہ کاری نہیں کرےگا
پیر 8 ستمبر کی صبح امریکی سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس نے لندن میں اپنے برطانوی ہم منصب رچرڈ مور کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے نوید سنائی کہ ’غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر نوے فیصد اتفاق ہوچکا ہے‘۔نوے فیصد سن کر ہمیں اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ مشغلہ زبان سے زیادہ کچھ نہیں۔ برنس صاحب اگر ننانوے فیصد کہہ دیتے تب بھی غلط نہ ہوتا کہ اختلاف تو بس غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر ہے۔ اور ہوا بھی ایسا ہی کہ شام کو اسرائیل کے ٹیلی ویژن چینل 12 نے مذاکرات کاروں کے حوالے سے بتایا کہ اہل غزہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں اور وہ اپنے موقف میں لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد پرامید نظر آنے والے سی آئی اے کے سربراہ نے مذاکرات ناکام ہونے کا مایوس کن اعلان کردیا۔دوپہر کو CNNکے ایک پروگرام میں اسرائیلی مذاکراتی وفد کے ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر نے کہا اگر مزاحمت کار قیدی رہا کردیں تو جنگ ابھی بند ہو سکتی ہے اور پھر ’فراخ دلانہ‘ یشکش کی کہ ہم دہشت گرد رہنماوں کو غزہ سے بحفاطت نکلنے کے لیے راستہ دینے کو بھی تیار ہیں۔ غزہ سے اس کا فوری جواب آیا کہ ہم اپنے گھر میں ہیں، واپسی کا راستہ حملہ آوروں اور قبضہ گردوں کو ڈھونڈنا ہے۔
فوج کے انخلا پر فریقین کے غیر لچک دار رویے کی وجوہات بہت واضح ہیں۔ مزاحمت کارجانتے ہیں کہ زیرِحراست اسرائیلی قیدی وہ آنکُس ہے جس سے انہوں نے بد مست ہاتھی اور اس کے سرپرستوں کو قابو میں کیا ہوا ہے اور اپنی تمام شرائط منوائے بغیر وہ انہیں رہا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ زمینی حقائق بھی اسرائیل کے لیے مایوس کن ہیں کہ سارے غزہ کو ریت کا ڈھیر بنادینے کے باوجود وہ مزاحمت ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ بارش کی طرح برستے لبنانی میزائیلوں اور راکٹوں سے شمالی اسرائیل تیزی سے کھنڈر بن رہا ہے۔ بحالی مراکز معذور اسرائیلی سپاہیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ چار ستمبر کو سالانہ دماغی صحت کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے وزیر صحت یوریل بیوسو (Uriel Buso) نے کہا کہ ملک کو دماغی صحت کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔اس تناظر میں جنگ بندی اسرائیل کی ضرورت ہے اس لیے کہ اہل غزہ کے پاس اب کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
شیخی اور لاف زنی اپنی جگہ لیکن نیتن یاہو کی وزارت عظمیٰ بیساکھیوں پر کھڑی لڑکھڑا رہی ہے کہ ایک سو بیس رکنی اسرائیلی کنیسہ (پارلیمنٹ) میں برسر اقتدار لیکوڈ پارٹی کی صرف بتیس نشستیں ہیں اور وہ کرسی برقرار رکھنے کے لیے توریت پارٹی، پاسبان توریت یا Shas پارٹی، عظمت یہود پارٹی اور دینِ صیہون جماعت کے محتاج ہیں۔ بھان متی کا یہ کنبہ جوڑ کر نیتن یاہو نے رائے شماری کے دوران چونسٹھ ووٹ حاصل کیے جو کم سے کم کے نشان سے صرف تین زیادہ ہے اور پارلیمانی حلیف صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ اگر حکومت نے انخلا کا فیصلہ قبول کیا تو وہ اتحاد سے نکل جائیں گے۔ معاملہ صرف اقتدار کا نہیں بلکہ نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی اور بے ایمانی کے کئی مقدمات تیار ہیں۔ وزارت عظمیٰ ختم ہونے پر جیسے ہی استثنیٰ کی چھتری ہٹی، موصوف کو جیل جانا ہوگا۔ یعنی جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔
عوامی سطح پر حکومت سخت دباو میں ہے۔ بندوق کی نوک پر قیدی چھڑانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد سے اسرائیلی سڑکوں پر ہیں۔ اس مہم جوئی میں پانچ اسرائیلی قیدی ہلاک ہوئے تھے۔ قیدیوں کے لواحقین نے علامتی تابوتوں کے ساتھ اسرائیلی فوج کے ہیڈکوارٹر کے باہر دھرنا دے رکھا ہے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایک قیدی کی والدہ نے کہا ’اگر اپنے پیاروں کی جان بچانا چاہتے ہو تو اس جلاد کو ازا اسٹریٹ (اسرائیلی وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ) سے نکال باہر کرو اور اس قصاب کی جگہ کسی درد مند انسان کو لے آو’۔ ’بی بی اور بی بی کے بے ضمیر وزیرو!! تاریخ میں تمہارے نام قتل ہونے والے یرغمالیوں کے خون سے لکھے جائیں گے‘۔ جنگ سے نفرت کے اظہار میں کچھ مظاہرین نے تل ابیب کے چوک پر لگے غزہ کے ’اسرائیلی شہدا‘ کی تصویریں پھاڑ دیں۔
اسرائیلی Hostages and Missing Families Forum کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ’قیدیوں کی ہلاکت نیتن یاہو کی جانب سے امن معاہدوں کو سبوتاژ کرنے اور فلاڈیلفی کوریڈور میں فوجی موجودگی برقرار رکھنے پر اصرار کا براہ راست نتیجہ‘ ہے۔ کرائم منسٹر عسکری ترجمان کے پیچھے نہ چھپیں اور عوام کو قیدیوں سے غداری کا حساب دیں۔ اتوار 8 ستمبر کو تل ابیب میں اسرائیلی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا جس میں ساڑھے سات لاکھ افراد شریک ہوئے۔ کئی جگہ پولیس نے تشدد کیا اور صحافی، قانون نافذ کرنے والوں کا نشانہ بنے۔
حزب اختلاف کے رہنما اب کھل کر ان مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے تل ابیب میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ اور نیشنل یونٹی پارٹی کے قائد بینی گینٹز نے کہا کہ ہماری بنیادی ترجیح قیدیوں کی واپسی ہونی چاہے اس کی کوئی بھی قیمت اداکرنی پڑے۔ ہمارے پیارے اہم ہیں فلاڈیلفی راہداری نہیں۔ ‘بی بی استعفیٰ دو’ کی گونج میں جرنیل صاحب نے کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو ہمارے قیدی واپس لاسکتے ہیں نہ وہ لبنانی میزائیلوں سے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔ شمالی اسرائیل، راکٹ بازی اور میزائیل حملوں سے کھنڈر بنتا جا رہا ہے۔ غزہ بھی بی بی کے بس کی بات نہیں۔
صحافیوں کی جانب سے بھی اب اسرائیلی وزیر اعظم کا کڑا احتساب ہو رہا ہے اور قلم کے مزدور نیتن یاہو کو آئینہ ایام میں ان کی ادا دکھلا رہے ہیں۔پانچ ستمبر کو اخباری کانفرنس میں ایک صحافی نے اپنے موبائل پر وزیر اعظم کو ان کی اس تقریر کا بصری تراشہ دکھایا جو موصوف نے اپریل کے آغاز میں کی تھی۔ اس خطاب میں موصوف فرما رہے تھے کہ ‘غزہ میں اسرائیلی فوج، ‘فتح مبیں’ سے بس ایک قدم دور ہے’۔ تراشہ دکھا کر اخبار الارض (Haaretz) کے صحافی نے پوچھا کہ ‘اسرائیلی فوج کا ایک قدم کتنا بڑا ہے کہ چار ماہ میں بھی عبور نہیں ہوا بلکہ قومی سلامتی کے مشیر زکی حنگبی نے کل ہی کہا کہ جنگ 2025 کے دوران بھی جاری رہے گی’۔ نیتن یاہو، انتہائی ڈھٹائی سے بولے ”اس وقت میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس اہم سنگِ میل سے ایک قدم دور ہیں جہاں سے ہماری فتح کی راہ ہموار نظر آرہی ہے’ واقعی، جب آدمی بے حیا ہوجائے تو جو چاہے کہتا پھرے۔
وزیر اعظم کی جانب سے فتح مبیں اور قیدی چھڑانے کے بلند بانگ دعووں پر اب عام اسرائیلیوں کو اعتماد نہیں رہا۔ رائے عامہ پر نظر رکھنے والے انتہائی موقر ادارے اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ نے 4 ستمبر کو ایک جائزہ شائع کیا ہے جس کے مطابق تہتر فیصد سے زیادہ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ حکومت غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کو بحفاظت واپس لانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل
عوامی مقامات پر نظر آنے والے وزراء کو عام لوگوں کی جانب سے ناراضگی کا سامنا ہے۔ چند روز پہلے وزیر تعلیم یوو کیش (Yoav Kisch) کفر مناحم اسکول کے دورے پر آئے تو مظاہرین نے انہیں گھیر لیا اور ‘قیدی واپس لاو یا گھر جاو’ کے نعرے لگائے۔ پولیس نے نرغے میں لے کر وزیر با تدبیر کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا۔
انتہا پسند عظمتِ یہود جماعت کے سربراہ اور وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر 6 ستمبر کو تل ابیب کے ساحل پر عوام کے ہاتھوں رگیدے گئے۔ لوگوں نے قاتل قاتل کے نعرے لگائے اور ایک ستائیس سالہ خاتون نے انہیں دہشت گرد کہتے ہوئے ان کے منہ پر ریت پھینک دی۔مکافات عمل کی اس سے زیادہ عبرت ناک مثال اور کیا ہوگی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت ساری دنیا سے مستضعفین کو دہشت گرد قرار کہلوانے والوں کو اب خود ان کے اہل وطن دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔
غزہ جنگ اور قیدیوں کے بارے میں ہیجان حکومتی و سیاسی ایوانوں میں بھی نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ہفتے شادی کی ایک نجی تقریب میں بینی گینٹز نے اتمار بن گوئر سے مصافحہ کرلیا۔ یہ تصویر دکھا کر جب ایک صحافی نے قائد حزب اختلاف سے تبصرہ کرنے کے لیے کہا تو یار لیپڈ بولے ‘میں دہشت گردوں کے پشت پناہوں سے ہاتھ نہیں ملاتا’ اس بات پر اتامر بن گوئر سخت مشتعل ہوگئے اور دوسرے دن خصوصی پریس کانفرنس طلب کرکے کہا "یار لیپڈ نے اسلامی تحریک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی مدد سے حکومت تشکیل دی، وہ فوجیوں کے قتل کی حمایت اور دہشت گردی کی مذمت کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہمیں ان کے لیکچر کی ضرورت نہیں۔ آپ ( مقتدرہ فلسطین کے سربراہ) عباس اور دیگر دوستوں سے ہاتھ ملاتے رہیے جن سے آپ کو دلی محبت ہے۔
بربریت کے حوالے سے دہلی میں مقیم اسکاٹ لینڈ کے مشہور ادیب و مورخ ولیم ڈلرمپل (William Dalrymple) نے غزہ پر بمباری کے جو اعداد و شمار شایع کیے ہیں اسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جناب ڈالرمپل کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما پر جو جوہری بم گرایا گیا اسکی شدت پندرہ ہزار ٹن بارود کے مساوی تھی۔ اس عرصے میں جرمنوں نے لندن پر بیس ہزار ٹن بارود برسایا، جبکہ غزہ پر اب تک پچاسی ہزار ٹن بارود گرایا جا چکا ہے۔ حوالہ؛ ٹویٹر
فراہمیِ اسلحے کے حوالے سے کسی حد تک حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ برطانیہ نے اسرائیل کو جاری ہونے والے اسلحے کے تین سو پچاس میں سے تیس لائسنس معطل کردہے ہیں۔ وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کے مطابق ‘تفصیلی جائزے سے پتہ چلا کہ اسرائیل کو بعض ہتھیاروں کی فروخت سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا خدشہ ہے۔ بلا شبہ یہ بہت تاخیر سے اٹھایا گیا بہت ہی چھوٹا قدم ہے۔ کی مرے قتل کے بعد اس سے جفا سے (علامتی) توبہ
ایسا ہی تاخیری سجدہ سہو فیس بک کے مالک ادارے meta نے ادا کیا ہے یعنی 11 ماہ سوچ و بچار کے بعد ‘نہر ٰتا بحر فلسطین’ کے نعرے کو ‘جائز’ قرار دیدیا گیا۔ دنیا کی اس مقبول ترین پکار اور نوشتہ دیوار کو فیس بک سے نفرت انگیر مواد یا Hate Speech قرار دے کر حذف کیا جاتا رہا۔ اب meta کی نگراں کمیٹی (Oversight Board) نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ نعرہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے، جس میں دعوتِ تشدد یا کسی قوم، ملک یا لسانی و معاشرتی اکائی کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں چنانچہ یہ جملہ کمپنی کی پالیسیوں سے متصادم تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کاش امریکہ کے اسرائیل نواز ارکان کانگریس بھی اپنا ذہن ذرا وسیع کرلیں جن کے خیال میں نہر تا بحر فلسطین کا نعرہ اسرائیلی ریاست کو مٹانے کا عزم اور antisemitism کی ایک شکل ہے۔
ایسی ہی ایک خبر ناروے سے کہ سرکای وقف المعروف Norway Wealth Fund نے غزہ نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں مدد اور سہولت فراہم کرنے والے اداروں میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ فنڈ کی کمیٹی برائے اخلاقیات نے سرمایہ کاری کمیٹی کے نام خط میں ہدایت کی ہے کہ ان اداروں میں سرمایہ کاری نہ کی جائے جو نسل کشی اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پامالی میں کسی بھی طرح مدد کر رہے ہیں۔ ناروے ویلتھ فنڈ دنیا بھر کی آٹھ ہزار آٹھ سو کمپنیوں میں سترہ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے
غزہ قتل عام کے ساتھ شمالی غرب اردن کو پتھروں کے دور میں پہنچا دینے کا عمل جاری ہے۔ جنین میں شہری سہولیات ( پانی، سیوریج، بجلی اورگیس) تباہ کرنے کے بعد سڑکیں بلڈوزروں سے ادھیڑ دی گئی ہیں۔ شہر رہنے کے قابل نہیں رہا، لیکن اہل جنین کہتے ہیں یہ ہماری زمین ارضِ فلسطین ہے، ہم یہاں سے کہیں جانے والے نہیں ہیں۔
فوجی کارروائی کے ساتھ انتہا پسند قبضہ گردوں نے غنڈہ گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جمعہ 6 ستمبر کو رام اللہ کے مضافاتی علاقے خربۃ ابو فلاح پر فوج کی نگرانی میں مسلح قابضین (Settlers) نے حملہ کیا۔ درجنوں مکانات تباہ، کاریں نذرِ آتش اور زیتون کے باغ اجاڑ دیے گئے۔ مقامی لوگوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ان اوباشوں نے جاتے جاتے دیوارں پر ستارہ داودؑ بنا کر (غزہ کا) انتقام لکھ دیا۔ عین اسی وقت غارت گر قابضین کی ایک اور ٹولی نابلوس کے گاوں قریوت پر حملہ آور ہوئی۔ اندھا دھند فائرنگ سے ایک تیرہ سالہ بچی بنا امجد بکر جان سے گئی۔ اسی دن نابلوس کے مضافاتی علاقے بیتا میں فوج کی فائرنگ سے چبیس سالہ ترک امریکی خاتون عائشہ نور آئیگی جاں بحق ہوگئی۔ عائشہ نور فلسطینیوں سے یکجہتی کے لیے کام کرنے والے ادارے International Solidarity Movement (ISM) کی رضا کار تھی جسے مظاہرے کے دوران ماتھے پر گولی ماری گئی۔
امریکہ میں گرفتاری، انتقامی کارروائیوں اور اخراج کی دھمکیوں کے باوجود جامعہ کولمبیا میں تعطیلات کے بعد تعلیمی سال کے پہلے ہی دن غزہ نسل کشی کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ جامعہ ہاوروڈ اور جامعہ جنوبی کیلی فورنیا (USC) میں بھی جلوس نکالے گئے۔ نائب صدارت کے لیے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار جے ڈی وانس نے جامعات میں مظاہروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ کیمپس پر مظاہروں کو غیر قانونی قرار دیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ انتخابات جیت گئے تو امریکہ بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں پر پابندی لگا دیں گے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024